حیدر قریشی :۔ آغا صاحب! آپ کو اتنا پڑھا ہے۔ ملاقاتوں میں اتنی باتیں کی ہیں مگر اب آپ سے انٹرویو کرنے لگاہوں تو یہی نہیں سوجھتا کہ بات کہاں سے شروع کروں؟
وزیر آغا:۔ جو سامنے آتا ہے اسی سے بات کا آغاز کردیں۔ جو چھپا ہوگا اس تک آپ پہنچ ہی جائیںگے۔
حیدر قریشی: چلئے یونہی سہی! ابن العربی نے کہا تھا کہ اس عالم کا ظاہر تو بلاشبہ مخلوق ہے مگر اس کے باطن میں خود اللہ تعالیٰ جلوہ فرما ہے۔ اس سے پہلے یہی بات باانداز دگر یونانی فلسفیوں نے بھی کہی اور ویدانت والے بھی اس سے ملتی جلتی بات کرتے رہے ہیں۔ اب طبعیات کے تازہ ترین انکشافات نے ایٹم کو رشتوں کا ایک جال قرار دیا ہے۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدید سائنس ہمارے قدیم تصوف کی تصدیق کر رہی ہے؟
وزیر آغا:۔ مگر سوال یہ ہے کہ خود ہمارا قدیم تصوف کس کی تصدیق کر رہا ہے؟ کیونکہ قدیم تصوف سے بھی کم وبیش دس ہزار برس پہلے جنگلی قبائل میں میناMANAکا تصور رئج ہو چکا تھا جو در اصل ایک ایسی پر اسرار قوت کا تصور تھا جو پوری کائنات میں دھند کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ جس بھی شے میں یہ قوت اکٹھی ہو جاتی تھی جیسے مثلا کسی پہاڑ، درخت، دریا، آگ ، سیارہ یا انسان میں تو وہ متبرک سمجھا جاتا تھا۔ قدیم قبائل کا شیمن بھی جو مینا کی قوت کا مظہر قرار پایا تھا ایک ایسا ہی متبرک انسان تھا۔ مگر خود قوت ہر چیز میں جاری وساری تھی۔ تاریخ کے ادوار میں حاضر اور غائب کے جو تصورات ابھرے ان میں سے بیشترمیں یہی صوفیانہ انداز نظر کار فرماتھا۔ سپائی نوزا نے لکھا کہ جو نسبت دائرے کے قانون کو دائرے سے ہے وہی نسبت خدا کو اس کائنات سے ہے۔ ایک اور صاحب نظر کا قول ہے کہ خدا ایک ایسا دائرہ ہے جس کا مرکز توہر جگہ ہے مگر جس کا محیط کہیں نہیں ہے۔۔ بیسویں صدی کے آغاز میں سوسیور نے لانگ کا جو تصور دیاوہ بھی صوفیانہ مسلک ہی سے مشابہ تھا۔ سوسیور نے کہا کہ زبان کے دو حصے ہیں۔۔ ایک گفتار یا تحریر والا حصہ جسے اس نے پیرول کا نام دیا اور دوسرا لانگ والا حصہ جس سے اس کی مراد لسانی سسٹم تھا۔ سو سیور کہہ رہا تھا کہ لسانی سسٹم۔۔ گفتار یا تحریر میں موجود ہو تو وہ با معنی قرار پائے گی ورنہ وہ محض ” شور“ ہے ۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ گفتار یا تحریر کی موجودگی ہی سے لسانی سسٹم کی موجودگی کا ثبوت ملتا ہے ورنہ وہ نظروں سے غائب ہوتا ہے ۔ہاکی کا کھیل ہو رہا ہو تو ہاکی کے کھیل کا سسٹم (اس کا قانون ) نظروں سے غائب ہو گا مگر سب جانتے ہیں کہ نظر نہ آنے کے باوجود پورے کھیل میں جاری وساری ہے۔کائنات پراس کا اطلاق کریں تو محسوس ہوگا کہ مظاہر کا یہ عظیم پیرول یعنی کائنات صرف اس لئے با معنی ہے کہ اس میں حقیقت عظمیٰ بطو رلانگ یا سسٹم کار فرما ہے۔ جو ہر چند کہ نظر نہیں آتی لیکن جس کی موجودگی کو بعض لوگ محسوس کرنے پر قادر ہیں ۔
حیدر قریشی:۔ تو کیا جدید سائنس نے بھی اس کی تصدیق کی ہے؟
وزیر آغا:۔ انیسویں صدی کے آخر ایام تک نیوٹن کی طبعیات کا بول بالا تھا۔ جو نظام شمسی کے ماڈل کے مطابق تھی یعنی جس کا ایک مرکزہ تھا اور سیارے اس مرکزہ کے گرد گھوم رہے تھے نیوٹن کی کائنات میں زماں اور مکاں مطلق اکائیاں تھیں اور ایٹم مادے کی وہ ٹھوس اینٹیں تھیں جن سے یہ کائنات اُساری گئی تھی۔ مگر جدید سائنس نے ایک اور ہی منظر نامہ پیش کر دیا ۔ اب کھلا کہ زمان ومکان مطلق اکائیاں نہیں ہیں بلکہ ایک دوسری سے مشروط ہیں ۔ اور ایٹم بھی کوئی ٹھوس مادی وجود نہیں رکھتا بلکہ رشتوں کا ایک جال ہے۔ مثلا ایٹم کے اندر اس کا ایک مرکزہ یا نیو کلس تو ہوتا ہے مگر جب اس نیوکلس کے اندر جھانکیں اور ان ذرات یعنی PARTICLESکی کارکردگی کو دیکھیں جنہیں ہیڈ رونز HADRONSکہا گیا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ قابلِ تقسیم ہیں بلکہ یہ کہ وہ کوار کس QUARKSمیں تقسیم ہو گئے ہیں۔ نیز یہ کہ کوار کس کا اپنا کوئی مادی وجود نہیں ہے۔ وہ محض رنگ یا خوشبوئیں ہیں۔ وہ ایک طرح کی گوند بھی ہیں جس نے نیوکلس کو اندر سے جوڑ رکھا ہے اور یہ گوند کائنات کی سب سے بڑی قوت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایٹم کی جو دنیا اب منکشف ہوئی ہے اس میں مرکزہ کوئی الگ وجود نہیں رکھتا بلکہ رشتوں کے پورے جال پر مشتمل ہے۔ یہی صوفیانہ مسلک بھی ہے کہ حقیقتِ عظمیٰ جو پردہ اخفا میں ہے مظاہر میں جاری وساری ہے۔ اس سے اگلا قدم یہ ہے کہ خود مظاہر کی کائنات بھی حقیقتِ عظمیٰ کے انگنت ”چہروں“ میں سے ایک چہرہ ہے۔
حیدر قریشی:۔ لکیر کے فقیر معاشرے میں آزادانہ غور وفکر کرنے والوں کے لئے ایک طرف آگہی کی اذیت ہوتی ہے اور دوسری طرف معاشرے کی ملامت! کیا وہ لوگ زیادہ سکھ میں نہیں ہوتے جو اپنی باگیں معاشرے کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ فکری سطح پر بھی اور ادبی سطح پر بھی!
وزیر آغا:۔بات تصوف کی ہو رہی ہے تھی۔ اس لئے میرا قیاس ہے کہ پہلے آپ کا ذہن منصور کی طرف منتقل ہوا ور پھر فرد اور معاشرے کی طرف ! معاشرے کی برہمی سے تخلیق کار کو زیادہ خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ معاشرہ تو اس ماں کی طرح ہے جو بچے کی مسلسل شرارتوں پر سیخ پاہو جاتی اور اسے بد دعائیں دینے لگتی ہے۔۔ اللہ کرے تو مرجائے تیرا جنازہ نکلے وغیرہ اور پھر دوسرے ہی لمحے وہ بچے کو چوم چوم کر بے حال کر دیتی ہے۔ معاشرہ فرد کی آزادہ روی پر برافروختہ ضرور ہوتا ہے مگر تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ اس نے کیسے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس آزادہ روی کو معمولی تبدیلیوں کے ساتھ قبول بھی کرلیا ۔ مگر شرط یہ ہے کہ ”آزادہ روی“ میں سچائی کے عناصر موجود ہوں ورنہ انحراف برائے انحراف تو بے معنی بات ہے۔ تصوف کی کہانی آپ کے سامنے ہے کہ اس میں سچائی کے عناصر موجود تھے۔ جبھی تو ابتدائی برہمی کے بعد معاشرے نے اسے تھوڑا سا تبدیل کر کے قبول کرلیا۔ سائنس کے میدان میں گلیلیو اور فلسفے کے میدان میں سقراط کا قصہ بھی آپ جانتے ہیں۔ معاشرے کے ابتدائی شدید رد عمل کے پیش نظر فرد کا احساس شکست میں مبتلا ہو جانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ رہا آگہی کی اذیت کا مسئلہ تو اسے بھی ماں کے رویے کی روشنی میں دیکھیں تو بات بنے گی۔ ہر عورت دردزہ سے گزر کر بچہ جنتی ہے۔ اگر وہ دردزہ کو ناقابل برداشت اذیت قرار دے اور پھر اس سے فرار حاصل کرے تو انسانی نسل کا خدا ہی حافظ ہے۔ اسی طرح اگر معاشرے کی برہمی سے یا آگہی کی اذیت سے بچنے کے لئے انسان ”آزادہ روی“ کے مسلک کو ترک کردے تو اس سے خود انسانی معاشرہ اور انسان کا باطن بانجھ ہو کر رہ جائے۔ ویسے جس اذیت کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ اصلاََ مسرت انگیز اذیت ہوتی ہے۔ اس اذیت کا ایک اپنا لطف ہے۔ تخلیق کار ہی اس لطف سے آگاہ ہے چاہے تخلیق کا رماں ہو یا شاعر۔ آپ خود بھی تو آگہی کی اذیت سے بار بار گزرے ہیں اور اس کا مزا چکھ چکے ہیں ورنہ کبھی اتنے اچھے شعر ، افسانے یا انشائیے تخلیق نہ کر پاتے ۔کیا تخلیق کی یہ اذیت بجا ئے خود ایک روحانی یافت نہیں ہے؟
حیدر قریشی:۔ میں نے حال ہی میں آپ کی کلیات”چہک اٹھی لفظوں کی چھاگل“ پر اپنا طویل مضمون مکمل کیا ہے۔ اسی دوران مجھے یوں لگا ہے جیسے آپ کی بعض چھوٹی نظمیں بعد میں آنے والی طویل نظموں کا پیش خیمہ تھیں۔ مثلا صفحہ283کی ”واپسی“ اور صفحہ 496کی واپسی :۔۔۔دونوں نظمیں اپنی اپنی جگہ مکمل ہونے کے باوجود ایک لمبی واپسی کی تیاری کا ابتدائی مرحلہ لگتی ہیں۔یہ لمبی واپسی”آدھی صدی کے بعد“ میں کھل کر سامنے آئی۔۔۔ اسی طرح صفحہ 264کی ” جب اور اب“ اور صفحہ 169کی ”ترغیب“ ۔ ایسے لگتاہے کہ ان دونوں نظموں کے اندر ” اک کتھا انوکھی“ کے امکانات مخفی تھے۔ پھر صفحہ 441کی آویزش میں مجھے ”الاﺅ“ کے امکانات دکھائی دیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ غیر شعوری طور پر ہوا ہے لیکن کسی مرحلے پر آپ کو اس کا احساس ہوا کہ ایسا ہو رہا ہے یا ہو گیا ہے؟
وزیر آغا:۔ آپ کے آزاد تلازمہ خیال کی داد دیتا ہوں کہ آپ کس طرح اپنی ”آگہی کی اذیت“ سے میری ” آگہی کی اذیت“ تک جا پہنچے ۔ تو جناب! قصہ یہ ہے کہ ” ہورہا “ کا احساس تو مجھے کبھی نہیں ہوا البتہ ” ہوگیاہے “ کا احساس کئی بار ہوا ہے۔ مگر جو مثالیں آپ نے دی ہیں ان کے بارے میں مجھے یہ علم نہیں تھا کہ ان کا آپس میں ایک گہرا داخلی رشتہ بھی ہے۔ در اصل نظم لکھتے ہوئے انسان کی حالت”نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں “ کی سی ہوتی ہے۔ ایک بار تخلیقی مشین چل پڑے تو پھر شاعر خود کو اس کے رحم وکرم پر پاتا ہے ۔ گو میرا یہ بھی خیال ہے کہ گھوڑے کی باگ ہمہ وقت اس کے ہاتھ میں ہونی چاہئے تاکہ وہ اسے گڑھوں اور خندقوں سے بچا سکے۔ تاہم اگر وہ تخلیق کے گھوڑے کو راستہ دکھانے کی کوشش کرے گا تو پھر شاید ہی وہ اصل منزل تک پہنچ پائے۔ آپ نے ” آدھی صدی کے بعد“ کا ذکر کیا ہے۔ یقینا اس نظم کی کرچیاں پہلے کی متعدد نظموں میں موجود ہوں گی۔ آخر جب بارش ہوتی ہے تو پہلے ہلکی سی بوندا باندی بھی تو ہوتی ہے۔ کئی بار رک رک کر، پھر اچانک بارش ہونے لگتی ہے۔ یہی حال نظم کا ہے۔ ہر طویل نظم پہلے کی چھوٹی چھوٹی نظموں میں ضرور بکھری ہوتی ہے۔۔ نقاد کا یہ کام ہے کہ وہ شاعر کو اس طور پر پڑھے کہ نظم محض ایک لمحہ کی داستان نظر نہ آئے ، گزرے ہوئے زمانوں کی کہانی بھی لگے۔ شاعر کے اندر ازل سے ابد تک کے سارے فاصلے سمٹے ہوتے ہیں مگر ان فاصلوںکی نشاندہی کرنے والے سنگ ہائے میل آگے پیچھے اس کی نظموں میں ابھرتے رہتے ہیں۔ نقاد جب ان سنگ ہائے میل کو پڑھتا ہے اور انہیں از سر نو مرتب کرتا ہے تو شاعر کی وہ کہانی ابھر آتی ہے جو در اصل تمام شاعروں کی ایک مشترک داستان ہے ۔ ”ا ٓدھی صدی کے بعد“ کا قصہ یہ ہے کہ پہلے یہ ایک چھوٹی سی نظم کی صورت میں نازل ہوئی مگر کچھ عرصہ کے بعد اندر سے آوازیں آنے لگیں کہ میں ابھی مکمل نہیں ہوں، مجھے مکمل کرو! ۔۔ میں آپ سے سو فی صد متفق ہوں کہ میری نظموں کی ORGANIC GROWTHہوئی ہے جو محض نظم کے اندر نہیں ہوئی بلکہ مختلف نظموں کے ربط باہم کے ذریعے بھی ہوئی ہے۔
حیدر قریشی:۔ ابتدائی نظموں میں بعد کی طویل نظموں کے امکانات اپنی جگہ۔۔ پھر یہ امکانات کھل کر سامنے بھی آگئے ہیں۔ لیکن حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ کہیں بھی نہ آپ خود کو دہراتے ہیں نہ آپ کی علامتوں اور استعاروں کی تازگی میں کوئی کمی آتی ہے۔ بلکہ یہ تازگی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ کیا بھید ہے؟
وزیر آغا:۔ اس سوال کا رخ میری طرف نہیں ہے خود کلامی کے انداز میں آپ نے یہ سوال خود سے کیا ہے۔ البتہ میرے لئے یہ بات انتہائی مسرت کا باعث ہے کہ آپ نے میری نظموں کے مطالعہ سے یہ تاثر قبول کیا۔ کیونکہ میں ایک بات کا بار بار اظہار کرتا آیاہوں کہ شاعری اگر کلیشوں کے بوجھ تلے دبی رہے، علامتوں اور استعاروں کی تازگی سے محروم ہو تو وہ شاعری نہیں محض منظوم نثر ہے۔ در اصل شاعر اس وقت تک شاعر ہے جب تک وہ اپنے ارد گرد کو ایک بچے کی سی حیرت کے ساتھ دیکھتا ہے۔ جب حیرت منہا ہو جاتی ہے اور وہ خود ایک روبوٹ بن کر روز مرہ کے معمولات سے گزرنے لگتا ہے تو اسے اشیا، تعقلات اور سچائیاں ، بنی بنائی خوبصورت ریپرزمیں بند کھائی دینے لگتی ہیں۔ عام زندگی بسر کرنے کے لئے ایسا ہونا مفید ہے لیکن تخلیق کاری کے سلسلے میں یہ ایک رکاوٹ ہے ۔ کیونکہ جب تک تخلیق کار عادت اور تکرار کے حصار سے باہر نکل کر شے کو بہ اندازِ دگر نہ دیکھے وہ اس تخلیقی تجربے سے آشنا نہیں ہو سکتا جو جمالیاتی حظ کا بھی باعث ہے اور وژن کی کشادگی کا بھی ۔۔ اردو شاعری کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ روایت اور سند کے نام پر ہم نے زیادہ تر چبائے ہوئے نوالوں کو چباتے چلے جانے پر ہی اکتفا کیا ہے، یہ عمل شاید گوالوں کے اس کلچر کی باقیات میں سے ہے جو ہمارے قومی کلچر کے بطون میں آج بھی موجود ہے۔ تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جبلت کی سطح پر انسان کے حیوانی دور کی باقیات میں سے ہو۔ چیونگم سے لگاﺅ یا پان چبانے کی عادت کو بھی اس حیوانی دور سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔ مگر تخلیق کار کا عمل جگالی کے عمل سے ایک واضح انحراف کی حیثیت رکھتا ہے۔
حیدر قریشی:۔ آپ کی ایک مختصر سی نظم ۔۔ دستک! یہ نظم اظہر جاوید کے رسالہ تخلیق میں چھپی تھی تو مجھے یاد پڑتا ہے کہ تب میں نے ”تخلیق“ میں چھپنے والے اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ مجھے اس نظم میں ایک طویل نظم کا امکان نظر آرہا ہے۔ آپ کو بھی ایسا محسوس ہوا ہے یا نہیں؟
وزیر آغا :۔ یقینا! اس لئے بھی کہ اس کے بعد کی بعض چھوٹی نظموں میں بھی یہ ”دستک“ مجھے صاف سنائی دی ہے۔ اصولاََ اسے ایک طویل نظم میں ڈھل جانا چاہئے تھا مگر ایسا ہوا نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تخلیقی عمل کا اپنا پروگرام اور اپنی صوابدید ہوتی ہے۔ وہ شاعر کا تابع مہمل نہیں ہوتا۔ البتہ اگر شاعر بار بار اپنا کشکول اس کے آگے کرے اور کہے:” ہِے داتا!مل جائے کچھ دان“ تو عین ممکن ہے کہ اسے دان مل جائے۔ میرے معاملے میں کشکول آگے کرنے کے باوجود اگر ایسا نہیں ہوا تو اس میں کچھ قصور میرا اپنا بھی ہے۔ میں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے۔۔۔” دستک اس دروازے پر ” اس کے پہلے باب کا آغاز ہی نظم ” دستک“ سے ہوا ہے۔ لہذا ایک طویل نظم میں ڈھلنے کے بجائے یہ نظم ایک نثر پارے میں ڈھل گئی ہے۔ مگر نثر شاعری کے مقام کو کیسے پہنچ سکتی ہے! لہٰذا میں منتظر بیٹھا ہوں ۔ کوئی چھینٹا پڑے تو کلکتہ کا سفر اختیار کروں مگر میرے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے۔ لہٰذا آپ میری سفارش کریں۔ اگر محترمہ کو رخ زیبا دکھانا ہے تو یہی وقت ہے ۔ ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔
حیدر قریشی :۔ آپ کی نظموں کے مطالعے کے دوران میں نے ایک انوکھی چیز دیکھی ہے۔ ایک طرف تو آپ کی محبت جسم سے اوپر اٹھ کر روحانی سطح پر مظاہر اور مناظرِ فطرت سے تعلق قائم کرتی ہے۔ دوسری طرف آپ ان مظاہر مثلاََ خوشبو ، ہوا، بجلی، خاموشی وغیرہ کو جسم کا روپ دے دیتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ان مظاہر نے انسانی روپ دھار لیا ہے۔ جسم اور روح کی اس کشمکش کوآپ کیا کہیں گے؟
وزیر آغا:۔ نہایت عمدہ سوال ہے! مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ آپ نے میری نظموں کو اتنے غور سے پڑھا ہے کہ اس کی لطیف ترین سلوٹیں بھی آپ کی گرفت میں ہیں۔ زمین سے اوپر اٹھنا اور پھر اوپر جا کر واپس زمین کی طرف آنا ایک پراسس کا نام ہے جو تخلیقی عمل کا ضروری حصہ ہے۔ اصلاََ یہ قوس کا انداز ہے۔ آج سے کم وبیش پچاس برس پہلے میں نے لن۔یو۔ ٹانگ کی ایک کتاب پڑھی تھی جس میں اس نے فن کو فاختہ کی پرواز سے تشبیہ دی تھی۔ وہ لکھتا ہے کہ جب فاختہ کسی درخت کی شاخ سے اڑتی ہے تو پہلے عمودی انداز میں آسمان کی طرف جاتی ہے ۔ پھر اپنے پروںکو کھول کر ایک قوس سی بناتی ہوئی، دوبارہ درخت کی شاخ پر آبیٹھتی ہے۔ بس یہ قوس ہی فن ہے۔ تشبیہ یا استعارہ کو لیں۔ یہ بھی ایک قوس ہے جو ایک شے سے دوسری کی طرف آتی ہے اور پھر اسے چھو کر پہلی شے کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ رقص میں رقاصہ مرکزی نقطے کے گرد گھومتی چلی جاتی ہے۔ ہر بار اسے مس کرکے رخصت ہوتی ہے مگر چکرسا لگا کر دوبارہ مس کرنے کے لئے حاضر ہو جاتی ہے۔ یہ ایک طرح کا LOVE – PLAYہے۔ اگر میری نظموں میں آپ کو یہ LOVE-PLAYنظر آیا ہے جو تجسیم سے تجرید اور پھر تجریدسے تجسیم کی طرف ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میری شاعری فن کے تقاضوں کے تحت قوسوں میں سفر کر رہی ہے، نظریاتی شاعروں کی نظموں کی طرح سیدھی لکیر پر گامزن نہیں ہے۔
حیدر قریشی:۔ آپ کی جملہ تنقیدی کتب بالعموم اور ” اردو شاعری کا مزاج“ ، ” نظم جدید کی کروٹیں“ ، ’ تصورات عشق وخرد“ ، ” تنقید اور جدید اردو تنقید“ اور ”دستک اس دروازے پر “ جیسی کتب بالخصوص اہل ِ ادب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ ان پر گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن آپ کی ایک اہم کتاب” تخلیقی عمل“ جو اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے بے حد اہم تھی اس پر اہلِ ادب نے زیادہ توجہ نہیں دی۔۔۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
وزیر آغا:۔ ویسے تو ” تخلیقی عمل“ کے بھی متعدد ایڈیشن چھپ چکے ہیں ۔ پاکستان میںبھی اور بھارت میں بھی ! البتہ بھارت میںیہ کتاب نسبتاََزیادہ پڑھی گئی ہے۔ اور اس کا ذکر بھی ہوتا رہا ہے۔ مگر میں آپ سے متفق ہوں کہ پاکستان میں اس کتاب پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ وجہ غالباً یہ ہے کہ میں نے اس کتاب میں استقرائی عمل کے تحت تخلیقی عمل کا ایک پیٹرن دیگر علمی شعبوںمثلاََ حیاتیات، سوشیالوجی، متھ اور تاریخ میں دریافت کیا ار پھر اس کا اطلاق ادب پر کیا جبکہ پاکستان کے اردو ادبا کو ان علمی شعبوںمیں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ مگر ادھر کچھ سالوں سے صورتِ حال تیزی سے تبدیل ہوئی ہے۔ بالخصوص ساختیات اور پسِ ساختیات کے مباحث نے پاکستان کے اردو ادبا کو دیگر علوم سے روشنی حا صل کرنے کی تحریک دی ہے۔ چنانچہ اب ” تخلیقی عمل “ کے موضوع اور اسی حوالے سے میری اس کتاب پر باتیں ہونے لگی ہیں۔ پچھلے دنوں لاہور میں مجھ سے اس موضوع پر ایک لیکچر دینے کے لئے بھی کہا گیا جس میں لوگوں نے بے حد دلچسپی لی ۔ پھر اس موضوع پر سرگودہا کی ایک ادبی انجمن نے مجھے تقریر کرنے کے لئے کہا۔ لہٰذا اب آپ کو شکایت نہیں ہونی چاہئے ۔ لوگ باگ اب” تخلیقی عمل“ میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔
حیدر قریشی:۔ ساختیات کے بارے میں بعض ناقدین نے گنجلک اور ژولیدہ مضامین لکھے ہیں جبکہ آپ نے ایک ہی مضمون ” ساختیات اور سائنس “ میں مسئلہ کی بنیادی حقیقت آئینہ کر دی ہے۔ کیا آپ کو ادب کے مظلوم قاری پر رحم آ گیا ہے؟
وزیر آغا :۔ یہ قاری ایسا مظلوم بھی نہیں ہے جیسا کہ آپ کو نظر آر ہا ہے ۔ اس نے فقط مظلومیت کی چادر اوڑھ رکھی ہے ورنہ اندر سے وہ خاصا ظالم ہے۔ موصوف کی عزیز ترین خواہش یہ ہے کہ مطالعہ کتب کے جھنجھٹ میںنہ پڑا جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ مشقت کا یہ کام نقاد کرے اور مطالعہ کرکے علوم کی تلخیص عام فہم انداز میں اس کے سامنے پیش کرے ۔آج کے طلباءبھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ کورس کی کتابیں پڑھنے کی بجائے خلاصوںپر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ ہمارے بیشتر ناقدین نے کچا پکا مطالعہ کیا ہے اور اسے ہضم کئے بغیر اگل دیا ہے اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ وہ لکیر کے فقیر بنے ہیں اور مغربی کتب میں جو کچھ لکھا ہے اس سے ہٹ کر سوچنے کو انہوں نے بدعت سمجھا ہے مگر ہمارے ہاں کچھ اچھے نقاد بھی ہیں جنہوں نے مغربی دانش کو مشرقی دانش کے تناظر میں پڑھا اور پھر مغرب والوں کے اخذ کر دہ نتائج سے ہٹ کر اپنے طور پر سوچا اور نتائج سے ہٹ کر اپنے طور پر سوچا اور نتائج مرتب کئے ہیں۔ یہی درست رویہ ہے ورنہ مغرب میں لکھی گئی کتابوں کو سامنے رکھ کر مضامین یا کتابیں مرتب کرکے لوگوںکو مرعوب تو کیا جا سکتا ہے ، متاثر ہر گز نہیں۔ اس قسم کے رویے کے فروغ پانے کی اصل وجہ قاری کی مطالعہ نہ کرنے کی عادت ہے۔ مثلا اگر اس نے ساختیات اور پس ساختیات کا پہلے سے بالاستیعاب مطالعہ کر رکھا ہوتا تو پھر وہ نقاد سے یہ مطالبہ ہر گز نہ کرتا کہ وہ اسے ان علوم کے سلسلے میں جانکاری مہیا کرے بلکہ یہ کہ وہ کوئی ایسی نئی بات کہے جو پہلے کبھی نہ سنی گئی ہو۔ ابھی ہمارے بیشتر ناقدین (بالخصوص ساختیات اور پس ساختیات کے مباحث کے حوالے سے) تشریحاتی دور سے گزر رہے ہیں، تخلیقی دور سے نہیں ۔ اور مظلوم قاری بھی تلخیص پسندی کے دور سے باہر آکر مطالعہ کے دور میں ابھی داخل نہیں ہوا۔ جس روز ایسا ہو گیا تو نقاد بھی مجبور ہو جائیں گے کہ مرعوب کرنے کے بجائے متاثر کرنے کی کوشش کریں۔پرانے زمانے میںیہ بات بہت مشہور تھی کہ علم حاصل کرنے کے لئے قاری کو چین بھی جانا پڑے تو کوئی حرج نہیں۔ نئے زمانے میںہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسے جرمنی بھی جانا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
حیدر قریشی:۔ ” مجید امجد کی دستان محبت ” میں آپ نے جس خوبصورتی اور کمال کے ساتھ مجید امجد کی شاعری سے انکی محبت کی دستان دریافت کی ہے، اسے پڑھنے کے بعد دل چاہتا ہے کہ میں بھی اپنے ریکارڈ میں بجھی کچھی ساری تصویریں اور خطوط ضائع کردوں اور پھر آپ سے درخواست کروں کہ آپ میری شاعری میںسے بھی میری داستانیں تلاش کریں۔
وزیر آغا:۔ آپ میں اور مجید امجد میںیہ فرق ہے کہ اس نے تو اپنی داستان محبت پردہ اخفا میںرکھی تھی جب کہ آپ نے اپنی عشقیہ داستانوں کی ایک باقاعدہ فائل تیار کر رکھی ہے۔ ویسے آپ کا یہ اقدام خالصتا کلاسیکی نوعیت کا ہے کیونکہ ہمارے بزرگ شعرا بھی محبت کے معاملے میں بڑے کشادہ دل تھے اور ہمہ وقت اپنی عشقیہ داستانوں کی تشہیر میں مصروف رہتے تھے۔ مثلا وہ شعر جس میں شاعر نے بڑے فخر کے ساتھ کہا تھا کہ بعد مرگ چند تصاویر بتاں اور حسیناﺅں کے خطوط کے سوا اس کے گھر سے کچھ نہیں نکلے گا۔ اس کی زیادہ معروف مثال ( جدید دور میں ) حضرت جوش ملیح آبادی کی ہے جنہوں نے اپنی اکیس محبتوں کی داستان قلمبند کی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس داستان کا زیادہ تعلق متخیلہ سے اور بہت کم حقیقت سے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے کلاسیکی شعرا نے زیادہ تر دلچسپی محبوب کے جنرک نام میں لی تھی اور محبوب کے عشاق کو بھی کمال فراخدلی سے برداشت کیا تھا۔ حتیٰ کہ جدید دور میں بھی صورت حال بہتر نہ ہو سکی ۔ فیض نے تو اپنی ایک نظم میں کامریڈ رقیب سے سمجھوتہ بھی کر لیا(غالبا نظر یہ ضرورت کے تحت)
تم پہ بھی اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تم کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے
محبت کے معاملے میں یہ اشتراکی رویہ متخیلہ ہی کا زائیدہ تھا۔ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ لہذا آپ خاطر جمع رکھیں۔ اگر مجھے موقع ملا تو میں آپ کی جمع کرددہ تصویروں اور خطوط میں دلچسپی نہیں لوں گا فقط اس قدر کہنے پر اکتفا کروں گا کہ آپ کی محبت ایک کھلی کتاب کی حییثت رکھتی ہے جس کے ایک ایک ورق کو آپ سینے سے لگائے پھر رہے ہیں۔
حیدر قریشی:۔ انشائیہ اردو میں مغرب سے آیا ہے۔ مخالفت کی شدید آندھیوں کے باوجود اس صنف نے اب اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں۔کل تک جو مخالفین ٹانگوں کے نیچے سے جھانک کر سمندر کو دیکھنے کا مذاق اڑاتے تھے ۔ اب بغلیں جھانکتے نظر آرہے ہیں۔ آپنے گزشتہ چالیس برسوں میں مخالفین کی ہر طرح کی زیادتیاں اور بد زبانیاں برداشت کیں اب جب کہ انشائیہ اپنی بنیاد اور روح کے ساتھ اردو میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے تو آپ مخالفین کی حرکتوں کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں؟
وزیر آغا:۔ یہ سوال تو مخالفین سے کرنا چاہئے کہ وہ اب کیا محسوس کرتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان کے لئے انشائیہ کا فروغ باعثِ مسرت ہر گزنہ ہوگا۔ میں نے انشائیہ کے سلسلے میں ہونے والی ساری تندوتیز مخالفت پر بہت غور کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ ساری مخالفت ادبی کم اور نفسیاتی مسئلہ زیادہ ہے۔ اگر انشائیہ کو کسی لاہوری ادیب نے اردو میں رائج کرنے کی کوشش کی ہوتی تو وہ اسے بیسویں صدی کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیتے مگر چونکہ اسے ایک چھوٹے شہر کے ایسے ادیب نے رائج کرنے کی کوشش کی جس کے نام اور کام کو مسترد کرنا ان لوگوں کی سب سے بڑی مصروفیت ہے لہٰذا انہوں نے اس سلسلے میں اخبارات کے ادبی کالموں کو استعمال کیا ، مضامین لکھوائے حتی کہ کتابیں تک لکھوائیں اور یوں انشائیہ ، انشائیہ نگاروں اور انشائیہ کو رائج کرنے والوں کے خلاف ایک غیر ادبی مہم جاری کردی۔ پچھلے دنوں مجھے اپنے ایک کرم فرما نے یہ قصہ سنا کر حیران کر دیا کہ جب اس نے ایک بار ان مخالفین کے سرغنہ سے پوچھا کہ آپ انشائیہ کے خلاف اس قدر کیوں ہیں؟۔۔ تو موصوف نے فرمایا کہ مسئلہ انشائیہ کا نہیں ہے۔ مسئلہ اس شخص کا ہے جس کے نام کے ساتھ انشائیہ منسلک ہو گیا ہے۔ ہم نے اصولی طور پر اس شخص کی ہر بات کی مخالفت کرنی ہے۔ اب اگر انشائیہ بھی اس مخالفت کی زد میں آگیا ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ آخر جنگ میں امن پسند شہری بھی تو ہلاک ہوجاتے ہیں۔
حیدر قریشی:۔ آغا صاحب! انشائیہ سے ملتی جلتی صورت حال جاپانی صنف ہائیکو اور پنجابی صنف ماہیا کے ساتھ پیدا ہوگئی ہے۔ دونوں اصناف میں تین یکساں مصرعوں کو ہائیکو اور ماہیا بناد یا گیا ہے۔ حالانکہ دونوں اصناف کا اصل وزن کچھ اور ہے۔ اگر چہ اب اصلاح احوال کی صورت بنتی جا رہی ہے۔ ہائیکوکے اصل جاپانی وزن اور ماہیا کے اصل پنجابی وزن کی طرف توجہ دلانے کے بعد اچھے شعراءاصل وزن کی طرف رجوع کرنے لگے ہیں۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ ماہیا کے اصل وزن کے مسئلہ کی طرف سب سے پہلے” اوراق“ ہی میں نشان دہی کی گئی تھی۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
وزیر آغا:۔ کسی بھی صنف ِ شعر کی پہچان کا تعلق اس کی ہیئت اور مزاج ، دونوں سے ہوتا ہے ممتاز عارف صاحب کی نشان دہی کے بعد ماہیا کی ہیئت کی پہچان کرانے کے معاملہ میں آپ نے جو خدمات انجام دی ہیں ان کی ایک تاریخی حیثیت بنتی ہے اور ادب کا کوئی طالب علم اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ اب میرامشورہ ہے کہ آپ ماہیا اور ہائیکو میں پیش کئے گئے مواد کی طرف بھی متوجہ ہوں تاکہ ان دونوں اصنافِ شعر کا مزاج سامنے آسکے۔ ان دونوں شعری اصناف کی بقاءکے لئے ان کے مزاج کا تحفظ بہت ضروری ہے ورنہ ہیئت کا معاملہ تو طے پا جائے گا۔ شاعری کا معاملہ ٹھپ ہو جائے گا۔ سنا ہے کہ ایک بار کسی سرجن نے مریض کا آپریشن کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا تھا:OPERATION SUCCESSFUL. PATIENT DEAD.
یہی صورتحال ان دونوں اصنافِ شعر کے سلسلے میں پیش آ رہی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض ماہیے اور ہائیکو، ہیئت اور مزاج کے اعتبار سے بے مثا ل ہوتے ہیں مگر بیشتر میں شعری کیفیات کا فقدان ہوتا ہے اور صنف کا مخصوص مزاج بھی غائب ہوتا ہے۔ بالخصوص ہائیکو کے معاملے میں صورتِ حال اچھی نہیں ہے کیونکہ یار لوگوں نے غزل کے مضامین کو تھوک کے حساب سے ہائیکو میں بھرنا شروع کر دیا ہے۔
حیدر قریشی:۔آپ کی تحریروں میں عمومی طور پر اور آپ کی سوانح عمری” شام کی منڈیر سے“ میں خصوصی طور پر ایسے لگتا ہے کہ ادب ، سائنس اور مذہب کی ایک مثلث بنی ہوئی ہے۔ یہاں میں نے سائنس اور مذہب کو ان کے وسیع تر مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ آپ کے ہاں یہ سنگم لاشعوری طور پر ہوا ہے یا آپ نے خود اہتمام کیا ہے؟
وزیر آغا:۔ آپ نے ” شام کی منڈیر سے“ کا خصوصی حوالہ دیا ہے ۔ حوالہ ” دستک اس دروازے پر “ کا بھی ہونا چاہئے کیونکہ میں نے اس کتاب میں ان تینوں کے امتزاج کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ عظیم اسرار کو جاننے کے یہ تین راستے ہیں۔ بعض اوقات ان میں سے ایک راستہ صرف ایک حد تک جاتا ہے اور پھراس میں سے دوسرا راستہ پھوٹ نکلتا ہے۔ مولانا روم نے تصوف کے باب میں لکھا تھا کہ شکاری کچھ دور تک تو ہرن کے نقوش پا کو دیکھ دیکھ کر اس کا تعاقب کرتا ہے۔ اس کے بعد نافہ آہو کی خوشبو اس کی رہبر بن جاتی ہے۔ ادب، سائنس، اور مذہب ، تینوں کا رخ عظیم اسرار کی طرف ہے جسے یہ مس کرنا چاہتے ہیں۔ سائنس ، استقرائی اور تجزیاتی انداز اختیار کرتی ہے، ادب جمالیاتی تجربے کو اساس بنا کر آگے بڑھتا ہے جبکہ مذہب روحانی سطح پر منزل کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر تک سائنس اور مذہب میں آویزش موجود تھی لیکن جب بیسویں صدی میں سائنس کے سابقہ تیقن پر کاری ضرب لگی اور سائنس دانوںکو کائنات کی پر اسراریت کا ادراک ہوا تو یہ آویزش بڑی حد تک کم ہوگئی ۔ مجھے ان تینوں کے امتزاج کا احساس وہبی طور پر بھی ہوا اور تجزیاتی طور پر بھی! تخلیق کار ہونے کی حیثیت سے میں نے اس یکتائی کی جھلک دیکھنے کی کوشش کی ہے جو مظاہر کی کثرت اور بو قلمونی کے عقب یا اعماق میں موجود ہے اور تجزیہ نگار ہونے کے حوالے سے میں نے ان مختلف راستوں کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالی ہے اور یہ دیکھ کر خوش ہوا ہوں کہ ان سب کا رخ ایک ہی جانب ہے۔
حیدر قریشی:۔ آپ نے امتزاجی تنقید کا جو موقف پیش کی ہے اس کی اہمیت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا مگر عملََا ناقدین کرام اس طرف آتے نظر نہیں آتے شاید اس لئے کہ ایسی تنقید لکھتے ہوئے تمام علوم پر دسترس کا ہونا ضروری ہے۔ اور ہمارے بیشتر ناقدین جو مخصوص رنگ کی عینک کے عادی ہیں وہ دیگر علوم میں سر کھپانے اور محنت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس صورت حال میں کیا امتزاجی تنقید صرف آپ کے مطالعہ کی امتیازی پہچان بن جائے گی یا رواج بھی پا سکے گی؟
وزیر آغا:۔ اب تک اردو کے اکثر ناقدین نے کسی ایک شعبہ علم، عقیدہ یا مسلک کی روشنی میں تخلیق کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ میرا موقف ہے کہ ہر چند ایسا کرنے میں کوئی ہرج نہیں لیکن چونکہ تخلیق تہ در تہ معنویت کی حامل ہوتی ہے اس لئے تخلیق کا پوری طرح احاطہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے محض ایک مخصوص زاویے سے ہی دیکھا نہ جائے، دوسرے زاویوں کو بھی اس سلسلے میں آزما لیا جائے۔ مثال میں نے یہ دی ہے کہ اگر اندھیرے میں محض ایک قمقمہ جل رہا ہو تو آپ کے جسم سے صرف ایک سایہ بر آمد ہوگا لیکن اگر متعددقمقمے جل رہے ہوں تو ان کی تعداد کے مطابق آپ کے جسم سے بھی متعدد سایے پھوٹ کر باہر آجائیں گے ۔ یہی حال تخلیق کا ہے۔ اگر تخلیق پر صرف ایک زاویے سے روشنی پڑے تو اس میں سے صرف ایک سایہ (معنی) بر آمد ہو گا۔ اگر متعدد زاویوں کو بروئے کار لایا جائے تو سایوں (معانی) کے متعدد سلسلے اس سے منسلک ہو جائیں گے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ نقاد باری باری مختلف زاویوں سے تخلیق کو ٹٹولے بلکہ صرف یہ کہ اس کی اپنی ادبی شخصیت گہری ، وسیع، اور کثیر الجہت ہوتاکہ جب وہ تخلیق سامنے آئے تو یوںلگے جیسے متعدد قمقمے جل اٹھے ہیں اور عکسوںکا ایک لامتناہی سلسلہ وجود میں آگیا ہے۔ اکثر نقاد اپنی پوری ادبی شخصیت کے ساتھ تخلیق کے روبرو نہیں آتے ۔ وہ نظر یاتی دباﺅ کے تحت اپنی شخصیت کے بہت سے پہلوﺅں کو دبا کر تخلیق کے سامنے آتے ہیں اور اسی لئے ان کی تنقید بھی سطحی نظر آتی ہے۔ در اصل تنقید ، تخلیق ہی نہیں، خود تنقید نگار کا امتحان بھی ہے۔ تخلیق کا یوں کہ اگر وہ اکہری ہے تو اکہری نظر آئے گی، اگر تہ در تہ ہے تو ایسی ہی دکھائی دے گی۔۔ نقاد کا یوں کہ اگر اس کی ادبی شخصیت ، مطالعہ اور تجزیہ کی کمی نیز کسی ایک نظریے کے تابع مہمل ہو جانے کے باعث اکہری ہے تو اس کی تنقید بھی یک طرفہ اور اکہری دکھائی دے گی۔ دوسری طرف اگر اس کے اندر ایک امتزاجی عمل رونما ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں اس کی شخصیت ہمہ جہت اور تہ در تہ نظر آرہی ہے تو پھر وہ تخلیق کو بھی پرت در پرت کھولنے پر قادر نظر آئے گا۔تنقید بنیادی طور پر ایک امتزاجی عمل ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے ناقدین زود یا بدیر اپنی نظریاتی قلعہ بندیوں سے آزاد ہو کر تخلیق کی طرف راغب ہوں گے۔ جب ایسا ہوا تو امتزاجی تنقید کی راہیں روشن ہو جائیں گی۔
حیدر قریشی:۔ کتنی ہی بار آپ سے جی بھر کر باتیں کی ہیں لیکن آج جب اس رسمی انٹر ویو کے لئے باتیںکرنا پڑیں تو یوں لگا جیسے ایک آزمائش سے گزر رہا ہوں ۔ آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے رسمی انٹرویو کے پل صراط سے گزرنے میں میری مدد کی۔
وزیر آغا:۔ حیدر قریشی صاحب! پل صراط پر سے گزرنے کی مبارکباد!مگر جناب ! یہ انٹر ویو ایسا رسمی بھی نہیں تھا جیسا کہ آپ نے سوچا ہے۔