ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے حوالے سے عمران بھنڈر نامی ایک نو آموز کا پہلا مضمون’’گوپی چند نارنگ مترجم ہیں،مصنف نہیں‘‘کے عنوان سے جدید ادب شمارہ نمبر ۹،جولائی تا دسمبر ۲۰۰۷ء میں شائع کیا گیا۔اس مضمون اور اس کے مضمون نگار کے بارے میں میرے بیان کردہ تفصیلی حقائق’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘میں شائع ہو چکے ہیں اور ’’ادب میں در اندازی‘‘کے زیر عنوان سلسلۂ مضامین میں نہ صرف یہ مضمون شامل ہے بلکہ اسی سلسلے کے دوسرے مضامین بھی وہاں موجود ہیں۔۱ بھنڈر کے مذکورہ مضمون کے جواب میں الزامات کادو طرفہ سلسلہ چل نکلا۔مختلف اورمتعدد اطراف سے’’ نارنگ مخالفین‘‘ میری اخلاقی مدد کے لیے آگئے تو دوسری طرف جن لوگوں کے نارنگ صاحب کے ساتھ کسی نہ کسی رنگ میں مفادات وابستہ تھے،وہ ان کی جا و بے جا حمایت پر کمر بستہ ہو گئے ۔ نارنگ صاحب کو مترجم قرار دینے والا نوآموز رائٹر عمران بھنڈرتھا لیکن نارنگ صاحب کے تمام حمایتیوں کے تیروں کا رُخ زیادہ تر میری طرف تھا۔میں نارنگ صاحب کے ترجمہ بلا حوالہ کے مسئلہ کو ادبی زبان میں اختتام پذیر ہوتا دیکھنا چاہتا تھا لیکن یہاں مجھ پر باقاعدہ جنگ مسلط کر دی گئی۔ہر رنگ اور ہر نوعیت کے جھوٹے الزامات کی چار اطراف سے بوچھار کر دی گئی۔میں نے بڑی حد تک اکیلے نے اس جنگ کا سامنا کیا،مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہر جھوٹے الزام تراش کو اس کے گھر تک پہنچا کر آیا۔اس ساری صورتِ حال کو ادبی دنیا دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔ اس ساری بحث اور مارا ماری کو میں نے ستمبر ۲۰۰۹ء تک ’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت‘‘کے نام سے کتابی صورت میں شائع کر دیا۔کتابی صورت میں یہ کتاب انڈو پاک دونوں ملکوں سے ایک ہی وقت میں شائع کی گئی تھی۔اس کی اشاعت اس لحاظ سے مفید رہی کہ اس کے چھپتے ہی نارنگ صاحب کے حامیانِ کرام نے مزید حملے کرنا بندکر دئیے۔یہ باقاعدہ سیز فائر نہیں تھا بس ایسے لگتا تھاکہ اُدھر خاموشی طاری ہو گئی ہے۔سو میں نے بھی سکھ کا سانس لیا۔لیکن پھر ۲۰۱۰ء میں ’’نیا ورق‘‘کے شمارہ نمبر ۳۴میں نظام صدیقی کاایک جارحانہ مضمون شائع ہوا۔اس مضمون کا رُخ صرف عمران بھنڈر کی طرف رہتا تو مجھے اس کا نوٹس لینے کی ضرورت نہ تھی لیکن اس میں مجھے بھی ٹارگٹ کیا گیا تھا اور الزامات کے بدلتے رنگ اس مضمون میں نمایاں تھے۔چنانچہ مجھے اس کا جواب لکھنا پڑگیا۔’’حملہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور‘‘ ۔یہ جواب ارشد خالد کے ادبی کتابی سلسلہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آبادکے شمارہ نمبر ۱۳ (مارچ ۲۰۱۱ء) میں شائع ہوا۔
اسی برس ناصر عباس نیرکی جرمنی میں آمد ہوئی۔ان سے ملاقاتیں ہوئیں تو اس سارے قضیہ کے مختلف پہلو کھل کر سامنے آئے ۔میرے مضمون’’حملہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور‘‘میں موجودمیری سیز فائر کی خواہش کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کے ساتھ رابطہ کیا اور بالآخرہمارے درمیان نہ صرف سیز فائر ہو گیا بلکہ ایک ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے پر بھی رضامندی ہو گئی۔جب ایک محاذ کی طرف سے اطمینان ہو گیا تو میرے لیے ادبی در انداز عمران بھنڈر کے ساتھ نمٹنا نسبتاََ آسان ہو گیا۔میرے مضامین کے مجموعہ’’تاثرات‘‘میں شامل’’ادب میں در اندازی‘‘ کے زیر عنوان میرے مضامین سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ میں عمران بھنڈر کے غیر مہذب اور غیر علمی انداز سے شروع سے ہی بیزاری محسوس کررہا تھا اور ادبی سلیقے سے اس کا اظہار بھی کرتا آرہا تھا۔عمران بھنڈر اپنی بد تہذیبی اور غیر ادبی حرکات کی وجہ سے ہر حد کو پھلانگ چکا تھااور اسے لگام دینا ضروری ہو گیا تھا۔میں یہ کام بہت پہلے کر گزرنا چاہتا تھا۔تاہم محض اس وجہ سے کہ نارنگ صاحب کے حامیانِ کرام نے میرے خلاف ایسی جنگ چھیڑ دی تھی جو زیادہ تر ذاتیات پر مبنی تھی۔ حالتِ جنگ میں ہونے کے باعث،مجھے عمران بھنڈر جیسے گھٹیا انسان اور یبوست زدہ رائٹر کو برداشت کرنا پڑ رہا تھا۔اب جیسے ہی نارنگ صاحب کے محاذ کی طرف سے قدرے اطمینان ہواتو میرے لیے عمران بھنڈر کا حساب چکانا آسان ہو گیا۔میں نے کتاب’’تاثرات‘‘ میں ’’ادب میں در اندازی‘‘کے زیر عنوان اپنے مضامین میں وہ سارا حساب چکا دیا ۔اس معرکے میں نارنگ صاحب کے دو تین نیاز مندوں کے ساتھ ہلکی سی ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوئی ۔لیکن یہ اس حد تک بھی نہ چل سکی جتنی ان کے خلاف جنگ کے دوران فاروقی صاحب کے نیازمندوں کے ساتھ قائم رہی تھی۔
اسی دوران نارنگ صاحب کے دوست ستیہ پال آنند نے غیر ضروری طور پرغلام محمد قاصرکی ایک غزل کے دو شعروں کی چوری کے اپنے ایک اسکینڈل میں مجھے گھسیٹ لیا۔یہ میرے لیے پھر ایک سے زیادہ محاذ کھولنے والی صورتِ حال پیدا کی جا رہی تھی۔دوسری طرف نارنگ صاحب کو جو حد سے زیادہ ریلیف مل چکا تھا وہ اس پر خدا کا شکرادا کرنے کی بجائے مجھ سے Do More کا مطالبہ کرنے لگ گئے۔عمران بھنڈر نے نارنگ صاحب کے بارے میں جو کچھ لکھا تھا اس میں صرف وہ حصہ کسی توجہ کے لائق تھا جو ترجمہ بلا حوالہ کے ذیل میں آتا تھا۔باقی سب اس کی یبوست زدہ تحریرتھی۔شمس الرحمن فاروقی صاحب نے بھی یہی بات اپنے انداز میں لکھی تھی اور صاف لکھاتھا کہ بھنڈرکی باقی تحریر:
’’معمولی اور ژولیدہ بیانی کا شکار ہے۔‘‘۔۔’’ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔‘‘
نارنگ صاحب کے خلاف لکھتے ہوئے عمران بھنڈر نے جو طریق کار اختیار کیا بعد میں ظاہر ہوا کہ اس میں انہوں نے بعض حوالہ جات کے معاملہ میں جان بوجھ کر حقیقت کو چھپایا اور الزام تراشی کو زیادہ سے زیادہ بڑا کر کے دکھایا۔
تاہم یہ بھی نہیں کہ نارنگ صاحب’’ترجمہ بلا حوالہ‘‘کے الزام سے مکمل طور پر بری ہو گئے ہوں۔ ان سے ایسا بہت کچھ سرزد ہواتھا اور وہ سب آن ریکارڈموجود ہے۔
جب مار دھاڑاور جنگ و جدل کی حالت تھی تو اس وقت ویسا کچھ ہی کیا جانا چاہیے تھا جیسے میری کتاب’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت‘‘کے مضامین میں کیا گیا ہے۔لیکن جب مار دھاڑ کی وہ فضا نہیں رہی تو وہ ساری معرکہ آرائی تو بے شک اب ادب کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔تاہم ترجمہ بلا حوالہ کے کیس کو اسکینڈلائز کرنے کی بجائے علمی و ادبی زبان میں بیان کرنا ہی مناسب ہے۔ترجمہ بلا حوالہ کا یہ کوئی پہلا کیس نہیں ہے۔ڈاکٹر نارنگ صاحب سے پہلے بڑے بڑے جید اردو ادیبوں اور اسکالرز سے بھی ایسا کچھ سرزد ہو چکا ہے۔مولاناالطاف حسین حالی، مولاناشبلی نعمانی،علامہ نیازفتح پوری،مولانا اشرف علی تھانوی،ڈاکٹر محی الدین زور،حامداللہ افسر،وقار عظیم،سجاد باقر رضوی،ڈاکٹر سلیم اختر،ڈاکٹر ملک حسن اختراور متعدد دیگراہلِ علم کے ہاں دوسروں کے الفاظ تک من و عن اُٹھا لینے یا ترجمہ کر لینے کے شواہد سامنے موجود ہیں۔سوعام طور پر ڈاکٹر نارنگ صاحب کے ساتھ بھی ویسا ہی معاملہ کیا جانا چاہیے ،جیسا مذکورہ بالا جید شخصیات کے ساتھ کیا جاتا ہے۔اگر معمول کے حالات میں نارنگ صاحب کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے تو وہ یقیناََ تعصب پر مبنی ہو گا۔
کہاں ایک طرف ارشد خالد کے عکاس اسلام آباد کے ہنگامہ خیز گوپی چند نارنگ نمبر اور میری کتاب’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت‘‘کے مندرجات میں نارنگ صاحب کی بے جا حمایت کرنے والے حامیوں کی عبرتناک ٹھکائی اور کہاں پھر ہماری طرف سے سرتاپا مودب ہو کرایک ادبی مسئلہ کو علمی و ادبی طور پر نمٹانے کا رویہ۔لیکن کچھ عرصہ تک اسے پسند کرنے کے بعد ایسا لگا کہ مجھے ادبی سیاست کے جال میں گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ایک طرف ستیہ پال آنند غلام محمد قاصر کے دو شعر اپنے شعر جتا کر سنانے کی چوری پکڑے جانے کے بعد میرے خلاف زہر اگل رہے تھے،دوسری طرف ڈاکٹر نارنگ صاحب نے مجھے اپنے ایک نیازمند کا مکتوب بھجوایا۔میں نے ادبی سیاست کے اس رنگ ڈھنگ کو غور سے دیکھا،سمجھا اور تین دن کے غور و خوض کے بعد نارنگ صاحب کو یہ خط لکھ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترمی ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب آداب
۱۳ستمبر۲۰۱۱ء کو پی ڈی ایف فائل میں مولا بخش صاحب کا جو خط مجھے ملا تھا،وہ ابھی تک میرے ذہن میں ہے۔اگرچہ اس کے بعد حالات میں مزید بہتری آئی ہے اور ڈاکٹر نذرخلیق کی اس بحث میں شرکت کے بعد اور بھی بہتری کی امید ہے۔تاہم مولا بخش صاحب کی آپ کے تئیں محبت کے باعث مجھے تھوڑی سی فکر مندی ضرور ہوئی ہے۔انہیں میں نے احسن طور پر ای میل بھیج دی ہوئی ہے۔تاہم آپ کے ساتھ پورے اخلاص کے ساتھ اور نیک نیتی کے ساتھ گزشتہ چند ماہ میں ہونے والی پیش رفت کو یہاں مناسب طور پر دہرانا چاہوں گا۔میرا خیال ہے کہ ہمیں اس سارے قضیہ کو پورے پس منظر اور موجود منظر کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔بے شک اگر صرف عمران بھنڈر کو پیش نظر رکھا جائے تو بہت سی قباحتوں سے بچا جا سکتا ہے،تاہم جب بات بھنڈر سے ہٹ کر دوسری اطراف میں جائے گی تو لا محالہ کسی کو ملزم قرار دینے کے لیے اسی کے حوالہ جات دینے پڑیں گے۔اس میں کچھ تلخی در آتی ہے تو میں اس کے لئے مجبور ہوں۔اب گزشتہ چند مہینوں کی پیش رفت کو بیان کرتا ہوں۔
۱۔گزشتہ برس جب ستیہ پال آنند صاحب مارچ ۲۰۱۰ء میں جرمنی میں آئے تھے،میں نے ان سے کھل کر بات کی تھی کہ بھنڈر کی کتاب آنے والی ہے لیکن میرا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔آپ اگر نارنگ صاحب کو احسن رنگ میں بتا دیں تو میں کسی غیر ضروری جنگ سے بہتر طور پر الگ رہ سکوں گا۔لیکن انہوں نے ایسا جواب دیا کہ جس کا مطلب ہی یہ نکلتا ہے کہ یار! لگے رہو۔
۲۔بھنڈر کی کتاب چھپنے کے بعد نظام صدیقی کا مضمون نیا ورق میں شائع ہوا تو بھنڈر میری طرف لپکا لیکن میں نے جو اسے پہلے سے جھٹک دیا ہوا تھا،ایک بار پھر جھٹک دیا اور اپنے طور پر نظام صدیقی کا جواب لکھا جس میں بھنڈر کو بھی ٹھیک ٹھاک لپیٹا گیا تھا اور نظام صدیقی کو بھی۔یہ مضمون ’’حملہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور ‘‘کے عنوان سے عکاس اسلام آباد نے شمارہ نمبر ۱۳،مارچ ۲۰۱۱میں شائع کیا تھا۔
۳۔اسی عرصہ میں میرے چار تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘زیر ترتیب تھا۔اس میں میری کتاب ’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت‘‘بھی شامل تھی لیکن مجھے اسے چھاپنے میں تامل تھا ۔
۴۔نظام صدیقی کے پہلے مضمون کے بعد ارشد خالد نے بھی اپنی ۲۸۰صفحات کی کتاب فائنل کر لی تھی۔اس میں عکاس نارنگ نمبر پر آنے والا سارا ردِ عمل یکجا کیا گیا تھا۔تاہم ارشد خالد کی اور میری مشترکہ رائے تھی کہ ہمیں بلا وجہ بھنڈر کے ساتھ ملوث کرکے گھسیٹا نہ جائے تو ہم اس جنگ میں نہیں پڑیں گے۔تاہم اس کے لیے ہمیں کوئی ایسا رستہ نہیں مل رہا تھا کہ ہمارے درمیان کوئی فائر بندی طے پا جائے۔
۵۔ناصر عباس نیر صاحب جب جرمنی میں پہنچے تو میں نے یہ ساری باتیں انہیں کھل کر بتائیں،وہ عکاس ۱۳میں نظام صدیقی کے جواب میں میرا مضمون بھی پڑھ چکے تھے۔چنانچہ انہوں نے آپ سے رابطہ کیا اور خوشی کی بات ہے کہ دونوں طرف واضح ہوا کہ ہم ایک دوسرے کو نشانہ نہیں بنائیں گے بلکہ اس فساد کی جڑ بھنڈر کو ہی ٹارگٹ کیا جائے گا۔بنیادی طور پر ہمارے درمیان ایک طرح سے فائر بندی ہوئی تھی،جس کا مقصد یہی تھا کہ بھنڈر پر توجہ مرکوز کی جائے اور اس کی کتاب کا گناہ میرے حساب میں نہ لکھا جائے۔فائر بندی کے بعد ورکنگ ریلیشن شپ تدریجاََ بہتر ہو سکتی تھی،لیکن میرا خیال ہے کہ ماضی کی سخت الفاظ کی گولہ باری کہیں نہ کہیں اس بہتری میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ابھی تک ہمارے درمیان اتنی ورکنگ ریلیشن شپ نہیں بن سکی جتنی فاروقی صاحب اور ان کے احباب کے ساتھ آسانی سے بن گئی تھی۔حالانکہ میں نے اس سلسلہ میں اپنی طرف سے کئی اہم نوعیت کے اقدام کیے ہیں۔
۶۔فائر بندی طے ہوتے ہی میں نے اپنے تنقیدی مضامین کے سارے مجموعوں کے مجموعہ’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘ میں سے اپنی کتاب’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت‘‘کو نکال دیا۔
۷۔ارشد خالد کی ۲۸۰صفحات کی کتاب(اس کتاب کاسخت نام بھی احتراماََ نہیں لکھ رہا )جو چھپنے کے لیے بالکل تیار تھی اور جس کے لیے بعض احباب نے اضافی کاپیاں بھی بک کرا لی تھیں،اس کی اشاعت بھی روک دی گئی۔حالانکہ پاکستان اور انڈیا سے اس کی اشاعت کی تیاری مکمل ہو چکی تھی۔یہ اہم پیش قدمی تھی جو شاید آپ کے ذہن میں نہیں ہے۔
۸۔اب میرے مضامین میں اگر گزرے دنوں کے کسی حوالے میں کچھ سخت الفاظ آرہے ہیں تو میری طرف سے آنے کی وجہ سے ان میں پھر بھی ایک توازن آجاتا ہے،اگر میں وہ حصے حذف کر دیتا تو فریق ثانی حذف شدہ حصے پیش بھی کرتا اور انہیں اچھالتا بھی ۔اس قباحت سے بچنے کی ایک ہی احسن صورت ہے کہ بھنڈر پرزیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز رکھی جائے۔۱۴ستمبر۲۰۱۱ء کے روزنامہ انصاف لاہور میں میراجو مضمون شائع ہوا ہے۔اس میں چند دوسری وضاحتوں کے بعد سارا فوکس ہی بھنڈر پر ہے۔ اب ڈاکٹر نذر خلیق بھی بھنڈر پر فوکس کر رہے ہیں۔
۹۔میں کوئی بھی مضمون لکھتے وقت اپنے سارے لکھے ہوئے کو مدِ نظر رکھ کر سپردِ قلم کرتا ہوں۔سارا پس منظر ذہن میں رکھ کر بات کرتا ہوں۔شاید اس وجہ سے بھی دوستوں کے لیے قباحت پیدا ہو رہی ہے۔اس سے بچنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ میں اس ساری بحث سے الگ ہوجاؤں۔اپنے تناظر میں مجھے یہی کچھ لکھنا تھا جو میں نے لکھا ہے،اگرآپ کو اور آپ کے احباب کو میرے حالیہ مضامین میں کچھ حصے ناگوار گزرے ہیں تو اس کے لیے ایسا کر سکتا ہوں کہ اپنے مضامین ’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘ اور’’عمران بھنڈر کی جعلسازی اور سرقہ‘‘دونوں کوڈس اون کرکے خود کو اس ساری بحث سے الگ کرنے کا اعلان کر دوں۔ فی الوقت میری طرف سے زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ یا تواپنی سہولت کے مطابق اور اپنے تناظرمیں مخالفین کا جواب لکھوں یا پھراس ساری بحث سے ہی الگ ہو جاؤں۔پھر آپ کے دوست احباب جو مناسب سمجھیں لکھتے رہیں۔بحث جاری رہے۔میں صرف خاموش رہوں گا۔
۹۔ میرے الگ تھلگ ہو جانے کے بعد فاروقی صاحب کے کارندوں کی طرف سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ ہوئی تو اسے نظر انداز کر دوں گا،لیکن کہیں حقائق کوبہت زیادہ مسخ کرنے والی بات ہوئی تو پھر ذاتی وضاحت کا حق ضرور استعمال کروں گا۔
آپ میرے اس خط کو اطمینان کے ساتھ اور توجہ کے ساتھ ایک بار پھرپڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ میری طرف سے ادبی حقائق کو مسخ کیے بغیر اور غیر ضروری مخالفت اور غیر ضروری حمایت دونوں سے بچتے ہوئے آپ کے لیے خیر سگالی کے کئی اہم اقدام کیے جا چکے ہیں اور وہ اقدام ایسے ہیں کہ ان کے سامنے سخت الفاظ پر مشتمل ماضی کے لکھے ہوئے چندجملوں کا ذکر ہوجانا بہت معمولی سا لگتا ہے۔اگرچہ اس سے بھی بچنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔تاہم اس کا انحصار پیش آمدہ صورتِ حال پر ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہماری ورکنگ ریلیشن شپ مزید بہتر ہو گی،لیکن مولا بخش صاحب کی ای میل نے جس الجھن میں ڈال دیا ہے اس کے پیش نظر یہ ساری باتیں کھل کر کر لینا ضروری تھا۔ سو اب اس مقام سے آگے کا آپ بھی سوچیں ،میں بھی سوچتا ہوں۔تشویش کے ساتھ نہیں اطمینان کے ساتھ سوچیں۔میں یہیں پر ہی ہوں۔
والسلام آپ کا مخلص حیدر قریشی مورخہ۱۶ستمبر ۲۰۱۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری اس ای میل کو پڑھنے کے بعد۱۶ستمبر۲۰۱۱ء کو نارنگ صاحب کا شام کے وقت فون آیا۔میں ڈیوٹی پر تھا۔میرے ڈیوٹی ٹائمنگز پوچھ کر انہوں نے کہا کہ کل فون کر لوں گا۔چنانچہ ۱۷ستمبر۲۰۱۱ء کو دن کے دو بج کر بیس منٹ کے قریب پھر ان کا فون آگیا۔محبت بھرا فون تھا،جس میں اپنی وضاحتیں کرتے رہے۔اس کے بعد بھی ایک دو بار ان کا فون آیا۔یہ فون ایک دو فرمائشوں کے ساتھ اتنے لجاجت بھرے اور نیازمندانہ ہوتے تھے کہ میں اپنے آپ میں شرمندہ ہو جاتا تھا۔لیکن نارنگ صاحب کی ان فرمائشوں کو پورا کرنا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔جب نارنگ صاحب کو اندازہ ہو گیا کہ میں ان کی غیر معمولی فرمائشیں پوری کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا توپھر ان کی طرف سے رابطہ منقطع ہو گیا۔لگ بھگ ایک سال کسی رابطہ کے بغیر گزر گیا۔پھر برادرم ناصر عباس نیرکی طرف سے ایک ای میل ملی اور گویا بالواسطہ طور پر پھر ایک رابطہ سا بن گیا۔یہاں ناصر عباس نیر کے بارے میں واضح طور پر لکھ رہا ہوں کہ وہ ان سارے معاملات میں نیک نیتی کے ساتھ اور صلح صفائی کے جذبے کے ساتھ کردار ادا کرتے رہے ہیں۔دونوں طرف ان کا کردارغیر متشددانہ اور ادبی ایمانداری کو مجروح کیے بغیر مفاہمت قائم کرنے کی کاوشوں پر مبنی رہا ہے۔ ان کے ساتھ ہونیوالی برقی مراسلت یہاں پیش کر رہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ای میل از ناصر عباس نیر بنام حیدر قریشی ۱۰دسمبر ۲۰۱۲ء
ایک ضروری بات آپ سے کہنی ہے۔
نارنگ صاحب سے کئی موضوعات پر تفصیلی باتیں ہوئیں۔انہوں نے منجملہ دوسری باتوں کے ایک یہ بات کہی کہ آپ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ نذر خلیق جدید ادب یا عکاس میں لکھیں گے کہ بھنڈر نے ان پر جوالزامات سرقے کے لگائے ،وہ آپ نے غلط فہمی میں شائع کیے۔بھنڈر نے بدنیتی کا مظاہرہ کیا جبکہ نارنگ صاحب کی کتاب میں ہر باب کے آخر میں تمام متعلقہ کتابوں کے حوالے موجود ہیں۔آپ نے یہ وعدہ پورا نہیں کیا۔
ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ نیٹ سے آپ کی کتاب ہٹا دی جائے۔
میرا خیال ہے کہ نارنگ صاحب کی خواہش کو اہمیت دی جانی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی بنام ناصر عباس نیر
برادرم ناصر عباس نیر صاحب سلام مسنون
آپ ایک عرصہ سے بہت محتاط ہو کر رابطہ کر رہے تھے اس لیے میں بھی زیادہ تفصیل میں نہیں جاتا تھا۔اب آپ نے ذکر کیا ہے تو کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اپنی روایتی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے وضاحتاََ لکھ رہا ہوں۔نارنگ صاحب جو کچھ چاہ رہے ہیں ،اسی تناظر میں ہی ڈاکٹر نذر خلیق نے اپنے مضمون مطبوعہ ڈیلی انصاف ۲۱ستمبر ۲۰۱۱کے آخر میں صاف الٖفاظ میں یہ لکھا ہوا ہے:
’’ یہ امکانی جواب میری اختراع ہیں لیکن حقیقت سے بہت زیادہ قریب ہیں۔عمران شاہد بھنڈر اپنی مرضی کے مطابق نکتہ وار جواب لکھیں تب ہی ان کی نجات ممکن ہے ورنہ اردو دنیا پر ان کی حقیقت ظاہر ہو چکی ہے۔اور اس حقیقت کے ظاہر ہو جانے کے بعد لازم ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے بارے میں ان کے سارے الزامات کو از سرِ نو جانچا جائے۔یہ دیکھنا ضروری ہے عمران شاہد بھنڈر نے ان کے معاملہ میں مبالغہ ، تعصب،فریب کاری اور جعل سازی سے کام تو نہیں لیا۔جب یہ عناصر ان کے مزاج میں اس حد تک رچ بس چکے ہیں تو اس پہلو سے ان کے اس کام کا نئے سرے سے جائزہ لینا ضروری ہے۔کیونکہ ان کا وہ سارا کام اب شک کی زد میں آگیا ہے۔‘‘
آپ کو مطبوعہ مضمون کا تراشہ بھیج رہا ہوں۔بھنڈر کے الزامات کا از سر نو جائزہ لینا ضروری ہو گیا ہے،یہ بات میں بھی اب اپنے جمیل الرحمن کے جواب والے مضمون ’’ریکارڈ کی درستی‘‘میں لکھ چکا ہوں۔
میرے خیال میں ہماری طرف سے اس سے زیادہ کی امید نہیں ہونی چاہیے تھی۔یہ کوئی معمولی سپورٹ نہیں ہے۔
لیکن یہاں یہ واضح کرنا بے حد ضروری ہے کہ شروع میں نارنگ صاحب کے احباب میں سے فریاد آزراور مولا بخش صاحبان کے ساتھ براہ راست اور مشتاق صدف درپردہ رہ کر رابطہ میں تھے۔پھر یکایک یہ لوگ رابطے سے کٹ گئے۔ایک ہلکی سی ورکنگ ریلیشن شپ تھی،اسی کی بنیاد پر میں نے صرف بھنڈر ہی کا نہیں فاروقی صاحب کے کارندوں کابھی ڈٹ کر مقابلہ کیااور ان سب کو گھر تک پہنچا کر آیا۔اسی معرکہ کے دوران ستیہ پال آنند نے بلاوجہ بیٹھے بٹھائے مجھے اپنے پنگے میں گھسیٹ لیا۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جب تک انہوں نے مجھے ملوث نہیں کیا میں نے ان کی غزل کے اشعار والی حرکت پر کوئی آن ریکارڈ رد عمل نہیں دیا۔لیکن جب انہوں نے مجھے براہ راست گھسیٹ لیا تو پھر میں نے ان کے ساتھ وہی کیا جو میرے بس میں تھا اور وہ سارا سچ لکھ دیا جو پوری طرح سامنے نہیں آیا تھا۔یہ ساری گڑبڑ اس کے بعد ہوئی جب نارنگ صاحب کے اپنے دئیے ہوئے بندوں نے بہانہ بنا کر لا تعلقی اختیار کر لی۔آپ کو مولا بخش صاحب کا خط یاد ہونا چاہئے،جو انہوں نے مجھے لکھا تھا اور میں نے آپ کو فارورڈ کر دیا تھا۔ سو میری دانست میں نارنگ صاحب کو ناشکری نہیں کرنی چاہیے۔ہماری طرف سے جتنا ریلیف ان کو مل چکا ہے،کیا وہ اس کا تصور بھی کر سکتے تھے؟
میں نے یہ سب کچھ ایمانداری سے اور تالیف قلب کی حد تک جا کر کیا ہے،لیکن اسی دوران ان کے دئیے ہوئے لوگوں کا یک دم پیچھے ہٹ جانا اور آنند صاحب کا مجھے دہرے محاذ میں الجھا دینا،میں اس سارے منظر کا گلہ کسی سے نہیں کر رہا لیکن مجھے حق پہنچتا ہے کہ جہاں ہر بندہ اپنے ذاتی مفاد کا اسیر بن رہا ہو،وہاں میں کم از کم اپنی ادبی ساکھ تو قائم رکھ سکوں۔کسی اعتراض کی صورت میں واضح جواب بھی دے سکوں۔
آپ وکی پیڈیا پر میری کتابوں کے ٹائٹل دیکھیں،میری لائبریری والے بلاگ پر بھی دیکھیں،میں نے ان سے متعلق کتاب کا ٹائٹل کہیں نہیں دیا،یہ میری طرف سے خیر سگالی کا اظہار ہے۔ہاں اپنی کتابوں کی فہرست میں سے اسے حذف نہیں کر سکتا۔لیکن کیا یہ کم ہے کہ میں نے’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘کے نام سے اپنی جملہ تنقیدی کتب کو یکجا کر کے چھاپنے کا جو ارادہ کر رکھا ہے،اس میں سے اس کتاب کو ڈراپ کر دیا ہوا ہے۔ (آنند صاحب جیسے نارنگ صاحب کے بہی خواہ اس ارادہ کو تڑوا دیں تو کیا کر سکوں گا)۱۔سو موجودہ صورتِ حال میں ہماری طرف سے جو اقدام بھی کیے گئے ہیں ان کا بالواسطہ فائدہ نارنگ صاحب کو پہنچا ہے۔اور ایسا فائدہ پہنچا ہے جو وہ محض اپنے بل پر یا اپنے کارندوں کے ذریعے کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
انٹرنیٹ پر جو کتاب موجود ہے اس کے دو پہلو ہیں،ایک کتاب تو اردو دوست والوں کے ہاں ہے۔وہ میرے دوست ہیں لیکن مجھ سے زیادہ معید رشیدی کے دوست ہیں۔سو اس صورت کا آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں۔اردو دوست کے علاوہ جس کسی نے بھی اس کتاب کو آن لائن کیا ہے،میں انہیں بالکل نہیں جانتا۔اس میں پہلو تہی والی بات نہیں ہے حقیقتاََ ایسا ہی ہے۔بھنڈر کے ساتھ حالیہ مار دھاڑ میں شاید نارنگ صاحب کو مزید ریلیف مل جاتا لیکن میں اپنے آپ میں بہت کم زور ہونے کے باوجود اپنے چاروں اطراف کی سرگرمیوں پر ممکنہ حد تک پوری نظر رکھتا ہوں،اور دنیا والوں کی دنیا داری دیکھ کر ہر قدم پھونک پھونک کر اُٹھاتا ہوں۔سو نارنگ صاحب کا اس حد تک شکر گزار ہوں کہ ان کے ساتھیوں نے بہت مختصر عرصہ کے لیے سہی اتنی ورکنگ ریلیشن شپ قائم رکھی کہ مجھے بھنڈر اینڈ کمپنی کو ایک حد تک ٹھکانے لگانے کا موقعہ مل گیا۔وہ مجھے نجی طور پر جس طرح بہت زیادہ محبت کے ساتھ بعض اوقات فون کرتے رہے ،اس کے لیے بھی ان کا شکر گزار ہوں۔
ذاتی طور پر علمی بد دیانتی کا ارتکاب کیے بغیر میں نے کبھی کسی دوست کی کسی نیکی یا احسان کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱ بڑی حد تک آنند صاحب کی حرکات کی وجہ سے ہی اب’’ ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘ میں تنقید کی ساری کتابیں شامل کر رہا ہوں۔ان میں’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت‘‘بھی شامل ہے۔(ح۔ق)
کبھی ضائع نہیں کیا۔جہاں تہاں موقعہ ملا،اس کا اقرار بھی کیا۔کوئی دوست اس نوعیت کی محبت میں میرا مقروض تو ہو سکتا ہے(ایسے مقروض دوستوں کو میں نے کبھی توجہ بھی نہیں دلائی) لیکن میں شاید
کسی کا بھی مقروض نہیں ہوں۔میں نے بعض دوستوں کی نیکیوں اور بھلائیوں سے کہیں زیادہ ان کا اقرار و اعتراف کیا ہوا ہے،کرتا رہتا ہوں۔کسی کا ادھار میرے ذمہ ہے تومجھے باور کرایا جائے، لازماََ ادا کروں گا۔ اس سارے معاملہ کو دو طرفہ دیکھنے کے بعد اب آپ بتادیں کہ میرے ذمہ کیا واجب الادا بنتا ہے؟
امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔والسلام
آپ کا بھائی
حیدر قریشی ۱۰دسمبر ۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۱دسمبر ۲۰۱۲ء
ناصر عباس نیر بنام حیدر قریشی
تفصیلی میل کا شکریہ۔اگر آپ اجازت دیں تو میں یہ میل نارنگ صاحب کو فارورڈ کر دوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۱دسمبر ۲۰۱۲ء
حیدر قریشی بنام ناصر عباس نیر
آپ مناسب سمجھتے ہیں تو کر دیں۔ویسے اس میں شاید ایک دو الفاظ ایسے ہیں کہ جن سے حفظ مراتب کے حوالے سے اُن کی دلآزاری ہو سکتی ہے۔مجھے یہ اندازہ ہوتا کہ میل انہیں بھیجنے کا ارادہ بن سکتا ہے تو پہلے ہی زیادہ احتیاط سے لکھتا۔تاہم بنیادی باتیں اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہیں ۔نارنگ صاحب کو بے شک بھیج دیں۔ابھی ایک دو باتیں اور بھی ہیں جن کا اخفابھی مجھ پر واجب ہے اور جن کاحساب نارنگ صاحب کے ذمہ ہے۔میں نے تو وہ بھی انہیں یاد نہیں دلائیں۔بہر حال اچھا ہے بھیج دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Sent: Tuesday, December 11, 2013 2:5 0PM
ناصر عباس نیر بنام حیدر قریشی
چونکہ آپ نے تفصیل سے اپنا موقف پیش کیا ہے،اس لیے میں نے سوچا کہ آپ ہی کے لفظوں میں یہ سب نارنگ صاحب تک پہنچ جائے۔میں اگر آپ ہی کی باتوں کو دوبارہ لکھوں گا توکوئی اہم بات رہ جانے یا ٖغلط طرح سے پیش کیے جانے کااندیشہ رہے گا۔میرے لیے نارنگ صاحب واجب الاحترام اور آپ قابلِ احترام ہیں۔
ناصر عباس نیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۳دسمبر۲۰۱۳ء
ناصر عباس نیر بنام حیدر قریشی
کل نارنگ صاحب کا فون آیا ۔آپ کی میل ہی موضوع گفتگو تھی۔انہوں نے پانچ باتیں کہیں۔
آپ نے جو پیراگراف لکھاہے وہ ان کی نظروں سے نہیں گزراتھا۔وہ آپ کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ان کی شکایت جاتی رہی۔
آپ دہلی آئے اور انہیں فون نہ کیا۔کئی لوگوں سے آپ ملنے گئے ۔ایک بزرگ کے طور پر انہیں توقع تھی کہ آپ انہیں فون کریں گے۔
کیا ایسا ممکن ہے کہ معید رشیدی سے کہہ کر وہ کتاب ہٹوا دی جائے؟
نارنگ صاحب کے تمام احباب آپ کے ساتھ ہوں گے جب آپ انہیں آواز دیں گے۔
اگر آپ پسند کریں تو ستیہ پال آنند اور آپ کی شکر رنجی دور کرانے کی مخلصانہ کوشش کی جا سکتی ہے۔
یہ تمام باتیں نارنگ صاحب کی ہیں۔
اچھا ہوا کہ انہوں نے آپ کی تفصیلی میل پڑھ لی ۔بہت سی بد گمانیاں دور ہو گئیں۔امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۳دسمبر۲۰۱۲ء
حیدر قریشی بنام ناصر عباس نیر
چلیں اچھا ہوا کہ نارنگ صاحب کا گلہ دور ہوا۔نذر خلیق صاحب کا جو پیراگراف میں نے درج کیا تھا لگ بھگ وہی بات میں اپنے دو مضامین میں لکھ چکا ہوں۔خود فاروقی صاحب کے خط کا وہ حصہ شائع کرچکا ہوں جس میں انہوں نے اقرار کیا ہے کہ بھنڈر کے مضامین سے نارنگ صاحب کا کچھ بھی نہیں بگڑا۔یہ اقتباس شائع نہ کرتا تو جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا،والی بات ہو جاتی۔
بہر حال اطمینان ہوا کہ نارنگ صاحب کا گلہ کم ہوا ہے۔
معید رشیدی سے اگر آپ ٹیلی فون پر بات کرکے اور اعتماد میں لے کر کتاب ہٹانے کی بات کر سکیں تو شاید ایسا ہو جائے۔اس کے لیے آپ کو اپنے طور پر بات کرنی ہو گی۔یا نارنگ صاحب کوئی مقامی ذریعہ دیکھ سکتے ہیں۔یہ کام زیادہ مشکل نہیں ہے۔لیکن اس کے لیے میرا کہنا نہیں بنتا۔یہ ذہن میں رکھیں کہ معید رشیدی ،فاروقی صاحب کے حلقۂ اثر میں ہیں لیکن ان کے پابند بھی نہیں ہیں۔
کلکتہ اور دہلی کے سفر سے پہلے میرے اور نارنگ صاحب کے سارے رابطے معطل ہو چکے تھے۔اگر ہلکا پھلکا رابطہ ہوتا تو میں جرمنی سے چلنے سے پہلے بھی رابطہ کر سکتا تھا۔اُس وقت کی موجود صورتِ حال میں میری طرف سے رابطہ کرنے کا مطلب’’حسنِ طلب‘‘سمجھا جا سکتا تھا۔’’کچھ نہیں تو ایک تقریب سہی قسم کی طلب‘‘۔بس ایسے مقام سے گزرتے ہوئے میں ہمیشہ محتاط ہو جاتا ہوں۔آپ دیکھیں میں ان لوگوں کے ہاں گیا ہوں جو کچھ بھی دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔
ستیہ پال آنند صاحب کی ایک نظم اپریل ۲۰۱۲ء کے شاعر میں چھپی تھی۔اس میں اس بنا پر لمبی عمر کی دعا کی ہے کہ مجھے ادب کی دنیا میں غلط لوگوں سے جہاد کرنا ہے۔’’شوقِ جہاد‘‘ سے معمور یہ نظم ایک شاعرہ کی نظم کا چربہ ہے۔اور اس پر بڑا عمدہ مضمون لکھا جا سکتا ہے۔لیکن میں نے مزید خاموشی ہی اختیار کی ہوئی ہے۔ان کے ساتھ اب کیا دوستی ہو سکتی ہے۔ہاں فائر بندی کے لیے میں ہمیشہ تیار رہتا ہوں۔اب بھی تیار ہوں۔
آپ مجھے کوئی ایک مثال بتادیں کہ کوئی بندہ تین مہمانوں کی صورت میں قیام پذیر ہو۔اپنے اعزاز میں فنکشن کروائے اور پھر رسماََ شکریہ کہنا تو ایک طرف،خدا حافظ بھی نہ کہے اور چلا جائے۔
بہر حال ان کے ساتھ فائر بندی کے لیے حاضر ہوں۔
آپ کا شکریہ کہ ان سارے معاملات میں آپ نے شروع سے اب تک ایک مثبت اور صحت مند انداز کے ساتھ دوستانہ کردار ادا کیا ہے۔اللہ آپ کو خوش رکھے۔
آپ کا بھائی
حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ساری خط و کتابت سے چند حقائق کھل کر سامنے آئے۔اپنے اخلاص کے اظہار کے باوجود نارنگ صاحب کا سارا خلوص ناصر عباس نیر کے ذریعے ہی پہنچتا رہا،انہوں نے مجھے براہ راست نہ کوئی فون کیا،نہ کوئی ای میل بھیجی۔مجھ پر یہ بھی واضح ہوا کہ نارنگ صاحب عمران بھنڈر کی ضخیم کتاب کو ذرا سی بھی اہمیت نہیں دے رہے لیکن عکاس کے نارنگ نمبر اور میری کتاب’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت‘‘کے معاملہ میں وہ خاصے حساس تھے اور چاہتے تھے کہ یہ دونوں چیزیں انٹرنیٹ سے ہٹا دی جائیں۔ان کی اس فرمائش کے نتیجہ میں اپنی اس نوعیت کی تحریروں پر مجھے جواعتمادتھا وہ مزید پختہ ہوا۔
میں نے اردو دوست ڈاٹ کام سے یہ کتاب اور نارنگ نمبر ہٹانے کا رستہ معید رشیدی کا نام لے کر سجھایا تھا۔چنانچہ میرے مشورہ پر نارنگ صاحب نے اپنے طریقِ کار کے مطابق عمل کیا۔۲۰۱۳ء میں ساہتیہ اکیڈمی کا ایک ایوارڈمعید رشیدی کے ایم فل کے مقالہ کے بعد ان کی پہلی کتاب’’تخلیق،تخئیل اور استعارہ‘‘ کو دیا گیا۔یہ ایوارڈ دیگر لیبل کے علاوہ پچاس ہزار روپے نقد پر مشتمل تھا۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اردو دوست ڈاٹ کام کی لائبریری میں سے عکاس کے نارنگ نمبر اور میری کتاب’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت‘‘دونوں کو ہٹا دیا گیا۔پھر معید رشیدی کو امارات کے ایک مشاعرہ کا دعوت نامہ بھی دلا دیا گیا۔ یہاں تک جو کچھ ہوا تھا،مجھے اس میں نہ کوئی خاص دلچسپی تھی اور نہ کسی بات پر اعتراض تھا۔لیکن کچھ عرصہ کے بعد ادھر اُدھر سے مجھ سے متعلق بعض معاملات میں نارنگ صاحب کی دخل اندازی کی سرگرمیاں دیکھنے میں آنے لگیں ۔ایک دو ادبی رسائل کو روکا گیا کہ اس شخص کو مت چھاپو۔
میں نے اس بارے میں صرف ایک رسالے کی حد تک ناصر عباس نیر کوآگاہ کیا۔لیکن کسی رسالے میں چھپنے کے لیے اس قسم کی بھاگ دوڑ کرنامجھے ویسے بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔عام ادبی رسائل سے لے کر یونیورسٹی جرنل تک بے شمار رسائل کے وسائل موجود ہیں۔لیکن اس سارے عمل سے مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ نارنگ صاحب کا سارا عاجزانہ لہجہ صرف اپنی مطلب براری کے لیے تھا۔اپنے نقصان کی تھوڑی بہت تلافی محسوس کرتے ہی میرے تئیں ان کا جارحانہ طرزِ عمل از خودظاہر ہونے لگ گیا تھا۔ مجھے ان کی طرف سے برپا کرائی گئی مار دھاڑوالی معرکہ آرائی سے کوئی فرق نہیں پڑا تھاتو اس قسم کی حرکتوں سے کیا فرق پڑ سکتا تھا۔ہاں اس کے نتیجہ میں مجھے یہ غور کرنے کا موقعہ ضرور مل گیا کہ میں اپنی کتاب’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت‘‘کو اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعوں کے مجموعہ’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘میں شامل کر لوں۔اس فقیر کے پاس ایک ہی سنکھ ہے ۔سو اسے پھر سے بجا دیتے ہیں۔نارنگ صاحب نے اگر پہلے والی صورتِ حال سے کچھ نہیں سیکھا،یا میرے مفاہمانہ طرزِ عمل سے یہ گمان کیا کہ اب مطلب نکل گیا ہے اور اب اسے زد پر رکھوتو ان کا اپنا فیصلہ ہے۔ان کے اس طرزِ عمل نے مجھے اپنے پہلے ارادہ پر نظر ثانی کرنے کا موقعہ دے دیا۔رہی سہی کسران کے عزیز اور دوست ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے پوری کرد ی۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے معاملہ میں بنیادی حقائق اور شواہد میری کتاب’’ستیہ پال آنند کی۔۔بُودنی نا بودنی‘‘میں موجود ہیں۔تاہم اس سے ہٹ کر ان کے معاملہ میں جو افسوس ناک بلکہ شرمناک حرکت ان سے سرزد ہوئی اس کی نشان دہی کے طور پر ناصر عباس نیر صاحب کے ساتھ کی جانے والی اپنی خط و کتابت یہاں درج کر رہا ہوں۔میں ان سارے معاملات کو الگ الگ نہیں بلکہ نارنگ صاحب کے طریق واردات کے مجموعی تناظر میں دیکھتا ہوں اور اسی کے مطابق پھر ان سے معاملہ کر رہا ہوں۔یہاں براستہ ستیہ پال آنند ہونے والی واردات کا ذکر ہماری مراسلت میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
برادرم ناصر عباس نیر صاحب سلام مسنون
گزشتہ برس میں نے آپ کے ساتھ یہ بات شئیر کی تھی کہ ستیہ پال آنند صاحب کی ’’شاعر‘‘اپریل ۲۱۰۲ء میں چھپنے والی نظم کسی شاعرہ کی نظم کا چربہ ہے۔اس کے باوجود میں نے اس بات کو لکھنے سے تامل کیا تھا۔
اس دوران ایک تو آپ جیسے ایک دو قریبی دوستوں کا اصرار بڑھ گیا ہے کہ جب ایک حقیقت ہے تو اسے سخت الفاظ میں نہ سہی،بہت زیادہ احترام کے ساتھ نشان زد تو کر دیا جائے۔دوسرے اسی دوران آنند صاحب کی طرف سے میرے تئیں ایسا رویہ نمایاں ہوا جیسے وہ بھی پروازی صاحب کی طرح میرے سوشل بائیکاٹ کی مہم پر نکل کھڑے ہیں۔کینیڈا کے ایک دوست کے ساتھ انہوں نے محض اس لیے قطع تعلق کر لیا کہ حیدر قریشی کے ساتھ تعلق رکھنا ہے تو پھر ہمارا آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔دہلی کے ایک نوجوان صحافی جو میرے تئیں بہت خلوص اور محبت کے جذبات رکھتے ہیں،انہوں نے آنند صاحب کے ساتھ رابطہ کیا اور ادبی حوالے سے میرا ذکر بھی کیا تو جواباََ آنند صاحب نے میرے لیے جو کچھ لکھا وہ ’’گالی‘‘کے سوا کچھ نہیں۔اس نوعیت کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ اس ساری صورتِ حال میں مجھے مناسب لگا کہ ایک مختصر سا مضمون’’دو نظموں کا جائزہ‘‘لکھ لوں۔سو میں نے وہ مضمون لکھ لیا ہے۔میں نے نرم زبان میں مضمون لکھا ہے۔ جھگڑے کی فضا نہیں بننے دی۔سرقہ یا چربہ کے الفاظ کی بجائے استفادہ کا لفظ استعمال کیا ہے اور دونوں نظموں کو سامنے رکھ دیا ہے۔ آپ کے نام اپنے گزشتہ برس والے خط کے تناظر میں اخلاقی طور پر مجھے مناسب لگا کہ اس نئی صورتِ حال سے آپ کو آگاہ کردوں۔ستیہ پال آنند صاحب نے پہلے بھی اپنا نقصان آپ کیا ہے۔اور اب بھی اپنے علمی و ادبی نقصان کے وہ خود ذمہ دار ہیں۔
امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔
والسلام آپ کا بھائی حیدر قریشی ۷اگست۲۰۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برادر گرامی جناب حیدر قریشی صاحب
بہت شکریہ آپ نے یاد کیا۔
آنند صاحب اور آپ میں وہی پرانا باہمی احترام کا تعلق استوار ہوجاتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ انھوں نے آپ کے احباب سے آپ کے بارے میں جو نازیبا گفتگو کی، وہ افسوس ناک ہے۔ کسی سے اختلاف بھی ہو تو اس کا ذکر عزت سے کیا جانا چاہیے۔ یہ بات کسی ادیب شاعر کو سمجھانے کی نہیں،وہ دن رات اخلاق ،رواداری ، محبت کا راگ الاپتے ہیں۔خیر یہ بات بھی اب کلیشے ہو گئی ہے۔ اخلاق و مروت کا تعلق مزاج سے ہے ،علم اور ادب سے نہیں۔ آنند صاحب سے گزشتہ برس دہلی میں کوئی تین چار روز ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ وہاں اور لوگ بھی ملاقات میں شریک رہتے۔ زیادہ تر ہم دوپہر کے کھانے پر ملتے جو ساہتیہ اکادمی کے صدر کے دفتر میں لگایا جاتا اور جس میں روزانہ پانچ چھ افراد ہوتے۔ لہٰذا وہاں آپ سے متعلق کوئی بات نہ ہوئی۔ اگر ہوتی تو میں ضرور ان سے کہتا کہ لڑائی میں کچھ نہیں رکھا۔
اب میں دعا ہی کر سکتا ہوں کہ کسی وقت یہ لڑائی ختم ہو۔میں آپ سے بھی نہیں کہہ سکتا کہ آپ اینٹ کا جواب اینٹ سے نہ دیں۔تاہم میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ نفرت کا جواب نفرت مبنی برانصاف ہو سکتا ہے، باعث ِخیر نہیں۔
میری طرف سے آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کو عید مبارک۔
میں کل صبح بچوں کے ساتھ گاؤں کے لیے روانہ ہوں گا۔
اخلاص کار ناصر عباس نیر ۷اگست ۲۰۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اس ای میل کے نتیجہ میں ناصر عباس نیر صاحب کو اپنا مضمون’’دو نظموں کا جائزہ‘‘بھجوادیا۔میرا مضمون پڑھنے کے بعد ناصر عباس نیر صاحب نے اس پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:
ناصر عباس نیر بنام حیدر قریشی
مضمون پڑھ لیا ہے۔ آپ نے اسے ایک علمی مضمون کے طور پر لکھا ہے۔ دونوں نظموں کا تقابل عمدہ ہے۔ آپ نے استفادے کا لفظ ٹھیک استعمال کیا ہے۔ کیوں کہ آنند صاحب کی نظم سرقہ محسوس نہیں ہوتی۔ تھیم مماثل ہے، البتہ ٹریٹمنٹ الگ ہے۔ آپ نے مضمون میں لہجے کی شائستگی کو واقعی قائم رکھا ہے۔ یہ قابل تعریف بات ہے۔
باقی جیسے آپ مناسب خیال کریں۔ ۷اگست ۲۰۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناصر عباس نیر صاحب کی اس ای میل کے بعد میں نے انہیں ستیہ پال آنند صاحب کی وہ ذلیل تحریر بھیجی جس کو میں یہاں نقل بھی نہیں کر سکتا۔ہاں ناصر عباس نیر صاحب اسے شائع کرنا چاہیں توکر سکتے ہیں۔اس تحریر کو پڑھنے کے بعد ناصر عباس نیر صاحب نے اپنی سات اگست ۲۰۱۳ء کی ای میل میں لکھا:
ناصر عباس نیربنام حیدر قریشی
اس قدر تعصب اور نفرت۔ میرے لیے یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ کوئی شاعر اور دانش ور اس قدر مغلوب الغضب ہو سکتا ہے۔ کیا مغرب کی رواداری کی فضا نے بھی انھیں اخلاق نہیں سکھائے۔ تاسف، ثم تاسف!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستیہ پال آنند کا مغلوب الغضب ہونااپنی جگہ تاہم یہ سارا منظر نامہ ادبی سیاست میں نارنگ صاحب کے طریقِ واردات کوبھی ظاہر کرتا ہے۔وہ خود کو مشکل میں پائیں تو عاجزی اور لجاجت کی حدتک چلے جاتے ہیں اور مشکل دور ہو جائے یا کم ہو جائے تواپنا حاکمانہ رُوپ دکھانے میں دیر نہیں کرتے۔
اپنی بنیادی ادبی دیانت داری پر قائم رہتے ہوئے میں نے انہیں بہت سارا ریلیف دیا،جہاں خود ایسا نہیں کر سکتا تھا وہاں انہیں رستہ بتا دیااور انہوں نے میرے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرکے فائدہ بھی اُٹھا لیا۔یہ سب کچھ یہیں تک رہتا تو مجھے اپنی یہ کتاب دو نئے مضامین کے اضافے کے ساتھ اس مجموعہ میں شامل نہیں کرنا تھی ۔یہ کتاب ویسے ہی اپنے طور پر ادب کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔لیکن نارنگ صاحب کے بدلتے روپ اور ادب میں سیاسی کاریگری دیکھنے کے بعد مجھے ضروری لگا کہ نہ صرف اس کتاب کو اس بڑے مجموعہ میں شامل کروں بلکہ اس کے پس منظر میں موجود سارے حقائق بھی ادبی دنیا کے سامنے لے آؤں۔
ایک بار پھر واضح کر رہا ہوں کہ جہاں تک ترجمہ بلا حوالہ کے الزام کا تعلق ہے،عمران بھنڈر اس معاملہ میں اصل الزام کی حد سے آگے تک نکل گیا تھااور اپنی اوقات سے باہر ہو گیا تھالیکن یہ الزام یکسر غلط ہر گز نہیں تھا۔اگر نارنگ صاحب شروع میں ہی دانشمندانہ طریق سے اس پر ردِ عمل ظاہر کردیتے تو بات پہلے مضمون کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ۔لیکن جیسے جیسے ان کا دفاع کرنے والے غیر ادبی طریق سے حملہ آور ہوتے چلے گئے ویسے ویسے ان کا تماشہ بنتا چلا گیا۔
بھنڈرکا طرزِ عمل اوچھے وار کرنے جیسا تھاپھر اس کے ساتھ اس نے سستی شہرت حاصل کرنے کے کئی حربے بھی استعمال کرڈالے۔میں ان ساری حرکات سے بیزاراور متنفر تھا لیکن نارنگ صاحب کے حامیانِ کرام نے مجھے اس حد تک الجھا لیا تھا کہ مجھے دوسری طرف جانے ہی نہیں دے رہے تھے۔بھنڈرکی بے ہودہ گوئی سے قطع نظرجہاں تک ترجمہ بلا حوالہ والے الزام کا تعلق ہے،اسے ناصر عباس نیر نے نہایت شائستہ اور مہذب انداز سے پیش کر دیا تھااوراس پر کوئی شور نہیں اُٹھا،بس ایک ادبی معاملہ کو ادبی طور پر دیکھا گیا۔ناصر عباس نیر کے پی ایچ ڈی کے مقالہ سے صرف ایک مثال اسی حوالے سے پیش کیے دیتا ہوں۔
’’ترجمہ و تسہیل کا کام ان نقادوں نے انجام دیا، جنھوں نے ابتدا میں ان موضوعات پر لکھا۔ ان کا یہ احساس کہ وہ بنیادی نوعیت کے نئے سوالات سے اردو تنقید کو متعارف کروا رہے ہیں، انھیں نئے مباحث کے ترجمہ و تسہیل پر مایل کرتا تھا۔ ملحوظ خاطر رہے کہ نئے مباحث کے بنیاد گزاروں نے مباحث کو سہل بنا کر پیش کرنے کی کوشش میں، ان کے تراجم پیش کیے، مگر ان کے ترجمہ ہونے کا اعتراف نہیں کیا۔ اردو تنقید میں یہ رویہ نیا نہیں ہے۔ اس کے بعض ثبوت گزشتہ ابواب میں سامنے لائے جا چکے ہیں۔ یہ ایک چونکا دینے والی بات ہے کہ ساختیات و مابعد جدیدیت کے کسی بنیادی متن کا اردو میں ترجمہ نہیں ہوا۔ چند کتابوں کے جزوی تراجم یا بعض مقالات کے تراجم البتہ سامنے آئے ہیں۔تراجم کی ذیل میں صرف ایک مثال پیش ہے
اصل متن
“Common sense appears obvious because it is inscribed in the language we speak. Post- Saussurean theory, therefore, starts from an analysis of language, proposing that language is not transparent, not merely the medium in which autonomous individuals transmit messages to each other about an independently constituted world of things. On the contrary, it is language which offers the possibility of constructing a world of individuals and things and of differentiating between them. The
………………………..
transparency of language is illusion.”
(Catherine Belsey, Critical Practice, P 4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ
عقل عام کے فیصلے عام فہم یا سامنے کے یا قابلِ قبول اس لیے معلوم ہوتے ہیں کہ وہ زبان کے اندر لکھے ہوئے ہیں جسے ہم بولتے ہیں۔ سوسیئری ساختیاتی فکر نے سب سے پہلے اس مسئلے کو لیا ہے کہ اگرچہ ایسا معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقتاً زبان شفاف (Transparent) میڈیم نہیں ہے۔ یعنی ایسی چیز نہیں ہے، جس کے آرپار دیکھا جا سکے، بلکہ زبان سرے سے میڈیم ہی نہیں ہے، زبان محض فارم ہے۔ جو اشیا اور افراد کی دنیا کو تشکیل (Construct) کرنے کا اور اشیا کو ان کے تفریقی رشتوں کے ذریعے پہچاننے کا امکان رکھتی ہے۔ زبان اشیا کو اپنے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔ زبان کے شفاف ہونے کا تصور فریب حواس اور واہمہ کے سوا کچھ نہیں۔
(ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، ص ۳۱)
یہ مثال اس کتاب سے لی گئی ہے، جسے اردو میں ساختیات اور پس ساختیات کی بائبل کا درجہ دیا گیا ہے۔(۸)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۸- اس کتاب کے بیش تر مقالات بعض انگریزی کتابوں سے براہ راست ترجمہ ہیں، مثلاً باب اوّل کا پہلا حصہ کیتھرین بیلسی کی مذکورہ کتاب، باب اوّل کا حصہ تنقیدی دبستان اور ساختیات، رامن سیلڈن اور پیٹرو ڈوسن کی کتاب Contemporary Literary Theoryکے صفحات ۳تا ۶کا ترجمہ ہیں۔ دوسرے باب کے آخری صفحات جوناتھن کلّر کی کتاب Structuralist Poeticsکے صفحات ۶تا ۷کا ترجمہ ہیں۔ کتاب ۲کا پہلا باب ’’رولاں بارت، پس ساختیات کا پیش رو کے صفحات ۱۶۱تا ۱۶۴، جان سٹروک کی کتاب Structuralism and Sinceکے صفحات ۵۳تا ۶۰کا ترجمہ ہیں۔‘‘ ’’اردو تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات‘‘از ڈاکٹر ناصر عباس نیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناصر عباس نیر کے اس طویل اقتباس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھنڈر سے پہلے نارنگ صاحب کے تعلق سے ناصر عباس نیر سمیت بعض دیگرادیبوں نے یہ بات کہہ رکھی تھی،بس ہر کسی کا کہنے کا اپنا اپنا انداز تھا۔ناصر عباس نیر نے تقریباََساری باتیں کہہ دی ہیں لیکن اتنے شائستہ اور مہذب انداز سے کہی ہیں کہ شخصی سطح پر ان کے نارنگ صاحب سے تعلقات ذرا بھی متاثر نہیں ہوئے۔بھنڈر نے اتنی شائستگی اور تہذیب سیکھ لی ہوتی تو بے شک اس کی پانچ سو صفحات کی کتاب صرف پچاس صفحات کی رہ جاتی لیکن اس کی کچھ نہ کچھ ادبی اہمیت ضرور ہوتی۔اب وہ صرف ایک بدزبان کے طور پر ہی یاد رکھا جاسکے گا۔ تاہم بھنڈر کی بد زبانی اپنی جگہ نارنگ صاحب سے ترجمہ بلا حوالہ کا جو ارتکاب ہوا ہے وہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔لیکن ایسی حقیقت جسے اردو ادب میں پائے جانے والے ایسے طرزِ عمل کی دوسری تمام بڑی مثالوں کوسامنے رکھ کراس کے مطابق سلوک روا رکھا جاناچاہیے۔
بہر حال اب میں اس سارے ادبی معرکے کو ان سارے حقائق کے ساتھ ادب کی تاریخ کے سپرد کرتا ہوں اور ان حقائق کی بنیاد پر میرے بارے میں کیا رائے قائم کی جاتی ہے اور کیا فیصلہ صادرکیا جاتا ہے،اس معاملہ کو بھی ادب کی تاریخ کے حوالے کرتا ہوں۔
میرے جیتے جی کوئی ادیب،کوئی دوست،کوئی کرم فرما کسی نوعیت کا سوال پوچھ کر وضاحت چاہیں تو اس کے لیے ہمہ وقت حاضر ہوں!