(اپنی امی مبارکہ حیدرکے حوالے سے)
امی کی بارے میں کچھ لکھنے کی راہ میں کئی مجبوریاں حائل تھیں۔ابھی امی کی وفات کے صدمے کا اثر اتنا گہرا ہے کہ یادوں کو سوچنے بیٹھوں تو یادوں کی یلغار سی ہو جاتی ہے۔جیسے بہت سارے بچے جمع ہوں تو شور سنائی دیتا ہے،الگ الگ آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔اسی طرح امی کی یادیں الگ الگ آنے کی بجائے شور مچاتی ہوئی ایک ساتھ آنے لگتی ہیں اور کچھ نہیں سوجھتا کہ اب کیا کیا جائے۔ اب کچھ توٹیپو اور مانو کی یادوں کو پڑھ کر ہمت ہوئی ہے اور پھر ابو کی طرف سے یہ پیش کش ہوئی ہے کہ آپ لوگ یادوں کے نوٹس بنا لیں۔پھر میرے ساتھ بیٹھ جائیں۔مجھے یادیں بتاتے جائیں ،میں ساتھ ساتھ لکھتا جاؤں گا۔چنانچہ اس پیش کش کے بعد تحریک ہوئی ہے اور اب میں امی کے حوالے سے کچھ حالات و واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
امی ساڑھے گیارہ سال کی تھیں جب ۱۹۶۷ء میںہماری نانی جان مجیدہ ناصر وفات پا گئی تھیں۔نانا جان پروفیسر ناصر احمد صاحب (موجودہ صوبہ کے پی کے میں)شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے۔ان کی تعیناتی پشاور اور ڈیرہ اسماعیل خان تک تو ٹھیک تھی لیکن جب نوبت قبائلی علاقہ میران شاہ میں تبادلے تک آ گئی تو نانا جان فکر مند ہوئے ۔انہوں نے اپنی سب سے لاڈلی بہن اور ہماری دادی جان سے بات کی اور یوں ۱۹۷۱ء میں پندرہ سال کی عمر میں امی کی ابو سے شادی ہو گئی۔میں اپنے ماں باپ کی پہلی اولاد ہوں۔کچھ امی سے سنی ہوئی باتوں کی بنیاد پر اور کچھ ابو، دادی جان اوردوسرے قریبی عزیزوں سے سنی ہوئی باتوں کی بنیاد پر امی کے بچپن کو یاد کرتی ہوں تو
ساڑھے گیارہ سال کی امی کا اپنی ماں سے محرومی کا تصور دل میں ہول پیدا کرنے لگتا ہے۔ابو سے شادی کے بعد امی نے اپنے بچپن اور لڑکپن کا خوب خوب مزہ لیا۔ان کی اس زمانے کی سپورٹس میں رسہ کودنا،اشٹاپو،کوکلا،لکن میٹی اور کھو و وغیرہ سب شامل تھیں۔پھر بیٹھ کر کھیلنے والی گیمز میں کیرم، لوڈو، بارہ ٹہنی،نوٹہنی،اور گیٹیاں وغیرہ شامل تھیں۔ان ساری گیمز میں امی بہت مشاق تھیں۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ ابولوڈو اور بارہ ٹہنی میں ہمیشہ امی سے ہارتے تھے ۔امی کی بچپن،لڑکپن کی ان گیمز کے ساتھ سب سے کمال کی گیم دانتوں سے رومال اُٹھانا تھا۔امی سیدھی لیٹ کر رومال اپنے سر کی طرف رکھتیں۔پھر کسی تجربہ کار سرکس گرل کی طرح ہاتھوں کو ہلائے بغیراپنے جسم کو اوپر اُٹھاتیں،اسی حالت میںسر کو رومال کی طرف لے جاتیںاور دانتوں سے رومال کو اُٹھا کر پھر سیدھی ہو کر اٹھ بیٹھتیں۔کہیں سے کوئی تربیت لیے بغیر یہ گیم امی کی عجیب مہارت تھی۔شاید ان کے جسم میں لچک بہت زیادہ تھی۔
امی خوش الحان تھیں۔گھریلو اور کمیونٹی تقریبات میںتلاوت قرآن پاک اور دینی نظمیں خوش الحانی سے پڑھتیں۔ خاندان میں کسی کی شادی کی تقریب میں شادی کے گیت گانے میں بھی امی شوق سے حصہ لیتیں اور تقریب میں جان ڈال دیتیں۔شادی کے مخصوص گیتوں پر ہم جولیوں کے ساتھ مل کر ڈانس بھی کر لیتی تھیں۔اس میں پنجابی بھنگڑا اور سرائیکی جھمر جیسے لوک رقص بھی شامل ہوتے تھے۔
دادی جان کی طرح امی بھی لڑائی جھگڑے سے دور بھاگتی تھیں۔کبھی بد قسمتی سے کوئی بچہ یا اس کی فیملی میں سے کوئی بد تمیزی بھی کر جاتا تو امی خاموش رہتیں۔زیادہ دکھی ہوتیں تو مجھے اپنا دکھ بتا دیا کرتیں۔طبیعت کے لحاظ سے امی صلح پسند تھیں۔امی محبت اور خلوص کا صلہ دوسرے سے زیادہ دیا کرتی تھیں۔کسی اور کا کیا ذکر کروں۔اپنا ہی حال بتا دیتی ہوں۔عید پر ہماری طرف سے امی کو جو عیدی دی جاتی،امی کی طرف سے اس سے زیادہ عیدی ہمیں اور ہمارے بچوں کو مل جاتی تھی۔یہی معاملہ دوسرے عزیز و اقارب کے ساتھ تھا۔اس معاملہ میں ابو بھی امی کے ہمنوا تھے۔کسی نے ایک یا دو بار کوئی نیکی کی ابو نے اپنی یادوں میں اسے عمر بھر کی لگاتار نیکی بیان کر دیا۔ایک عزیز جو رشتہ میں امی کے لیے معتبر بھی تھے اور بڑے بھی ۔۔۔مالی حالات ان کے بھی بالکل ویسے ہی تھے جیسے امی ،ابو کے تھے۔اس کے باوجود ملنے آتے تو ایسی شکل بنا لیتے جیسے کوئی بہت ہی لاچار شخص ہو۔امی نے ابو سے کہا کہ میں چھوٹی ہوں، میری طرف سے مدد کرنا اچھا نہیں لگتا،آپ انہیں عیدی کرکے ’’اتنی رقم ‘‘دے دیں۔یہ ’’اتنی رقم‘‘ ہم دو بہنوں اور تین بہوؤں کو ملنے والی کل عیدی کے برابر ہوا کرتی تھی۔عیدی کے نام پر سال میں دو بار امی ان کی مدد کرادیا کرتی تھیں۔یہ سلسلہ تین سال تک جاری رہا۔پھر دیکھا کہ وہ تو اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر اچھا خاصا بزنس کر رہے ہیں تو اس کے بعد اس امدادی عیدی کا سلسلہ بند کر دیا گیا۔
میری نندیں اور میری ایک سہیلی عظمیٰ ،امی کی بہت زیادہ عزت کیا کرتی ہیں۔ان کی اس محبت کا نتیجہ یہ تھا کہ امی ہر سال انہیں عیدی بھیجا کرتی تھیں۔اسی طرح ہماری بڑی پھوپھو کے لیے بر وقت عیدی بھجوانا بھی امی کو یاد رہتا تھا۔یہ تو سب رشتوں اور تعلقات والے لوگ تھے،ان سے ہٹ کر امی پاکستان میں بعض غریب خاندانوں کی خاموشی کے ساتھ مددبھی کرتی رہتی تھیں۔مجھے اس کا علم اس لیے ہے کہ وہ رقم میرے ذریعے پاکستان جاتی تھی اور پھر آگے اس کی ترسیل کی جاتی تھی۔
اپنا کوئی عزیزہو،اپنے بچے ہوں یا کوئی پار پرے کا جاننے والا خاندان،جو کوئی بھی ملنے آتا امی سب کی مہمان نوازی کرکے ہمیشہ خوش ہوتیں۔ابو کے دوست شاعر اور ادیب حضرات بھی گاہے بگاہے آجاتے تو ان کی مہمان نوازی بھی دلجمعی کے ساتھ کرتیں لیکن ان کے جانے کے بعد اپنی رائے بھی دیا کرتیں۔چند ایک کو چھوڑ کر بیشتر شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں امی کی رائے اچھی نہیں رہی۔
ویسے تو امی اپنے سارے بچوں کے بچوں یعنی اپنے سارے گرینڈ چلڈرن سے بہت محبت کرتی تھیں لیکن میرے بچوں کو زمانی اعتبارکی وجہ سے اس محبت کا زیادہ حصہ مل گیا۔میراپہلا بیٹا مشہود(رومی)خاندان میں پہلا بچہ تھا اس لیے سارے خاندان کی توجہ اور محبت اس پر مرکوز رہی۔ نانا، نانی، خالہ، تینوںما موں،سارے ننہال کی آنکھ کا تارا بنا رہا۔(ددھیال سارا پاکستان میں تھا) ۔ مشہود کے بعد مسرور (جگنو)پیدا ہوا۔یہ بچپن میں بہت زیادہ گپلُو گپلُو سا تھا۔چنانچہ پھر مسرور سب کی نگاہ کا مرکز بن گیا۔مسرور کے بعد احتشام (شامی)آیا۔شامی اب تو بہت دبلا پتلا ہے لیکن بچپن میں سب سے زیادہ گول مٹول تھا۔اب دونوں بھائیوں سمیت سب کی نگاہیں احتشام پر تھیں۔ ابو کبھی کبھی شامی کو پیار سے شمی کپور بھی کہتے ہیں۔آخر میں عنایہ پیدا ہوئی۔خاندان میں واحد نواسی ہونے کے باعث سب ہی اس کے ناز اٹھانے لگے۔عنایہ تینوں بھائیوں،اپنے پاپا حفیظ کوثر اور سارے ننہال کی آنکھ کا تارا بن گئی۔امی نے میرے دوسرے بہن بھائیوں کے کسی بھی بچے کو نظر انداز کیے بغیرمیرے بچوں کو اپنی محبت اور شفقت سے ہمیشہ سیراب رکھا۔عنایہ اور باقی ساری پوتیوں کے لیے عید کے مواقع پر خاص طور پر اور ویسے بھی کبھی کبھارخود لباس سی کر تحفہ دیتیں۔
ایک بار امی ڈایلے سز کے لیے گئی ہوئی تھیں۔ہم دونوں بہنیں امی کے پاس آئی ہوئی تھیں۔جب امی ڈایلے سز سے واپس آئیں تو ابونے معمول کے مطابق امی کو ریسیو کیا۔ساتھ ہی سارے بچے ڈور بیل کی آواز سنتے ہی دروازے کے پاس جمع ہو گئے۔امی کے اندر آتے ہی سب امی سے سلام کرنے لگے۔عمومی طور پر امی ڈایلے سز کے بعد خاصی نڈھال ہوتی تھیں لیکن چھوٹے بچوں کو دیکھ کر جیسے امی تازہ دم ہو گئیں۔سب سے باری باری ہاتھ ملایا۔جب امی کو صوفہ تک پہنچا کر بٹھادیا تو پھر ابو نے آکر ہم دونوں بہنوں سے خفگی کا اظہار کیا کہ اپنی ماں کو سلام کرنے کیوں نہیں آئیں۔اصل میں ہم دونوں نے احتیاط کی تھی کہ امی کو ڈسٹرب نہ کیا جائے لیکن الٹا ہم دونوں بہنوں کو ڈانٹ پڑ گئی۔
ڈایلے سز ہوجانے کے بعد امی کی واپسی پرابو کا امی کو معمول کے مطابق ریسیو کرنا بھی در اصل خاصا غیر معمولی ہوتا تھا۔ایک بار میں نے کہا کہ میں امی کو ریسیو کرکے سنبھالتی ہوں لیکن ابو نے کہا نہیں آپ لوگ اپنی امی کو ٹھیک سے نہیں سنبھال سکتے۔میں ہی انہیں ٹھیک سے سنبھالتا ہوں۔ ایک بات طے ہے کہ زندگی بھر امی نے ابو کو اور ابو نے امی کو جس طرح سنبھالا ہے ہمارے سارے خاندان میں اس کی مثال نہیں ملے گی۔اسے محبت کی جدید داستان بھی کہا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔