وزیر آغا کی طویل نظم”آدھی صدی کے بعد “ آج سے نو سال پہلے شائع ہوئی تھی اس نظم کو میں نے کئی بات پڑھا اور ہر بار ایک نیا لطف اٹھایا اس کا تاثراتی سحر ایسا تھا کہ میں اس سے لطف اندوز تو ہوا مگر کوشش کے باوجود اس کے بارے میں کوئی مضمون لکھنے سے قاصر رہا۔ اب وزیر آغا کی ایک اور طویل نظم” اک کتھا انوکھی“ چھپ کر آئی ہے تو یوں لگا ہے جیسے میں اب ”آدھی صدی کے بعد“ پر مضمون لکھنے کی خواہش پوری کرسکوں گا۔
” آدھی صدی کے بعد” وزیر آغا کی منظوم آپ بیتی ہے جبکہ” اک کتھا انوکھی“ منظوم جگ بیتی ہے آپ بیتی کا کمال یہ ہے کہ اس میں جگ بیتی کی ایک زیریں لہر ساتھ ساتھ چلی جاتی ہے۔ جبکہ موجودہ جگ بیتی کا کمال یہ ہے کہ اس میں آپ بیتی کی ایک زیریں لہر ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ دونوں نظموں کے سفر اندر کے رستے سے طے ہوئے ہیں۔ ”آدھی صدی کے بعد“ میں پانی کا دھارا ایک تمثیل کے طور پر آیا ہے جو جھرنا ، ندی اور دریا کے چینل سے گزر کر سمندر کا روپ بنتا ہے۔” اک کتھا انوکھی“ میں بھی ابتداً پانی کے طوفان کا ذکر آیا ہے:
”تجھ کو شاید خبر نہیں ہے
پہلے بھی اک ایسا ہی
طوفاں آیا تھا
تب اک بیج کی کشتی میں تُو
پانی کی شکنوں پر چلتا
ایک پہاڑ پہ جا پہنچا تھا
ایک نیا انکھوا
پھوٹا تھا
ایک نیا سورج نکلا تھا“
لیکن اس سے آگے چلیں تو اس عہد کا المیہ رونما ہوتا ہے، پانی کی جگہ آگ لے لیتی ہے:
”آج وہی طوفان
نئے انداز میں ہم پر ٹوٹ پڑاہے
لیکن اب کی بار یہ طوفاں
اگنی کاہے
جلے ہوئے کیسر کے ڈنٹھل
شعلوں کے گرداب
ہوا کا شور
گھنے بادل کے تن پر
دھڑ دھڑ پڑتے
آگ کے درّے
ایک عجب کہرام بپاہے“
”آدھی صدی کے بعد “ میں مظاہر فطرت کی رنگینیاں اور شادابیاں نمایاں ہیں، صرف چند مثالیں:۔
”دن کا پچھلا پہر
اور اوڈیسس
اوڈیسس کے جرار ساتھی
چری، باجرے، دھان اور نیشکر
کے پر اسرار کھیتوں کا کالا سمندر“
”مگر چاروں جانب
مہکتے ہوئے گرم تنور
نہر کی کوکھ….
کھیت کی مینڈھ
شب کی کالی قبا
ہر طرف
ہر جگہ
الجھے بالوں، چمکتی ہوئی
تیز آنکھوں میں
بچپن
خنک چاندنی کی طرح
آج بھی موجزن ہے
زمانے کی رفتار پر خندہ زن ہے“
”پرندے کی منقار پر بیٹھ کر
چہچہاتا ہے
دیپک کی لوپر
ہمکتا ہے
تارے کے بھیگے پروں پر
زباں کی لرزتی ہوئی نوک پر
اس کی روشن صدا
گونجتی ہے“
”آدھی شام
پھولوں کا گجرا بنی
روبرو آکے رکتی
ادھر میں بڑے باغ کے
سرد پھولوں کی جانب لپکتا“
”مگر پھر
کوئی اڑتی سرگوشی، تتلی
نجانے کدھر سے مری سمت آتی“
” میں سورج تھا
اور سبز ریشم میں ملبوس
ماتھے پہ جھومر سجائے
یہ دھرتی مرے گرد پھرتی تھی“
”اک کتھا انوکھی“ میں آئرن ایج کا المیہ فطرت کے حسن کی تباہی کا نوحہ بن جاتا ہے:۔
”سورج میں کالک آگ آئی
چاند کا ہالہ ٹوٹ گیا
دیکھ کہ گھاس جلی جھلسی ہے
ندیوں میں جل سوکھ گیا“
”گلشن بے آباد ہیں سارے
ریت کے دھارے
ریت کے دھارے تیل کے دھارے بن کر
ابل پڑے ہیں
لوہا جیسے جاگ اٹھاہے
چہک رہا ہے
چاروں جانب کوک رہا ہے
تتلی، بھنورا، کوئل، چڑیا
سب لوہا ہے
لوہے کے پَر اُگ آئے ہیں“
”آدھی صدی کے بعد “میں دھرتی کی زرخیزی یوں ابھری ہے:
”عجب روشنی تھی!
مہکتے ہوئے سبز باغات
پنچھی
کسانوں کے گھر
کھیتیاں
میرے دامن پہ
گوٹے کناری کی صورت دمکتی تھیں
میں ساری دھرتی کو
سینگوں پہ اپنے اٹھائے
کھڑا تھا
مرے دَم سے
گندم کے خوشبو میں دانے تھے
اشجار بارِ ثمر سے جھکے تھے“
مگر ”اک کتھا انوکھی“ میں لوہے کے راج نے دھرتی کو بانجھ کر دیا ہے:
” یہ کلجگ ہے
کلجگ ۔جو سرطان کی صورت
پھیل چکا ہے
دھواں اگلتے ، آہیں بھرتے
بوڑھی ، بانجھ ملو ں کے پنجر
کھمبوں کی صورت
دھرتی کے اندر سے جیسے اُگ آئے ہیں“
”دھرتی جننا بھول گئی تھی
لوہا سر پر اک فولادی تارج رکھے
اس دھرتی کا سرتاج ہوا تھا
وہ دن اور پھر آج کا دن
اس دھرتی پرنہ رات آئی
نہ دن نکلا
نہ شام ہوئی ہے
ایک مسلسل آندھی
بے آرام ہوئی ہے“
پانی کی روانی ارتقاءکی کہانی ہے۔ پانی رک جائے تو جو ہڑ بن جاتا ہے۔ محبت اور انسانیت بھی پانی کی طرح ہوتے ہیں۔”آدھی صدی کے بعد“ میں وزیر آغا نے اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے:
”وہ دریا نہیں تھے
فقط چھوٹے چھوٹے سے جوہڑ تھے
ٹھہرے ہوئے باسی پانی کے
اندھے گڑھے تھے
سنگھاڑوں، جڑی بوٹیوں
سوکھے، گنجان جھاڑوں سے
لپٹے پڑے تھے
اسے یوں لگا
جیسے پانی رواں ہو تو پانی ہے
ورنہ غلاظت سے لبریز
اندھا گڑھا ہے
فقط ایک اندھا گڑھا !“
”اک کتھا انوکھی“ میں”آدھی صدی کے بعد“ کا یہ اشارہ کھل کر بیان ہوا ہے یہ ایک سطح پر ہمارا قومی المیہ ہے تو دوسری سطح پر پوری دنیا کے انسانوں کا المیہ ہے۔ آج کا انسان اپنے تعصب کی نجاستوں میں گھرا پوری انسانیت کو تباہی کے دہانے پرلے آیا ہے:
”تو کہتا ہے
چپ کی تہہ در تہہ سلوٹ میں
انسانوں پر کیا بیتی ہے
کس نے ان کی رکھشا کی ہے؟
میں کہتا ہوں
ان کو رکھشا کی حاجت ہی کیا ہے
یہ سب
نسلی پاگل پن کی رکھشا میں ہیں!
ساگر جس نے
ان کیڑوں کو جنم دیا تھا
اب اک گندا جوہڑ بن کر
ان کے اندر کے جوہڑ سے
آن ملا ہے
ساگر کا اپمان ہوا ہے
ساگر ماں ہے
ماں ہتھیا
اس کلجگ کا ایمان ہوا ہے“
نسلی پاگل پن قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر ہمارے سامنے ہے۔ یہاں”ساگر“ کے معنوں میں بڑی وسعت پیدا ہو گئی ہے۔ مذہبی طور پربھی یہی تصور ہے کہ انسان کو پانی سے پیدا کیا گیا ۔ سائنسی طور پر بھی یہی کہا جاتا ہے کہ زندگی کی پیدائش سمندر سے یاپانی سے ہوئی…. اب وہی سمندر ایک طرف صنعتی دور کی آلودگیوں کا شکار ہے دوسری طرف بڑی طاقتوں نے اپنی بحری قوتوں کو حد سے زیادہ بڑھا لیا ہے۔ گویا دوسروں پر غالب آنے اور ان پر قابض ہونے کی ہوس جو اندر کے جوہڑ میں بدل چکی ہے اس نے کھلے سمندر کو بھی جوہڑ میں تبدیل کر دیا ہے۔
جنگل ثقافت کی علامت ۔” آدھی صدی کے بعد“ میں ہماری ثقافتی خوبصورتی یوں ابھرتی ہے:
”معا ً میں نے دیکھا زمیںپر ہوا تھی
ہوا کے تڑختے ہوئے فاصلے تھے
مگر سبز دھرتی کی
ٹھنڈی تہوں میں
جڑوں کی پرُاسرار وحدت تھی
سب فاصلے
ایک نقطے میں سمٹے ہوئے تھے
ہزاروں جڑیں
ایک ہی جڑ سے پھوٹی تھیں،
آگے بڑھی تھیں
مگر جڑ سے ایسی جڑی تھیں
کہ چلنے کے عالم میں
ٹھہری ہوئی تھیں
یہ ساری جڑیں
سبز دھرتی کی اپنی جڑیںتھیں
جو خود اس کے گیلے بدن میں
اترتی گئی تھیں۔“
”اک کتھا انوکھی“ میں جنگل کے وسیلے سے عالمی ثقافتی بحران بلکہ ثقافتی تباہی کا دکھ یوں بیان ہواہے:
” اور اب ….یہ سب
گندے کیڑے
جنگل پر بھی جھپٹ پڑے ہیں
جنگل جس نے کتنا ان سے
پیار کیا تھا
ان کی کتنی نسلوں کو پالا پوسا
آباد کیا تھا
اب یہ اس جنگل کو
اپنے ساتھ ستی ہو جانے پر
مجبور کریں تو بول
یہ کیسا انیائے ہے!
جنگل جنگل آگ لگی ہے“
”دھڑ دھڑ جلتے جنگل میں ہم
ننگے پیروں چلتے
اپنے آپ کا اک مدھم سا عکس
ہوا کا لمس بنے ہیں
ہم اب راکھ ہیں اور
ہم سب نے
اپنی راکھ کو
اپنے ہی تاریک مکھوں پر
تھوپ لیا ہے،
آنسو کی بے نام نمی سے
اپنی پیاسی”پیاس“ کو بے زنجیر کیا ہے“
جنگ کی علامت کے ذریعے ثقافتی تباہی کے ذکر کے بعد اس کے سبب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
”سونے والے !
تو گم صم، بے ہوش پڑا تھا
اور ہم روگی جاگ رہے تھے
یک دم
ایک پہاڑ پھٹا تھا
اور بلائیں
چیخوں کی صورت نکلی تھیں
کومل، میٹھی آوازوں پر جھپٹ پڑی تھیں،
بم، راکٹ، جٹ، جمبو، باجے بھڑک اٹھے تھے“
” آدھی صدی کے بعد “میں زندگی کی دھڑکن ایک مدھر گیت کی صورت ابھرتی چلی جاتی ہے:
”ٹٹیری کے رنگین انڈوں
حسیں چھتریوں والی کھمبوں
چھنکتے ہوئے
ہریلوں، نیل کھنٹوں، بھجنگوں
کے اجلے پروں کے لئے
اک انوکھی تڑپ
ننھے سینوں
کے جھرنوں کے اندر
چھلکتی ہوئی بے قراری
سمندر کے اندر سمندر!“
” نگاہوں میں نشہ
لبوں پر دہکتی ہوئی ایک لرزش
ہر اک شے کو چھونے کی
اور چوم لینے کی بے نام خواہش
لہو بن کے
نیلی رگوں میں رواں تھی“
” چاروں طرف
ریشمیںڈوریاں ندیاں
مجھ کو تھامے کھڑی تھیں
مرے سامنے ایک بانکا ، سجل تیز دریا تھا
دریا
جو ریشم کا دھاگا تھا
سوزن تھا
اپنے ہی دونوں کناروں کو پیہم رفو کر رہا تھا
زمیں کے ادھڑتے ہوئے چاک کو
سی رہا تھا“
” وہ چھِن بھر میں
کتنا بڑا ہو گیا تھا!
جواں ندیاں
سست دریا
سبھی دست وبازو تھے اس کے
مہک اس کی
کھیتوں، گھنے جنگلوں
سبز چوغوں میں ملبوس ٹیلوں
دھڑکتے مکانوں
چمکتے ہوئے تازہ جسموں میں
پھیلی ہوئی تھی“
لیکن ” اک کتھا انوکھی“ میںدل کی دھڑکن جیسے رک سی گئی ہے۔انسان انسان نہیں رہا مشین یا روبوٹ بن گیا ہے:
”سونے والے!
جب دھرتی پر
آوازوں کا شور اٹھا تھا
اور فولاد کا راج ہوا تھا
انساں سارے
لوہے کے روبوٹ بنے تھے
بے چہرہ، بے نام ہوئے تھے
کالے، پیلے ہند سے بن کر
لفظوں کے ا نکھووں پر جیسے ٹوٹ پڑے تھے
اک اک ”لفظ“ پہ ثبت ہوئے تھے
اور اب
ہند سے ہی ہندسے ہیں
جمع کرو تو دگنے تگنے ہو جاتے ہیں
لاکھوں کا اک لشکر بن کر
آگ اور خون کے کھیل کا منظر
دکھلاتے ہیں
ضرب لگے تو
بھنور سا بن کر تیز ہوا کا
پاگل بھوتوں کے
وحشی گرداب کی صورت
ایک ہی پل میں دھرتی اور آکاش سے اونچے اٹھ جاتے ہیں
گرو اگر تفریق ، صفر ہو جاتے ہیں“
سوال یہ ہے کہ کیا وزیر آغا جدید سائنس، اس کی ترقی اور فیوض وبرکات سے انکار کر رہے ہیں؟ صنعتی ترقی، راکٹ، جمبو جٹ۔۔کیا وزیر آغا نے ان حقائق کو جھٹلایا ہے؟
وزیرآغا کو پوری طرح پڑھنے والے جانتے ہیں کہ وہ مذہب، نفسیات، اساطیر اور تاریخ تہذیب کو بھی جدید ترین انکشافات کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور علم الحیات، علم الانسان، طبیعات فلکیات غرضیکہ تمام علمی دھاروں سے بڑی حد تک آگاہ رہتے ہیں۔ وہ نہ صرف جدید علوم اور جدید ترین انکشافات میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ ادب کو ان سے ہم آہنگ بھی کرتے ہیں ۔ اس لئے وہ جدید سائنس کی برکات سے انکار نہیں کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے یہ بتایا ہے کہ جس کسی بہت زیادہ مفید شے کا منفی استعمال بہت زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے اسی طرح صنعتی ترقی کے منفی استعمال نے انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، صنعتی ترقی نے شہروںکو پھیلا دیا ہے ، دیہاتوں اور جنگلوں کو ختم کیا ہے۔ حرص وہوس نے مادیت پسندی کو فروغ دیا ہے۔ جس میں روحانی اور اخلاقی قدریں پامال ہو رہی ہیں۔ نفسانفسی کے اس ماحول نے نفرتوں اور عصبیتوں کو جنم دیا ہے۔ ایٹم، نیپام، نیوٹران۔۔ظاہر ہے ہوس پرستوں نے یہ تباہ کن بم ڈیکوریشن پیس کے طور پر تیار نہیں کرائے۔ انسان کی بے حِسی کا یہ عالم ہے کہ اس کے سینے میں اب دل نہیں دھڑکتا بلکہ وہ اب روبوٹ ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کی پہچان کے مقامی ثقافتی دائرے سے لے کر عالمی ثقافتی دائرے تک سب نشان مٹتے جا رہے ہیں۔ حرص وہوس اور نفرت کے پاگل پن کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔
اس ساری صورت حال نے انسان کے اندر کی روحانی اور تخلیقی روشنی کو بجھا دیا ہے۔ لفظ غیر اہم ہو گئے ہیں اور ان کی جگہ ہندسوں نے لے لی ہے۔ در اصل وزیر آغا نے کرّہ ارض کے تخلیقی لحاظ سے بانجھ ہو جانے پر اپنے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ لیکن بے یقینی اور خوفناک حالات کے باوجود مایوس بھی نہیں ہیں۔ منفی صورتحال کو پیش کرنے کے بعد وہ دعائیہ انداز اختیار کرتے ہیں اوران کے اس دعائیہ انداز میں قبولیت دعا کا یقین شامل ہے:
”سونے والے
باہر آ
اور امرت رس سے بھراہوا
مہتاب کا کاسہ
سورج کے ہاتھوں سے لے کر پی
کہ تیری آنکھ سے پھر
کرنوں کا سونا
چشمہ بن کر پھوٹ بہے
اس میرے جگ کو
نئے جنم کی ملے بشارت
میرے مورکھ دل کو بھی آنند ملے
میری آنکھ بھی
کشتی کا بہروپ بھرے
پال اڑا کر
نورانی موجوں پر سفر کرے
بجھے ہوئے اس میرے قلم کی
نوک پہ بھی اک
پربت جتنے
شبنم ایسے
لفظ کا دیپ جلے
اِک ”لفظ“ کا دیپ جلے!“
”آدھی صدی کے بعد“ اور ”اک کتھا انوکھی“ کے موضوعاتی مطالعہ سے ہٹ کر ان نظموں کی ایک خوبصورتی یہ ہے کہ یہ اپنے ثقافتی پس منظر سے ابھر تی ہیں اور عالمی ثقافتی دائرے تک جاتی ہیں۔” آدھی صدی کے بعد “ میں بر صغیر کی بعض قدیم روایات کے حوالے بھی آئے ہیں۔ مثلاً سوئمبر، لچھمن ریکھا اور یم راج۔ اور برصغیر سے باہر کے بعض حوالے بھی آئے ہیں: مثلا اوڈیسس، قاف اور شانگری لا۔ ” اک کتھا انوکھی“ میں اس سلسلہ میں خاصی وسعت آئی ہے ایک طرف تو اس میں ماں پترو اور کنڈ کانگڑی کے دو اہم حوالے آئے ہیں جو کشمیری علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسری طرف آئسس، شمس، زیوس اور شیو کے ناموں سے مصری ، سمیری، یونانی اور ہندی تہذیبوں کے قدیم ترین حوالے ابھرتے ہیں۔ ”اک کتھا انوکھی“ کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں ایک بھی اضافت استعمال نہیں کی گئی اور فارسی کے اثرات کی بجائے مقامی اثرات زیادہ نظر آتے ہیں۔
وزیر آغا کی تمام نظموں میں بالعموم اور ”آدھی صدی کے بعد“ اور ”اک کتھا انوکھی“ دونوں نظموں میں بالخصوص جو امیجری آئی ہے اس میں اتنی تازگی، شگفتگی، اور یجنلٹی اور RICHNESSہے جو جدید نظم میں اور کہیں نظر نہیں آتی ۔ دونوں نظموں سے اس کی چند مثالیں پیش ہیں جو میرے اس دعوے کی دلیل ہیں۔
پہلے” آدھی صدی کے بعد“ سے مثالیں:
”معا“ بیل گاڑی سے میں کود کر
بانہیں کھولے ہوئے اپنے گھرمیں
لپک کر گھسوں
ماں کے سینے سے ٹکراﺅں
ہونٹوں کے حیرت سے کھلنے کا
اور پوکے پھٹنے کا منظر
میں دیکھوں“
”نہر میں کودتے
ننھے ، منے برہنہ بدن
”گاچنی“ ایسے پانی میں
گرتی ہوئی تختیاں
مردہ لفظوںکے بہتے ہوئے
پھول
اور پتیاں
دھوپ کی قاش ایسے
سنہری بدن
زرد پانی میں جیسے ہمکتا چمن!“
” گلیوں کے غاروں
مکانوں کی درزوں
کلس اور مینار کی رفعتوں سے
مجھے جیسے آواز دیتا تھا کوئی
یہ کہتا تھا:
تو
شہر کا دل ہے،
دل میں
لہو کی تڑپتی ہوئی بوند ہے
تجھ پہ سارے جہاں کی نگاہیں جمی ہیں۔
تو پلکیں اٹھا
دیکھ
سارا زمانہ تجھے دیکھتاہے“
” مجھ کو محسوس ہوتا کہ سارا فلک
ایک ٹوٹا ہواآئنہ ہے
ستارے
چمکتی ہوئی کرچیاں ہیں
میں خود ہر ستارے کی کرچی میں ہوں
جیسے کمسن زمیں
اور بوڑھا فلک
اور معصوم تارے
سبھی میرے ہم راز
سب میرے اپنے ہیں
میں سبز مخمل کی مسند پہ بیٹھا ہوں
تینوں زمانے
مرے سامنے
دست بستہ کھڑے ہیں“
”کہاں پھر رہے ہو؟
یہاں لفظ کا کوئی معنی نہیں ہے
یہاں تو فقط گیلی مٹی ہے
مٹی کی شکلیں ہیں
بارش کا پہلا ہی چھینٹا پڑا
تو پگھل جائیں گی
اور کیچڑ سے بازار
بھر جائیں گے
تم بھی مٹی کے پتلے ہو
برکھا کے آنے تلک
اپنی صورت کو باقی رکھو
تم بھرم اپنے ہونے کا باقی رکھو!“
” خوشی
سرہنہ، اکیلی، جواں
اک کنارے پہ روتی تھی
اور بین کرتی تھی
دکھ اپنا لشکر لئے
دوسرے گھاٹ پر
خیمہ زن، شادماں
اور میں
دکھ کی ننگی خوشی
اور خوشی کی سلگتی ہوئی پِیٹر
کے درمیاں
اک نشاں
جیسے لچھمن کی ریکھا
جسے پاﺅں کی نوک چھُولے
تو تاریخ کا رُخ بدلنے لگے“
”دریا مگر مطمئن تھا….
گھسے تیز پہیوں،پَروں
سیٹیوں کے
لگا تار حملوں سے
محفوظ
پانی کے بے نام دھاروں میں
ڈھلتا
سمندر کی تہہ میں
اترنے لگاتھا
کسی طفلکِ گمشدہ کی طرح
ہاتھ پھیلائے
روتی ہوئی مادرِ مہرباں کی طرف
جارہا تھا
پہاڑوں کے دامن سے
ادھڑے ہوئے ساحلوں تک
وہ ہر دم سفر میں تھا
ہر دم
رُکا بھی ہوا تھا
سمندر کی جانب رواں تھا
مگر خود
سمندر کا پھیلا ہوا یک بازو بھی تھا
سب نے دیکھا
پہاڑوں کے شانوں پہ
اک ہاتھ رکھے
وہ اپنی ہی سوچوں میں
گم
اک فروزاں سے لمحے میں
ڈوبا ہوا
کس قدر شانت
کتنا بڑا ہوگیا تھا!“
” وہ بڑ
کب کا صحرا کے سینے میں گم ہو چکا ہے
مگر آج میں جانتاہوں
وہ میری ہی تصویر تھا میرا اوتار تھا
میرا چہرہ تھا وہ
میں نے خود اس کو بھیجا تھا
اپنی طرف
اسے خود بلایا تھا اپنی طرف!“
”کہو کون تھا وہ؟
کہ جس نے کہا تھا
ستارے فقط پات ہیں
کہکشائیں
گندھی نرم شاخیں ہیں
آکاش ، اک سبز چھتنار
ہر شے پہ سایہ کناں ہے
مگر اس کی جڑ
اس کے اپنے بدن میں
نہیں ہے“
”آدھی صدی کے بعد“ کی امیجری کے بعد اب ”اک کتھا انوکھی“ کی امیجری دیکھیں:
” رشتے
بانکی موجوں ایسے
لپک جھپک کر آئیں
پل بھر رک کر
گرہ بنائیں
پھر ساحل کی سِل پر
گر کر
کرچ کرچ ہوجائیں“
” اس نے جسے کروٹ لی ہے
اور پوچھا ہے
کہاں ہوں میں؟
کیا سمے ہوا ہے؟
اس بے انت گھنیری بوجھل نیند سے پہلے
رانجھن، سوہنی، مرزا، رادھا، پنوں۔۔ سارے
شبنم کے نمناک ستارے
ان میں سے بھی کوئی بچا ہے؟
” کون بچا ہے“؟
آنسو پی کر
رندھی ہوئی آواز میں اس سے
میں کہتا ہوں!
آنکھیں کھول کے باہر آ
اور دیکھ کہ گلیاں سب
اجڑی ہیں“
” وہ کہتا ہے
یہ سب کیسے ہوا ہے بھائی
میں جب سویا
ہر شے جاگ رہی تھی
پھولوں میں رس
ندیوں میں چاندی بہتی تھی
دریاﺅں کے پاٹ کشادہ
پیڑوں پر پھل، پھول لگے تھے
گائے گا بھن، گری لباب
نارکی گودہری تھی
راجہ خوش تھا
پرجا خوش تھی
دھرتی جیسے کنول کی صورت کھلی ہوئی تھی“
” اور ہم
جواَب پُرش نہیں ہیں
اپنی اپنی قبروں پر ہم
نصب ہوئے ہیں
ہم جواُڑتی کالک اور
آواز کے چاک سے اترے ہوئے
کوزوں کے نقش ہیں
اپنے آپ کی پرچھائیاں ہیں“
” جب سے ہم
اندر سے کٹ کر
باہر میں آباد ہوئے ہیں
بھاری بوجھل آوازوں کے
قدموں میں پامال ہوئے ہیں
اور ہماری آنکھیں جب سے
اگنی وش
کی برکھا سے دوچار ہوئی ہیں
آتش بازی کے منظر کا حصہ بن کر
خود بھی آتش بار ہوئی ہیں
اندر والے دیپ کی
بھیگی خوشبو سے ناراض ہوئی ہیں“
” نیند کے ماتے!
دیکھ! ….وہ سندر دھوپ
وہ اونی شال
جسے ہم اوڑھ کے روز پھرا کرتے تھے
دھوپ کہ جس کے لمس میں
ماں کے نرم گداز لبوں کی شیرینی تھی
جس کے سانس میں مرغابی کے پرکی گرمی
کچی نرم سگندھ کلی کی
رچی بسی تھی“
”آدھی صدی کے بعد“ زندگی اور اسکے حقائق سے بے خبر نہیں ہے۔ لیکن ماضی کی خوبصورت یادوں کے باعث اس پر ایک خواب ناک فضا چھائی ہوئی ہے، جس سے نظم کے حسن میں اضافہ ہو ا ہے۔ لیکن نصف صدی سے بھی کم عرصہ میں اس دھرتی پر جو تیز تر تبدیلیاں آئی ہیں اور جن کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ، ان تلخ حقائق نے وزیر آغا کو خوابناک فضا سے نکال کر جگ بیتی رقم کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ ” اک کتھا انوکھی“ انہیں تلخ حقائق کا شیریں ثمر ہے۔ اس نظم کے دوکردار سویا ہوا انسان اور اسے جگانے والا دونوں ایک ہی وجود ہیں اور ظاہر وباطن کی علامت ہیں۔ ہمارے بیشتر دکھوں کا سبب یہ ہے کہ ہم نے اپنے اندر کے شخص کو مار ڈالا ہے یا سلا رکھا ہے۔ وزیر آغا نے اس نظم کے اسلوب سے در اصل ہمیں اپنے اندر کو بیدار کرنے کی تحریک دی ہے، کیونکہ اس کی بیداری ہی میں ہمارے مسائل کا حل ہے:
”سونے والے!
تو جب خود کو اوڑھ کے سویا
کانوں کے پٹ
اندر کی جانب کُھلتے تھے
کومل ، میٹھی آوازیں تب
اندر سے دستک دیتی تھیں
اندر جو پریوں کا مسکن
آئسس، شمس، زیوس، شیو۔ سب کی
آوازوں کا ایک نگر تھا
خود ”باہر“ بھی
جس ”اندر “ کا
اک حصہ تھا!“
وزیر آغا کے نزدیک ہمارا ”اندر “ سے کٹ کر”باہر“ میں آباد ہونا ہی ہمارے عذابوں کا سبب بنا ہے۔ ”اندر“ لفظ تخلیق کرتا ہے ”باہر“ اسے ہندسوں میں تبدیل کر دیتاہے۔ اسی سے تخلیقی لحاظ سے بانجھ پن پھیلا ہے۔ ”سونے والا“ بیج کی چھال میں لپٹاہواہے۔ بیج تخلیقیت کی علامت ہے او ر سونے والے کو بیدار کرنا بانجھ پن کو ختم کرنے کا عزم ہے۔ یوں یہ نظم اس دھرتی کے مسائل کے ساتھ ادب کے ایک اہم اور بنیادی مسئلے پر بھی بحث کرتی ہے اور اس کا حل سامنے لاتی ہے۔
”آدھی صدی کے بعد “اور ” اک کتھا انوکھی“ دونوں نظمیں وزیر آغا کے اندر کا سفر نامہ ہیں۔ پہلی نظم ماضی سے حال تک آتی ہے اور اس میں آپ بیتی غالب ہے جبکہ دوسری نظم حال میں رہتے ہوئے ماضی کو چھو کر مستقبل تک لے جاتی ہے اور جگ بیتی بن جاتی ہے۔ دونوں نظمیں وزیر آغا کی بہترین نظمیں ہی نہیں جدید ادب کی اعلیٰ ترین اور خوبصورت ترین نظمیں ہیں۔” آدھی صدی کے بعد“ نے نو سال کے عرصہ میں جدید نظم نگاروں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ” اک کتھا انوکھی“ بھی جدید نظم نگاروں کی ایک نسل کو متاثر کرے گی اور نظم نگاری میں مزید تبدیلیاں پیدا کرے گی۔
بلاشبہ وزیر آغا جدیداردو نظم کے مجتہد اور جدید تراردو نظم کے پیش رو ہیں۔