سب سے پہلے اپنا مختصر سا تعارف بیان کر دوں۔اردو کے شاعر اور ادیب حیدر قریشی صاحب کا بڑا بیٹا ہوں۔انہیں ہمیشہ اَبو کہتا ہوں۔اور امی کوامی کہتا ہوں۔اس لیے اس کتاب میں میری طرف سے جہاں دونوں میں سے کسی کا ذکر ہوگا،وہ انہیں الفاظ میں ہوگا۔
یکم مارچ ۲۰۱۵ء کو میرے گھر پر سارے بہن بھائی جمع تھے۔امی،ابو بھی آئے ہوئے تھے۔
ملاقات کی اس تقریب کا سبب یہ تھا کہ امریکہ سے میری پھوپھی زبیدہ کلیم آئی ہوئی تھیں۔پانچ ہفتے جرمنی میں قیام کے بعد وہ ۳ مارچ کو امریکہ واپس جانے والی تھیں۔امی ایک عرصہ سے بیمار ہیں۔ان کی بیماریوں کی شدت میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔ ان بیماریوں کی نوعیت اور شدت کا ذکر ابو کی یادوں کے بعض حصوں میں پڑھا جا سکتا ہے۔نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی امی کو باربار ہسپتال جانا پڑ رہا تھا۔پھوپھی زبیدہ اسی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے جرمنی میں آئی تھیں۔ پھوپھی اور امی ہم عمر بھی ہیں،کزن بھی ہیں اور بچپن سے ان دونوں کی باہم دوستی بھی ہے۔ان کے قیام کے دوران امی کا آدھا وقت ہسپتال میں بسر ہوا اور آدھا وقت گھر میں گزرا۔پھوپھی زبیدہ دونوں صورتوں میں امی کی دیکھ بھال کرتی رہیں۔نند اور بھابی کے اس تعلق کو جتنابھی سراہا جائے، کم ہے۔اللہ پھوپھی زبیدہ کو اجرِ عظیم عطا کرے۔(آمین)
یکم مارچ کی اس فیملی تقریب میں میکسم گورکی کے ناول’’ماں‘‘سے بات شروع ہوئی، چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی’’میری والدہ‘‘، قدرت اللہ شہاب کی’’ماں جی‘‘اور ابو کے خاکہ ’’مائے نی میں کنوں آکھاں‘‘سے ہوتی ہوئی پروفیسر جاوداں میرکی مرتب کردہ’’معراج نسیم‘‘ (ہماری امی جان)تک جا پہنچی۔حمایت علی شاعرصاحب کی اہلیہ کی وفات کے بعد ان کی بیٹی جاوداں میر نے یہ کتاب مرتب کی۔اس میں خاندان کے مختلف افراد نے معراج نسیم صاحبہ کو اپنے اپنے طریقے سے یاد کیا۔حمایت علی شاعر صاحب کواپنی اہلیہ کی وفات کے بعد ان کی کمی بہت زیادہ محسوس ہوئی۔انہوں نے شاعر کی حیثیت سے ان کے بارے میں نظمیں لکھیں۔حمایت علی شاعر صاحب کی اولاد کا اپنی والدہ کو یاد کرنے اور ان کی محبت کو تازہ کرنے کا یہ ایک اچھاقلمی انداز تھا۔ اس کتاب کی اشاعت سے معراج نسیم صاحبہ کی روح خوش ہوئی ہو گی۔
اس دوران جب گفتگو ہو رہی تھی تو میں نے کہا کہ جب ماں سے محبت کا کوئی قلمی اظہار کرنا ہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ پہلے ماں کے مرنے کا انتظار کیا جائے اورپھر ماں کو یاد کرتے ہوئے کوئی کتاب ترتیب دی جائے۔حمایت علی شاعر صاحب کے بچوں نے جس اچھے کام کا آغاز کیا،اس روایت کو آگے بڑھایا جائے تو اچھا ہے۔اور مزید اچھا کرکے آگے بڑھایا جائے تو اور بھی اچھا ہے۔یعنی کسی کتاب کی صورت میں ماں سے محبت کا اظہار بھی کیا جائے اور ایسا کام ماں کی زندگی میں ہی کرلیا جائے۔ماں کی روح کو خوش کرنے کی بجائے کیوں نہ جیتی جاگتی ماں کو اس کی روح سمیت خوش کیا جائے۔اس گفتگو کے نتیجہ میں سارے بھائی بہنوں نے صلاح دی کہ ہمیں بھی امی کے بارے میں ایسا کوئی کام کرنا چاہئے اور ان کی زندگی میں ہی کر دینا چاہئے۔اب یہ سوچا جانے لگا کہ کتاب کس انداز میں ترتیب دی جائے۔ابو نے یہاں ایک رائے دی :بجائے اس کے کہ خود بھی لکھو اور دوسرے عزیز واقارب سے بھی لکھوانے کا جتن کرو، بہترہے کہ میری مختلف تحریروں میں آپ لوگوں کی امی کا جو ذکر موجود ہے،اسی کو یک جا کر لو ۔ میری تحریروں میں ان کا اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ آپ لوگ اسی کو مرتب کرکے اپنی ماں کو مزید خوش کر سکتے ہیں۔
یکم مارچ کو یہ ساری باتیں ہوئیں اور۳ مارچ کو پھوپھی زبیدہ کے جانے کے بعد ہم بھائی ، بہنوں نے ابو کی کتابوں کی ورق گردانی شروع کر دی۔امی کے بارے میں،بلکہ سارے خاندان کے بارے میں ابو کی تحریریں ہمارے علم میں ہیں۔چنانچہ تھوڑی تگ و دو کے بعدابو کی مختلف کتابوں میں سے ان تحریروں کی نشان دہی کر دی گئی۔ ابو کی ساری کتابوں کی ان پیج فائلز ان کے پاس محفوظ ہیں۔اس لیے آسانی کے ساتھ سارا مواد جمع کر لیا گیا۔کتابوں سے باہر کا کچھ مواد ابو نے نشان زد بھی کر دیا اور فراہم بھی کر دیا۔
اسلامیہ یونیورسٹی بھاول پور سے ابو پر تحقیقی کام کرنے والی ایک طالبہ منزہ یاسمین نے ایک بار امی کو ایک سوال نامہ بھیجا تھا۔امی نے تب جو، جواب لکھے تھے،وہ منزہ یاسمین کے مقالہ میں بھی شامل ہیں اور کتاب’’ انٹریوز‘‘ میں بھی شامل ہیں۔انہیں اس کتاب میںبھی شامل کرلیاہے ۔
ماہنامہ پاکیزہ کراچی کے نومبر ۲۰۰۷ء کے عید نمبر میں شائستہ زرّیں صاحبہ کا ایک سروے شائع ہوا تھا۔اس میں امی سے بھی سوالات کیے گئے تھے اور امی کے جوابات کو عید نمبر میں شائع کیا گیا تھا، امی کے جواب بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔اسی دوران امی نے یاد دلایا کہ ماہنامہ پاکیز ہ کراچی کے سال ۱۹۹۱ء،مئی یا جون کے شمارہ میں ایک رنگین صفحہ پر ان کی تصویر کے ساتھ کچھ سوال و جواب کا سلسلہ شائع ہوا تھا۔یہ تب کی بات ہے جب امی ایبٹ آباد سے جرمنی کے لیے روانہ ہونے والی تھیں۔اس یادگار شمارہ سے اپنا مطلوبہ مواد حاصل کرنے کے لیے ابو سے کہا۔انہوں نے روزنامہ ایکسپریس کراچی کی معروف کالم نگار ،افسانہ نگار اورناول نگارمحترمہ نسیم انجم صاحبہ کو لکھا کہ یہ پرانا میٹر تلاش کرا دیں۔انہوں نے ہر ممکنہ کوشش کر دیکھی لیکن لگ بھگ ربع صدی پرانارسالہ دستیاب نہ ہو سکا۔یوں اُس انٹرویو نما تحریرکو اس کتاب میںشامل نہیں کیا جا سکا۔تاہم اس کتاب کے سرورق پر وہی تصویردے دی ہے جوتب ماہنامہ پاکیزہ میں شائع ہوئی تھی۔
یہ کتاب جو ہماری امی کے ذکر پر مشتمل ہے۔ہم پانچوں بھائی بہنوں کی جانب سے امی کے ساتھ محبت کے اظہار کی ایک صورت ہے۔
ایک شاعر اور ادیب کی بیوی کی حیثیت سے درحقیقت یہ امی کا کمال ہے کہ ان کے شوہر شاعراور ادیب نے ان کے بارے اتنا کچھ لکھ دیاہے کہ ایک چھوٹی سی کتاب بن گئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ امی نے ساری زندگی ابو کے ہر دکھ سکھ میں ساتھ نبھایا ہے۔ اگر ابو کی زندگی کو پورے پس منظر کے ساتھ دیکھیں توہمارے سماج نے ان کے ساتھ شدید نا انصافیاں کی ہیں جن کے نتیجہ میں انہوں نے بے شمار دکھ جھیلے ہیں ۔ امی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ہر دکھ میں مکمل طور پرابو کا ساتھ نبھایا ہے۔زندہ رہنے کے لیے اور ایک شاعر اور ادیب کی حیثیت سے کام کرتے رہنے کے لیے ہمیشہ ابو کوحوصلہ دیا ہے۔
پہلا کمال امی کا ہے کہ انہوں نے اپنی محبت اور وفا سے ابو کے دل میں اس حد تک گھر کر لیا کہ وہ اتنی سرشاری کے ساتھ امی کا ذکر کرتے چلے گئے۔ دوسرا کمال ابو کا ہے کہ انہوں نے ادبی دنیا کے رائج شدہ طور طریقوں کے بر عکس اپنے خاکوں میں،یادوں میں،افسانوں میں،انشائیوں میں،انٹرویوز میں،اور دوسری کتابوں میں امی کا ذکر بڑی محبت سے کیا اور کرتے ہی گئے۔
ایسے ماحول میں جہاں اردو کے شاعر اور ادیب کبھی اپنے سماج کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں یا سماج کی اصلاح کر رہے ہوتے ہیں اور کبھی کائنات بلکہ کون و مکاں کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔نہیں کرتے تو صرف اپنے بیوی بچوں اور خاندان کا ذکر نہیں کرتے۔افسوس یہ ہے کہ بعض نامور اردو ادیبوں نے اپنی یادوں اور سوانح میں بھی یا تو بیوی کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اگر ذکر کیا ہے تو بہت ہی سرسری سا۔ ممکن ہے اس کتاب کی اشاعت کے بعد بعض شاعروں اور ادیبوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ ان کے لفظوں کی دنیا پر ان کی بیوی اور بچوں کا بھی تھوڑا بہت حق ہے۔یہ احساس پیدا ہو گیا تو امید کی جا سکتی ہے کہ چراغ سے چراغ جلتے جائیں گے ۔ اردو ادب میں دنیا جہان کے موضوعات کے ساتھ بیوی،بچوں اور دیگر عزیزو اقارب کو بھی تھوڑی اہمیت دینے کا صحت مندرویہ پنپنے لگے گاکہ یہ سب بھی اس زندگی اورکائنات کا حصہ ہیں۔
یہ کتاب ہم پانچ بھائی بہنوں کی طرف سے شائع کی جا رہی ہے۔میںباقی سب بھائی بہنوں کاشکریہ اداکرتا ہوں کہ سب کی برابر کی حصہ داری کے باوجود مجھے یہ عزت دی گئی کہ میں اس کتاب پر اس کے مرتب کی حیثیت سے اپنا نام دے سکوں۔
آج 4؍اپریل 2015ء کو امی،ابو کی شادی کے چوالیس (44) سال پورے ہو رہے ہیں ۔اور
آج ہی یہ کتاب مکمل ہوگئی ہے۔(اب اسے چھپنے کے لیے بھیج رہے ہیں) اس لحاظ سے ہم پانچ بھائی بہنوں کی جانب سے یہ کتاب امی اور ابو دونوں کے لیے شادی کی سال گرہ کاتحفہ ہے۔
شعیب حیدر
Hattersheim,Germany.
E-Mail: [email protected]