٭٭ گیارہ ستمبر ۲۰۰۳ءکو نائن الیون کے سانحہ کی یاد منائی گئی۔ (میڈیا رپورٹس)
٭٭اس سانحہ کے حوالے سے ابھی تک امریکی حکام اور خفیہ ادارے ایسا کوئی مواد سامنے نہیں لا سکے جس سے امریکی عدالتیں ان لوگوں کو مجرم مان لیں جن کو دو سال سے امریکی میڈیا اس سانحہ کا مجرم قرار دیتا آرہا ہے۔یہ بہت بڑا المیہ ہے اورامریکی عدل و انصاف کے دامن پر خونی دھبہ ہے۔کیونکہ اسی سانحہ کی آڑ لیکر افغانستان اور عراق پر حملوں کا کھیل شروع ہوا ہے اور ابھی یہ شیطانی کھیل رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔بلکہ اس کھیل کے کھلاڑی عالمی ڈریکولا کا روپ اختیار کر چکے ہیں ۔ بہت سے سوال ہیں جن کے جواب ابھی تک امریکی اتھارٹیز کی طرف سے نہیں دئیے جا سکے۔ ایسے سوال جن سے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارتوں پر حملہ کرنیوالے امریکہ اور اسرائیل کے اندر سے برآمد ہوجاتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ دنیا کو درپیش بحران کا سبب عدل کا فقدان ہے۔
(تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے سربراہ کا بیان)
٭٭ آغا سید حامد علی شاہ موسوی سربراہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان نے مرض کی تشخیص تو بالکل درست کی ہے۔المیہ یہ ہے کہ سماجی سطح پر سب سے زیادہ عدل کا فقدان مسلمان معاشروں میں پایا جاتا ہے۔اس وقت امریکہ کی زیر قیادت جو عالمی دہشت گردی ہو رہی ہے،اور اس میں انصاف کا جو خون ہو رہا ہے وہ سب ظلم ہے۔اس کے باوجود ان ممالک میں دیکھا جائے تو اندرونی طور پر عدل و انصاف کا پورا نظام انہوں نے رائج کر رکھا ہے۔ ملکی قانون کے مطابق جو فیصلہ ہوگا عمومی طور پر شفاف ہو گا۔ان کے بر عکس مسلمان کہلانے والے تمام معاشروں میں اپنوں پر ہی ظلم،اور ناانصافیوں کی حد ہو گئی ہے۔عدل کا جوفقدان اس وقت مسلمان کہلانے والے معاشروں اور مسلمان کہلانے والی تنظیموں کے اپنے اندرونی دائروں میں ہے وہ از حد تکلیف دہ اور شرمندہ کرنے والا ہے۔اسی لئے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اس وقت عالمِ اسلام پر جو ”امریکی عذاب“آیا ہوا ہے کہیں یہ خدا کی طرف سے مسلمانوں کو عدل و انصاف سے منہ پھیر لینے کی سزا تو نہیں مل رہی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ سعودی شہزادہ اور ولی عہد پرنس عبداﷲ کا دورۂروس۔ (اخباری خبر)
٭٭آدھی صدی سے زیادہ عرصہ تک سعودی عرب اور اس کے زیر اثر ممالک نے سابق سوویت یونین سے نہ صرف تعلقات استوار نہیں کئے بلکہ” سوویت یونین مخالف امریکی خواہشات“ کی تکمیل کے لئے امریکہ کے ہاتھوں فخریہ طور پر”ٹشو پیپر“ کی طرح استعمال ہوتے رہے۔(یہ ٹشو پیپر میں نے احتراماً لکھ دیا ہے۔عملاًجس طرح سعودی عرب اور دوسرے اسلامی ممالک امریکہ کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں اس کے لئے استعمال ہونے والی ایک اورچیز کا نام زیادہ مناسب ہے لیکن قلم اور تہذیب اس کی اجازت نہیں دیتے،اس لئے ٹشو پیپر سے ہی کام چلا رہا ہوں)۔آج جب امریکہ مسلمانوں کے ذریعے سوویت یونین کو توڑکر خود اسلامی ممالک کے خلاف ہی دہشت گردی پر اتر آیا ہے تو اب سعودی عرب کے شہزادوں کو روس کی یاد آگئی ہے۔ ہماری پاک فوج کے اعلیٰ افراد بھی اب روس کے چکر لگانے لگ گئے ہیں ۔شہزادہ عبداﷲ اور پرویز مشرف سے ملتے وقت روسی قیادت دل ہی دل میں کہہ رہی ہو گی۔
کی مِرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
اِدھر ہمارے جنرل پرویز مشرف اور شہزادہ عبداﷲ جیسے قائدین میں سے ہر قائد روسی قائدین سے ملتے ہوئے دل ہی دل میں کہتا ہوگا
خود بھی اجڑ گیا ہوں میں تجھ کو اجاڑ کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ کشمیر کی حریت کانفرنس میں پھوٹ تیرہ جماعتوں نے عباس انصاری کو چیئرمین شپ سے ہٹا دیا۔ (اخباری خبر)
٭٭ یہ بہت ہی افسوسناک خبر ہے۔لگتا ہے انڈیا کے جو مقرر کردہ افراد کشمیری رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے ان کا مقصد کشمیریوں کے مطالبات پورے کرنا نہیں تھا بلکہ کشمیریوں میں پھوٹ ڈلوانا تھا۔انڈیا کی یہ پالیسی وقتی فائدے کی حد تک تو شاید کام کرجائے لیکن مستقل امن کے قیام کا مقصد اس سے حاصل نہیں ہو سکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ پاکستان میں ہندوستان کے ہائی کمشنر کی چارسدہ میں خان عبدالولی خان سے ملاقات۔ انڈیا کے دورے کی دعوت۔پردھان منتری واجپائی سمیت اہم ملکی رہنماؤں سے ملاقات کا پروگرام۔ (اخباری خبر)
٭٭ خان عبدالولی خان کے ساتھ نئے ہندوستانی ہائی کمشنرکی ملاقات پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔پاکستان کے وہ تمام دینی اور سیاسی عناصرجو ماضی میں کانگریس کے حلیف رہے ہیں ،ان کے ذریعے حالات کو بہتر بنانے کی کوئی صورت نکلتی ہے تو ضرور نکالنی چاہئے۔تاہم یہ عجیب بات ہے کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کی حکومت کے لوگ بار بار ملاقات کی درخواست کئے جا رہے ہیں اور ہندوستانی حکومت اس درخواست پر ذرا غور نہیں کر رہی جبکہ سابقہ کانگریس نواز علماءاور سیاسی شخصیات کو بڑے پیمانے پر” ملاقات کا شرف“بخشا جا رہا ہے۔کہیں ہندوستانی حکومت حریت کانفرنس کی طرح پاکستان میں بھی ایسی کوئی گیم تو نہیں کھیل رہی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ اگر امریکہ نے سعودی شاہی خاندان سے منہ موڑلیا تواس ملک میں طالبان جیسا نظام جگہ لے سکتا ہے۔ (سعودی عرب میں امریکی سفیر رابرٹ جارڈن کا بیان)
٭٭ طالبان کا نظام کئی لحاظ سے پہلے ہی سعودی عرب میں رائج ہے۔امریکہ کی نظر میں طالبان کا اصل قصور یہ تھا کہ انہوں نے امریکی خواہشات کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا تھا۔ وگرنہ فقہ کے نفاذ کی حد تک تو طالبان اور سعودی عرب میں زیادہ فرق نہیں تھا۔غالباً امریکی سفیر یہ کہنا چاہتے تھے کہ اگر سعودی خاندان سے منہ موڑا گیا تو وہاں امریکہ کے خلاف سخت موقف رکھنے والے حلقے آگے آجائیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کیونکہ امریکہ کی موجودہ انتظامیہ نے اپنی جارحانہ اور انسانیت سوز کاروائیوں سے سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ کردیا ہے جو امریکہ سے شدید نفرت کرتے ہیں ۔موجودہ امریکی انتظامیہ نے تیل کی ہوس میں جو کچھ بویا تھا ویسا ہی اس کا پھل سامنے آرہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ میکسیکو کے شہر کینکن میں عالمگیریت کے خلاف مظاہرین نے برہنہ ہو کر مظاہرہ کیا۔
(اخباری خبر)
٭٭ یہ عجیب بات ہے کہWTO میں شمولیت کے معاملے میں تیسری دنیا کے ممالک میں امریکہ نواز عناصر تو بیتاب ہوئے جا رہے ہیں اور پڑھے لکھے ترقی یافتہ ممالک کے عام عوام اسے انسانیت سوز قرار دے رہے ہیں ۔ کینکن میں سڑکوں پر تو مارچ کیا گیا اور ساحل پر عریاں ہو کر مظاہرہ کیا گیا۔اس سے قبل جب بُش جونئیر کی جارحانہ سرگرمیوں کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے ہو رہے تھے تب ایک جلوس میں ایک بڑا حلقہ برہنہ خواتین و حضرات کا چل رہا تھا۔غالباً اسطرح مغربی دنیا کے عوام صدر بُش کو بتا رہے ہیں کہ اگر تم اپنے عزائم میں ننگے ہو کر سامنے آگئے ہو تو یہ لو ہم ویسے ہی برہنہ ہو جاتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کا دورۂبھارت۔۔سرکاری سطح پر خیرمقدم ۔عوامی سطح پر مخالفت میں شدید مظاہرے۔ (اخباری رپورٹس)
٭٭ انتہا پسند یہودی ایریل شیرون کوانتہا پسند ہندو ایڈوانی اور واجپائی کے ہمنواؤں نے بھارت میں خوش آمدید کہا ہے ۔ انتہا پسند یہودی اورانتہا پسند ہندوؤں کے اس میل پر انتہا پسند عیسائی جارج ڈبلیو بُش نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ لیکن انڈیا کے مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد نے ایریل شیرون کی آمد پر شدید غصہ اور نفرت کا اظہار کیا ہے۔اس سلسلے میں ملک بھر میں متعدد جلوس نکالے گئے۔دہلی میں جب انتہا پسنداور دہشت گرد یہودی ایریل شیرون کو گارڈ آف آنر دیا جارہا تھا ،وہیں باہر عوام کا جلوس ”فلسطینیوں کے قاتل واپس جاؤکے نعروں سے اسے اس کا اصل چہرہ دکھا رہا تھا۔ بائیں بازو کے سیاستدانوں نے اس موقعہ پر ایریل شیرون کو ”جنگی مجرم“قرار دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ پاکستان اور بھارت کا ایک دوسرے کو ایٹمی ہتھیاروں سے مرعوب کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ (جنرل پرویز مشرف کا ایک روسی اخبار کو انٹرویو)
٭٭ یہ انٹرویو ایسے موقعہ پر آیا ہے جب اسرائیلی وزیر اعظم ہندوستان کے دورے پر ہے۔انڈیا کی بی جے پی حکومت نہ صرف اسرائیل سے جدید تر اسلحہ خریدنے کے معاہدے کر رہی ہے بلکہ میزائل شکن نظام بھی لے رہی ہے۔ایسی فضا میں جنرل صاحب کا یہ بیان کچھ جچ نہیں رہا۔اس سے بہتر تھا کہ وہ ایل ایف او کے حق میں کوئی آئینی لطیفہ قسم کا بیان دے دیتے ۔ پاکستانی عوام کو تھوڑا سا ہنسنے اور تھوڑا سا رونے کا موقعہ مل جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ایشیائی نیٹو قائم ہو گی۔بھارت کا کردار بنیادی ہوگا۔
(واشنگٹن کی امریکی فارن پالیسی کے نائب صدر کا بیان)
٭٭ یہ بظاہر ایک معمولی سی خبر ہے لیکن حقیقتاً جنوبی ایشیا کے امن کو غارت کرنے کا گھناؤنا امریکی منصوبہ ہے۔ امریکہ جو ابھی تک یورپی یونین کے وجود کو دل سے قبول نہیں کر سکا اور اس کی شکست و ریخت کے لئے سازشوں میں مصروف رہتا ہے،اس نے سارک یونین کے موثر ہونے سے پہلے ہی جنوبی ایشیا میں اس خواب کو پورا ہونے سے روکنے کے لئے سازش شروع کر دی ہے۔ انڈیا کو ایشیائی نیٹومیں موثرکردار کا جھانسہ دے کرامن کی تباہی کا ایک نیا کھیل رچایا جانے والا ہے۔اگر انڈیا کے معتدل اور فہیم سیاستدانوں اور مقتدر حلقوں نے اس کی مزاحمت نہ کی اور انڈیا کے انتہا پسند ہندوؤں کو انتہا پسند یہودیوں اور انتہا پسند عیسائیوں کے ہاتھوں میں کھلونا بننے دیا گیا تو پھر جنوبی ایشیا کا(پورے انڈیا سمیت)جنوبی ایشیا کا مستقبل انتہائی تاریک ہونے والا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ سویڈن کی وزیر خارجہ اینا لندھ پر ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور میں قاتلانہ حملہ۔۔۔موت و حیات کی کشمکش کے بعد چل بسیں ۔ (اخباری خبر)
٭٭ ویسے تو یہ اس لحاظ سے معمول کی خبر ہے کہ کسی پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ضرب شدید تھی۔چند دن موت و حیات کی کشمکش رہی اور پھر موت آگئی۔لیکن اس خبر کے اندر جو حیران کن اور مشعل راہ خبر ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں سے لے کر عام جاگیرداروں تک کی زندگی دیکھئے کیسے کیسے جری باڈی گارڈز ان کی حفاظت پر مامور ہیں ۔اس کے باوجود ان سارے سیکیورٹی گارڈز میں گھرے ہوئے رہنماؤں کا ایمان ہے کہ خدا سب سے بڑا محافظ ہے اور جب موت کا وقت آئے گا تب کوئی اس سے بچ نہیں سکتا۔ باڈی گارڈز تو صرف تدبیر کے طور پر رکھے گئے ہیں ۔ظاہر ہے یہ تدبیر کا بہانہ اپنی دنیادارانہ سوچ پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔تاہم اگر ان عقائد کے لحاظ سے دیکھا جائے تو سویڈن کی وزیرخارجہ سے بڑا مسلمان کون ہو سکتا ہے کہ جو ڈیپارٹمنٹل سٹور میں خریداری کر رہی ہیں ۔اور کوئی باڈی گارڈز کی فوج ان کے ساتھ نہیں ہے۔میں اس خاتون کی روح کے سکون کے لئے دعا کرتا ہوں جس کا کردارخدا پر توکل اور موت کے معین دن پر یقین کا زندہ ثبوت ہے ۔جس کے اظہار کے لئے کسی بلند بانگ دعوے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے باوجود خدا پر توکل اور موت کے معین دن پر یقین رکھنے والے سارے مسلمان حکمران اور لیڈر اسی طرح اپنے اپنے دنیاوی حفاظتی گھیروں میں چھپے رہیں گے۔ان کے پاس سو بہانے ہیں ۔
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے۔
اینا لنڈھ سویڈن کی مقبول سیاستدان تھیں۔وہ حالیہ دنوں میں سویڈن میں یورپی یونین کی کرنسی(یورو)کو رائج کرنے کے لئے مہم چلا رہی تھیں۔ان کی موت کے بعد سویڈن میں یہ مہم شکست سے دوچار ہو گئی ہے۔کہیں اس قتل میں یورپی یونین کے آزادانہ کردار سے دلی عناد رکھنے والے اور امریکی ڈالر کے مقابلہ میں طاقتور ہوتے ہوئے یوروسے خوف کھانے والے عناصر کا کوئی ہاتھ تو نہیں ؟یہ سوچنے والی بات ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ مجھے پاک فوج کے عام سپاہی سے لے کر جنرل تک ہر کسی کا اعتماد حاصل ہے۔
(جنرل پرویز مشرف)
٭٭ بی بی سی ریڈیو کے ایک لائیو پروگرام میں جنرل پرویز مشرف نے یہ خوشکن اعلان کیا ہے۔اگر دوسرے تمام جرنیل پرویز مشرف صاحب کے لئے پوری طرح قابلِ اعتماد ہیں تو اس سے ملک میں جمہوریت کی بحالی کا کام کافی آسان ہو جائے گا۔وردی نہ اتارنے میں جنرل پرویز مشرف کی یہی مجبوری دکھائی دیتی تھی کہ پھر کوئی اور جرنیل ان پر کوئی الزام لگا کر انہیں برطرف نہ کردے۔لیکن اگر سارے جرنیلوں پر پرویز مشرف صاحب کو اعتماد ہے تو پھر یہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے نیک فال ہے۔جنرل پرویز مشرف کو اب فوجی وردی اتارنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے۔سارے جرنیل ان کے بھروسے کے لوگ ہیں ۔لیکن کیا واقعی؟یہ تو جنرل صاحب کا دل ہی بہتر جانتا ہوگا کہ انہیں اپنے ساتھی جرنیلوں پر کتنا اعتماد ہے۔آخر وہ خود بھی جرنیل ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ پاکستان نے ایک بھی شخص امریکہ کے حوالے نہیں کیا۔
( وفاقی وزیر اطلاعات شیخ رشیدکا فرمان)
٭٭ پشاور میں مسلم لیگ قاف کے ایک جلسہ سے خطاب کے دوران شیخ رشید نے یہ مزاحیہ بیان دیا ہے کہ پاکستان نے ایک بھی شخص کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا۔ان کے بیان کی خوبی یہ ہے کہ اس کا پہلا تاثر مزاحیہ بیان کا ہے جبکہ اصل تاثر المناک ہے۔کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان نے ایک بھی شخص امریکہ کے حوالے نہیں کیا۔ایف ۔بی۔آئی کے لوگ خود ہی اپنے مطلوبہ افرادکو پکڑتے ہیں اور اٹھا کر امریکہ کے مخصوص ٹھکانوں پر لے جاتے ہیں ۔شیخ رشید کو تقریر کی روانی میں ایک سچ بولنے پر مبارکباد!
ویسے انہوں نے اسی تقریر میں ایک سچ اور بھی بولا ہے۔ان کے بقول اگر جنرل پرویز مشرف نہ ہوتے تو ساری مجلس عمل گوانٹا ناموبے میں بند ہوتی۔۔۔۔یہ بالکل درست بات ہے۔ لیکن اس سے پھر بے نظیر بھٹو کی یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ پاکستانی جرنیل خود پاکستان کے مذہبی حلقوں کو طاقت میں لائے ہیں اور وہ انہیں اتنا طاقتور رکھنا چاہتے ہیں ۔اسی لئے جنرل پرویز مشرف نے شیخ رشیدکے قول کے مطابق علماءکو امریکہ سے بھی بچا رکھا ہے اور اندرون ملک سیاسست میں بھی ان سے کام لے رہے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ قیمتوں پر کنٹرول نہ ہونے کے باعث منرل واٹر کی قیمت ۲۴روپے فی لیٹر تک پہنچ گئی۔
(اخباری خبر)
٭٭ پاکستان سے آنے والی اس خبر کا اہم پہلو یہ ہے کہ وہاں دودھ اٹھارہ روپے لیٹر مل رہا ہے اور پانی ۲۴روپے لیٹر ہو گیا ہے۔اب لوگ دودھ میں پانی نہیں ملائیں گے بلکہ پانی میں دودھ ملایا کریں گے۔اس ریٹ سے وہ زمانہ یاد آگیا جب پاکستان میں پیاز کا بحران پیدا ہو گیا تھا۔بھارت اور ایران سے پیاز منگایا جا رہا تھا لیکن پیاز کی آمد سے پہلے تک کا نقشہ یہ تھا کہ ملک بھر میں سیب کے نرخ سے پیاز کے فی کلو نرخ بڑھ گئے تھے۔جنرل ضیاع الحق کے دور میں پیاز کی قیمت سیب سے بڑھ گئی تھی تو ہمارے فیورٹ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پانی کی قیمت دودھ سے بڑھ گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ بھارتی صوبہ گجرات کی حکومت پر بالکل اعتماد نہیں ہے کہ وہ مسلم کش فسادات میں ملوث ہندو بلوائیوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کرسزادے۔مسلمانوں کے قتلِ عام میں ملوث ہندوؤں کے خلاف گجرات حکومت کی کاروائی ایک دھوکہ ہے۔
(بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دی این خارے کے ریمارکس)
٭٭ بیسٹ بیکری کیس میں احمدآباد میں بارہ مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔بیکری کے مالک کی بیٹی ظہیرہ شیخ اس ہولناک سانحہ کی چشم دید گواہ تھی۔لیکن گجرات کے وزیر اعلیٰ انتہا پسند جنونی ہندو نریندر موذی نے اس گواہ کو خطرناک انجام کی دھمکی دے کر بیان سے منحرف کرایا اور مقامی عدالت سے سارے قاتلوں کو باعزت بری کرالیا۔اس ظلم کے خلاف بھارت کی انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے قانونی امداد کی فراہمی کے ساتھ ظہیرہ شیخ کو تحفظ فراہم کیا تو ہائی کورٹ تک قاتلوں کو بچا لینے والے نریندر موذی سپریم کورٹ میں آکر پھنس گئے۔اب چیف جسٹس نے اس کیس کو نئے سرے سے شروع کرتے ہوئے یہ حکم دیا ہے کہ عدالت کو بتایا جائے کہ ہائی کورٹ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی اپیل کا مسودہ کس نے تیار کیا تھا؟عدالت نے اس امر پر شدید افسوس ظاہر کیا کہ گزشتہ چالیس برسوں کے دوران ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں زیادہ تر فسادی سزا سے بچ جاتے رہے ہیں ۔ بھارتی سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس اور موجودہ رویہ خاصا حوصلہ افزا ہے اور توقع کی جانی چاہئے کہ مظلوموں کو انصاف ملے گا ظالم اپنے انجام کو پہنچیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ اگر عراق میں امن و امان کی ذمہ داری اقوام متحدہ کے سپرد کردی جائے بھارت تب بھی اپنی افواج عراق نہیں بھیجے گا۔ بھارت نے عراق میں فوج بھیجنے کی امریکی درخواست ایک بار پھر رد کر دی ۔ (اخباری خبر)
٭٭ بھارتی وزیر خارجہ یشونت سنہا نے ایک بار پھر دو ٹوک لفظوں میں امریکی حکومت کی جانب سے کی گئی یہ درخواست رد کر دی ہے کہ بھارت عراق میں اپنی افواج بھیجے۔ امریکہ عراق کی دلدل سے نکلنے کے لئے اب ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔اس معاملہ میں ابھی تک بھارتی حکومت کا طرزِ عمل نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ پاکستانیوں کے لئے قابلِ رشک اور لائقِ تقلید بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ایل۔ ایف۔ او کو چور دروازے سے کبھی بھی آئین کا حصہ نہیں بننے دیں گے۔
(نواز شریف کا بیان)
٭٭یہ معصومانہ سا بیان ہے کیونکہ اس وقت اپوزیشن کی ساری جنگ اس بات پر ہو رہی ہے کہ ایل ایف او کو اگر آئین کا حصہ بنانا ہے تو پارلیمنٹ سے اس کی منظوری لے لیں تاکہ چور دروازے سے اسے آئین کا حصہ بنایا جا سکے،اُدھر جنرل پرویز مشرف اپنے مشیروں اور حواریوں کے مشوروں کی زد میں آئے ہوئے ہیں اور سرِ عام اسے آئین کا حصہ بنائے بیٹھے ہیں ۔گویا مسئلہ یہ نہیں کہ ایل ایف او چور دروازے سے آرہا ہے کیونکہ اس کے لئے تو کچھ لے دے کر سب ہی راضی ہو جائیں گے۔مسئلہ یہ ہے کہ آئین کو دن دہاڑے ڈاکے کی طرح ایل ایف او نے لوٹ لیا ہے۔چور دروازہ تو وہ تھا جب جنرل ضیاع الحق نے آئینی پیکیج پارلیمنٹ سے باہر طے کرا لیا تھا اور ان کے دور میں پیدا ہونے والے جرنیلی سیاستدانوں نے اسے باہر ہی قبول کر لیا تھا۔بہر حال یہ ہماری قومی تاریخ کے سیاسی اور عسکری المیے ہیں جن کا سارا عذاب آئین پر اور غریب عوام پر ہی نازل ہوتا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ارضِ مقدس میں رہتے ہوئے قسم کھائی ہے کہ ہم کسی بھی طور پر ملک پر غاصبانہ قبضہ کرنیوالے آمر کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کریں گے۔(میاں نواز شریف کا ایک اور بیان)
٭٭ آج کل میاں نواز شریف کے بیانات کی بہار آئی ہوئی ہے۔اس بیان سے واضح نہیں کہ یہ صرف جنرل پرویز مشرف کے خلاف ہے یاتمام فوجی جرنیلوں کے بارے میں ہے۔جہاں تک جنرل پرویز مشرف کی آمد کا تعلق ہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح ان کی آمد اور میاں صاحب کی روانگی ہوئی ہے اس میں سراسر میاں صاحب کا قصور ہے۔ بلکہ اس بنیاد پر تو جنرل پرویز مشرف کو لانے والے بھی وہی بنتے ہیں ۔ایک سوال میاں نواز شریف سے پوچھنے کو دل کرتا ہے۔کیا آج جنرل جیلانی اور جنرل ضیاع الحق کا دور آجائے تو کیا پھر بھی اپنی قسم پر قائم رہیں گے؟ویسے ایسی قسمیں کھا کر مکر جانے والوں کا انجام بہت برا ہوتا ہے۔افغان مجاہدین نے خانہ کعبہ میں بیٹھ کر صلح کی تھی اور وہیں بیٹھ کر تمام اختلافات ختم کرنے کے عہد کئے تھے۔لیکن مکہ سے کابل تک آتے آتے ہر قسم سے مکر گئے تھے۔کعبہ میں بیٹھ کر قسم کھا کر مکرنے کا انجام بہت بھیانک ہوتا ہے۔بس اتنا خیال رکھئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ دورۂامریکہ کے دوران جارج فرنانڈیس کی جامہ تلاشی ۔(اخباری خبر)
٭٭ انگلینڈ میں پاکستانی وزیر داخلہ فیصل صالح حیات کی ائر پورٹ پر توہین آمیز تلاشی لئے جانے کے بعد اب امریکہ میں بھارتی وزیر دفاع جارج فرنانڈیس کی جامہ تلاشی لینے کی خبر آئی ہے۔جارج فرنانڈیس بھی ہمارے فیصل صالح حیات کی طرح مالی بد عنوانیوں کے کئی قسم کے اسکینڈلزمیں ملوث ہیں ۔ان پر پارلیمنٹ میں کفن چور کے آوازے کسے جا چکے ہیں ۔ایسے شخص پر امریکی سیکیورٹی اہلکار شک کر رہے ہیں تو ان کا شک بجا ہے۔ویسے امریکہ اور برطانیہ کے ایسے توہین آمیز سلوک کے بعد بر صغیر کے ممالک کو خاص طور پر سوچنا چاہئے کہ ان کی عافیت آپس میں مل جل کر رہنے میں ہے یا امریکہ کے ہاتھوں کھلونا بن کر لڑنے مرنے میں ہے۔جب امریکی مفادات کے لئے استعمال ہوتے ہوئے بھارتی وزیر دفاع کی یہ اوقات ہے تو پھر مطلب نکل جانے کے بعد امریکہ کیا کچھ نہیں کرے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے پوتے کی بیوہ کسمپرسی کی حالت میں ۔
(اخباری خبر)
٭٭ بہادر شاہ ظفر کے پوتے بیدار بخت کی بیگم اور مغلیہ شاہی خاندان کی ایک نشانی سلطانہ بیگم کلکتہ میں انتہائی کسمپرسی اور بیچارگی کی زندگی بسر کر رہی ہیں ۔خلیج ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق شہزادہ بیدار بخت کو ان کی زندگی میں چار سو روپے ماہانہ وطیفہ ملتا تھا لیکن ان کی وفات کے بعدحکومت ہند نے وظیفہ بند کردیا ہے۔اپنے چھ بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے سلطانہ بیگم کو کلکتہ کے فٹ پاتھ پر چائے بیچنا پڑ رہی ہے۔کیا پاکستان اور ہندوستان سے باہر مغربی ممالک میں رہنے والے خوشحال مسلم خاندانوں میں سے کوئی ہے جو مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار کی اس آخری نشانی کی ایسی کفالت کا انتظام کر سکے جس سے یہ بے سروسامان خاندان عزت کی زندگی بسر کرسکے؟
٭٭