٭٭ امریکی خفیہ ادارے سی آئی کے ڈائریکٹر جارج ٹینٹ نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی جانب سے صدر بُش کو عراق کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں غلط معلومات فراہم کی گئی تھیں۔ان کے اس اعتراف کے باوجود صدر بُش نے کہا ہے کہ انہیں سی۔ آئی۔ اے اور اس کے سربراہ جارج ٹینٹ پر پھر بھی پورا اعتماد ہے۔ (اخباری رپورٹس)
٭٭اصل کھیل یہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود سی۔ آئی۔ اے عراق سے کوئی مہلک ہتھیار یا اس کے آثار برآمد کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔اس کے نتیجہ میں امریکہ کے ”بہانۂبسیار“پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں تو سی آئی اے کے سربراہ نے سارا الزام اپنے سر لے لیا ہے۔یہ ویسے ہی ہے جیسے گاؤں کا نمبردار خود ہی کوئی واردات کراتا ہے اور پھر اپنے کسی پالتو ملازم سے اس کے ارتکاب کا اعتراف کرا کے خود نیک پاک بنا رہتا ہے۔صدر بُش نے بجا طور پر سی آئی اے اور اس کے سربراہ پر پھر بھی اعتماد کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس نے جو غلط رپورٹ دی تھی امریکی صدر کی خواہش کے مطابق دی تھی، اسی لئے تو جونئیر بُش کا اس پر اعتماد قائم ہے۔اصولاً تو یہ اعتماد پہلے سے بھی بڑھ جاناچاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ موجودہ حالت میں عراق میں انڈین فوجی دستے نہیں بھیجے جا سکتے۔اقوام متحدہ کے واضح مینڈیٹ کے بعد ہی ایسا کوئی قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔
( انڈیا کی کابینہ کی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا فیصلہ)
٭٭ یہ بہت جرأت مندانہ فیصلہ ہے۔کاش پاکستان کی حکمران بہادر فوج بھی اپنے اندر کچھ جرأت اور ہمت پیدا کر سکے۔پاکستانی فوج تو ابھی اپنے مختلف اقدامات پر یو ٹرن لینے میں ہی لگی ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ انڈیا کی طرف سے عراق میں بھارتی فوج بھیجنے کی درخواست مسترد کرنے پر امریکہ کا شدید اور دھمکی آمیزرد عمل۔ (اخباری رپورٹ)
٭٭ جب انڈیا نے عراق میں بھارتی فوج نہ بھیجنے کی امریکی درخواست مسترد کی تھی تب پہلے پہل وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے اپنی طرف سے عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے ہمارے معمول کے تعلقات میں فرق نہیں پڑے گا۔۔۔لیکن اب نہ صرف امریکہ میں بھارتی سفیر کو طلب کرکے امریکی تشویش سے آگاہ کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی باور کرا دیا گیا ہے کہ مختلف شعبوں میں امریکہ اور انڈیا کا تعاون متاثر ہو سکتا ہے۔دیکھیں اب بھارتی قیادت کس حد تک اپنے موقف پر قائم رہتی ہے!
ویسے اگر بھارتی حکومت ہمت سے کام لے کر تبت کی طرح کشمیر کا بھی منصفانہ بلکہ اس سے بڑھ کر فراخدلانہ اور جرات مندانہ فیصلہ کرلے تو نہ صرف برِ صغیر کے خطرناک اشوز ختم ہو جائیں گے بلکہ امریکہ کے لئے جنوبی ایشیا میں گھات لگانے کا کوئی رستہ ہی نہیں رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ فرانس،جرمنی،بھارت اور روس کے بعد پاکستان نے بھی عراق کے لئے اپنی فوج بھیجنے سے انکار کر دیا۔ (امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان رچرڈ باؤچر کا بیان)
٭٭ انڈیا کی طرف سے عراق میں فوج بھیجنے کی درخواست مسترد ہونے کے بعد پاکستان کے لئے بہت مشکل ہو گیا تھا کہ وہ امریکہ کی فرمانبرداری میں اپنی فوج عراق بھیج دے۔ اس لئے پاکستان نے اقوام متحدہ اور او آئی سی کا سہارا لے کر فی الحال تو امریکی فرمائش سے جان چھڑا لی ہے۔اگرچہ پاکستان کے کسی ترجمان نے یہ خبر نہیں بتائی تاہم یہ بھی غنیمت ہے کہ جیسے تیسے پاکستان کی حکومت نے عراق فوج بھیجنے سے بہانہ کرکے سہی انکار کر دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ شیخوپورہ کے ایک قصبہ جینا والا میں ایک خاتون ارشاد بی بی کو با اثر افراد نے ننگا کرکے ایک گھنٹے تک سر عام چلایا۔بعد میں تھانے والوں نے تین ہزار روپے دے کر خاموشی کی تلقین کر دی۔شور مچانے کی صورت میں الٹاارشاد بی بی کو بدکاری کے الزام میں گرفتار کر لینے کی دھمکی ۔
٭٭ علی پور میں ذہنی معذور دوشیزہ کے ساتھ عدالت کے اہلمدوں،کلرکوں اور دیگر عملہ کے مجموعی طور پر ۲۱افراد کی اجتماعی زیادتی۔
٭٭ عباس اطہر کے نوائے وقت میں کالم کی اشاعت کے بعداے آر وائی ڈیجیٹل چینل کے پروگرام ویوز آن نیوز میں ایک دن ارشاد بی بی کے سانحہ کا ذکر ہوا جس میں ایک اخبار کے ایڈیٹر ضیا شاہد نے یہاں تک بتایا کہ پاکستان میں اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور ستر سے اسی فیصد تک واقعات سامنے ہی نہیں آپاتے،دبادئیے جاتے ہیں ۔اور پھر اس کے بعد انٹرنیٹ کے تمام اخبارات سمیت اے آر وائی سے بھی اس سانحہ کا ذکر غائب ہو گیا۔
٭٭یہ خبریں ایک جھلک ہیں اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے عام اسلامی معاشرے کی۔ خیال رہے کہ پاکستان دوسرے اسلامی ممالک سے بڑھ کر اسلامی ملک ہے۔۔باقی ممالک میں اندرونی مظالم کی حالت ہمارے یہاں سے بھی زیادہ خراب ہے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ امریکی صدر بُش کو خدا کی طرف سے مسلمانوں اور عالمِ اسلام کو سزا دینے کے لئے بطور عذاب بھیجا گیا ہے۔جب کوئی قوم اتنی ظالم ، سفاک اور بے رحم ہو جائے،اس کے احتساب کے پیمانے افراد کی حیثیت اور اثر رسوخ کے حساب سے بدلتے رہیں ، تو اس پر اس سے بڑھ کر ظالم اور سفاک مسلط کر دئیے جاتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ کشمیر و دیگر مسائل حل ہونے تک ایٹمی صلاحیت برقرار رکھیں گے(جنرل پرویز مشرف)
٭٭ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کشمیر اورپاکستان کے دیگر مسائل حل ہو جائیں تو پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ لیگل فریم ورک آرڈر صدر،وزیر اعظم اور آرمی چیف پر چیک اینڈ بیلنس ہے۔
(جنرل پرویز مشرف)
٭٭ بیلنس صدر اور آرمی چیف کے پاس رہے گا اور خیراتی چیک سارے ان یتیم سیاستدانوں،مستحقین قسم کے صنعتکاروں اور طبقۂاشرافیہ کے مساکین کو جائیں گے جو جنرل مشرف کی گڈ کورنینس اور کرپشن سے پاک دور حکومت میں اٹھارہ ارب روپے کے قرض معاف کرا چکے ہیں ۔وزیر اعظم صرف لیگل فریم میں ورک آرڈر کی تصویر کی طرح سجے رہیں گے۔اسے تاش کے پتوں میں حکم کا غلام کہتے ہیں ۔بازی ٹھیک ہی جا رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ اب وقت آگیا ہے کہ سیاستدان جی،ایچ،کیو کی طرف دیکھنا ترک کردیں ۔ سیاستدانوں کی اس سوچ کے باعث ماضی میں جمہوریت کاخون ہوتا رہا۔(میاں شہباز شریف)
٭٭ جناب جی ایچ کی کیو کی طرف دیکھنا تو ہمیشہ ہی غلط تھا۔وقت اب ہی نہیں آیا، اول روز سے ہی ایسا کرنا غلط تھا۔سندھ کے سپوت اور پاکستان کے مایہ ناز سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو جیسی عظیم ہستی کو قتل کرنے والے فوجیوں کی بیرکوں میں جنم والے سیاستدان اگر اب جی ایچ کیو کی طرف دیکھنے کو برا کہنے لگے ہیں تو یہ ایک اچھی سوچ بن رہی ہے۔لیکن ابھی اس کا تعین ہونا باقی ہے کہ یہ سوچ کسی مایوسی کی زائیدہ ہے یا واقعی شریف خاندان کی سیاسی سوچ میں بالغ نظری پیدا ہوئی ہے۔آنے والے دنوں میں اصل حقیقت سامنے آجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ میں نہ تو کسی ڈیل کے ذریعے سعودی عرب گیا تھا اور نہ کسی ڈیل کے ذریعے واپس آنا پسند کروں گا۔البتہ پاکستان واپس آنے کا پروگرام کبھی بھی بن سکتا ہے۔۔۔۔ ۔جیل جانے سے نہیں ڈرتا۔ ( میا ں نواز شریف کا ولولہ انگیز بیان)
٭٭ میاں نواز شریف کے بیان کے یہ سارے حصے محض سیاسی لطیفے ہیں ۔شہباز شریف کہتے ہیں کہ سعودی عرب جانے کی ڈیل میں مردوں کے نام تھے خواتین کے نام نہیں تھے،نواز شریف کہتے ہیں سعودی عرب جانے کے سلسلے میں کوئی ڈیل نہیں ہوئی۔(ڈیل نہیں ہوئی تھی تو آپ لوگ کیوں رات کی تاریکی میں چپ چاپ چلے گئے؟)۔پھر جیل جانے سے نہ ڈرنے والی بات شہباز شریف کے منہ پر تو سجتی ہے میاں نواز شریف کے منہ پر نہیں سجتی۔نوائے وقت کے ایڈیٹر اور پاکستانی صحافت کی ایک معتبرشخصیت کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ میاں نواز شریف نے ان سے صاف کہا تھا کہ وہ جیل کی صعوبت برداشت نہیں کر سکتے۔۔۔۔میاں صاحب!پاکستان آپ کا وطن ہے۔واپس تشریف لائیے مگر اپنے ان سارے مظالم اور سیاسی جرائم کی مکہ مدینہ میں معافی مانگ کر آئیے جو آپ سارے عرصۂاقتدار میں کرتے رہے اور واپس آکر قوم سے بھی معافی مانگئے۔اس قسم کے بیانات دے کر قوم کو بے وقوف مت بنائیے۔ویسے افضال شاہد کا کالم ”چور دروازہ“ (بزدل ہیرو) پڑھنے کے بعد یقین ہوجاتا ہے کہ میاں نواز شریف تحفظ کی کسی پکی یقین دہانی کے بغیرکبھی بھی وطن واپس نہیں آئیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ لاہور میں ایک دن میں چوری اور ڈاکے کی چالیس وارداتیں ۔(اخباری رپورٹ)
٭٭ جنرل پرویز مشرف کی گڈ گورنینس تو اب قوم کے ”گوڈے گِٹّوں “میں بیٹھنے لگی ہے۔ایک دن کی چوریوں اور ڈاکوں کی یہ خبر پنجاب کے صوبائی وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کی تو نہیں البتہ ان کی تعریف میں رطب اللسان صحافیوں کی خصوصی توجہ ضرور چاہتی ہے۔کہ اس میں معرفت کے نکتے موجود ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں علماءکاوفد انڈیا پہنچ گیا ،سب سے پہلے امرتسر میں سکھوں کے گولڈن ٹمپل کا دورہ کیا۔علماءکا شاندار استقبال۔ (اخباری خبر)
٭٭ خبر کے مطابق انڈیا کے سفر میں پاکستانی علماءکا وفدسب سے پہلے امرتسر پہنچا اور وہاں سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹمپل کا دورہ کیا۔سکھ حضرات توحید پرست ہیں ۔پھر ان کی داڑھی ان کے مذہبی شائر کا حصہ ہے۔سو داڑھی اور وحدانیت پر ایمان، سکھوں اور علماءمیں قدرِ مشترک ہیں ۔امید ہے پہلا قدم ہی فروغ محبت میں معاون ثابت ہو گا۔سکھوں کی داڑھی سے ایک واقعہ یاد آگیا۔ویکلی”راوی“بریڈ فورڈ میں ایک بار ایک دوست نے لکھا تھا کہ سن ساٹھ کی دہائی میں وہ عرب امارات میں مقیم تھے۔ایک جگہ انہوں نے دیکھا کہ ایک سکھ صاحب مرغیوں کو ذبح کر رہے تھے۔سکھ صاحب ان کے پرانے شناسا تھے۔اپنے مسلمان دوست کو دیکھتے ہی انہوں نے دونوں ہاتھ جوڑ لئے کہ یار انہوں نے مجھے مولوی سمجھ کر یہ نوکری دی ہے،میرا بھانڈا نہ پھوڑنا۔ ویسے میں تکبیر پورے اسلامی طریقے کے مطابق پڑھتا ہوں اور اس کے بعد ہی ذبح کرتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ تاریخ امریکہ اور برطانیہ کو عراق پر حملہ کے لئے معاف کر دے گی۔
(وائٹ ہاؤس میں ٹونی بلئیر اور بُش کی مشترکہ پریس کانفرنس)
٭٭ تاریخ سے معافی لینے کا بڑا آسان طریقہ ہے ۔پرانے زمانے کے ”انصاف پسند اور خدا ترس “ بادشاہ سرکاری خزانے سے وظیفہ پانے والے مورخ رکھا کرتے تھے۔یہ شاہی مورخین اپنی لکھی ہوئی تاریخ میں شاہانِ عظام کے عدل،انصاف،خدا ترسی،اور دیگر عظیم الشان اقدامات کو سنہرے لفظوں سے لکھتے جاتے تھے اور اس کی قیمت بھی ساتھ ساتھ وصول کرتے جاتے تھے۔اگرچہ اب کمزور ترین مخالف کو بھی طاقتور میڈیا کا سہارا حاصل ہے پھر بھی مناسب ہوگا کہ ٹونی بلئیر ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں ایک آفیشل مورخ کا باقاعدہ تقرر کر دیں اور اس سے اپنی مرضی کی تاریخ لکھواتے رہیں ۔اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے۔ٹونی بلیئر خود ہی دیکھ لیں کہ ان کا اپنا نشریاتی ادارہ بی بی سی ان کا کتنا حشر نشر کر چکا ہے۔رہے صدر بُش تو ان کے لئے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ان کے امریکی دانشور ساختیات کی بحث میں تاریخ کی موت کا اعلان کر چکے ہیں ۔ اس اعلان کا مقصد یہی تھا کہ ان کے کسی فعل کو تاریخ میں لکھنے کی ضرورت ہی نہیں ، کیونکہ تاریخ کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ایل کے ایڈوانی،مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت دیگر انتہا پسند ہندو رہنماؤں کے بارے میں کافی ثبوت موجود ہیں کہ وہ بابری مسجد کے انہدام کے سلسلے میں مذہبی منافرت پھیلانے میں ملوث تھے۔(بابری مسجد کے انہدام کے کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے روبرو سی بی آئی کی جانب سے واضح موقف اختیار کر لیا گیا۔)
٭٭ انڈیا کی مرکزی تحقیقاتی ایجنسی سی بی آئی کی جانب سے باقاعدہ طور پر ایل کے ایڈوانی،اور دیگر انتہا پسند ہندو رہنماؤں کو بابری مسجد کے انہدام کا ذمہ دار مانا جا رہا ہے۔ویسے اگر بابری مسجد کا انہدام ایڈوانی اور ان کے ہمنواؤں کے نزدیک ان کے ایمان کا حصہ تھا تو انہیں اب بے ایمان ہند و نہیں بننا چاہئے۔ایماندار ہندو کی طرح انہیں خود تسلیم کرلینا چاہئے تھا کہ ہاں ہم نے یہ سب کرایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ایڈوانی اور دوسرے انتہا پسندوں کے خلاف سی۔ بی۔ آئی نے اپنے الزامات واپس لے لئے۔
٭٭ ایک دن پہلے سی بی آئی نے عدالت میں ٹھوس ثبوت فراہم کرنے کی بات کی تھی اور دوسرے دن سی۔ بی۔ آئی نے اعتراف کر لیا ہے کہ اب ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔یاد رہے کہ ایل کے ایڈوانی جی نائب وزیر اعظم ہونے کے ساتھ وزیر داخلہ بھی ہیں اور سی بی آئی کا محکمہ براہ راست ان کے ماتحت ہے۔اس لحاظ سے اتنا بھی غنیمت ہے کہ ایک دن اس ادارہ کے وکیل کی جانب سے مذکورہ انتہا پسند ہندوؤں کے بارے میں ثبوتوں کی بات کھل کر کی گئی۔باقی اگلے روز مکر جانے سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ ایل کے ایڈوانی نے اپنے ماتحت ادارے پر دباؤڈال کر اسے سابق بیان سے منحرف کر لیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔