مبارکہ کی وفات کے بعد ان کے بارے میں لکھے ہوئے اپنے خاکہ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ کا دوسرا حصہ پہلے لکھ چکا ہوں جو اس کتاب کے تقریباََ آخر میں درج ہے اور یہ پیش لفظ اب آخر میں لکھ رہا ہوں جو کتاب کے بالکل شروع میں درج کر رہا ہوں۔
مبارکہ کے بارے میں یہ کتاب مرتب کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ ہماری شادی کی عمروں کا ذکر کرتے ہوئے میری طرف سے کہیں اٹھارہ برس اور چودہ برس لکھا گیا ہے اور کہیں انیس اور پندرہ برس۔اس سلسلہ میں شروع میں ہی وضاحت کر دوں کہ مبارکہ عمر میں مجھ سے چار سال چھوٹی تھیں۔سرکاری دستاویزات میں میری پیدائش کا سال ۱۹۵۲ء کی بجائے ۱۹۵۳ء لکھا ہوا ہے۔چنانچہ اپنی عمر لکھتے ہوئے جب میں نے سرکاری ریکارڈ کو ملحوظ رکھا تو خود کو اٹھارہ برس کا لکھا اور چار سال کے فرق کے مطابق مبارکہ کو چودہ برس کا لکھا۔اور جہاں میں نے اپنی حقیقی عمر انیس سال کو ذہن میں رکھا وہیں مبارکہ کی بھی حقیقی عمر پندرہ برس لکھی۔سو میری مختلف تحریروں میں اس فرق کومیری اس وضاحت کے تناظر میں دیکھا جائے۔
ہماری شادی کم عمری میں ہوئی۔کم عمری کی شادی کے مسائل سے ہمارا بھی واسطہ رہا لیکن اس کے باوجود میں مجموعی طور پر اپنی ازدواجی زندگی کے گزرے ہوئے ۴۸ برسوں کو دیکھتا ہوں تو ہم نے کچی عمر کے بعض مسائل کے باوجود بھرپور زندگی گزاری ہے۔یہ بھر پور زندگی اپنے ثمرات کے لحاظ سے ایسے بہت سارے اعتراضات کو رد کرتی ہے جو کم عمری کی شادی پر عام طور پر کیے جاتے ہیں۔کم عمری کی شادی کی مخالفت مغربی دنیا میں زیادہ ہے۔ہمارے ملکوں میں کم عمری کی شادی کی جومخالفت ہے وہ عام طور پر’’پیرویٔ مغربی‘‘ کا نتیجہ ہے۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ یہاں بچیاں کسی شادی کے بغیر تیرہ سال کی عمر میں مائیں بن جاتی ہیں،اسے برا نہیں سمجھا جاتا ، بس شادی پندرہ برس کی عمر میں کر لی تو برا ہو گیا۔اس سلسلہ میں کم عمری کی شدید مخالفت کرنے والوں کو تھوڑا بہت سوچنا چاہیئے۔اس کے باوجود میں تسلیم کرتا ہوں کہ کم عمری کی شادی کے بعض مسائل بھی اپنی جگہ درست ہیں۔لیکن وہ بہت زیادہ سنگین نہیں ہیں۔
مبارکہ ایک بالکل عام سی گھریلو بچی تھیں۔جو خاندان میں گھل مل کر رہنے کے ساتھ سگھڑ ہوتی گئیں۔میری زندگی کے تنگ دستی اور مشکلات کے طویل دور کو انھوں نے خوشدلی کے ساتھ نہ صرف برداشت کیا بلکہ ہر قدم پر میرا ساتھ دیا۔کبھی میں حالات کے سامنے تھک جاتا تو وہ نہ صرف میری ہمت بندھاتیں بلکہ میری طاقت بھی بنتیں۔ میرے گھرکو انہوں نے اپنے حُسنِ انتظام سے
سنبھالے رکھا۔کم عمری میں شادی،کم عمری میں ہی پانچ بچوں کی ماں بن جانا،غربت اور سماجی مشکلات میں گزر بسر کرنا،بعض طاقت وروں کی طرف سے ہمارے گھر کو توڑنے کی مسلسل سازشیں،ان سب معاملات کومبارکہ نے نہایت سمجھ داری کے ساتھ ہینڈل کیا۔میرے حصے کے بہت سارے دکھ بھی خود سہتی رہیں اور کبھی کسی سے ان معاملات کے حوالے سے میرا کوئی شکوہ نہیں کیا۔مجھ سے کوئی شکایت نہیں کی۔
میرے خاکوں کے مجموعہ ’’میری محبتیں ‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید صاحب نے لکھا تھا:
’’حیدر قریشی نے اپنی والدہ،دادا،والد،بیوی،بہن اور بچوں کو انسانی زاویے سے دیکھا اور ان کی صرف انسانی خوبیوں کا تذکرہ کیا لیکن یہ تذکرہ اتنا دلچسپ ہے کہ یہ سب کردار حقیقی معاشرے کی غیر معمولی شخصیات نظر آتی ہیں۔’’برگد کا پیڑ‘‘ ’’اجلے دل والا‘‘ ’’زندگی کا تسلسل‘‘ ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘بے حد معنی خیز خاکے ہیں اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمانہ جن لوگوں کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر رہا ہے وہ حقیقی معنوں میں عظیم تھے۔ان کی عظمت اشتہاری نہیں تھی۔‘‘
اب میں بھی سمجھتا ہوں کہ زندگی کے مصائب سے گزرتے ہوئے عام انسان کا ہنسی خوشی زند گی بسر کرلینا ہی اس کی عظمت کی نشانی ہے۔اور یہ عظمت دولت اور طاقت کے بل پر گھڑی گئی اشتہاری عظمت سے بالکل مختلف ہے۔بلا شبہ مبارکہ انسانی زندگی کی عظمت کے اس مقام پر فائز تھیں۔
اردو ادب میں فیمنزم کی بعض پُر جوش قسم کی خواتین سے ایک رسمی سا ربط رہا ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے ان پُر جوش خواتین کو مبارکہ کہ وفات کی خبر پہنچی تو ایک آدھ نے صرف ’’ہلکا سا افسوس اورشکریہ‘‘ لکھ بھیجا باقی کسی نے رسمی افسوس کا اظہار تک نہیں کیا حالانکہ’’دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں‘‘۔۔۔جنہوں نے رسمی افسوس کرنا بھی گوارا نہیں کیا،اپنی جگہ۔۔ ۔۔ ایک خاتون سے ہلکے سے تعلق کی بنا پر میں نے شکوہ کیا کہ آپ دو لفظ بھی نہیں لکھ سکیں تو حیران کن جواب ملاکہ میں نے تو آپ کو ایک لمبی ای میل بھیجی تھی(وغیرہ وغیرہ)۔۔۔میں نے انہیں لکھا کہ آپ Sent Box میں سے اپنی ای میل مجھے فارورڈ کر دیںتاکہ آپ کی بات کی تصدیق ہو سکے۔ کوئی جواب نہیں ملا۔پھر یہی بات لکھی،کوئی جواب نہیں۔میل بھیجی ہوتی تو فارورڈ کرتیں۔دراصل بات شایدصرف اتنی تھی کہ وہ بھول گئی تھیں اس لیے رسمی تعزیت نہ کر سکیں۔اس کا آسان اور معقول جواب یہ تھا کہ ہلکی سی معذرت کے ساتھ افسوس کا اظہار کر لیتیں۔لیکن انہوں نے چالاکی دکھائی اور ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘والی صورت بنا دی۔اس سے اندازہ ہوا کہ خواتین کے حقوق کی چیمپئن ان لکھنے والیوں کا معاشرے کی عام خواتین کے لیے کیا طرزِ عمل ہے۔ان کی ساری تگ و دوکا اور سارے بیانات کااور فیمنزم کاایک ہی مطلب ہے کہ ہماری بری بھلی ادبی خدمات کی’’عظمت‘‘کا اقرار کیا جائے۔ہمارے اعزاز میں تقریبات برپا کی جائیں،بس ان کی فیمینسٹ تحریک کا یہی لُبّ ِلباب ہے۔ان کے بر عکس ادب میں متوازن رویوں کی حامل ادبی خواتین نے دلی دکھ کے ساتھ اور خلوص کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا۔ہمارے ادب میں جو منفی رویے پہلے سے موجود ہیں،اسی تناظر میںفیمینسٹ تحریک سے جڑی اردو شاعرات اور دوسری رائٹرزکا(جن سے میری پہلے سے تھوڑی بہت سلام دعا ہے،ان کا ذکر ہے) ہمارے معاشرے میں عام خواتین کے حقوق کی ہمدرد کہلانے والی ان فیمینسٹ رائٹرزخواتین کایہ روپ ریکارڈ پررہنا چاہئے۔
’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ کو ترتیب دیتے وقت میں نے پانچوں بچوں کی مشترکہ کاوش اور
شعیب حیدر کی مرتب کردہ کتاب ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘کو جوں کا توں اس میں شامل کر لیا ہے۔
یہ96 صفحات کی کتاب ہے۔’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘کے فہرست،انتساب،پیش لفظ وغیرہ پر مشتمل شروع کے16 صفحات کو عام گنتی سے ہٹ کررومن ہندسوں میں(i تا xvi ) لکھا گیا ہے۔اس سے یہ سہولت ہوئی کہ اس میں شامل کی گئی شعیب حیدر کی کتاب’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘اپنے صفحات کی ترتیب کے لحاظ سے بالکل ویسے ہی شامل کر لی گئی جیسے اپنے اولین ایڈیشن میں تھی۔96 صفحات میں اس کتاب کے مکمل ہونے کے بعد صفحہ نمبر97 لکھا جانا چاہئے تھا لیکن میں نے یہ کیا ہے کہ اس کے بعد یہ شروع کے اضافی 16صفحات گنتی میں شمار کر لیے ہیں اور اس طرح صفحہ نمبر 96کے بعدصفحہ نمبر97 کی بجائے صفحہ نمبر 113 درج کیا ہے۔یہی ترتیب پھر آخر تک چلتی ہے۔
’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘کے صفحہ نمبر96کے بعد صفحہ نمبر 113 سے وہ تبصرے،تاثرات اور مضامین شامل کیے گئے ہیں جو ادبی دنیا میں اس کتاب کی اشاعت پرکئے گئے۔پہلا تبصرہ ڈاکٹر انور سدید کا تحریر کردہ ہے۔یہ تبصرہ مختصر ہونے کے باوجود جامع اور نہایت بامعنی ہے۔ان کے بعد
سید نصرت بخاری کا مضمون ہے۔نصرت بخاری نے کتاب کے مطالعہ سے ایسے نکات ابھارے ہیں جو عام طور پر پوری طرح سامنے نہیں آتے۔کتاب منظرِ عام پر آنے کے بعد اور چند تبصروں کے سامنے آنے کے بعد،خاص طور پر ڈاکٹر انور سدید کے تبصرے کے بعد چند اہم تاثرات ملے۔یہ تاثرات دلی اخلاص کے ساتھ لکھے گئے تھے۔ان میںسے گلزار، ترنم ریاض،نسیم انجم، ناصر علی سید،صادق باجوہ،ڈاکٹر انوار احمد،زکریا ورک،ڈاکٹر رضیہ اسماعیل،خالد ملک ساحل،سلمیٰ بانو اور شہناز خانم عابدی کے مختصر مختصر تاثرات شامل کیے گئے ہیں۔ان کے ساتھ سید نصرت بخاری اور عظیم انصاری کے اہم مضامین شامل ہیں۔دونوں دوستوں نے اپنے مضامین میں ڈاکٹر انور سدید کے مضمون کے بعد اختصار اور جامعیت کا حق ادا کر دیا ہے۔پروفیسر عبدالرب استاد نے ماں کے موضوع کو اس کی وسعت کے حوالے سے دیکھتے ہوئے شعیب کی کتاب کا عمدہ جائزہ لیا ہے ۔ نسیم انجم نے سینئر کالم نگار کی حیثیت سے اس کتاب کا اچھاتعارف کرایا ہے۔ ان کے بعد ڈاکٹر رضینہ خان،ڈاکٹر قمر النساء،خالد یزدانی،حمیرا حیات،زارا حیدر اورفیصل عظیم کے مضامین؍تبصرے شامل ہیں۔یہ سارے مضامین اور تبصرے ادبی دنیا کے نئے ،پرانے لکھنے والوں کے دلی جذبات کے آئینہ دار ہیں اور اس حقیقت کا اظہار بھی کہ ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘مرتب کردہ شعیب حیدر کو ادبی دنیا میں حیرت،خوشی اور محبت کے ساتھ دیکھا گیا اور اس کاوش کو سراہتے ہوئے اس پر اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا گیا۔
سوشل میڈیا پر سب سے پہلے مبارکہ کی وفات کی خبر ایک وٹس ایپ گروپ میں ڈاکٹر ریاض اکبر نے آسٹریلیا سے دی۔اسی گروپ میں پروفیسر عبدالرب استاد نے چند تعزیتی اشعار پیش کیے۔پھر روزنامہ نوائے وقت میں خالد یزدانی نے اسی خبر اور تعزیتی اشعارکو اپنے اوور سیز پاکستانیز ایڈیشن میں شائع کیا۔وفات کی تفصیلی خبر وقاص سعید نے آسٹریلیا سے پنجند ڈاٹ کام پر شائع کی ۔شاہد ماہلی نے اپنے اخبار’’صبحِ اردو‘‘نئی دہلی میں وفات کی خبر شائع کی۔یوں بہت سارے احباب تک خبر پہنچی۔بعض احباب نے اپنے اپنے سوشل میڈیا فورمز پر اس خبر کو شیئر کیا۔ بعد میں بھی اسی سلسلہ میں خالد یزدانی اور وقاص سعید نے مسلسل تعاون کیا۔اس محبت کے لیے دونوں کا شکرگزار ہوں۔
اس سب کے نتیجہ میں تعزیتی پیغامات موصول ہونے لگے۔بہت سارے میسیجز میں صرف انا للہ و انا الیہ راجعون لکھ کر بھیجا گیا۔یہ بھی ہمدردی کا اچھا اظہار ہے اور ایسا کرنے والے تمام احباب کا شکر گزار ہوں۔تاہم یہاں صرف ان احباب کے پیغامات شامل کیے گئے ہیں جن میں اپنے دکھ یا ہمدردی کا اظہار کیا گیا ہے،دکھ کو بانٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ سارے پیغامات میرے لیے صدمے کی سخت گھڑی میں ہمت اور حوصلے کا موجب بنے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں، مہربانوں اور عزیزوں کو جزائے خیر دے۔ان کے تاثرات اس کتاب میں محفوظ کر دئیے ہیں۔
تاثرات کے اس سلسلہ کے بعد ’’جذبات و احساسات‘‘ کے تحت چند طویل تاثرات یا مختصر مضامین شامل ہیں۔صادق باجوہ کی ’’چند یادداشتیں‘‘ خاندان کے ایک بزرگ کا تبرک ہیں۔ عبداللہ جاوید کا ’’ہر گز نمیرد آنکہ‘‘،شہناز خانم عابدی کا’’بیادِ مبارکہ بھابی‘‘،ڈاکٹر ریاض اکبر کا ’’میری بھانجی‘‘،نازیہ خلیل عباسی کا ’’مبارکہ آنٹی‘‘،راحت نوید کا’’باجی سے بھابی تک‘‘اور عظمیٰ احمد کا ’’میری پیاری آنٹی‘‘ان سب کی محبتوں کے غماز ہیں۔سب کی اپنی اپنی یادیں اور اپنے اپنے تاثرات ہیں۔عظمیٰ احمد کی بعض یادیں انوکھے رنگ میں سامنے آئی ہیں۔خالد یزدانی کا ایک سوال اور اس کا جواب قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا۔کنول تبسم نے ’’جدیدادب‘‘کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا تھا،اس میں ایک سوال کے جواب میں مبارکہ کا اور ان کے زیور کا ذکر بھی آگیا،سو وہ سوال اور اس کا جواب بھی اس حصہ میں شامل ہے۔ ویسے جدید ادب کی اشاعت میں مبارکہ کے زیور کے اہم کردار پراب مبارکہ کا ذکر وکی پیڈیا تک بھی پہنچ گیا ہے۔ نذیر بزمی نے ’’وفا کی دیوی ’’میں اپنے احساسات کوبڑے اخلاص کے ساتھ بیان کیا ہے۔
’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ کے آخر تک پہنچتے پہنچتے’’یادیں ہی یادیں‘‘ کے تحت ہمارے پانچوں بچوں کے یادوں بھرے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ پانچوں بچوں نے اپنی امی کی یادوں کو اپنے اپنے انداز میںبیان کیا ہے۔یہاں یہ وضاحت کر دوں کہ یہ بچے مصنف بالکل نہیں ہیں۔شعیب اور عثمان نے تو اپنے مضامین لکھ کر دئیے جبکہ باقی بچوں نے یادوں کے نوٹس بنا لیے۔باری باری ہر بچہ اپنے نوٹس میں درج یادیں میرے ساتھ شیئر کرتااور میں انہیں ان پیج میں لکھتا جاتا۔لکھنے کے بعد ہر بچہ اسے پڑھتا۔اور ہر بار پہلے لکھے میں کچھ ردو بدل کراتا کہ یہ بات یوں نہیں بلکہ یوں ہے۔سو سارے بچوں کی یادیں ان کی اپنی ہیں میں صرف ان کا کمپوزر ہوں ۔ ایسا کمپوزر جو جملوں کی نشست، برخاست اور ساخت کو تھوڑا بہتر کرتا جاتا ہے۔
درِ ثمین چھوٹی بیٹی ہے۔’’امی کی چند یادیں‘‘ میںاپنے مزاج کے مطابق اس نے اپنی امی کے ملبوسات، جیولری،میک اپ کے سامان،ٹی وی ڈراموں میں دلچسپی،کچن میں دلچسپی جیسے امور کو زیادہ نمایاں کیا ہے۔مبارکہ نے گھر کے تمام معاملات اور سارے رشتوں اور تعلقات کوایک اچھی منتظم کی طرح کیسے کامیابی کے ساتھ چلائے رکھا۔اس کا بھی ذکر اس مضمون میں موجود ہے۔
’’کیا حکم ہے میری ماں؟‘‘ میںطارق محمودنے اپنے بچپن کی چھوٹی چھوٹی یادوں میںسے ماں کی محبت کے جھرنے بہتے دکھائے ہیں۔اور آخر میں ایسی روایت کے ساتھ خود کو جوڑا ہے کہ بڑے بڑوں کی آنکھیں بھی نم ناک ہو جائیں۔
بڑی بیٹی رضوانہ کوثرنے’’جدید داستانِ محبت‘‘ میںاپنی امی کی ابتدائی عمر کی باتوں سے لے کر لڑکپن اور جوانی میں ان کی متنوع دلچسپیوں تک کو عمدگی کے ساتھ بیان کیا ہے۔کھیل کود،شادی بیاہ کے گانوں سے ہوتے ہوئے پنج وقتہ نماز ادا کرنے سے لے کر تلاوت قرآن پاک کی پختہ عادت تک سارے احوال بیان کیے ہیں۔پھر ان کے بہت سے انسانی اوصاف بتائے ہیں جو اپنے ماحول میں انہیں دوسروں سے ممتاز اور منفرد بناتے ہیں۔
منجھلے بیٹے عثمان حیدر نے اپنے مضمون ’’امی کی کچھ باتیں،کچھ یادیں‘‘میں اپنے ذاتی تجربوں کی روشنی میں اپنی امی کے خوبصورت انسانی اوصاف کو اجاگر کیا ہے۔اور ان یادوں میں ایسی بہت سی چیزوں کو پالیا ہے جو اس سے کہیں کھو گئی تھیں۔
بڑے بیٹے شعیب حیدرنے بھی اپنے مضمون ’’امی کی یادیں‘‘میں اپنے بچپن،لڑکپن اور جوانی کے زمانے کی بعض باتوں کو بڑے اچھے پیرائے میں بیان کیا ہے۔ان کے ہاں بین السطور کچھ کھوئے ہوئے کو ڈھونڈنے کی جستجو بھی ہے۔جذبہ صادق ہو توکامیابی یقینی ہوتی ہے۔
ان پانچوں مضامین کی اشاعت پر جو تاثرات ملتے رہے ان کا بھی ایک انتخاب ہر مضمون کے بعد شامل کر دیا گیا ہے۔یہ یادگار تاثرات ہیں۔
آخر میں ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے میرے پرانے خاکے کا دوسرا حصہ شامل ہے۔ اس خاکے کے بعد بھی احباب کے تاثرات شامل ہیں،تاہم میری ماموں زاد اور مبارکہ کی چچا زاد کنول رعنا نوشی کے تاثرات کو سُپرتاثرات کہا جا سکتا ہے۔غم اور محبت میں ڈوبے ہوئے جذبات، الٖفاظ سے زیادہ اُن کی آواز سے عیاں تھے۔تاہم ان کے الفاظ بھی اپنی جگہ اہم ہیں۔دوسرے احباب نے بھی بڑے خلوص کے ساتھ اپنے قلبی جذبات کا اظہار کیا ہے۔سو ان سب کا شکریہ۔
’’پسلی کی ٹیڑھ ‘‘کے دوسرے حصے تک میری کتاب ’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘مکمل ہو گئی تھی لیکن پھر یادوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ بچوں سے بھی وہ یادیں شیئر کرتا ہوں اور پھر انہیں لکھنے بھی بیٹھ جاتا ہوں۔’’کچھ اور یادیں،کچھ اور باتیں‘‘کسی ارادے کے بغیر خود بخود لکھی گئی ہیں،کہہ سکتے ہیں کہ ان یادوں نے خود اپنے آپ کو لکھوایا ہے۔
پہلے بچوں کی مرتب کردہ کتاب’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘ اور اب میری مرتب کردہ یہ
’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘میری طرف سے اور میرے بچوں کی طرف سے مبارکہ کے لیے ہماری محبت کا اظہار ہے۔ایک لحاظ سے یہ سراسر ہماری ذاتی اور نجی نوعیت کی سرگرمی ہے لیکن اگر یہ ساری تحریریں مطالعہ مکمل کرنے پر اکساتی ہیں اور مطالعہ مکمل کراتی ہیں تو یہ ایک ادیب اور اس کی اہلیہ کی ایسی کہانی ہے ہے جس کی نجی اور ادبی دونوں سطح پرتھوڑی سی سہی مگرخاص نوعیت کی اہمیت بنتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں زندگی کے معتبر اور اہم رشتوں کو بہت کم اہمیت دی جانے لگی ہے۔پنجابی اسٹیج ڈراموں اور ٹی وی کے بیشتر کامیڈی شوز میں بھی معتبر رشتوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔خود ہماری ادبی دنیا سے لے کرسوشل میڈیاتک مزاح اور لطیفوں کے نام پر معتبر رشتوں کی تضحیک کرنا شعار بنا لیاگیا ہے۔یہ سب آٹے میں نمک جتنا ہوتا تو گوارا تھا۔ہنسی مذاق کے نام پر اس سارے طرزِ عمل سے معتبر اور اہم رشتے بے توقیر ہو رہے ہیں۔اس سے کمزور ہوتا ہوا خاندانی نظام مزید شکستہ ہوتا جائے گا۔اگر ہمارے ادب سے تعلق رکھنے والے قلم کاراپنے اردگرد کے لوگوں کو موضوع بنانے کے ساتھ اپنے گھر کے اہم اور معتبرافراد کو بھی موضوع بنانے لگیںتو امید ہے اس سے ایک اچھی روایت مستحکم ہو گی ۔
پہلے بھی لکھ چکاہوں کہ تعزیتی پیغامات میں بیشتر احباب نے انالِلہ وانا الیہ راجعون لکھنے پر اکتفا کیاہے۔یہ بھی مناسب ہے،میں ایسے سینکڑوں دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں،جزاک اللہ کہتا ہوں۔میں ان احباب کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے ٹیلی فون یاوائس میسیج کے ذریعے تعزیت کی۔تاہم اس کتاب میں ان احباب کے تعزیتی پیغامات شامل کیے گئے ہیں جنہوں نے تحریری طور پر کچھ دلجوئی کی ہے۔ذاتی طور پر بہت سارے مقامی احباب اور عزیزواقارب تشریف لائے،ان سب کا بھی شکریہ۔گھر سے باہر ملنے والوںاور تعزیت کرنے والے سارے دوستوں کا بھی شکر یہ ادا کرتا ہوں ۔ علمی وادبی دنیا سے طاہر عدیم،ان کی اہلیہ اوران کے بھائی افضل قمر،۔۔طاہر مجید اور ان کی اہلیہ، ۔۔۔بشریٰ ملک اور پروفیسر جمال ملک،۔۔۔صفوان ملک اور ان کی اہلیہ سعدیہ جو خود بھی اچھی رائٹر ہیں،کرم الہٰی چودھری اور ان کی اہلیہ،۔۔۔جناب اطہر سہیل اوراسحاق ساجد، اور عزیزم کامران رحیم تشریف لائے اور تعزیت کی،ان سب کا خاص طور پرشکر گزار ہوں۔اللہ تعالیٰ سارے دوست احباب اور عزیز واقارب کو جزائے خیر عطا کرے۔آمین۔
اور اب یہ کتاب’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘آپ سب کی خدمت میں پیش ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔