ماریشس کے سفر نے خبرنامہ کی باقاعدگی کو توڑدیا ہے۔ اب بے قاعدگی سے سہی ، بہر حال جب بھی موقعہ ملتا رہے گا،خبر نامہ پیش کرتا رہوں گا۔
٭٭ جنرل پرویز مشرف سینئر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔(اخباری خبر)
٭٭یہ بڑی ہی عجیب سی خبر ہے۔کمانڈو مردِ آہن دل کی باتیں کرتے کرتے اتنا جذباتی ہوجائے کہ صحافیوں کے سامنے اس کے آنسو نکل آئیں ۔اس کے دو امکانی مطلب نکل سکتے ہیں ۔ایک یہ کہ جنرل صاحب پیشہ ور فوجی ہوتے ہوئے بھی اپنے سینے میں ایک گداز دل رکھتے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ وہ حالات کے دباؤمیں آچکے ہیں ۔ امریکی پالیسیوں کا بین الاقوامی دباؤاور پاکستان پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ نون کے لیڈروں کا دباؤمل کر جنرل صاحب کو اس مقام تک لے آئے ہیں ۔ویسے میرامشورہ تو یہ ہے کہ جنرل صاحب نے جہاں اپنے ارد گرد اتنے کرپٹ لوگ جمع کر لئے ہیں اور انہیں عناصر کے اربوں کے قرضے بھی معاف کر چکے ہیں تو بے نظیر اور نواز شریف کے ساتھ بھی صلح صفائی کر لیں ۔شاید یہ فیصلے کی آخری گھڑیاں ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ امریکہ اور کینیڈامیں بجلی کا سنگین بحران۔بعض اہم شہر تاریکی میں ڈوب گئے۔
(اخباری خبر)
٭٭یہ خبر تو اس مہینے کی سب سے بڑی خبر ہے۔اس کی تفصیلات سب کو معلوم ہیں ۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ایٹمی بجلی گھروں کو ہوا کیا تھا؟امریکی صدر نے جتنی عجلت میں یہ اعلان کیا ہے کہ یہ کسی دہشت گرد کاروائی کا نتیجہ نہیں ،اس سے خوامخواہ ذہن میں شبہات پیدا ہوئے ہیں ۔یہ ویسے ہی عاجلانہ بیان ہے جیسے ورلڈٹریڈ سنٹر کی جڑواں عمارتوں کی تباہی کے ساتھ ہی بیان داغ دیا گیا تھا کہ اس میں اسامہ بن لادن ملوث ہے(اس کا کوئی ایسا ثبوت ابھی تک پیش نہیں کیا گیا جسے خود امریکہ کی عدالتیں بھی اپنے قوانین کے دائرے میں سچ مان لیں )بہرحال اس کا سبب کچھ بھی رہا ہو امریکہ کو اگر بائبل میں مذکور فرعون پرآنے والے بڑے عذابوں سے پہلے چھوٹے چھوٹے عذابوں کی تفصیل یاد ہو تو ابھی وقت ہے کہ فرعونیت سے باز آجائیں ۔ورنہ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ پر جب بھی خدائی عذاب آیا دنیا میں ایک آنکھ بھی نہیں ہوگی جو امریکہ کے دکھ میں اشکبار ہوگی۔بلکہ یہ امکان ہے کہ لوگ امریکہ پر آنے والے ایسے خدائی عذاب کو انسانیت کے لئے رحمت سمجھ کر اس پر خوشی کا اظہار کریں ۔ یہ صدر بش کی موجودہ فرعونی پالیسیوں کے نتیجہ میں پیداہونے والے دنیا بھرکے انسانی جذبات ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ احمد فراز ماریشس میں بھی بے حد مقبول ہیں ۔قوالوں سے لے کر گانے والوں تک سبھی نے احمد فراز کی غزلیں سنائیں ۔ (جنگ ۱۶اگست میں کشور ناہید کا کالم)
٭٭ قوالوں والی تقریب میں تو بہت سارے دوسرے ادیبوں کی طرح ہم بھی نہیں گئے تھے،اس لئے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔البتہ ادبی کانفرنس کے مختلف سیشنز کے دوران اور وقفوں کے دوران احمد فراز کے جتنے مداحوں نے ان کے اشعار سنائے،ان میں سے کسی ایک نے بھی ان کا کوئی ایک شعر درست نہیں پڑھا۔(اگر درست پڑھا ہے تو سمجھیں کہ فراز کی اصلاح کرکے پڑھا ہے)۔اسٹیج پر ایک صاحب نے فراز کا شعر بگاڑ کر(یا اصلاح کرکے) پڑھا تو ان کے ایک مداح اور کانفرنس کے منتظم ان کے پاس آئے اور ان سے اصل شعر پوچھا۔اسے یاد کیا اور اسٹیج پر جا کر پہلے منتظم کی غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے درست شعر پڑھنے لگے اور اس میں انہوں نے اپنی طرف سے کئی ترامیم کر دیں ۔یہ سب کچھ سب کے سامنے ہوتا رہا ہے۔احمد فراز خود اپنے اشعار کے ساتھ ہونے والے سلوک پر ہنستے رہے ہیں ۔
نا شنا سوں میں مقبولیت کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے
تھوڑی سی تحسین بھی اہلِ نظر کی ہے بہت
بے بصیرت نے اگر استاد بھی مانا تو کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ وزیر اعلیٰ گجرات نریندر موذی کو دھمکی آمیز ای میلز بھیجنے والا نوجوان گرفتار(اخباری خبر)
٭٭گجرات پولیس نے احمدآباد میں اروند نامی ایک ایسے ہندو کو گرفتار کر لیا ہے،جو خود کو مسلمان ظاہر کرکے نریندر موذی وزیر اعلیٰ گجرات کو دھمکیاں ای میل کر رہا تھا۔ان ای میلز سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ یوم آزادی کی تقریبات درہم برہم کرنا چاہتا ہے۔اس ہندو نوجوان نے وہی کچھ کیا ہے جو گودھرا میں خود نریندر موذی کر چکے ہیں ۔گودھرا کا ڈرامہ خود نریندر موذی کے ایما پر رچایا گیا تھا اور اس کا مقصد گجرات میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتلِ عام کرانا تھا۔اپنی اس گھناؤنی سازش میں نریندر موذی پوری طرح کامیاب رہے ۔ہو سکتا ہے یہ ڈرامہ بھی خود نریندر موذی کا ہی رچایا ہوا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ہمیں داتا دربار جاکر وہاں شیرینی کھانے سے روکنے والے گولڈن ٹمپل میں پرسا دکھانے کے لئے امرتسر پہنچ گئے۔
(وفاقی وزیر اطلاعات شیخ رشید کا مولانا فضل الرحمن پر طنزِ ملیح)
٭٭ شیخ رشید جملہ بازی کے فنکار ہیں ۔انہوں نے بریلوی ،دیوبندی کا مسئلہ چھیڑے بغیر بیک وقت سیاسی اور دینی مسائل پر شگفتہ انداز میں دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ اﷲ کرے زورِ بیاں اور زیادہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ۱۵اگست کو اے آر وائی چینل سے شوبھنا کے پروگرام میں محفلِ مشاعرہ کے نام پر بے تکی اور بے وزن شاعری کی بھرمار۔اے آر وائی چینل کے معیار پر ایک بڑا سوالیہ نشان۔
(ذاتی رپورٹ)
٭٭ شوبھنا ایک اچھی پریزینٹر ہیں لیکن انہوں نے مشاعرہ کے نام پر جو لوگ جمع کئے تھے ان میں سے ایک بھی شاعر نہیں تھا۔اسی دبئی میں کئی اوریجنل شاعر موجود ہیں ۔ان کے ہوتے ہوئے ایسے جعلی شاعروں کواے آر وائی جیسے بڑے چینل پر پیش کرنا خود اس چینل کے معیار اور وقار پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔اس سے یہ المیہ بھی سامنے آتا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر ادبی زوال ہی نہیں ،بلکہ تہذیبی زوال سے دوچار ہیں ۔شاعری کی اپنی روایت اوراپنی تہذیب ہے۔ سخن فہمی اور سخن شناسی اس تہذیب کی بنیاد ہیں ۔اے آر وائی چینل کے اس پروگرام سے صرف یہی پیغام ملتا ہے کہ ہم لوگ تہذیبی زوال کا شکار ہو چکے ہیں ۔کیا اے آر وائی چینل کے اربابِ اختیار میں سے کسی کو اس بات کو سمجھنے کی توفیق ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ کارگل میں چار ہزار پاکستانی فوجی مارے گئے تھے۔ (نواز شریف کا انکشاف)
٭٭ اگر نواز شریف نے یہ راز ابھی تک قومی مفاد میں چھپا رکھا تھا تو قومی مفاد کے تحت اب بھی اسے مخفی رکھنا ضروری تھا۔اس کا افشاءقومی جرم ہو سکتا ہے۔لیکن اگر یہ حقیقت ہے اور انہوں نے حقیقت سے قوم کو آگاہ کیا ہے تو اس کے بارے میں تب ہی بتا دینا چاہئے تھا جب وہ وزیر اعظم کی کرسی پر موجود تھے۔تب اس راز کو چھپائے رکھنا خود شہیدوں کے لہو سے بے وفائی تھا۔اب یہ طے کرنا نواز شریف کا کام ہے کہ وہ کس نوعیت کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ پاکستانی جرنیلوں کے خلاف فوجی سازو سامان کی خریداری میں کروڑوں کے کمیشن کھانے کا انکشاف۔فوجی جرنیلوں نے کروڑوںکی جائیدادیں بنا لیں ۔
(ساؤتھ ایشیا ٹریبون کی رپورٹ)
٭٭ اصلاً یہ خبر انڈیا سے آئی ہے تاہم خبر کے مطابق پاکستان کے ایک سابق فوجی افسراور دفاعی ماہراے ایچ امین نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی ہے ۔اس میں گزشتہ تیس سال کے عرصہ میں قوم کو لوٹ کر کھاجانے والے ”محافظین قوم“پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے ہیں ۔پیٹیشن کے مطابق متعدد سابق اور موجود ہ فوجی جرنیلوں،ائر مارشلوں اور رئیر ایڈمرلوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے دفاعی سامان کی خریداری میں کروڑوں کے کمیشن کھائے اور کروڑوں کے گھپلے کئے۔پاکستانی اخبارات ابھی اس خبرکے معاملے میں خاموش ہیں ۔ تاہم لگتا ہے کہ یہ خبر بڑی حد تک درست ہے۔اگر یہ کمیشن اور گھپلے درست ثابت ہوئے تو پاکستان کے سیاستدانوں کی ساری کرپشن ماند پڑ جائے گی۔اور قوم کو معلوم ہوگا کہ براہِ راست اور بالواسطہ دونوں طرح سے قوم کا مجموعی طور پر اسی فیصد بجٹ کھا جانے والی ہماری بہادر افواج کے اعلیٰ ترین افسران اور بھی کیا کیا گل کھلاتے رہے ہیں ۔دیکھیں یہ حقائق کھل کر سامنے آتے ہیں یا دبا دئیے جاتے ہیں ۔ اگر جنرل پرویز مشرف واقعی کرپشن کے خلاف ہیں تو ان الزامات کی ٹرانسپیرنٹ تحقیق کرائیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ قوم کو ایک اور ضیاع الحق کی ضرورت ہے۔
(جنرل ضیا کی برسی پر ان کے صاحبزادہ اعجاز الحق کا ایمان افروزبیان)
٭٭جنرل ضیاءالحق کے دور میں پاکستان نے سوویت یونین کے خاتمہ کا جو کارنامہ انجام دیا تھا،اس کا ایک زہریلا پھل علاقائیت، فرقہ واریت،کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کی صورت میں وہ خود ملک میں رائج کر گئے تھے۔ان کے پیدا کردہ افغان مجاہدین ،جن کی آپسی لڑائیاں ختم نہیں ہوتی تھیں،خانہ کعبہ میں بیٹھ کر قسمیں کھا کر صلح کے عہدو پیمان کرکے آئے اور آتے ہی پھر لڑنے لگے(کیا عجب یہ کعبہ شریف میں بیٹھ کر جھوٹی قسمیں کھانے کا ہی عذاب ہو جو افغانستان کے مجاہدین کے ساتھ باقی قوم کو بھی لے بیٹھا ) ۔ جنرل ضیاع الحق نے سوویت یونین کی شکست و ریخت میں بنیادی کردار ادا کرکے” امریکی جن“ کو بوتل سے پوری طرح باہر نکال دیا۔آج امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن کر جو کچھ کر رہا ہے،یہ سب جنرل ضیاع الحق کے کارناموں کا زہریلا پھل ہے۔”ایک اور جنرل ضیاءالحق“ سے تو جنرل پرویز مشرف ہی بہتر ہیں ۔اگر جنرل ضیاع الحق جیسا کوئی جنرل آگیا تو ملک کے ساتھ باقی دنیا کا بھی پتہ نہیں کیا کچھ کرادے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ امریکی وزیر خارجہ کے نام آنے والے ایک لفافے سے پاؤڈر برآمد ہونے سے دفتر وزارتِ خارجہ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ (اخباری خبر)
٭٭ بڑی عجیب بات ہے کہ امریکہ افغانستان سے لیکر عراق تک ”ڈیزی کٹڑ“ اور ”بموں کی ماں“ جیسے بم گراتا ہے تو اس کے بعد بھی لوگ امریکہ سے خوفزدہ نہیں ہوتے اور وہاں ابھی تک موجود عوامی مزاحمت امریکہ سے شدید نفرت کی علامت بن چکی ہے۔ان کے برعکس امریکہ کے ایک دفتر میں لفافے میں سے پاؤڈر نکلنے پر بھی خوف و ہراس پھیل جاتا ہے۔ بیشک امریکی قوم بہت بہادر قوم ہے۔ویسے یہ سب کچھ ڈرامہ قسم کی کوئی چیز بھی ہو سکتا ہے۔نائن الیون کے فوراً بعد امریکہ میں ”اینتھراکس“کا ڈرامہ رچایا گیا تھا۔”اینتھراکس“سے اموات کا خوف دلایا گیا اور اس سے بچاؤکیلئے دوا تیار کرکے کروڑوں ڈالر چند دنوں میں کما لئے گئے۔ ایسے ہی سارس کا ہوّا کھڑا کیا گیا۔ لیکن مجال ہے یہ بیماری امریکہ کا رُخ کرتی۔یہ سارا جراثیمی ڈرامہ ان ملکوں میں رچایا گیا جو امریکی پالیسیوں پر کھل کر یا دبے دبے انداز سے اعتراض کر چکے تھے۔بہر حال امریکہ بہادر زندہ باد!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ سیتا وائٹ نے ایک بار پھر عمران خان کو اپنی بیٹی کا باپ قرار دیتے ہوئے بیٹی کے حق کا مطالبہ کر دیا۔بصورت دیگر قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ (اخباری خبر)
٭٭ پہلی بار جب سیتا وائٹ کا سکینڈل سامنے آیا تھا تب واضح طور پر اس میں نواز شریف کا ہاتھ شامل تھا۔اب پھر سے یہ مسئلہ اٹھایا جارہا ہے تو لگتا ہے چوہدری برادران نے عمران خان کو سیاسی طور پر بلیک میل کرنے کے لئے پھر بی بی سیتا کو اکسایا ہے۔مشرق کی سیتا نے خود پر الزام برداشت کر لئے تھے لیکن اپنے رام کی عزت پر آنچ نہیں آنے دی تھی۔لیکن یہ مغرب کی سیتا ہے۔ عمران خان کے سیاسی حریفوں کے اکسانے پر یہ اپنی آئی پر آگئی تو پھر عمران خان اس سے پوچھتے پھریں گے:”سیتا! توں اے میرے نال کی کیتا؟“۔۔۔۔اس اسکینڈل کے سیاسی پہلو سے قطع نظر ویسے اگر واقعی سیتا کی بیٹی عمران خان کی بیٹی ہے تو انہیں اپنی غلطی اور بیٹی دونوں کو قبول کر لینا چاہئے۔یہ سائینس کے عروج کا زمانہ ہے۔اب کسی کی ولدیت معلوم کرنا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔البتہ اگر الزام جھوٹا ہے تو پھر عمران خان کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔لیکن سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے؟یہ تو اب عمران خان ہی بہتر جانتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ امریکہ پاکستان کو چھC-130 طیارے دے رہا ہے۔ (اخباری خبر)
٭٭خبر اچھی تو ہے لیکن اس میں شر کا ایک پہلو موجود ہے۔جنرل ضیاع الحق امریکہ کے ا نتہائی پسندیدہ پاکستانی حکمران تھے۔لیکن جب امریکہ نے ان سے نجات حاصل کرنا چاہی تھی،تب وہC-130 میں ہی سوار تھے اور اسے حادثہ پیش آگیا تھا۔کہیں C-130 کا یہ نیا تحفہ اپنے اندر کوئی معرفت کا نکتہ تو نہیں لے کر آ رہا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ بغداد میں اقوام متحدہ کے دفتر پر خود کش حملہ۔۲۰افراد ہلاک۔۔۔امریکی صدر کو جب اس حملہ کی اطلاع دی گئی،وہ گولف کھیل رہے تھے۔انہوں نے حملہ کی اطلاع ملتے ہی فوراً کھیل ادھورا چھوڑ دیا۔ (اخباری خبر)
٭٭اس خبر کا یہ پہلو بہت اہم ہے کہ جب بغداد میں اقوام متحدہ کے دفتر پر کار کے ذریعے حملہ کی خبر ملی تو صدر بُش نے فوراً اپنا کھیل ادھورا چھوڑ دیا۔یہ ان کا فطری ردِ عمل تھا۔اسی ردِ عمل کے ساتھ اب ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہوائی جہازوں کے حملوں کی خبر پر صدر بُش کے ردِ عمل کو یاد کیجئے۔وہ بچوں کے ایک اسکول میں بچوں کے ساتھ محوِ گفتگو تھے۔جب انہیں پہلا جہاز ٹکرانے کے حادثہ کی اطلاع ملی ،انہوں نے اسے کسی تشویش کے بغیر سنا اور پھر بچوں کے ساتھ محوِ گفتگو ہو گئے۔وہ لگ بھگ بیس منٹ تک بچوں کے ساتھ مصروف رہے۔گویا وہ ابھی مزید حملوں کی خبریں سننے تک خود کو وہیں مصروف رکھنا چاہتے تھے۔منصوبہ بندی کے ساتھ کئے جانے والا ڈرامہ اور حقیقی حملہ میں کیا فرق ہوتا ہے؟صدر بُش کے دونوں ردِ عمل اس کی منہ بولتی تصویریں ہیں ۔یہ تصویریں تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں ۔امریکہ کو اس حقیقت کا سامنا کرنا ہی پڑے گا کہ ورلڈ ٹریڈ ٹاورکا ڈرامہ کرنے والے ان کے اپنے سدھائے ہوئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ بغداد میں اقوم متحدہ کے دفترپر حملہ کے بعد اقوام متحدہ کے عملہ نے عراق کو چھوڑ دیا۔
(اخباری خبر)
٭٭نہ صرف اقوام متحدہ کا عملہ عراق سے چلا گیا ہے بلکہ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا عملہ بھی عراق سے واپس چلا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ عراق میں امن و امان برقرار رکھنا امریکہ کی ذمہ داری ہے۔پہلے ہی سلیقے سے امریکی مطالبات کو رد کرنے والے فرانس اور جرمنی نے اپنی افواج عراق بھیجنے سے انکار کردیا ہے۔ جاپان جیسے امریکی حلیف ملک نے بھی اس سال فوج بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔ پولینڈ اور تھائی لینڈ کی افواج جو پہلے سے عراق میں موجود ہیں انہوں نے خطرے والے علاقوں میں جانے سے انکار کر دیا ہے۔جس فوج نے اگلے ماہ بغداد کا چارج سنبھالنا تھا وہ بھی اس سے مکر گئی ہے۔ایسے حالات میں انڈیا اپنے انکار پر مزید مضبوط ہو جائے گا اور پاکستان کے لئے بھی امریکی دباؤسے نکلنے کی گنجائش بن گئی ہے۔اور تو اور اب برطانیہ کے وزیر خارجہ جیک اسٹرا بھی نیویارک میں جا کر یہ ڈپلومیٹک بیان دے رہے ہیں کہ ”عراق میں امریکی فوج ہی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے“۔گویا امریکہ کو اپنے بوئے ہوئے کو خود ہی کاٹنا ہو گا۔دیکھیں ابھی بُش انتظامیہ کی عالمی بد انتظامی اور تیل کی ہوس کیا کیا گل کھلاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ بہن بھائی کے معاملہ کے بیچ باپ کیا کر سکتا ہے۔ سشماسوراج اور سومناتھ چٹر جی کے درمیان مکالمہ پربھارتی لوک سبھا میں اسپیکر منوہر جوشی کے شگفتہ کمنٹس۔
(اخباری خبر)
٭٭ پردھان منتری واجپائی جی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہو چکی۔اس دوران لوک سبھا میں خاصا ہنگامہ رہا۔اسپیکرمنوہر جوشی کو بار بار غصہ آتا رہا۔تاہم انہوں نے کئی مرحلوں پر اپنی شگفتہ مزاجی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ایک موقعہ پر پارلیمانی امور کی وزیر اور بی جے پی کی معروف رہنما سشما سوراج نے مارکسسٹ رہنما سومناتھ چٹر جی کو بھائی کہہ کر مخاطب کیا توسومناتھ چٹر جی انہیں بہن کر مخاطب کیا۔اس پر اسپیکر منوہر جوشی نے کہا:”بھائی اور بہن کے بیچ باپ کیا کر سکتا ہے“۔یوں لڑائی جھگڑے کی فضا میں تھوڑی سی مسکراہٹ بھی بکھرتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ نیب ۱۹۹۰ءوالا کرپشن کا دور واپس نہیں آنے دے گا۔نیب کا مقصد ہے کہ پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت ترقی یافتہ ممالک سے واپس آئے۔
(نیب کے چئیرمین جنرل منیر حفیظ کے فرمودات)
٭٭ ملک میں ۱۹۹۰ءکی کرپشن والا دور تو واقعی ختم ہو گیا ہے لیکن اب ۱۹۹۹ءوالا کرپشن کا دور جاری ہے۔بیرون ملک اور اندرون ملک سے وصول کی جانے والی رقوم سے قوم کا کافی بھلا ہو چکا ہے۱۹۹۹ءسے اب تک تین ارب کے قرضے صاف ستھرے سیاسی خاندانوں، اور طبقۂاشرافیہ کے دوسرے نیک پاک لوگوں کو معاف کئے جا چکے ہیں ۔پاک فوج کے بڑے جرنیلوں کو ان کی عظیم قومی خدمات کے سلسلے میں چولستان میں کوڑیوں کے مول ہزاروں ایکڑ اراضی الاٹ کی جا چکی ہے۔چوہدری شجاعت جیسے نہایت صاف ستھرے سیاستدان اور پی پی پی کے سزا یافتہ ”محبان وطن“ کا سزایافتہ رہتے ہوئے وزیر بن جانا ، اس دورِ حکومت کے کرپشن سے پاک ہونے کا سب سے بڑا اور منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ جب جنرل منیر حفیظ اپنے اس عہدے سے ہٹیں گے تو ان کے کیا کیا کارنامے سامنے آتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ عالمی یومِ مچھر اس سال بھارت میں بھی منایا جائے گا۔ (اخباری خبر)
٭٭ سر رونالڈ راسن نے۲۰اگست ۱۸۹۷ءمیں مچھر میں ملیریا کے جراثیم پائے جانے کا پتہ چلایا تھا۔جس سے اس بیماری کی روک تھام کے لئے موثر دوائیں تیار کی جا سکیں۔اس تحقیق پر ان کو ۱۹۰۲ءمیں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔۲۰اگست کی تاریخ یومِ مچھر کے طور پر منائی جاتی ہے کیونکہ اسی دن سر رونالڈ راسن نے ملیریا کے جراثیم کا پتہ چلایاتھا۔اس خبرکا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مذکورہ سائنسی محقق نے یہ تحقیق انڈیاکی ریاست حیدرآباد دکن کے شہر سکندرآباد میں کی تھی۔چنانچہ اس سال پہلی بار بھارت میں بھی عالمی یومِ مچھر منایا گیا۔اس یوم کو منانے کے لئے مچھر کش ادویات تیار کرنے والی کمپنی گڈ نائیٹ نے انتظام کیا ہے۔مقصد یہ ہے کہ اس بیماری کی روک تھام کے سلسلے میں عوام میں بیداری پیدا کی جائے۔ بہر حال یومِ مچھر کی ترکیب عمدہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ہندوستانی لوک سبھا میں گائے کشی کے خلاف قانون بنانے کی تجویز پر ہنگامہ۔قانون سازی موخر ۔۔۔کاروائی جاری۔ (اخباری خبر)
٭٭اس خبر کے کئی پہلو ہیں ۔ہندو اکثریت کے جذبات کے احترام کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسا کیا جائے تو جہاں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسلم کشی اور دیگر اقلیت کشی عام بات ہو گئی ہو وہاں گاؤکشی کے سلسلے میں کسی کے جذبات کے احترام کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہونے کا دعویدار ہے۔ایک سیکولر ملک میں کسی کے جذبات کے احترام کے لئے دوسرے کے جذبات سے کھیلنا مناسب نہیں ۔اسی بنیاد پر مسلمان مطالبہ کر سکتے ہیں کہ خنزیر حرام ہے سور کشی پر بھی پابندی عائد کی جائے۔جبکہ ہندوستان کی کم از کم تین پہاڑی ریاستیں ایسی ہیں جو ہندو ہوتے ہوئے سور اور گائے کا گوشت کھاتے ہیں ۔وہ ریاستیں کسی طور ایسے قانون کو اپنے صوبوں میں نافذ نہیں ہونے دیں گی۔تو کیا
پھر یہ قانون صرف ہندوستان کے مسلمانوں کو مزید دبانے کے لئے بنایا جا رہا ہے؟ اس خبر کے اور بھی کئی پہلو ہیں ۔لوک سبھا سے ہی ان پہلوؤں کو سامنے آنے دیتے ہیں اور آنے والے وقت کا انتظار کرتے ہیں ۔
٭٭