جب سے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی کتاب ’’ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘کے سرقے بے نقاب ہوئے ہیں تب سے نارنگ صاحب نے مختلف حیلوں بہانوں سے ایسے جواب دلانے کی کوشش تو کی ہے کہ بحث کا رُخ اُ ن کے سرقوں سے ہٹ کر کسی اور طرف چلا جائے لیکن اصل مسئلہ یعنی اپنے سرقوں کے بارے میں نہ وہ خود کوئی صفائی دے رہے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی دفاع کرنے والا اس حوالے سے کوئی ایک بھی علمی دلیل دے سکا ہے۔میں اپنے مضمون ’’اتفاقیہ یا منصوبہ بند کاروائی؟‘‘میں دو الزامات کا مدلل ردکر چکا ہوں۔ان میں سے ایک الزام سرقہ کے معاملہ کو نارنگ و فاروقی اختلاف کے تناظر میں پیش کرنے کی سعیٔ نامشکور ہے تو دوسراالزام اردو کے ہندو ادیبوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا گلہ کرتے ہوئے اسے فرقہ پرستانہ رویہ قرار دینے کی کاوش تھی۔ ان دونوں الزامات کا رداپنے مذکورہ بالا مضمون میں کر چکا ہوں۔
اب ایک نئے الزام کے حوالے سے چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔کینیڈا کے منیرسامی صاحب نے ایک اخباری تراشہ بھیجا تو معلوم ہوا کہ مجھ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ مجھے ڈاکٹر نارنگ صاحب نے سجاد ظہیر صدی کی تقریب کے سلسلہ میں دہلی میں مدعو کیا تھا۔میں نے ائر ٹکٹ کا مطالبہ کیا۔یہ مطالبہ پورا نہیں کیا گیا تو میں نارنگ صاحب کا مخالف ہو گیا۔اسی وجہ سے ان سرقوں کا چرچا کیا جا رہا ہے۔
پہلے تو ایک بڑی ہی اصولی اور سیدھی سی بات ہے کہ ایک شخص مالِ مسروقہ سمیت رنگے ہاتھوں پکڑا جائے تو وہ سیدھے صاف لفظ میں چور ہے۔ اگر وہ اپنی چوری کو ماننے اور اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے اپنے حمایتیوں کے ذریعے یہ کہنا شروع کر دے کہ چونکہ اسے پکڑنے والے اس کے مخالف ہیں اس لیے الزام غلط ہے اور یہ مال میرا ہی ہے۔چونکہ میرا مذہب دوسرا ہے اس لیے یہ الزام غلط ہے۔نارنگ صاحب کو یہ سارے پاپڑ اس لیے بیلنے پڑ رہے ہیں کہ وہ اپنی چوریوں کا سامنا کرکے اس پر ندامت کا اظہار کرنے کی بجائے اپنی پبلک ریلشننگ کے بَل پرانہیں بزور بازو اپنا مال ثابت کرنا چاہ رہے ہیں، جو اَب تو بالکل ہی ممکن نہیں رہا ۔
اب آتے ہیں نارنگ صاحب کی طرف سے لگائے گئے ائر ٹکٹ والے الزام کی طرف۔انہوں سجاد ظہیر صدی کے حوالے سے مجھے مدعو نہیں کیا تھا۔اس حوالے سے مجھے سجاد ظہیر صاحب کی صاحبزادی نور ظہیر نے مدعو کیا۔البتہ نارنگ صاحب نے ساہتیہ اکیڈمی کے نئی بستیوں والے سیمینار میں مدعو کیا تھا ۔ میں نے پہلے مرحلہ میں ہی معذرت کر لی کہ میں کہیں بھی جانے کے لیے ائر ٹکٹ افورڈ نہیں کر سکتا۔اس سلسلہ میں نارنگ صاحب کی طرف سے لگوائے جانے والے اس بے ہودہ الزام سے پہلے کی ایک تحریر میں اس کا رد موجود ہے۔ جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲ (جنوری تا جون ۲۰۰۹ء)میں مطبوعہ اپنی یادوں کے باب ’’چند نئی اور پرانی یادیں‘‘کا ایک اقتباس پیش ہے۔اس سے صرف نارنگ صاحب کی کانفرنس ہی نہیں اس انداز کی دوسری تقریبات کے بارے میں بھی میرے طرزِ عمل کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
’’میں نے مشاعرہ بازی سے پرہیز کی اپنی مجبوریاں بتائیں۔پھر باتوں کا سلسلہ چل نکلاتو میں نے وضاحت کی کہ بھائی! ان مشاعروں سے اردو کی جو بین الاقوامیت بننی ہے سو بننی ہے،مجھے تو اب عالمی کانفرنسوں اور سیمینارز کے حقیقی نتائج پر بہت سے تحفظات ہیں۔ نشستند ، خوردند ،برخاستندسے زیادہ کوئی نتیجہ سامنے آیا ہو تو بتایا جائے۔پھر مجھے وہ کانفرنسیں اور سیمینارز یاد آنے لگے جن میں مجھے مدعو کیا گیا لیکن میں نے شرکت سے معذرت کر لی۔سجاد ظہیر صدی کی تقریبات کے حوالے سے ان کی صاحبزادی نور ظہیر نے بذاتِ خود مدعو کیا ،ڈاکٹر خلیق انجم نے انجمن ترقی اردو ہند کی صد سالہ تقریب کے ضمن میں مدعو کیا،ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے ساہتیہ اکادمی کے زیر اہتمام اردو کی نئی بستیاں کے موضوع پر ہونے والے سیمینار میں مدعو کیا،ڈاکٹر خلیل طوق أر نے استنبول یونیورسٹی کے سیمینار میں مدعو کیا،لندن کی میلینئم کانفرنس کے منتظمین نے اس کانفرنس کے بعد کی کانفرنس میں مدعو کیا۔۔۔میں نے ان سب سے معذرت کی تھی۔وجہ؟ ۔ ۔ ۔ تمام دعوت ناموں میں قیام و طعام وغیرہ امور کی ذمہ داری لی جاتی تھی لیکن ہوائی جہاز کا ٹکٹ ’’بین الاقوامی ادیبوں‘‘ کو اپنی جیب سے خریدنا تھا۔میں چونکہ ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا اس لیے ادب کے ساتھ شرکت سے معذرت کر لیتا ہوں۔اور اس لیے قلبِ یورپ میں بیٹھ کر بھی پورے کا پورا مقامی شاعر اور ادیب ہوں اور اس بات پر خوش ہوں کہ میں معروف معنوں میں ’’بین الاقوامی ادیب‘‘نہیں ہوں۔‘‘ (جدید ادب شمارہ ۱۲۔صفحہ نمبر ۲۳۴)
یہاں یہ بھی وضاحت کر دوں کہ سال ۲۰۰۳ء میں جب ماریشس کی اردو کانفرنس کے سلسلہ میں مدعو کیا گیا تھا تو شروع میں ایک طرف کا کرایہ دینے کا ذکر کیا گیا تو میں نے پہلے مرحلہ میں ہی شرکت سے معذرت کر لی۔بعد میں ان لوگوں نے خود رابطہ کیا اور کہا کہ ہم آپ کو ٹکٹ بھیج رہے ہیں۔سو اگر کوئی مجھے مدعو کرتا ہے تو میں اپنی مجبوری مہذب انداز میں بتا دیتا ہوں۔میں مذکورہ بالا ساری تقریبات میں شریک نہیں ہوا تو اس وجہ سے میری کسی سے بھی ناراضی نہیں ہے۔جب میں نے شرکت سے معذرت کر لی تب نارنگ صاحب نے کہا کہ چلیں آپ اپنا مضمون بھیج دیں۔میں نے مضمون بھیج دیا۔تقریب ہو گئی۔
ناراضی ہرگز نہیں تھی لیکن یہ افسوس ضرور تھا کہ نارنگ صاحب اردو کی نئی بستیوں کے نام پرزیادہ تر جعلی شاعروں اور چورقسم کے ادیبوں کو اہمیت دے رہے تھے۔ اس کے بعد نارنگ صاحب نے سات جون ۲۰۰۵ء کوبذریعہ ای میل فرمائش کی کہ میں انہیں دو مضامین فراہم کردوں۔ایک میرے فن پر مغرب کے کسی اچھے ادیب کا مضمون۔دوسرا کسی مغربی ملک میں مقیم اردو ادیب کے فن پر میرا مضمون۔یہ بڑی عمدہ پیش کش تھی ۔مجھے اپنی پبلک ریلشننگ مستحکم کر نی چاہیے تھی۔لیکن میں نے بڑی صاف گوئی سے نارنگ صاحب کو اردو کی نئی بستیوں کی حقیقت سے آگاہ کیا۔تب ایک دن میں میری نارنگ صاحب کے ساتھ ای میل کے ذریعے جو مراسلت ہوئی تھی وہ بھی میں نے شائع کر دی تھی۔دو ماہی گلبن لکھنؤ کے شمارہ جولائی،اگست ۲۰۰۵ء میں میرے مطبوعہ خط کا یہ اقتباس ساری صورتحال کو واضح کر دیتا ہے۔
’’ مارچ ۲۰۰۵ء میں ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے،در اصل ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی جانب سے اردو کی بستیوں پر خصوصی سیمینار کرایا گیا۔اس میں نہ صرف کئی جعلی لوگ شریک ہوئے،بلکہ کئی جعلی لوگوں پر خصوصی مقالات لکھوائے گئے(اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے)۔میں نے بوجوہ اس تقریب میں شمولیت سے معذرت کر لی تھی،البتہ نارنگ صاحب کی فرمائش پر اپنا مضمون لکھ کر بھیج دیا تھا۔اب حال ہی میں میری ان سے ای میل کے ذریعے کچھ بات چیت ہوئی تو میں نے انہیں بتایا کہ یہاں تو اسی فی صد شاعر اور ادیب جعلی ہیں ۔(باقی بیس فی صد میں بھی کتنے ہیں جو جینوئن لکھنے والے ہیں اور کتنے ہیں جو بھرتی کے لکھنے والے ہیں،وہ ایک الگ موضوع ہے۔)یہاں مورخہ ۷جون ۲۰۰۵ء کو یعنی ایک ہی دن میں ہونے والی ہماری برقی خط و کتابت کا متعلقہ حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔میں نے اپنی ای میل میں لکھا:
’’میں اردو کی نئی بستیوں کا قائل نہیں ہوں،یہ صرف جعلسازی کے گڑھ ہیں۔یہاں دولت کے بَل پر %80جعلی لوگ شاعر اور ادیب بنے ہوئے ہیں۔یہ صورتحال اردو کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی اور بعض لوگ شاید یہی چاہتے ہیں‘‘………….اس کے جواب میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے مجھے لکھا:
AZIZ-E-MAN ! I AGREE WITH YOU ENTIRELY THAT MOST OF THE PEOPLE CLAIMING TO BE WRITERS ARE NOT WRITERS AND ONLY 20% ARE GENUINE WRITERS. THAT EXACTLY IS WHAT I MEAN TO HAVE SOME ARTICLES ON THOSE GENUINE WRITERS.
یہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ انہوں نے میری بات سے اتفاق کیا،ان کی اس ای میل کے جواب میں اسی تاریخ کو میں نے پھر انہیں لکھا:
’’آپ کے سیمینار میں باہر سے شامل ہونے والوں میں سے،یا جن پر مقالے لکھوائے گئے تھے کئی لوگ یا تو جینوئن لکھنے والے نہ تھے یا ان کی چوری اور جعلسازی کھلی ہوئی حقیقت تھی‘‘
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا حوالہ اس لیے دے رہا ہوں کہ وہ خود اکثر بیرون ممالک کے ادبی دوروں پر جاتے رہتے ہیں اور اسی حوالے سے سیمینار بھی کرا چکے ہیں اور کسی بھی پاکستانی یا ہندوستانی ادیب سے کہیں زیادہ وہ ان’’ بستیوں‘‘کی اصل ادبی اور علمی حقیقت جانتے ہیں۔سو ان کا ماننا کہ ان بستیوں میں صرف بیس فی صد جینوئن لوگ ہیں،سند کا درجہ رکھتا ہے۔’’
اسی خط کے تناظر میں میرا ایک اور خط گلبن لکھنؤ کے شمارہ جنوری تا اپریل۲۰۰۷ء میں شائع ہوا۔اس کا اقتباس بھی پیش کیے دیتا ہوں۔
’’چونکہ نارنگ صاحب کے ساتھ بہت سارے ادیبوں کی مجبوریاں یا مفادات وابستہ ہیں اور ایسے دوست عجلت میں کچھ بھی لکھ جاتے ہیں اس لئے احتیاطاََ وضاحت کر رہا ہوں کہ گلبن کے شمارہ جولائی،اگست ۲۰۰۵ء میں میرا ایک تفصیلی خط چھپا ہوا ہے جس میں،میں نے نارنگ صاحب سے کہا تھا کہ بیرون ملک ۸۰فی صد جعلی اور غیر جینوئن لوگ شاعر اور ادیب بنے ہوئے ہیں اور یہ کہ جعلی لوگوں کو پروجیکٹ نہیں کرنا چاہئے۔نارنگ صاحب نے میری بات سے اتفاق کیا تھا(تفصیل مذکورہ شمارہ میں دیکھی جا سکتی ہے)،اب بتا رہا ہوں کہ یہ در حقیقت نارنگ صاحب کی اس ای میل کا جواب تھا جس میں انہوں نے مجھ سے دو تقاضے فرمائے تھے۔ایک یہ کہ میں کسی اچھے ادیب کا اپنے بارے میں کوئی اچھا سا مضمون انہیں فراہم کر دوں،دوسرا یہ کہ میں کسی جینوئن ادیب پر خود ایک مضمون لکھ کر انہیں بھیجوں جنہیں وہ اپنی آنے والی کتاب’’اردو کی نئی بستیاں‘‘میں شامل کرنا چاہتے تھے۔(ان کی اصل ای میل میرے پاس محفوظ ہے)۔مجھے اندازہ تھا کہ وہ ایسا اس لئے کر رہے ہیں کہ ان کی بیرون ملک بستیوں والے سیمینار میں جو فاش خامیاں رہ گئی تھیں انہیں کوَر کر لیا جائے ۔بلکہ گدھوں کے ساتھ چند گھوڑے باندھ کر گدھوں،گھوڑوں کو برابر کر دیا جائے۔اس لئے اُس تقاضہ کے باوجود جس پر بلا چون و چرا عمل کرکے میں ان کی نئی کتاب’’اردو کی نئی بستیاں‘‘ میں جگہ پا سکتا تھا،میں نے اس مفاد کو اہمیت نہیں دی اور نارنگ صاحب کو اصل حقیقت سے آگاہ کیا(ویسے وہ خود بھی اصل حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں،پھر بھی۔۔۔)
سرِ دست اتنی وضاحت کافی ہے،باقی پھر سہی۔امید ہے اس وضاحت کو مدِ نظر رکھا جائے گا۔‘‘
اس سارے منظر نامہ کے بعد اگر کوئی میرے مزاج کو سمجھ سکتا ہے تو وہ بخوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ میرااگر کوئی اختلاف تھا تو وہ جعلی شاعروں یا چور ادیبوں کی پروجیکشن سے متعلق تھا۔اس کا مناسب اظہار بھی میں نے تب کیا جب ان کی طرف سے دو مضامین کا تقاضہ کیا گیا۔ ائر ٹکٹ کا مسئلہ تو ناراضی کے تناظر میں کہیں بھی نہیں ہے۔نہ نور ظہیر کے ساتھ،نہ خلیق انجم کے ساتھ،نہ ڈاکٹر نارنگ کے ساتھ نہ استنبول یونیورسٹی کے خلیل طوق أر کے ساتھ۔بلکہ میں چیلنج کرتا ہوں کہ کوئی بھی شخص یہ بتا دے کہ جرمنی میں قیام کے سترہ برسوں کے دوران میں نے کبھی کسی ذریعے سے کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے کسی سے فرمائش کی ہویا شمولیت کے لیے کوئی بھاگ دوڑ کی ہو۔خدا نے اس معاملہ میں بڑی ہی بے نیازی بخش رکھی ہے۔ اور اس نعمت کے بخشے جانے پر خدا کا بڑا ہی شکر گزار ہوں۔
ساختیات ،پسِ ساختیات کے حوالے سے نارنگ صاحب کے ساتھ اختلاف ۱۹۹۴ء سے آن ریکارڈ چلا آرہا ہے۔سہ ماہی دستک ہوڑہ،مغربی بنگال کے شمارہ جولائی ۱۹۹۴ء میں میرا ایک خط چھپا ہوا موجود ہے۔اس میں نارنگ صاحب کے ایک مضمون پر میں نے اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق تفصیلی اظہارِ خیال کیا ہے اور ان کے پیش کردہ نکات کو ’’گمراہ کن‘‘قرار دیا ہے۔حالانکہ تب ان کے یہ افسوسناک سرقے بھی سامنے نہیں آئے تھے۔ اس خط کو کسی مضمون کا حصہ بنا کر یا پھر ویسے ہی اپنے مضامین کے نئے مجموعہ میں شامل کر لوں گا۔
ڈاکٹر نارنگ صاحب کی اردو کے لیے بے پناہ خدمات ہوں گی۔وہ بڑی عظیم شخصیت ہوں گے۔لیکن موضوع زیرِ بحث یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ’’تصنیف‘‘’ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘میں مغربی کتابوں سے بے شمار سرقے کیے ہیں یا نہیں ؟اگر کیے ہیں تو ان کی’’بے پناہ خدمات‘‘ اور’’شخصیت کی عظمت‘‘کے باعث ان کے سرقوں کا جرم کئی گنا زیادہ شرمناک ہوجاتا ہے۔کیا ان کی عظمت کے دلدادگان میں سے کوئی ایک مائی کالال ایسا ہے جو پہلے سرقوں کی نشاندہی کرنے والے سارے مضامین کو بغور پڑھے،پھر اصل انگریزی کتابوں سے ان الزامات کو جانچے اور اس کے بعد کھل کر اصل حقیقت بیان کر دے؟۔۔۔افسوس یہ ہے کہ انہوں نے جن ادبی فضلاء کی حمایت پر تکیہ کر رکھا ہے ،ان کے ساتھ دوبدوبات کی جائے تو ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جو زیرِ بحث کتاب کے بارے میں پانچ منٹ تک بھی گفتگو کرنے کے قابل نکلے۔سو نارنگ صاحب کو یقین کرلینا چاہیے کہ اپنی بے شمار خدمات گنوا کر بھی وہ چوری کے الزام سے بری نہیں ہو سکتے اور متعدد دوسرے مسائل کو چھیڑ کر گفتگو کا رُخ کسی اور طرف پھیر دینے سے بھی ان کی سرقوں کے جرم سے نجات ممکن نہیں ہے۔جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲پر انہوں نے جس طرح سنسرشپ کا دباؤ ڈالا تھا،اس کی پوری روداد چھپ چکی ہے اور نارنگ صاحب کو اپنی اس حرکت کی داد بھی مل چکی ہے۔تاہم میں نے اس اشو کو بھی ایک حد تک ہی رکھاہے۔اصل اشو تو یہ ہے کہ انہوں نے بڑے پیمانے پر سرقے کیے ہیں یا نہیں؟اگر وہ ندامت کے ساتھ معذرت کر لیں تو انہیں ان کی زیرِ بحث’’تصنیف‘‘کا مترجم مانا جا سکتا ہے۔ورنہ موجودہ صورت حال میں وہ مترجم بھی نہیں ہیں،انہوں نے اس صدی کا سب سے بڑا علمی ڈاکہ مارا ہے۔
جدیدادب کے شمارہ نمبر ۱۲پرتبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اعوان صاحب نے روزنامہ آج پشاور کی اشاعت یکم جنوری ۲۰۰۹ء میں اپنا پوراکالم لکھا تھا۔اس میں میرا ذکر بہت زیادہ محبت کے ساتھ کیا گیا تھا۔میں نے شمارہ نمبر ۱۳میں اس کالم کا بمشکل پانچواں حصہ شائع کیا ہے۔چار حصے شامل نہیں کیے۔جو حصہ شامل نہیں کیا اس میں ایک جملہ یہ بھی ہے:’’حیدر قریشی شیر کی کچھار میں جا کر اس کو للکارتے ہیں‘‘۔میں نے اس جملہ کو جدید ادب شمارہ ۱۳میں شائع نہیں کیا لیکن اس کا مزہ ضرور لیا۔ڈاکٹر نارنگ صاحب کے سرقوں کو نمایاں کرنے میں مجھ سے جو کام ہوا ہے اُسے میں خدا کی طرف سے بخشی گئی خاص توفیق شمار کرتا ہوں۔افسوس کہ نارنگ صاحب شیر بن کر سامنے آنے کی بجائے لندن کی ایسی ’’چیز‘‘کو میرے پیچھے لگانے میں جتے ہیں جس کو میں نے کبھی جواب نہیں دیا۔اور جو ادبی دنیا کی واحد ’’چیز‘‘ ہے جس نے اپنی کتاب مجھے پریزنٹ کرکے بھیجی تو میں نے اسے اس کی رسید دینا بھی گوارا نہیں کیا۔کیونکہ میں اس کے ادب کے نام پر غلیظ کردار سے شروع سے ہی متنفر ہوں۔میں نارنگ صاحب ہی سے گزراش کروں گا کہ ادھر اُدھر سے بے تکے اعتراضات کرانے کی بجائے اب شیر بنیں اور اپنے سرقوں کا سامنا کرتے ہوئے خود اس حوالے سے بات کریں کہ بے تکی الزام تراشیاں اور موضوع کا رخ پھیرنے والی کاوشیں انہیں ان کے سرقوں کے جرم سے بری نہیں کر سکتیں۔
(مطبوعہ روزانہ ہمارا مقصد دہلی۔۱۰اگست ۲۰۰۹ء)