وزیر آغا کی سوانح عمری ” شام کی منڈیر سے “ شائع ہوئی ہے تو اس سے عام قارئین کے لئے وزیر آغا کی زندگی کے کئی پہلو سامنے آگئے ہیں۔ ان تمام پہلوﺅں کی خوبی یہ ہے کہ ان کے پس منظر سے وزیر آغا کی تخلیقات کا ایک نیا جہانِ معنی طلوع ہوتا نظرآتا ہے۔
میں وزیر آغا کی طویل نظم ” آدھی صدی کے بعد“ کا ایک ایسا قاری ہوں جو ایک عرصہ تک اس نظم کے اقتباسات مزے لے لے کر پڑھا کرتا تھا۔ میں اس نظم پر تفصیل سے لکھنے کا متمنی تھا (اور ہوں) لیکن اس کا شعری حسن اتنا مسحور کر دیتا ہے کہ میں سرتا پا ایک لطیف تاثر میں بھیگ جاتا ہوں اور یوں ابھی تک اس کے تجزیہ کی صلاحیت سے محروم ہوں۔ ”شام کی منڈیر سے“ میں ” آدھی صدی کے بعد“ کی بہت ساری باتیں نثری پیرائے میں کی گئی ہیں بلکہ ایسے احوال جو نظم میں اشارتاً بیان ہوئے تھے نثر میں بالتفصیل آگئے ہیں۔
وزیر آغا نے اپنے بچپن کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے شرمیلے پن کی کہانی بیان کی ہے۔
”میں بچپن میں بہت شرمیلا تھا۔ میرا خیال ہے اس کی بڑی وجہ جسمانی کمزوری تھی…. اگر جسم کمزور ہو تو انسان خود میں سمٹ جاتا ہے“ ۔
”میں نہایت موّدب ، کم گو اور شرمیلا تھا۔ اس قدر کہ اسکول کی سالانہ تقریبِ انعامات میں مجھے” خاموشی“ کا انعام ملا۔ اب سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ بہت برا ہوا کیونکہ خاموش رہنے کا انعام پاکر میں نے سوچا کہ یہ کوئی بہت بڑا وصف ہے۔ چنانچہ میںمزید خاموش ہو گیا ۔ اور میری فطری جھجک مجھے خاموش پاکر مزید دلیر ہو گئی“۔
شرمیلے پن کے باعث وزیر آغا کو ابتدائی زندگی میں یقینا بہت سی چھوٹی چھوٹی الجھنوں سے واسطہ رہا ہوگا۔ لیکن اسی شرمیلے پن کے باعث ان کے ہاں اندر کی غواصی کا عمل شروع ہو ا،جو اس درجہ مستحکم ہوا کہ اس کا حاصل وزیر آغا کی تصنیفات کی صورت میں ہمارے ادب کا ایک گراں قدر حصہ بن چکا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وزیر آغا ایک عام سطح کے ترقی پسند ادیب ہوتے، جس کی نگارشات محض بیرونی جبر کے زیر اثر رہتیں۔ خود میں سمٹنے اور اندر کی غواصی کا نتیجہ تھا کہ وزیر آغا کو اندر کی کائنات کے وسیلے سے باہر کی کائنات کو ممکنہ حد تک سمجھنے اور زندگی کو وسیع ترمفہوم میں جاننے کا وژن نصیب ہوا۔
”شام کی منڈیر سے ” کا مطالعہ کرتے ہوئے بہت سے ایسے اعتراضات کی گرد بھی صاف ہوتی ہے جو مخالفت برائے مخالفت کے طور پر وزیر آغا کے خلاف اڑائی جاتی رہی ہے۔ اس میں جاگیر داری سے لے کر دھرتی پوجا تک کے سار ے جاہلانہ اعتراضا ت کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ ایسے اعتراضات میں سے ایک اعتراض و۔ع۔خ کی شخصیت کے روحانی اور علمی تعارف پر ہوتاہے۔ ” شام کی منڈیر سے “ میں وزیر آغانے و۔ع۔خ کو جس انداز میں پیش کیا ہے اسے پڑھ کر میری ذاتی رائے یہ تھی کہ اچھے بیٹے نے اپنے مرحوم والد کا تذکرہ کچھ زیادہ ہی اچھے انداز میں کردیا ہے۔ میں نے اپنی یہ رائے اپنے ایک دوست کو بتائی تو انہوں نے ایک عجیب کہانی سنا ڈالی۔ ان کے بقول ان کی اہلیہ نے (جو اَب ایک کالج میں و ائس پرنسپل ہیں) ایم اے فلسفہ کے ایک پرچے میں ”ویدانت کا مطالعہ“ لیا تھا ۔ امتحان سے کچھ عرصہ قبل وہ اپنی اہلیہ کو وزیر کوٹ و۔ع۔خ کے پاس لے گئے اور مدعا بیان کیا۔ انہوں نے دو گھنٹے تک لیکچر دیا۔ بعد میں ان کی بیگم کا کہنا تھا کہ ایم اے کی تیاری کے دو سال ایک طرف اور و۔ع۔خ کے دو گھنٹے کا لیکچر ایک طرف ۔ و۔ع۔خ واقعی کوئی روحانی اور علمی شخصیت تھے اور وزیر آغا نے یقینا محض سعادت مند بیٹے کا فرض پورا نہیں کیا۔
”شام کی منڈیر سے “ ادب کے ان قارئین کے لیے گائیڈ بک کا کام بھی کرتی ہے جنہیں عام طور پر یہ شکایت ہے کہ وزیر آغا کی شاعری پوری طرح انہیں سمجھ میں نہیں آتی۔ مجھے یقین ہے اگر ایسے قارئین ایمانداری سے ’ ’شام کی منڈیر سے“ پڑھ لیں تو ان کی عدم تفہیم کی شکایت نہ صرف دور ہو جائے گی بلکہ انہیں وزیر آغا کے تصورات کو ان کے حقیقی روپ میں دیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔ ان تصورات کو سمجھنا یا نہ سمجھنا پھر ان کی اپنی ذہنی استعداد یا نیّت پر منحصر ہے۔
وزیر آغا نے کتاب کے آغاز میں وضاحت کی ہے کہ انہوں نے مجموعی طور پر اکیس کتابیں نہیں لکھیں بلکہ ایک ہی کتاب لکھی ہے۔ اگرچہ ہر کتاب کی اپنی جگہ ایک مکمل کہانی ہے، مگر ساری کتابیں مل کر بھی ایک کہانی بناتی ہیں۔۔۔ کتاب کے اندر وزیر آغا نے اپنے فکری ارتقا کے بارے میں خود نشاندہی کی ہے۔ میں نے وزیر آغا کو ان تمام تصنیفات کے مجموعی تاثرات کے ساتھ غور سے پڑھا تو مجھ پر ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا۔ وزیر آغا کے ہاں ایک مثلث نمایاں ہے۔ یہ مثلث روحانیت ، سائنس اور ادب سے عبارت ہے۔ روحانیت میںحضرت ابراہیم ؑ ، کرشن ، گوتم، حضرت نوح ؑ، حضرت یعقوبؑ اور حضرت یوسف کی زندگیوں سے لے کر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج تک کے واقعات اور تلمیحات کو وزیر آغا نے ایک طرف سائنیٹیفک انداز سے پیش کیا ہے تو دوسری طرف ان کے تخلیقی پہلوﺅں کو واضح کیا ہے۔ الٰہیاتی تصورات کی اپنی ایک نرالی شان ہے جس میں خدا کے بے انت اور لامحدود ہونے کا ایک انوکھا تصور ابھر تا ہے۔
سائنس کو وہ اس کے وسیع تر مفہوم میں لیتے ہیں اور کائناتِ اصغر کی نئی نئی دریافتوں سے خوش گوار حیرتوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ علم الحیات ۔ زندگی کی ابتدا ، عالمِ موجود، ایٹم ، وقت کی ماہیت ، نظام شمسی، کھربوں ستاروں پر مشتمل کہکشائیں، لاکھوں کروڑوں کہکشائیں اور بلیک ہولز۔
روحانیت اور سائنس کے حیرت افزا انکشافات کو وہ ادبی زاویے سے بھی دیکھتے ہیں اور اپنی تخلیقات کو ان سے منور بھی کرتے ہیں۔یوں ان کے ہاں ادب محض حسن وعشق کا بیان یا محض احتجاج نہیں بلکہ وہ تو زندگی اور کائنات کے بے شمار اسرورموز کی نقاب کشائی کا موجب بنتا ہے۔ پھر وہ اپنے ادبی کشف کو اپنے تک محدود نہیں رکھتے بلکہ اپنے قارئین کو بھی اس کی حیرتوں اور مسرتوں میں شریک کرتے ہیں۔
اگر کوئی ایسا شخص جسے صرف روحانیت سے دلچسپی ہو اس کتاب کو پڑھے گا تو نہ صرف اپنی دلچسپی کا بہت ساراسامان اس میں پائے گا، بلکہ سائنس اور ادب سے بھی اس کی موانست پیدا ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر کوئی سائنس سے دلچسپی رکھنے والا اسے پڑھے گا تو خود بخود سائنسی انکشافات میں ایک روحانی اسرار محسوس کرنے لگے گا۔ میں خود ادب کا ایک حقیر طالب علم ہوں لیکن اس کتاب کے مطالعہ نے نہ صرف نئی سائنسی معلومات کے باعث مجھے بارہا حیرت زا مسرت سے دو چار کیا ہے ، بلکہ روحانی سطح پر بھی میرے اندر ایک تبدیلی پیدا کی ہے۔میرے الٰہیاتی تصورات میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے اور پھر ایک نئی تعمیر کا عمل بھی جاری ہوا ہے۔ میرے قریبی دوست میری ان ذہنی کیفیتوں کا حال بخوبی جانتے ہیں۔
انسانی طبائع پر اس درجہ اثر انداز ہونے والی یہ کتاب اس کے باوجود نہ محض فلسفے کی کوئی کتاب ہے، نہ سائنس کی، نہ روحانیت کی کتاب ہے نہ نفسیات کی…. یہ تو صرف ڈاکٹر وزیر آغا کی کہانی ہے ۔ اپنی کہانی جسے انہوں نے دوسروں کو سنانے کی بجائے خود سننے کی سعی کی ہے۔ اور جو ایک محدود سطح پر میری بھی کہانی ہے۔ کتاب کا اندازِ تحریر بے حد شگفتہ ہے۔ کہیں کہیں پھلجھڑیاں چھوٹتی بھی نظر آتی ہیں:
” ایک لڑکا سامنے کھڑا ہو کر زور زور سے ” ایک دونی دونی، دو دونی چار“ کا آوازہ لگاتا اور اس کے جواب میںسکول کے سارے لڑکے اپنی پوری قوت سے پہاڑے کو دہراتے۔ ہماری آوازوں میں عجیب سا طنطنہ ہوتا، جس میں فریق مخالف کی آواز سے سبقت لے جانے کی کوشش کے ساتھ سکول کی قید سے رہائی پانے کی مسرت بھی شامل ہوتی“۔
”ہر کسان کے پاس ایک کچا کوٹھا تھا جس میں بکری، بیل، بھینس، کتا اور اس کا کنبہ رہائش پذیر تھے۔ بچوں کے آگے شب وروز ” تماشہ“ ہوتا رہتا تو وہ قبل از وقت ہی بلوغت کی خوشبو سونگھ لیتے اور پھر اخلاقیات کا منہ چڑانے لگتے“۔
”عارف عبد المتین صاحب کا ایک اپنا حلقہ بھی تھا جسے لوگ ” ادب کا چشتیہ ہائی سکول“ بروزن“ ادب کا لکھنؤ سکول “ کہہ کر پکارتے تھے“۔
”میں ایک صاحب سے ملنا چاہتا ہوں۔ ان سے ملوا دیجئے…. گوپی چند نارنگ بولے: کہئے کہئے ابھی ملوائے دیتے ہیں…. میں نے کہا:
ان صاحب کا نام ہے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ! بس اسی لمحے سالن کی پلیٹ سمیت مجھ سے بغلگیر ہوگئے۔“
شگفتگی کے ساتھ ساتھ بعض جگہوں پر طنز بھی نمایاں ہو جاتا ہے لیکن بغور دیکھیں تو اس طنز میں گہرا نفسیاتی مطالعہ بھی شامل ہوتا ہے۔ مثلا زمینداری کے معاملات میں سنڈیوں کا حال بتاتے ہوئے بعض اہم تہذیبی اور مروج ادبی رویوں کی بھی نشاندہی کر جاتے ہیں:
”پیلے رنگ کی سنڈی کا انداز کمیونسٹوں ایسا تھا ۔ وہ پھلوں میں داخل ہوتی تو اوپر سے پھول کی پتیوں کو جوڑ کر ایک خیمہ سا بنا لیتی۔ ٹینڈے میں نہ جانے کس طرح داخل ہوتی کہ بظاہر ٹینڈا صاف ستھرا اور بیماری سے محفوظ دکھائی دیتا، مگر جب توڑا جاتا تو وہ اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہوتا….امریکی سنڈی کے مزاج میں ساری امریکی تہذیب سمٹی ہوئی تھی۔ وہ جب ٹنڈے پر حملہ کرتی تو اس کے اندر کی ساری غلاظت ٹینڈے کے اوپر چیک جاتی۔ دور ہی سے نظر آجاتا کہ امریکی سنڈی اپنے کام میں مصروف ہے۔تیسری سنڈی چتکبرے رنگ کی تھی اس میں باقی دونوں سنڈیوں کے خصائص یکجا ہو گئے تھے، مگر اس کا رویہ زیادہ تر منافقانہ تھا۔ اس میں پاکستان کے چتکبرے افراد کا رویہ بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔“
بعض جگہوں پر وہ خود کو بھی طنز کی زد پر لے آتے ہیں۔لیکن…. (لیکن سے پہلے ایک دلچسپ اقتباس!)
” میرا بھتیجا نجابت مجھ سے عمر میں دو سال بڑا لیکن تعلیم میں ایک سال پیچھے تھا ۔ میںگو عمر میں اس سے چھوٹا تھا لیکن وہ ہمیشہ مجھے ”چچا جان“ کہہ کر مخاطب کرتا ور اپنے نجی معاملات کے ضمن میں بھی مجھ سے رہنمائی حاصل کرنے کا طالب ہوتا۔ مثلا ایک روز میرے پاس آیا اور کہا:
” چچاجان!مجھے بتاﺅ میں کیا کروں سبھی لڑکیاں مجھے اچھے لگنے لگی ہیں۔ انتخاب مشکل ہو گیا ہے“
….جوابا میں نے نہایت سنجیدگی سے اس پر پندو نصائح کی بوچھار کردی۔ کہا کہ ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ اسے انسانی اخلاقیات پر بھر پور لیکچر دیا اور پھر برے اعمال کے نتائج سے اسے آگاہ کرنے کے لئے جہنم کا نقشہ اتنی تفصیل کے ساتھ کھینچا کہ معلوم ہوتا تھا جیسے میں خود ابھی ابھی وہاں سے آیا ہوں۔ میرے لیکچرکو سن کر وہ مسکرایا اور کوئی فلمی گیت گنگناتا ہوا باہر چلا گیا۔ میری نصیحتوں کا اس پر کوئی اثر مرتسم نہیں ہوا تھا اور ہوتا بھی کیسے کیونکہ بات وہی اثرکرتی ہے جو دل سے نکلتی ہو۔دوسری طرف میں خود بھی ان دنوں اس کی حالت زار سے ملتی جلتی کیفیت سے گزر رہا تھا۔“
بظاہر وزیر آغا نے خود پر طنز کیا ہے لیکن در حقیقت اپنے وسیلے سے ہمارے پورے معاشرے کے منافقانہ کردار کو بے نقاب کیا ہے۔ بالخصوص ہماری آٹھویں دہائی کے معاشرے کو۔
دہلی کے افسانہ سیمینار کی تمام تر کامیابیوں کے باوجود صرف یہی بات اس کی رسوائی کا موجب بن گئی تھی کہ اس میں جوگندر پال جیسے بڑے افسانہ نگار کو دیدہ دانستہ نظر انداز کر نے کی کوشش کی گئی تھی۔ جب اس سیمنار کی روداد پاکستان پہنچی تو اس ادبی بددیانتی کے خلاف میں نے آواز اٹھائی تھی۔ جدید ادب کے جوگندر پال نمبر کے ابتدائیہ میں بھی اس کی مذمت کی گئی تھی۔ بعد میںمتعدد ادباءنے ہمارے موقف کی تائید کی۔ وزیر آغا اس سیمینار میں پاکستانی وفد کے سربراہ تھے۔ انہوں نے اب اپنی اس کتاب میں برملا طور پر جوگندر پال کے فن اور ادبی خدمات کا اعتراف بھی کیا ہے اور افسانہ سیمینار میں انہیں نظر انداز کئے جانے پر حیرت کا ا ظہار بھی۔
”میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ جوگندر پال کو افسانہ سیمینار کے کسی سیشن میں افسانہ سنانے کی دعوت نہیں ملی تھی۔ حالانکہ وہ اردو افسانہ نگاری میں اتنے زیادہ اہم ہیں کہ انہیں نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔“
غلام جیلانی اصغر نے وزیر آغا کے بارے میں لکھا تھا
”وزیر آغا کی دوستی کے کئی در ہیں ۔ وہ آدمی پر اپنا ساتواں دروا نہیں کرتا۔(اور ایساکرنا بھی نہیں چاہئے)“
میرا خیال ہے وزیر آغا نے اپنا ساتواں در کسی پر بھی وا نہیں کیا۔ ”شام کی منڈیر سے“ میں بھی یہ در کھلتا نظر نہیں آتا۔ البتہ اس در کی جھری میں سے دیکھنے کا انداز ضرور ابھرتا ہے۔ اس در کے باہر وہی شرمیلا بچہ بیٹھا ہے جس نے وزیر آغا کو خود میں سمٹنے اور اندر کی غوّاصی کرنے کا سلیقہ بخشا تھا۔ یہ اسی بچے کے شرمیلے پن کا اعجاز ہے کہ ہمارے ادب میں جمالیاتی قدروں کے ساتھ ایک فرقۂ باطنیہ ظہور میں آچکا ہے جس کے امام وزیر آغاہیں۔۔ادب کے اس فرقۂ باطنیہ کے باطن کا تعلق سلطا ن باہوؒ کے باطن جیسا ہے جسے ساتواں در بھی کہہ سکتے ہیں۔
در اصل ساتواں در لازماں اور لامکاں کی طرف کھلتا ہے۔ طور پر پڑنے والی تجلی کی طرف کھلتا ہے ۔ اسے براہ راست کھلی آنکھوں سے مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے منظر کی تیز روشنی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے اور ہوش وحواس تک گم ہو جاتے ہیں۔
وزیر آغا اس حقیقت سے آگاہ ہیں اسی لیئے انہوں نے لوگوں کے سامنے ، دوستوں کے سامنے اپنا ساتواں در بند ہی رکھا ہے۔ لیکن اندر کے منظر کی روشنی جو کبھی دروازے کی جھریوں سے باہر کو لپکتی ہے۔ اور کبھی تھوڑا سا پٹ کھلنے پر باہر کو امنڈ آتی ہے اسے وزیر آغا کی تخلیقات میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔۔۔ ڈاکٹر انور سدید، غلام جیلانی اصغر اور مجھ سمیت بہت سارے وزیر آغا کے دوستوں اور نیاز مندوں کو ان کے چہرے پر روشنی کو جوہالہ نظر آتا ہے وہ ان کے ساتویں در کی جھلک ہی تو ہے۔
”شام کی منڈیر سے“ اپنے اسلوب کے لحاظ سے سوانح عمری، سیاحت نامہ اور سفر نامہ نگاری کا خوبصورت امتزاج ہے۔ وزیر آغا نے عمرِ رفتہ کو آواز نہیں دی بلکہ اب تک کی بیتی ہوئی زندگی کے نہاں خانے میں اپنے سارے سفر کو دہرا یا ہے۔
یہ سفر کہیں ایک مسافر کے انداز میں سر ہوا ہے تو کہیں کسی سیاح کے روپ میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔