(کینیڈا کے ایک صحافی منیر پرویز سامی نے ڈاکٹر نارنگ صاحب کے اشارے پراپنے رائٹرز فورم پر اب نیا محاذ کھولا ہے۔اس کی دلچسپ اور افسوسناک روداد الگ سے ایک مضمون میں پیش کر رہا ہوں۔سرِ دست ان کے فورم سے ریلیز کیے جانے والے ایک اعتراض کا جواب پیش کر رہا ہوں جو انہیں ان کے فورم پر ریلیز کرنے کے لیے بھیجا ہے۔دیکھتے ہیں وہ جواب ریلیز کرتے ہیں یا نہیں!ح۔ق)
۔۔۔۔۔۔
میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کے حامیان کرام نے انہیں سرقے کے الزام سے بری کرانے کی بجائے مزید خراب کرانے کا تہیہ کر لیا ہے۔ابھی تک ڈاکٹر نارنگ کے دفاع کے لیے جو کچھ بھی لکھا گیا ہے اس میں ایک دفاعی مضمون ایسا نہیں ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیاہو اور اسے دلیل کے ساتھ ثابت کیا گیا ہو کہ ڈاکٹر نارنگ نے اپنی تصنیف’’ ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات ‘‘میں مغربی کتابوں سے سرقے نہیں کیے۔اس کی بجائے ہر بار بات کو گھما کر کسی ذاتی مسئلہ میں الجھا نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔کینیڈا کے ’’غیر جانبدار‘‘ منیر پرویز سامی کی ’’سابقہ غیر جانبدارانہ کاروائی‘‘سے قطع نظر اب جدید ادب کی مجلس مشاورت میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے نام کی شمولیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔مجھے افسوس ہے کہ منیر پرویز سامی صاحب ایسے حیلے تلاش کر رہے ہیں جن کے جواب کے لیے مجھے کچھ نیا نہیں لکھنا پڑ رہا بلکہ پرانے اقتباسات میں ہی ان کے اعتراض کا جواب مل جاتا ہے۔ایسے فضول اعتراضات کے جواب سے قطع نظر بنیادی سوال اب بھی یہی ہے کہ کیا ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب نے اتنے بڑے پیمانے پر مغربی کتابوں سے سرقے کیے یا نہیں؟ اور کیا ان کے حامیوں میں سے کسی ایک نے بھی علمی تہذیب کے ساتھ اس سوال کا سامنا کیا ہے یا نہیں؟ان سوالوں کے سنجیدہ علمی جواب دئیے بغیر نجات ممکن نہیں ہے۔نارنگ صاحب کی بھی اور ان کی چوریوں کا بے تکا دفاع کرنے والوں کی بھی۔
جدید ادب کی مجلس مشاورت میں شمولیت یا عدم شمولیت کے حوالے سے بھی اعتراض کا جواب گزشتہ برس ۸اپریل کو لکھ چکا ہوں۔معیدرشیدی نے www.urdudost.com کے میگزین’ ’ اردو ورلڈ‘‘کے شمارہ نمبر ۷کے لیے مجھ سے ایک انٹرویو لیا تھا۔اس انٹرویو کے دو سوالوں کے جواب یہاں پیش کر رہا ہوں۔
حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوالوں کے حصار میں:معید رشیدی کا حیدر قریشی سے انٹرویو
معید رشیدی : مابعدِ جدیدیت میں غزل کا کیا چہرہ بن رہا ہے ۔کیا یہ غزل اپنے سابقہ مو ضو عات کی شد ت کو رد کر تی ہے؟ مابعدِ جدید غزل ،جدید غزل سے کس حد تک مختلف ہے ؟اس کے امتیازات پر کچھ روشنی ڈالیے ۔
حیدر قریشی : بھائی! کون سی مابعد جدیدیت کی غزل؟۔۔۔جو لوگ اپنی غزل کی بابت ایسا کچھ کہہ رہے ہیں وہ اپنی سادگی اور معصومیت میں محض کسی کو خوش کرنے کے لیے ایسا کہہ رہے ہیں۔ہندوستان میں جس ہستی نے مابعد جدیدیت کی تبلیغ کا بیڑا اُٹھایا تھا،وہ تو اپنی ’’معرکتہ الآراء‘‘کتاب سمیت علمی لحاظ سے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ان کی پوری کتاب انگریزی کتابوں کے سرقہ کا شاہکارثابت ہو چکی ہے اور انہیں اپنی صفائی میں یا چوری کے الزام سے بریت کے لیے ایک لفظ بھی لکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔اسے محض الزام تراشی نہیں سمجھیں۔جدید ادب کے شمارہ :۹اور ۱۰میں عمران شاہد بھنڈر کے مضامین پڑھ کر میری بات کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ہندوستان میں جس ما بعد جدیدیت کے کرتا دھرتا کا یہ عبرتناک علمی انجام ہوا ہے،اس کے حوالے سے آپ کس مابعد جدید غزل کی بات کر رہے ہیں ؟ ۔ ۔ ۔ لگے ہاتھوں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ خود مغربی ممالک کی یونیورسٹیوں کے نصابوں سے بھی اب اسے خارج کیا جا رہا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے جدید ادب کے شمارہ :۱۱کا انتظار کیجیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معید رشیدی : اپنے رسالے جدید ادب،کی مجلس مشاورت سے گو پی چند نارنگ کو آپ نے کیوں الگ کردیا ؟
حیدر قریشی : در اصل میں جدید ادب میں کسی مجلس مشاورت کے حق میں نہیں تھا۔دو دوستوں کے اصرار پراس کا سلسلہ شروع کیا۔ تب میں نے نارنگ صاحب سے بات کی۔انہوں نے شمولیت کے لیے حامی بھر لی،اور مشاورت کے طور پر اپنا ایک انٹرویو بھیج دیا،میں نے اسے شمارہ :۴میں شائع کر دیا۔شمارہ: ۵کے لیے انہوں نے اپنی ’’معرکتہ الآراء‘‘کتاب ’’ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ کے بارے میں اپنے کسی نیازمند کا طویل مضمون بطور مشیر عنایت کر دیا۔مابعد جدیدیت کے ڈرامہ کو سمجھ لینے کے بعد اس کے سلسلہ میں مجھے شروع سے ہی تحفظات رہے ہیں ، سو ظاہر ہے میں نے وہ مضمون شائع نہیں کیا۔اور ساتھ ہی نارنگ صاحب کی اس قسم کی مشاورت سے بچنے کے لیے ان کا نام ایک ہی شمارہ کے بعد حذف کر دیا۔ویسے سچی بات ہے میں اب بھی مجلس مشاورت کے حق میں نہیں ہوں۔محض دو دوستوں کی ضد کے آگے خاموش ہوں۔شاید اب بول پڑوں۔ویسے نارنگ صاحب کے حوالے سے یہ وضاحت کر دوں کہ اگرچہ میں نے ان کی’’ معرکتہ الآراء‘‘کتاب پرلکھے ہوئے مضمون کو شمارہ: ۵کے لیے ان کے بھیجنے کے باوجود شائع نہیں کیا تھا لیکن اس کے بعد شمارہ نمبر ۹اور ۱۰میں ا سی کتاب پر تفصیلی مضامین چھپے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ کہیں رُکا نہیں ہے،مزید سرقے بھی شائع کیے جا رہے ہیں۔
(سات اپریل ۲۰۰۸ء کو لکھا گیا۔مطبوعہ انٹرنیٹ میگزین اردو ورلڈ شمارہ: ۷ )
میں اپنے غیر جانبدار دوست منیر پرویز سامی کی مزید تسلی کے لیے اس قماش کے سارے اعتراضات اپنی مطبوعہ تحریروں میں سے ہی پیش کرتا رہوں گا۔یار زندہ صحبت باقی۔اور حاضرین اس بار میری طرف سے بھی منیر سامی صاحب والی Cheers
تاہم بنیادی مسئلہ اب بھی یہ ہے کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب نے اپنی ’’تصنیف‘‘ ’’ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ میں اتنے بڑے پیمانے پر سرقے کیے ہیں یا نہیں؟ اور ان کے حامیوں میں اس سوال کو سنجیدہ علمی سطح پر ابھی تک کیوں نہیں لیا جا رہا؟
(مطبوعہ روزنامہ ہمارا مقصددہلی ۱۸اگست ۲۰۰۹ء)