خصوصی نوٹ: ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی اظہار رائے پر پابندیوں کے حوالے سے میرا پہلا مضمون سہ ماہی ’’اثبات‘‘ تھانے کے بعد’’ہندوستان ایکسپریس ‘‘دہلی نے اہتمام کے ساتھ شائع کیا تھا۔پھر یہ ’’عکاس‘‘اسلام آباد کے تاریخی گوپی چند نارنگ نمبر میں بھی شائع کیا گیا۔ڈاکٹر نارنگ صاحب کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان کی طرف سے ہونے والا ان کے حامیوں کا جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ تو ہوتا رہے لیکن ان کے جواب میں تصویر کا دوسرا رُخ کوئی نہ دکھائے۔جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲کی سنسر شپ کی کہانی’’اثبات‘‘، ’’ہندوستان ایکسپریس ‘‘اور ’’عکاس‘‘گوپی چند نارنگ نمبرکے ذریعے دنیا بھر کے اردو قارئین پڑھ چکے ہیں۔اب حالیہ دنوں میں جب ڈاکٹر نارنگ صاحب کے ساتھیوں کے بے بنیاد پروپیگنڈہ کے جواب میں میری طرف سے جواب چھپنا شروع ہوئے تو روزانہ ہمارا مقصد دہلی نے میرے مضامین اہتمام سے شائع کیے۔لیکن افسوس کہ آج ۱۸اگست ۲۰۰۹ء کی شام کواس اخبار پر دباؤ ڈال کر میرے تازہ ترین مضمون کی اشاعت رکوا دی گئی ہے۔یہ نارنگ صاحب کی طرف سے ’’سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد ‘‘والا منظربنا ہوا ہے۔چونکہ نارنگ صاحب کی سنسر شپ کی پہلی کہانی بھی منظر عام پر لا چکا ہوں ،اب موجودہ سنسر شپ کی خبر کے ساتھ اپنا تازہ مضمون بھی اردو دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہوں،جس کی اشاعت رکوا دی گئی ہے۔ڈاکٹر نارنگ کے سرقوں کی بحث سے متعلق اپنے سارے مضامین ’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت‘‘کے نام سے جلد ہی کتابی صورت میں لا رہا ہوں۔یہ کتاب انڈیا اور پاکستان دونوں ملکوں سے چھپے گی،انشاء اللہ۔ح۔ق)
مضمون ’’پرویزی حیلوں کی روداد‘‘مذکورہ بالا نوٹ کے ساتھ ۱۸اگست ۲۰۰۹ء کو ایک ہزار سے زائد ای میل ایڈریسز پر اوپن ای میل کی صورت ریلیز کیا گیاجس کے نتیجہ میں ایک اخبار میں اشاعت سے روکے گئے مذکورہ مضمون کوتین اخبارات نے شائع کر دیا۔ح۔ق۔