نارنگ صاحب کی حمایت کا ایک اور راؤنڈ
’’اتفاقیہ یا منصوبہ بند کاروائی؟‘‘مضمون روزنامہ’’ ہمارا مقصد‘‘دہلی میں ۶ اور ۷ اگست کی تاریخوں کو دو قسطوں میں شائع ہوا۔اور سات اگست ہی کو کینیڈا سے ایک انٹر نیٹ فورم کے ماڈریٹر منیر پرویز سامی صاحب نے مجھے اپنے فورم کی ای میلز بھیجنے کاآغاز کیا۔میں ان کے فورم کا ممبر نہیں تھا۔اس کے باوجود مجھے انہوں نے یکایک اپنی عنایات سے نوازنا شروع کر دیا۔سات اگست کو اپنی ایک ای میل میں لندن کے فارسی چور کا گالیوں اور بد زبانی سے بھرا ہوا مضمون بھیجتے ہوئے منیر پرویز سامی صاحب نے لکھا:
Some Urdu poet has written, “baat niklay gee to phir door talak jaaey gi”. Here is another article on the recent spike of accusations re Dr. Narang. I share it without comments.This shows you the unfortunate state of minds in Urdu literature.
ایک طرف تو موصوف کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے کمنٹس کے بغیرایک مضمون شئیر کر رہے ہیں دوسری طرف نارنگ صاحب کے سرقوں کے جواب میں دھمکی دے رہے ہیں کہ ’’بات نکلی تو بہت دور تلک جائے گی‘‘
بات دور تک ضرور گئی لیکن گھوم پھر کرپھر نارنگ صاحب کے سرقوں پر آگئی کہ ان سرقوں کے سلسلہ میں کوئی مدلل صفائی یا کوئی علمی وضاحت ابھی تک کسی طرف سے نہیں آسکی۔سامی صاحب کی میل ملتے ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ نارنگ صاحب نے ’’اتفاقیہ یا منصوبہ بند کاروائی؟‘‘ مضمون چھپنے کے نتیجہ میں حقائق سامنے آنے پر بحث کو مزید الجھانا چاہا ہے۔اور اس بار انہوں نے کینیڈا سے منیر سامی صاحب کا انتخاب کیا ہے۔ان کے انتخاب کی داد دیتا ہوں۔انہوں نے چن کر بندہ نکالا ہے۔بہر حال میں نے اُسی روز اور اُسی وقت منیر پرویز سامی کی اس میل کے جواب میں لکھا:
’’آپ کے ذریعے اگر نارنگ صاحب دوسرا راؤنڈ شروع کرنا چاہتے ہیں تو بسم اللہ!لیکن بنیادی مسئلہ ان کی چوریوں کا ہے۔اپنی چوریوں کا انہیں جواب دینا ہی پڑے گا‘‘۔
اس کے جواب میں انہوں نے اسی روز پھر اپنے فورم پر یہ تبصرہ کرتے ہوئے میری میل ریلیز کی
I am sharing this message from Haider sahib, who runs a web magazine from Germany and is among the main accusers of Dr. Narang. Objectivity requires that I share it.I am surprised at this comment, “aap kay zareeay agar narang saheb doosra round shuru karna chhatay heN to bismillah!”
You may have noted that I rarely share any item, message, or input about Narang sahib at our forum and in my communications.My interaction with Narang sahib is minimal. Such accusations are at best sad indeed.
You be the judge.
Cheers.
منیر سامی صاحب جس انداز میں اپنی غیر جانبداری کا اعلان کیے جا رہے تھے اور اسی اعلان میں جس طرح نارنگ صاحب کی چوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش فرما رہے تھے،اس کے لیے کسی لمبے چوڑے ثبوت کی ضرورت نہیں،میرے اصل الفاظ اور ان میں سے نارنگ صاحب کی چوریوں والے الفاظ کو حذف کرکے پیش کرنا ہی یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ موصوف نے نارنگ صاحب کے اشارے پر ہی یہ کاروائی شروع کی ۔تاہم اس کے علاوہ انہوں نے ظفر اقبال کی کالمانہ تحریر کو انگریزی میں بہت زیادہ حاشیہ آرائی کے ساتھ پیش کیا۔وہ حاشیہ آرائی ایسی ہے کہ اس سے ایک نہیں بحث کے کئی دروازے کھل جاتے ہیں لیکن خرابی یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں نارنگ صاحب کے سرقوں والی بات پس پشت چلی جاتی ہے۔اسی لیے ہمارے نزدیک دوسرے غیر متعلق مباحث کا ایک حد تک جواب دے دینے کے بعد ہمارا موضوع صرف یہ ہے کہ نارنگ صاحب نے سرقے کیے ہیں یا نہیں؟یہ علمی مسئلہ ہے اور اس کا جواب علمی طور پر ہی آنا چاہیے۔ظفر اقبال کی کالمانہ تحریر کے جواب میں انگلینڈ کے اقبال نوید نے ایک عالمانہ مضمون تحریر کیا تھا۔اس کا عنوان ہی ظفر اقبال کے کالم کی آخری سطر کے آخری مصرعہ کو بنایا تھا’’اے سینہ زور کیا کوئی ایسا بھی چور ہے؟‘‘۔ظفر اقبال اخباری ضرورت کے تحت کالم لکھتے ہیں تاہم ان کے کالم اور اقبال نوید کے مضمون سے کالمانہ تحریر اور عالمانہ تحریر کے فرق کو سنجیدگی کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
منیر پرویز سامی صاحب ایک طرف تو جوش و خروش کے ساتھ اپنی غیر جانبداری کا اعلان کیے جا رہے تھے دوسرے طرف نہایت ایمانداری کے ساتھ سرقوں سے توجہ ہٹانے کے لیے غیر متعلق باتوں کو اچھالے چلے جا رہے تھے۔ان کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ صرف سات اگست کی تاریخ میں مجھے ان کی گیارہ ای میلز پڑھنا پڑیں۔اس دوران نارنگ صاحب کی اردو کے لیے عظیم خدمات کا چرچا کیا گیا۔
چونکہ مجھے ان کے ذریعے ائر ٹکٹ والے بے ہودہ الزام کا علم ہوا تھا،چنانچہ میں نے فوری طور پر اس کا جواب لکھا جو روزنامہ ’’ہمارا مقصد‘‘دہلی کے شمارہ ۱۰اگست ۲۰۰۹ء میں شائع ہو گیا۔عام طور پراس اخبار کو اگلے دن سے پہلے شام کو ہی انٹر نیٹ پر لگا دیا جاتا ہے۔میرا مضمون بھی ۹اگست ۲۰۰۹ء کوآن لائن ہو چکا تھا۔چنانچہ میں نے اقبال نوید کا عالمانہ جوابی مضمون بطور اٹیچ منٹ بھیجا اورچند گھنٹوں کے بعد اپنے مضمون کا آن لائن لنک انہیں جرمن وقت کے مطابق پانچ بج کر تین منٹ پر بھیج دیا۔
یہ دونوں مضمون جو بے ہودہ الزامات کے رد کے ساتھ نارنگ صاحب کے سرقوں کو پوری طرح واضح کررہے تھے،منیر سامی صاحب نے ریلیز نہیں کیے۔یوں ان کی غیر جانبداری کا بھرم کھل گیا۔ لیکن بات صرف یہیں تک نہیں رہی۔ان کی غیر جانبدارشخصیت کے جوہر تو ابھی مزید کھلنا تھے۔کافی انتظار کے بعد ۱۰اگست کو علی الصبح میں نے ان کی سات اگست کی ایک میل کے ساتھ انہیں REPLY کرتے ہوئے لکھا:
’’آپ کی یہ آخری میل ملی تھی،اس کے بعد آپ بالکل خاموش ہو گئے ہیں،جبکہ اسی تاریخ کو لگ بھگ تین گھنٹے کے بعد اقبال نوید صاحب نے ظفر اقبال صاحب کے کالم کا جواب ریلیزکر دیا تھا۔یہ جواب آپ کو خود بھی فارورڈ کر چکا ہوں اور کل تو آپ کی خدمت میں نارنگ صاحب کے نئے الزام کا جواب بھی بھیج دیا تھا۔لیکن آپ پتہ نہیں کیوں کوئی ریسپانس نہیں دے رہے۔یہ صرف یاد دہانی کی میل ہے‘‘
اس کے جواب میں ان کی طرف سے پہلے یہ میل آئی:
Hello Qureshi Sahib,Thanks. I became busy with some of my professional activities and am currently traveling.
اس کے ٹھیک نو منٹ کے بعد ان کی طرف سے یہ ای میل آئی:
I do not have access to my forum links. Regards. Munir
Sending you this message from my blackberry that does not provide full internet access.
لیکن دوسری ای میل کے دو منٹ کے بعدابھی تک ’’پرویزی حیلوں‘‘ سے کام لینے والے منیر پرویز سامی صاحب کی یہ میل ملی: Quick question? Are you a member of the forum?
چونکہ موصوف کی نیت اب کھل کر ظاہر ہو گئی تھی۔اس پر میں نے فوری طور پر انہیں یہ میل بھیجی:
’’مسٹر منیر سامی! جب آپ نے مجھے نارنگ کی بے ہودہ حمایت والی بیہودہ میلز بھیجناشروع کی تھیں،کیا اُس وقت میں آپ کے فورم کا ممبر تھا؟۔۔آپ نے تب میری ای میل کو جس طرح کومنٹ دے کر ریلیز کیا،کیا میں اُس وقت آپ کے فورم کا ممبر تھا؟آپ مجھے فورم کی ساری ریلیٹیڈ میلز فارورڈ کر رہے تھے (سب محفوظ ہیں)کیا میں اُس وقت آپ کے فورم کا ممبر تھا؟اب ظفر اقبال والے کالم کا علمی جواب سامنے آیااور ائر ٹکٹ کے بے ہودہ الزام کا جواب سامنے آیا تو آپ کو یکایک یہ سوال یا دآگیا۔ثابت ہوا کہ آپ کو نارنگ نے دوسرے راؤنڈ کے لیے تیار کیا تھا۔اور اب آپ علمی میدان میں دوسرا موقف بھی سامنے لانے سے گریز کر رہے ہیں۔مجھے پہلی میل سے ہی یہی آئیڈیا تھا۔اب آپ کی جان بوجھ کر کی جانے والی تاخیر سے اور اب آپ کے سوال نے سب کچھ واضح کر دیا ہے۔میرے لیے اتنا ریکارڈ ہی کافی ہے۔موج کیجیے۔‘‘ ۔۔۔
میری اس میل کے سات منٹ کے بعدمنیر پرویز سامی پرویزی حیلوں پر اس حد تک اتر آئے۔اپنی دانست میں وہ مجھے شاید بلیک میل کر رہے تھے ان کی میل آئی:
Hiader Sahib,
I have some personal questions if you cared to reply:
1. Are you a Pakistani by origin or Indian.
2. Did you live in India for a sustained period (2- 3years)
3. Did Gopi Chand Narang publish an article by you in a book titled Urdu ki Nai BastiyaaN (I have not seen the book but a friend suggested that he may have seen such an article)
4. Where do you live now, Germany or Denmark. My understanding is Germany
I will be going to sleep in a few minutes and will look at my mail tomorrow.
اس پر میں نے اسی وقت فوری طور پر ان کو یہ ای میل بھیجی:
’’آپ کے ہر سوال کا جواب ہے لیکن پہلے آپ کو جوابی ای میلز ریلیز کرنا چاہئیں۔ورنہ آپ کی نام نہاد غیر جانبداری کا بھرم کھل چکا ہے۔اور اس کے بعد مجھے آپ جیسے غیر جانبدار دوستوں سے کسی الجھاؤ کی ضرورت نہیں ہے۔اب تک کی ای میلز کا ریکارڈ ہی کافی ہے۔‘‘
چوبیس گھنٹوں سے بھی زیادہ تاخیر کے بعدمنیر پرویز سامی نے اگلے روز رات کو پونے گیارہ بجے کے قریب میری میلز ریلیز کیں۔اس میں ان کی بد نیتی واضح طور پر شامل تھی۔عام روٹین کے مطابق روزنامہ ’’ہمارا مقصد‘‘ کی ویب سائٹ پر تب تک گیارہ اگست کا اخبار آچکا ہوتا اور جس مضمون کے لنک کو ریلیز کیا گیا وہ اس لنک پر موجود ہی نہ ہوتا۔اتفاق ہے کہ اس دن ہی نہیں اگلے دن بھی ۱۰اگست کا اخبار آن لائن رہا۔ اور ڈاکٹر نارنگ صاحب کے سرقوں کے حوالے سے اس مضمون کو بھی اور سابقہ مضامین کو بھی اخبار کے قارئین کی معمول کی تعداد سے بہت زیادہ پڑھا گیا۔
ابھی تک نارنگ صاحب کے کہنے پر مجھ پر جتنے بھی الزام لگائے گئے ہیں،ان کا جواب دینے کے لیے مجھے اپنی سابقہ تحریروں سے ہی اتنا میٹر مل جاتا ہے کہ نارنگ صاحب کا اعتراض باطل ہوجاتا ہے۔نیا کچھ لکھنے کی زیادہ ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲کو سنسر کرانے کی اوچھی حرکت سے لے کر نصرت ظہیر تا اپنے نئے حامی منیر سامی تک نارنگ صاحب نے جتنے حربے بھی آزمائے ہیں ان پر ہی الٹ کر پڑے ہیں۔بچپن میں ہم ایک کھیل کھیلا کرتے تھے۔ ’’ہرا سمندر ۔۔۔گوپی چندر۔۔۔بول میری مچھلی !کتنا پانی؟‘‘اس میں چاروں طرف سے بچوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر حلقہ بنایا ہوتا تھا ، درمیان میں ایک بچہ کھڑا ہو کر پانی کی سطح بتاتا تھا۔ٹخنوں سے شروع ہوا پانی جب سر تک آجاتا تھا تو پھر اندر گھرا ہوا بچہ اپنے دونوں ہاتھوں سے ’’یہاں سے تالا توڑیں گے‘‘کہہ کر ضرب لگاتا اور دوسرے بچے’ ’سپاہی کو بلائیں گے‘‘کہہ کر اپنی گرفت مضبوط کرتے ۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب اگر غور کریں تو پانی ان کے گلے تک پہنچ چکا ہے ۔مفادات کے اسیر رائٹرز سے لے کر ادبی چور اچکوں تک میرے خلاف کسی کی بے ہودہ الزام تراشیوں سے نارنگ صاحب کی سرقوں کے الزام سے بریت نہیں ہو سکتی۔اس الزام کا علمی وقار اور ادبی تہذیب کے ساتھ سامنا کرنا ہو گا۔مفادات کے اسیروں میں سے کوئی ان کی علمی بریت کرانے کا اہل ہی نہیں۔ ابھی وقت ہے کہ نارنگ صاحب خود اپنے جرم کا سامنا کریں۔پانی ان کے گلے تک پہنچ چکا ہے۔ان کی جگہ مجھ سے (خدا نہ کرے،خدا نہ کرے) اتنے بڑے سرقہ کا گھناؤنا جرم ہوا ہوتا اور اس طرح علمی سطح پر وہ جرم کھل کر سامنے آگیا ہوتا تو میں پانی کے اپنے گلے تک پہنچنے کی نوبت نہ آنے دیتا۔
اتنے بڑے پیمانے کی چوری کاجرم کھل جانے کے بعد میرے لیے تو چِلّو بھر پانی ہی کافی ہوتا۔ شاید اس لیے کہ ایسے معاملات میں میرا ظرف اتنا ہی ہے۔
نارنگ صاحب دھیان سے دیکھیں ۔۔۔سرقوں کے انکشاف کے بعد اور ان کے سارے حامیوں کی غیر علمی اور غیر ادبی حمایت نامی اوچھی حرکتوں کے بعد علمی و ادبی سطح پر پانی ان کے گلے تک پہنچ چکا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مطبوعہ روزنامہ جائزہ۔لکھنؤ۔۲۰اگست ۲۰۰۹ء)
روزنامہ ہندوستان ایکسپریس دہلی انٹرنیٹ ایڈیشن۔
روزنامہ ہمارا مقصد دہلی۔۲۴اگست ۲۰۰۹ء
یہ مضمون ابھی تک اس لنک پر دستیاب ہے۔
http://dailyhindustanexpress.com/adbi_sargarmiyan.htm