وزیر آغا کی غزلوں پہ بات کرنے سے پہلے مجھے ذوق اورغالب کے دور کی طرف ایک سرسری نظر سے دیکھنا ہے۔ ذوق اپنے دور کا تسلیم شدہ ملک الشعراءتھا بادشاہ کے دربار میں اس کی رسائی تھی۔ شاہی مراعات اس کا نصیب تھیں۔ قصیدہ گوئی اس کا فن تھا اور اسی فن کی کمائی نے اسے ظاہری عزت اور شان وشوکت عطا کر رکھی تھی۔ اپنے عہد کا عظیم شاعر بنا رکھا تھا۔ ۔ ذوق کے مقابلے میں غالب پر پبھتیاں کسی گئیں ۔ اس کے تو شعر ہی سمجھ میں نہیں آتے۔ موصو ف مشکل پسند بن رہے ہیں۔ ان کا لکھا یہ آپ ہی سمجھیں تو سمجھیں اور کسی کو تو سمجھ میں نہیں آتا ۔ کیا یہ غزل کے شعر ہیں وغیرہ۔۔ وقت نے کروٹ لی۔ ذوق ، اپنی شاعری سمیت اپنے عہد کے ملبے میں دب کر رہ گیا ور غالب اپنے عصر کو عبور کرتے ہی نہ صرف قابلِ فہم ہو گیا بلکہ زندہ جاوید بھی ہو گیا ۔ غالب کے مقابلے کے ”درباری“ ملک الشعراءاب غالب کے آدھے قد کے شاعر بھی نہیں مانے جاتے۔(فاعتبرو یا اُولی الابصار)
وزیر آغا کی غزل پر سچا فیصلہ تو آنے والا وقت دے گا۔ وقت بتائے گا کہ وزیر آغا کی غزل اپنے عصر کو عبور کرکے زیادہ با معنی ہوئی یا نہیں تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ وزیر آغا کو بھی اپنے عہد کے ذوق کا تلخ سامنا ہے۔ اس عہد کا ذوق بھی سرکار کا ” درباری شاعر“ ہے۔ دربار میں رسائی کے باعث تمام ذرائع ابلاغ کے دروازے اس کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ تمام انعام واکرام کی بارشیں اسی کے لئے یاا سی کی مرضی سے ہوتی ہیں، لیکن وزیر آغا کو اس کی درباری حیثیت پر کبھی اعتراض نہیں ہوا۔ وزیر آغا نے تسلیم کیا ہے۔
سرشت اس کی قصیدہ، غزل مزاج مرا قریب لا کے بھی ہم جُدا جُدا رکھنا
اس کے باوجود اس عہد کے ذوق کی طرف سے وزیر آغا کی شاعری اور بالخصوص غزل کے بارے میں قریب قریب وہی الزامات اور طعنے دہرائے گئے جو غالب کو دیئے جا چکے تھے۔ بلکہ ذوق کے حواریوں نے تو کردار کشی کی مہم میں پرانے ہجو گوﺅں کی ہزلیات کو بھی مات کر دیا۔ وزیر آغا نے اس عہد کے ذوق کے اشاروں پر چلائی جانے والی مہم کو اخلاقی گراوٹ اور پوری انسانیت کی تذلیل سے تعبیر کیا:
گرا وہ شخص تو ہم بھی گرے تھے ساتھ اس کے
ملی سزا تو شریک اس سزا میں تھے ہم بھی
میں اس تمہید طولانی کے لے معذرت خواہ ہوں لیکن میراخیال ہے کہ منفی پروپیگنڈہ کی اصل حقیقت کو سامنے رکھ کر حقائق کو پرکھا جائے تو سچائی تک پہنچنے میں آسانی رہتی ہے۔ وزیر آغا کی غزل کی سچائی کو اس سارے پس منظر میں اب بہتر طور پر دیکھا اور پرکھا جا سکے گا۔
زخمی ہرن کی چیخ اور عورتوں سے باتیں یا عورتوں کی باتیں کرنے والی غزل جب طوائف کے کوٹھے سے اتری تو اسے کھیتوں، کھلیانوں، کارخانوں ، شہروں، گلیوں، بازاروں کی سیاحت کرائی گئی اور غزل نے ان کے موضوعات کو بھی اپنے اندر سمو لیا۔ زندگی امیر غریب کی جدوجہد سے آگے بھی بہت کچھ ہے۔ غزل نے جب نئے علوم، نئے انکشافات ، نئی ایجادات اور نئی تحقیقات کی طرف توجہ کی تو ان کے موضوعات بھی غزل کے وسیع دامن میں آتے چلے گئے۔ یوں غزل ایک طرح سے پوری زندگی کی ترجمان بن گئی۔ تاہم موضوعات کے تنوّع کے باجود غزل میں جذبہ اور تخیل کی حکمرانی رہی جذبہ اور تخیل کے توازن نے ہی غزل کے شعر کو غزل کا شعر بنایا۔
وزیر آغا کی غزل میں جذبہ اور تخیل کا توازن بڑے خوبصورت انداز میں ابھرا ہے۔
ہے تمنا کہ سدا برسرِ پیکار رہیں
تم مقابل رہو ہم آئینہ بردار رہیں
اتنا نہ پاس آ کہ تجھے ڈھونڈتے پھریں
اتنا نہ دور جا کہ ہمہ وقت پاس ہو
آہستہ بات کر کہ ہوا تیز ہے بہت
ایسا نہ ہو کہ سارا نگر بولنے لگے
عجیب طرزِ تکّلم ہے اس کی آنکھوں کا
خموش رہ کے بھی لفظوں کی دھار پر رہنا
رکھ ان کو تُو بچا کے کسی اور کے لئے
یہ قول یہ قرار ترے کام آئیں گے
دل کہ ہے راستے کا اک پتھر
آﺅ اس کوہِ غم کو پار کریں
چاند ہو روز بدلتے ہو تمہارا کیا ہے
میں سمندر ہوں ابد تک نہ بہکنے والا
جرم تھا میرا کہ میں نے جرم میں شرکت نہ کی
تھی مری تقصیر بس اتنی کہ بے تقصیر تھا
غزل میں وزیر آغا کے موضوعات کا تعین کرنا، بلکہ کسی بھی تہہ دار شاعر کی غزل کے موضوعات کا تعین یا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ تاہم ہم ان کی غزل کے بعض پرتوں کے مضامین کو ایک حد تک معنی کی گرفت میں لاکر مس ضرور کر سکتے ہیں۔محبت ہمیشہ سے غزل کا بنیادی موضوع رہا ہے۔ اس حوالے سے وزیر آغا کے چند اشعار دیکھتے ہیں:
دل بضد ہے کہ گنگنائیں تجھے
آنکھ کہتی ہے بھول جائیں تجھے
چاپ ابھری ہے دل کے اندر سے
کوئی پلکوں پہ آنے والا ہے
کپکپانے لگے ہیںلب اس کے
جانے کیا بات کرنے والا ہے
وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پاس ہمیں
طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا
جو دل میں پھانس تھی سو رہ گئی ہے
بیاں ورنہ سبھی کچھ ہو گیا ہے
اس بے وفا سے ترک تعلق کی دیر تھی
جینا بھی اور مرنا بھی آسان ہو گیا
اس کی آواز میں تھے سارے خدوخال اس کے
وہ چہکتا تھا تو ہنستے تھے پروبال اس کے
محبت کا تخلیقی عمل، جنسی عمل ہے ۔وزیر آغا کے ہاں عموماً جنسی جذبہ لطیف صورت اختیار کرجا تا ہے مگر کہیں کہیں جنسی جذبے کا اظہار سطح پر بھی آجاتا ہے۔
کیا لمس تھا کہ سارا بدن جگمگا گیا
پردے ہٹے، نقاب اٹھے، فاصلہ گیا
ہم سے بھی پوچھتا کوئی سرکش لہو کا راز
اپنے بدن کے مالک ومختار ہم بھی تھے
وہ ایک شخص کہ تاروں کی لو تھا جس کا بدن
کبھی کبھی وہ زمیں پر اترنے لگتا تھا
وہ پرندہ ہے کہاں شب کو چہکنے والا
رات بھر نافۂ گل بن کے مہکنے والا
اُس کا بدن تھا خون کی حدّت سے شعلہ وش
سورج کا اک گلاب سا طشتِ سحر میں تھا
محبت کے روحانی اور جسمانی حوالوں سے ہٹ کر وزیر آغا کی غزل میں سفر کی علامت بڑی نمایاں نظر آتی ہے۔ سفر کی کئی جہات ہیں۔ اشعار سے ان جہات کا اندازہ لگائیے:
دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا
سارا لہو بدن کا، رواں مشتِ پر میں تھا
سفر کا رخ ہے تمہاری طرف وگرنہ مجھے
پلٹ کے جانا کبھی باعث ملال ہوا؟
اے تھکے ہارے مسافر کچھ بتا
اور کتنی دور اب جائے گا تو
بھول ہی گیا آخر اپنا دیس اپنا گھر
وہ ہوا کا ہم سفر در بدر ہی ایسا تھا
نکل پڑے ہو سفر کو تو شاہراہ کے ساتھ
کسی کی یاد کے کتبے جگہ جگہ رکھنا
ایسے بڑھے کہ منزلیں رستے میں بچھ گئیں
ایسے گئے کہ پھر نہ کبھی لوٹنا ہوا
چلو اپنی بھی جانب اب چلیں ہم
یہ رستہ دیر سے سونا پڑا
وزیر آغا کی غزل میں سب سے زیادہ مظاہر فطرت کی علامتیں آئیں ہیں۔ وزیر آغا خود دھرتی سے جڑے ہوئے ہیں۔ مٹی کی خوشبو ، جنگل، کھیت، میدان، درخت، پودے، پھول، پتے، گھاس ، پرندے، تتلیاں، صبح ، شام ، دوپہر کے مناظر یہ سب وزیر آغا کی غزل میں بڑے فطری انداز میں در آئے ہیں اور خود بولتے نظر آتے ہیں:
ہر ایک پیڑ ہے منقار زیر پر اب تو
وہ شام کیا ہوئی جب ہر شجر چہکتا تھا
درختوں کو تو چپ ہونا تھا اک دن
پرندوں کو مگر کیا ہو گیا ہے
شام کا تارا دیکھتے ہی جب جنگل رونے لگتے ہیں
پنچھی ہم کو چابی والے سبز کھلونے لگتے ہیں
آنسو، ستارے، اوس کے دانے، سفید پھول
سب میرے غم گسار سرِ شام آئیں گے
آندھی کے چابکوں سے ہرے پات جھڑ گئے
جو بچ گئے وہ آپ ہی شاخوں پر سڑ گئے
پھولوں بھری رو اکو کہاں لے گئی ہوا
رستے کے ہر مسافر خستہ قبا سے پوچھ
دھرتی کے مظاہر فطرت کی علامتوں کا اظہار وزیر آغا کے ہاں اتنا قوی ہے کہ آسمانی مظاہر کے لیے بھی اسی لفظیات کو برتتے ہیں اور ایک مقام پر تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آسمان بھی دھرتی کا حصہ ہے اور محبوب بھی دھرتی کا حصہ ہے۔
چاندنی اس کا بدن، چاند ہے اس کا چہرہ
دھان کی کھیتیاں آنکھوں کے حسیں تال اس کے
آئے وہ دن کہ کشتِ فلک ہو ہری بھری
بنجر زمیں پہ میلوں تلک سبز پہ میلوں تلک سبز گھاس ہو!
آسماں پر اَبر پارے کا سفر میرے لئے
خاک پر مہکا ہوا چھوٹا سا گھر میرے لئے
اوپر بجھے ستاروں کی بکھری ہوئی تھی راکھ
نیچے گھنے درختوں کا جنگل جلا ہوا
آسمان کو دھرتی جیسا محسوس کرنے کا انداز غزل کے مقابلے میں وزیر آغا کی نظم میں زیادہ واضح ہے۔
” کہو کون تھا وہ؟
کہ جس نے کہا تھا
ستارے فقط پات ہیں
کہکشائیں
گندھی نرم شاخیں ہیں
آکاش
اک سبز چھتنار
ہر شے پہ سایہ کناں ہے
مگر اس کی جڑ
اس کے اپنے بدن میں
نہیں ہے!“
(آدھی صدی کے بعد)
یہ سب وزیر آغا کی دھرتی سے قربت اور مظاہر فطرت سے ان کی محبت کے اظہار کی صورتیں ہیں۔ جدید خلائی تحقیقات اور نت نئے انکشافات بھی وزیر آغا کی غزل پر اثر اندا زہوئے ہیں۔
کیسے کہوں کہ میں نے کہاں کا سفر کیا
آکاش بے چراغ ، زمیں بے لباس تھی
تم گود سے زمین کی اترے تو ہو مگر
کھیلو گے کس کے ساتھ خلا کے غبار میں
کائنات کی بے پناہ وسعت کا احساس ،کہکشاﺅں کے کروڑوں، اربوں جھرمٹ، سپر نووا، نیو ٹران اسٹار، بلیک ہولز اور پھر ان سے بھی آگے ہی آگے ایک بے انت سلسلہ! اس سارے سلسلے میں ہماری زمیں۔۔ کیا حیثیت رکھتی ہے۔
اک پرندہ ہے یہ زمیں، دیکھیں
کس شجر پر یہ بے زباں پہنچے
اور باقی اربوں کھربوں ستاروں کی کیا حیثیت بنتی ہے:
کہکشاﺅں میں تڑپتے تھے ستاروں کے پرند
سبز آکاش پہ ہر سو تھے بچھے جال اس کے
بنائے تو نے ستاروں سے گھر ہزاروں بار
مگر ہو ا نہ کبھی تجھ سے آسماں آباد
یہ کائنات اتنی بے انت اور بے پناہ ہے تو خالق کا ئنات کیا ہوگا؟ خدا کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ ہم نے صفا ت کے وسیلے سے اسے سمجھنے اور اس تک پہنچنے کی کوششیں کی ہیں۔ خدا کو سمجھنے کے لئے حضرت علیؓ کا ایک قول بڑا منفرد اور اہم ہے:
”کمال التوحید نفی عن الصفات“ توحید کا کمال تب ظاہر ہوتا ہے جب صفات کی بھی نفی ہو جائے۔ صفات بھی بہت نیچے رہ جائیں ۔ وزیر آغا نے توحید کی اس رمز کو سمجھا ہے اور بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے:
رنگ اور روپ سے جو بالا ہے
کس قیامت کے نقش والا ہے
میں وزیر آغا کی غزل کے علامتی نظام کی وضاحت یا اشعار کی تشریح میں نہیں پڑنا چاہتا ۔ میں نے وزیر آغا کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے جو لطف اٹھایا ہے بس اس میں قارئین کو بھی شریک کرنا چاہا ہے ۔ اس کاوش میں کہیں کوئی وضاحت یا تشریح ہوتی محسوس ہو ئی ہوتو ایسابلا ارادہ ہوا ہے۔ میرا مقصد تو صرف اتنا ہے کہ غزل کے اچھے قاری وزیر آغا کی غزل کو دیکھیں اور بغیر مطالعہ کے یک طرفہ” ذوقی“ پروپیگنڈہ سے متاثر ہو کر کوئی نتیجہ نکالنے سے پہلے ان غزلوں کو پڑھ لیں۔آئیے وزیر آغا کی غزلوں کے چند اشعار پڑھتے ہیں:
دامن دریدہ تم ہی نہیں تھے فقط وہاں
بے آبرو کھڑے سر بازار ہم بھی تھے
کہنے کو چند گام تھا یہ عرصۂ حیات
لیکن تمام عمر ہی چلنا پڑا مجھے
لکھّا گیا ہوں لوح بدن پر ہزار بار
کاتب بدل گئے ہیں مگر میں قدیم ہوں
اپنی عریانی چھپانے کے لئے
تو نے سارے شہر کو ننگا کیا
سحر تھی سادہ ورق، آفتاب کاتب تھا
ظہورِ عالم ِ امکاں کتاب ایسا تھا
بے خطا بھی تو گزرا ہے زمانہ ہم نے
اب خطا کار ہوئے ہیں تو خطا کار رہیں
آنکھ بے پردہ تھی اس کی ، ہونٹ بے زنجیر تھا
سلسلہ الفاظ کا چلتی ہوئی شمشیر تھا
اک تم ہو جو دکھ کو ٹھوکر ما ر کے آگے بڑھتے ہو
اک ہم ہیں جو سینے میں اس دکھ کو بلونے لگتے ہیں
مجھ سے بچھڑا تو ہوا اس کو نہ پھر چین نصیب
کبھی فرسنگ ، کبھی کتبۂ فرسنگ تھا وہ
اب تو آرام کریں سوچتی آنکھیں میری
رات کا آخری تارا بھی ہے جانے والا
ہزاروں بار پہلے بھی گرے تم
مگر اس بار پتھر ہو گئے ہو
کس کی آواز میں ہے ٹوٹتے پتوں کی صدا
کون اس رُت میں ہے بے وجہ سسکنے والا
چلتا رہا ہوں اپنی ہی جانب تمام عمر
تو نے غلط کہا کہ میں گھر سے نکل گیا
اک بار ہم نے پار کیا چُپ کا ریگ زار
پھر عمر بھر اٹے رہے لفظوں کی دُھول میں
مجھے یقین ہے وزیر آغا کی غزل اپنے عصر کو عبور کرنے کے بعد زیادہ با معنی ہو جائے گی اور ایک عرصہ تک اس کے منفرد لہجے اور ذائقے سے نئی غزل کی عزت اور توقیر بنی رہے گی۔ میں اس عہدکے ” ذوق“ کا دور گزرنے کے بعد کے زمانے کی بات کر رہا ہوں۔
وہ زمانہ جس کے قدموں کی چاپ ابھی سے سنائی دے رہی ہے!