٭٭ عراق پر امریکی حملہ کے دوران امریکہ کی فوجی خاتون جیسکا لنچ کی ہسپتال سے عراقیوں سے رہائی کی خبر سراسر ڈرامہ تھی۔امریکی فوج کی رپورٹ میں اعتراف۔
(اخباری خبر)
٭٭عراق پر امریکہ کے غیر قانونی،غیر اخلاقی اور غیر انسانی حملہ کے دوران مغربی پریس میں یہ چرچا کیا گیا تھا کہ عراقیوں نے ایک امریکی فوجی خاتون کو زخمی حالت میں گرفتار کرکے ایک ہسپتال میں رکھا ہوا ہے۔پھر امریکہ کی”بہادر فوج “نے یلغار کرکے جیسکا کو رہائی دلائی تھی۔عراقیوں کی طرف سے تب بھی اس خبر کو جھوٹ قرار دیا گیا تھا۔اب عراقیوں کی بات سچ ثابت ہو گئی ہے۔امریکہ کی اپنی رپورٹ کے مطابق امریکی ٹینک کسی عراقی گاڑی سے ٹکرا گیا تھا جس سے خود دو امریکی فوجی خواتین شدید زخمی ہو گئی تھیں۔عراق پر وحشیانہ بمباری کرنے والے امریکیوں کی ان دو خواتین کو کسی امریکی فوجی نے نہیں بلکہ عراقی عوام نے ہسپتال میں پہنچایا تھا۔ ایک خاتون وہاں فوت ہو گئیں جبکہ دوسری کو بچا لیا گیا۔تب اسی خاتون کو ہسپتال سے شرافت سے لے آنے کے بجائے امریکیوں نے کسی کمانڈو آپریشن طرز کا ڈرامہ کرکے اپنی ”بہادری“کا چرچا کرایا تھا۔اب خود ہی اپنی اس ”بہادری“کی اصلیت بتا کر اصل حقیقت کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لے لی۔
(اخباری خبر)
٭٭ لگتا ہے پیر پگارا کی حجاموں والی پیش گوئی نے ایم ۔ایم ۔اے کو محتاط کر دیا ہے۔اسی کے نتیجہ میں وزیر اعظم میر ظفر اﷲ خان جمالی کی مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ایک ملاقات ہوئی ہے اور اس سے بہت ساری غلط فہمیاں دور ہو گئی ہیں ۔بہرحال لگتا ہے کہ اب ایم۔ ایم۔ اے والے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی بجائے فوج اور موجودہ حکومت کے ساتھ مل جل کر چلنے کا ارادہ کر رہے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ مفتی ابرار سلطان کی مدرسہ کی ڈگری کے خلاف پشاور ہائیکورٹ الیکشن ٹریبونل کے فیصلہ کو معطل کرتے ہوئے ،ان کی قومی اسمبلی کی رکنیت بحال کر دی گئی۔کیس کی مزید سماعت ستمبر میں ہو گی۔ (سپریم کورٹ کا فیصلہ)
٭٭ یہ تو پتہ نہیں کہ اس فیصلے کو عدلیہ کی آزادی کا سمجھا جائے یا ایم ایم اے اور حکومت کے درمیان کسی سمجھوتے کا نتیجہ سمجھا جائے۔کیونکہ پہلے ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لی گئی۔اس کے ساتھ مفتی ابرار سلطان نے یکایک سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی اور دوسرے دن ہی سرعت کے ساتھ سپریم کورٹ نے اصل کام بھی کرڈالا۔ ۔۔تاہم جو بھی ہوا تازہ صورتحال کے مطابق بہتر ہی ہوا ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب کو اندرون ملک غیر ضروری سیاسی محاذ آرائی سے نجات مل جائے گی اور ایم ایم اے کے ارکان کی مدرسوں والی ڈگریاں چیلنج ہونے سے بچ گئیں ۔اگر سب کچھ طے شدہ طریق سے ہوتا رہا تو میدان ایک بار پھر جنرل پرویز مشرف مار گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ سعودی عرب میں نوبیاہتا دلہن پہلی رات اپنے شوہر کو دیکھتے ہی بیہوش ہو گئی۔(عرب نیوز)
٭٭ سعودی عرب کے اخبار عرب نیوز کے حوالے سے دی جانے والی اس خبر کے مطابق دلہن کے ذہن میں اپنے خوابوں کے شہزادے کا ایک تصور تھا۔شادی کی پہلی رات اس کا گھونگٹ اٹھانے والا اس کا دولہا اس کی توقع سے بہت کم نکلا۔چنانچہ وہ صدمے سے یا خوف سے بے ہوش ہو گئی۔لڑکی نے طلاق لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔دراصل سعودی عرب میں ابھی تک شادی کا روایتی انداز چل رہا ہے،اس لئے یہ خبر روایتی شادیوں کے معمول کے مطابق ہے۔شادی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھے بغیر ہونے والی شادیوں میں اکثر ایسا ہی ہوتا تھا کہ گھونگٹ اٹھانے کے وقت جب دولہا ،دولہن ایک دوسرے کو دیکھتے، یا دلہن کی چیخ نکل جاتی تھی یا دولہا کی چیخ نکل جاتی تھی۔لیکن اس کے باوجود طلاق تک نوبت کم ہی پہنچتی تھی۔ رو دھو کرصبر کر لیا جاتا تھا۔یوں ایک صابر،ایک شاکر دونوں جنتی ہوجاتے تھے۔ آج کل تو پسند کی شادی کے باوجود طلاقوں کی شرح بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ سوڈان ائیرویز کا ایک طیارہ اندرون ملک پرواز کے دوران گر کر تباہ ہو گیا۔۱۱۶۔افراد ہلاک ہو گئے۔صرف ایک معصوم دو سالہ بچی محفوظ رہی۔ (اخباری خبر)
٭٭ ایسے مواقع پر اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ جسے اﷲ رکھے اسے کون چکھے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ افغانستان میں پاکستانی سفارت خانے پر ہجوم کا حملہ۔۔۔حامد کرزئی کی جانب سے فوری طور پر جنرل پرویز مشرف کو طویل فون کرکے معذرت۔یہ پاکستان کے دشمنوں کی نہیں بلکہ افغانستان کے دشمنوں کی کاروائی ہے۔۔۔۔اصل مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی یقین دہانی۔ (اخباری خبر)
٭٭در اصل ایک دو دن پہلے حامد کرزئی نے خود پاکستان کے خلاف ایک زہریلا بیان دیا تھا۔اس پر حکومت پاکستان کی جانب سے باضابطہ طور پر افغان حکومت کو اطلاع دی گئی تھی کہ اس کے نتیجہ میں پاکستانی سفارتخانے پر حملہ ہو سکتا ہے۔اب حامد کرزئی معذرتیں کرتے پھرتے ہیں ۔ اور سفارتی عملے کی حفاظت کی یقین دہانیاں کرا رہے ہیں ۔ لیکن حامد کرزئی بھی کیا کریں ۔کسی سفارتخانے کی حفاظت وہ خاک کرا سکیں گے۔وہ تو اپنی حفاظت کے لئے افغان گارڈز کو ساتھ نہیں رکھتے۔امریکی کمانڈوز ان کی حفاظت کرتے ہیں ۔یہ سارا کھیل تو خود امریکہ کا رچایا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ قومی اسمبلی کے اجلاس میں مسلم لیگ نون کے رکن خواجہ محمد آصف نے اپنی طرف سے اور میاں نواز شریف کی طرف سے اس امر پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے معافی مانگی ہے کہ انہوں نے گیارہ سال تک ایک فوجی آمر جنرل ضیاع الحق کی حمایت کی اور اس کا ساتھ دیا۔ (اخباری خبر)
٭٭ یہ پاکستان کے بعض سیاسی لیڈروں کی سوچ میں بہتر تبدیلی کا اشارہ ہو سکتا ہے۔لیکن مناسب ہو گا کہ نواز شریف اور ان کے ساتھی گیارہ برسوں میں جنرل ضیاع الحق کے دور میں ناجائز فوجی سرپرستی سے جو جائیدادیں بنا چکے ہیں وہ بھی قوم کو لوٹا دیں ۔وگرنہ ایسی شرمندگی اور معافی با معنی نہیں رہے گی۔ پھر اس کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گا کہ یہ اظہار ندامت موجودہ فوجی قیادت سے بالکل مایوسی کااظہار ہے یا واقعی جمہوری سوچ کے توانا ہونے کے نتیجہ میں ایسا کیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ حلوہ کھانے والوں کو تیتر، مرغ اور بٹیر ہضم نہیں ہو رہے۔(پیر صاحب پگارا شریف)
٭٭لگتا ہے پیر صاحب پگارا شریف ایک بار پھر فارم میں آرہے ہیں ۔کنگری ہاؤس میں محمد اشرف قریشی سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے مولوی حضرات کے بارے میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا یہ جملہ بلاشبہ معرفت کے کمال کو پہنچا ہوا ہے۔”عرفانِ حلوہ“ کے جلوہ سے محروم ہو جانے والوں کو تیتر ،مرغ اور بٹیروں کی فراوانی نے شاید احساسِ زیاں سے بھی محروم کردیا ہے۔
اسی موقعہ پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ چھوٹے میاں (میاں نواز شریف)کوایجنسیوں نے خود تیار کیا تھا،ان پر دس سال تک محنت کی تھی لیکن پھر خود ہی ان کو دیس نکالا دے دیا۔پیر پگارا کی باتوں سے اندازہ ہو تا ہے کہ وہ ہونے والی کسی نئی تبدیلی کے پس منظر سے واقف ہو گئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ اسرائیل کے حوالے سے سابق صدر رفیق تارڑ،صدیق الفاروق،جنرل حمید گل اور جنرل اسلم بیگ کے بارے میں حیرت انگیز انکشافات۔(اے۔ آر ۔وائی چینل کی رپورٹس)
٭٭ جنرل ضیاع الحق کے بارے میں کئی بار یہ خبر آتی رہی تھی کہ وہ خفیہ طریقے سے اسرائیلی حکومت کے ساتھ رابطے میں تھے۔اب ان کی باقیات کے حوالے سے انوکھی خبریں سامنے آئی ہیں ۔(ان کی موثر تردید ہونے تک ان کو جھٹلانا مشکل ہے) اکتوبر ۱۹۹۸ءمیں جناب رفیق تارڑ نے ترکی کی ایک سرکاری تقریب میں اسرائیلی صدر کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ ۔۔۔۔۔ اگست ۱۹۹۷ءمیں اسرائیلی اخبارات میں یہ رپورٹس شائع ہوئیں کہ پاکستان کے مذہبی رہنماؤں کا ایک وفد اسرائیل کے دورے پر ہے۔(ایک مولانا اعتراف کر چکے ہیں کہ شہباز شریف کے ایماءپر انہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا)۔ستمبر ۱۹۹۷ءمیں جنرل اسلم بیگ کا بیان شائع ہوا کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہئے۔۔۔اسی مہینے نواز شریف کے قریبی ساتھی اور مسلم لیگ کے سیکریٹری اطلاعات صدیق الفاروق کا بیان آیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ ۹جولائی ۲۰۰۳ءکو اے آر وائی چینل سے جنرل نصیر اﷲ بابر کا ایک انٹرویو نشر ہوا ہے جس میں انہوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ جب جنرل حمید گل آئی ایس آئی کے چیف تھے تب انہوں نے بینظیر بھٹو سے الگ ملنے کی خواہش کی۔چنانچہ جنرل نصیراﷲ بابر کی موجودگی میں الگ ملاقات ہوئی تو جنرل حمید گل نے انہیں کہا کہ ان کے پاس اسرائیل کے وزیر اعظم کا خط ہے تاکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے پر بات چیت شروع کی جا سکے۔اگر یہ ساری خبریں درست ہیں تو پھر سارے متشدد علماءاور انتہا پسند سیاسی لیڈروں سے اتنا کہنا ہے کہ قوم کو مزید مشتعل اور گمراہ نہ کریں ۔قوم کے حال پر رحم کریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ۱۰جولائی کو اے آر وائی چینل پر سابق صدر رفیق تارڑ نے اسرائیل کے حوالے سے لگائے جا نے والے الزامات سے یکسر انکار کرد یا،رفیق تارڑ کے بقول ان کے خلاف پروپیگنڈہ قادیانی سازش تھی ۔
٭٭ اگرچہ سابق صدر رفیق تارڑ نے خود پر لگنے والے الزامات سے شدت کے ساتھ انکار کیا ہے۔ لیکن جب رفیق تارڑ نے یہ کہا کہ ان کے خلاف سازش قادیانی لابی نے کی ہے تو صاف لگ رہا تھا کہ کوئی پرانے زمانے کا مولوی ”گنڈا سنگھ کے وہابی“ ہوجانے کا اعلان کر رہا تھا۔ یہ المناک لطیفہ ہمارے مذہبی انتہا پسندوں کے رویوں کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔اس وقت رفیق تارڑ کے خلاف جس اخبار نے خبر کو سب سے زیادہ نمایاں کرکے شائع کیا ہے وہ رفیق تارڑ سے کہیں بڑھ کر” اینٹی قادیانی“ہے۔پھر وہ احمدیوںکا آلۂکار کیسے بن گیا؟یہ ماناجا سکتا تھا کہ رفیق تارڑ کے خلاف کوئی شرارت ہوئی ہوتی۔وہ اس کا سنجیدگی سے جواب دیتے۔لیکن اس میں سے قادیانی سازش نکال لانا انتہائی بے ہودہ بہانہ ہے۔ آخر احمدیوں کے لئے رفیق تارڑکونسی ایسی توپ چیز تھے کہ وہ ان کے خلاف ایسے شوشے چھوڑتے؟ انہیں چاہئے کہ وہ واضح کریں کہ ترکی کے جس سفر میں وہ گئے تھے وہاں ان دنوں کسی سرکاری تقریب میں اسرائیلی صدر شامل ہوئے تھے یا نہیں ؟ اگر اس بات کی ٹھوس ثبوت کے ساتھ تردیدہو جائے تو کسی نام نہاد ”قادیانی سازش“کا راگ الاپنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ مولانا ڈاکٹر اسرار احمد کے ایک تازہ مضمون سے اقتباس۔۔۔”۲۵اکتوبر ۱۹۴۷ءکوقائدِ اعظم نے رائٹر نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ: فلسطین کے بارے میں ہمارے موقف کی وضاحت اقوام متحد ہ میں پاکستانی وفد کے سربراہ محمد ظفر اﷲ خان نے کر دی ہے۔“(اسرائیل نا منظور کیوں؟ دوسری قسط۔ از ڈاکٹر اسرار احمد۔نوائے وقت ۔۱۲جولائی ۲۰۰۳ء)
٭٭رفیق تارڑ صاحب اپنی اسرائیلی صدر کے ساتھ کسی مبینہ ملاقات کے چرچے سے جان چھڑانے کے لئے اس الزام کو ”قادیانی سازش“قرار دیتے ہیں لیکن پاکستان کی تاریخ سے یہ انوکھا صفحہ مولانا ڈاکٹر اسرار احمد نے پیش کر دیا ہے کہ جب اسرائیلی ریاست بنی تھی تب جماعت احمدیہ کی نامور شخصیت محمد ظفراﷲ خان اقوام متحدہ میں پاکستان کا موقف شدو مد کے ساتھ بیان کر رہے تھے اور قائد اعظم ان کے بیان کو اپنا موقف قرار دے رہے تھے۔مذہبی معاملات اور اختلافات اپنی جگہ بجا لیکن اچھے رہنما کا فرق قائدِ اعظم اور رفیق تارڑ ان دونوں کے بیانات کے انداز سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔قائدِ اعظم مرد مومن تھے۔ رفیق تارڑ نرے مولانا نکلے۔اور دونوں کا فرق بقول علامہ اقبال
دین مومن فی سبیل اﷲ جہاد
دین ملا فی سبیل اﷲ فساد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ جنرل حمید گل کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے والے الزام کی سخت الفاظ میں تردید کے ساتھ جنرل نصیراﷲ بابر کے خلاف شدید غم و غصہ کا اظہار۔
٭٭ جنرل حمید گل نے اے آر وائی چینل پر جواب دیتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے خود پر لگنے والے الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوئے جنرل نصیراﷲ بابر کو جی بھر کر برا بھلا کہاہے۔بلکہ ایک طرح سے کوسا ہے۔انہوں نے جس انداز سے اپنی صفائی دی ہے اس کے بعد لازم ہوجاتا ہے کہ ایک بار پھر جنرل نصیراﷲ بابر سے انٹرویو کیا جائے اور پھر خود بے نظیر بھٹو سے بھی اصل بات پوچھ لی جائے۔ یہ مسئلہ اور اس پر بحث ابھی آگے چلے گی۔۔(اور لیجئے)۔۔۔گیارہ جولائی کو پھر نصیراﷲ بابر سے انٹرویو کیا گیا ہے اس میں انہوں نے اپنے پہلے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اس ملاقات میں ہونے والی بات کے بارے میں محترمہ بے نظیر صاحبہ سے تصدیق کی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ اصول کی بات یہ ہے کہ ہماری فوج کوصرف اپنے ملک کے دفاع اور سلامتی کے تحفظ کے لئے کام کرنا چاہئے۔یہ نہیں کہ جنرل حمید گل فوج میں شامل ہوں تو وہ امریکہ کی ڈھال کیا تلوار بھی بنی رہے تو درست اور وہ فوج سے ریٹائر ہو جائیں توامریکہ کی ڈھال بننا گناہ کبیرہ۔اگر امریکہ کی ڈھال بننا پاک فوج کے لئے غلط ہے تو سب سے پہلے جنرل حمید گل کو چاہئے کہ وہ اپنے عمل کی مذمت کریں ۔ورنہ جو کچھ وہ خود کرتے رہے ہیں اسی کی وجہ سے دوسروں پر انگشت نمائی کم از کم انہیں زیب نہیں دیتی۔
(نذیر ناجی کے کالم سویرے سویرے(دیگراں را نصیحت) کا آخری پیرا گراف)
٭٭ نذیر ناجی نے بہت عمدہ اور مدلل کالم لکھا ہے۔جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح سوویت یونین کے خلاف گوریلا جنگ کے ناظم اعلیٰ یہی جنرل حمید گل تھے۔تب اسرائیل سے پوری طرح رابطہ رہا ۔ مختلف طریقوں سے اسرائیلی افراد پاکستان آکر ہمارے دفاعی ماہرین سے ملتے رہے۔اسرائیل سے اسلحہ آتا رہا جو پاکستان کی فوج کے ذریعے افغانستان جاتا رہا۔اس کے علاوہ بھی نذیر ناجی نے متعدد شواہد کی بنیاد پر جنرل حمید گل کے موقف کو تضاد کا شکار دکھادیا ہے۔اگر جنرل حمید گل جیسے جرنیلوں نے سابق سوویت یونین کے خاتمے کے لئے امریکیوں اور اسرائیلیوں کا آلۂکار بن کر”گل “نہ کھلایا ہوتا تو آج عالمِ اسلام اور عالمِ انسانیت امریکہ کے ہاتھوں ذلت کے یہ دن نہ دیکھتا۔یہ سب سوویت یونین کی شکست و ریخت کا زہریلا پھل ہے۔ جسے نہ چاہتے ہوئے بھی کھانا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ بے نظیر اور آصف زرداری کے بیٹے بلاول کی سیاست میں آمد کا امکان۔(اخباری اطلاع)
٭٭ خبر کے مطابق بلاول کو اس امر کے لئے تیار کیا جا رہا ہے کہ وہ کسی پبلک جلسہ میں ”جذباتی تقریر“ کے ساتھ اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کرے۔اس خبر کے کئی ملے جلے مثبت اور منفی پہلو ہیں ۔ہمارے جنوبی ایشیائی مزاج میں بت پرستی اورپیر پرستی کا رویہ نسلاًچلتا ہے اور اسی میں ہمیں ذہنی سکون ملتا ہے۔اُدھر انڈیا میں بھی لوگ باگ راجیو گاندھی کے بچوں راہول اور پریانیکا کی سیاست میں آمد کا انتظار کر رہے ہیں ۔ اس کے باوجودپاکستان میں بلاول کی سیاست میں آمد کئی لحاظ سے فطری ہو گی۔نواز شریف جیسے لوگ اگر سیاستدان بن سکتے ہیں جو فوج نے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی طرح تیار کئے تھے تو بلاول کی سیاست میں آمد تو کئی با معنی جواز رکھتی ہے۔اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے،اپنی والدہ بے نظیر کے حوالے سے اوراب تمام تر الزامات کے باوجود اپنے والد آصف زرداری کی استقامت کے حوالے سے سیاست ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ وہ نواز شریف سے کہیں زیادہ اوریجنل سیاستدان بن سکتے ہیں ۔میری طرف سے بلاول کی سیاست میں آمد کا پیشگی خیر مقدم!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ صدر بُش نے عراق پر افریقہ سے یورینیم حاصل کرنے کا جو الزام لگایا تھا وہ اس وقت تک کی معلومات کے لحاظ سے درست تھا۔اُس وقت جو بھی معلومات دستیاب تھیں اُن کی روشنی میں صدر بُش کا بیان اتنا بھی غلط نہیں تھا۔بس ایسا ہوا کہ یہ بیان دینے کے بعدہمیں جو معلومات حاصل ہوئیں ان سے ثابت ہو گیا کہ بیان درست معلومات پر مبنی نہیں تھا۔اور ہم نے اپنی غلطی بھی تسلیم کر لی۔
(امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کی افریقہ میں صحافیوں سے بات چیت)
٭٭ جناب آپ جو بھی کہہ دیں وہی سچ ہے۔آپ کاپہلا بیان بھی سچ تھا اور اب اس کے بر عکس بیان بھی سچ ہے۔ایسا ہی آگے اب جو ایران کے ساتھ کرنے کے لئے آپ لوگ کھیل رچا رہے ہیں وہ بھی سب سچ ہی ہو گا۔۔۔اور مزید جو ملک آپ کا تختۂمشق بنیں گے ان پر آپ کے سارے الزام بھی سچ ہی ہوں گے۔بعد میں آپ اپنی غلطی تسلیم کرلیں گے تو وہ بھی سچ ہو گا۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ بہت ہی سچے لوگ ہیں ۔
دن فرمائیں آپ تو دن ہے،رات کہیں تو رات
یوں بھی سچی،یوں بھی سچی آپ کے منہ کی بات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ آسٹریلیا کے وزیر اعظم جان ہاورڈ نے عراق پر امریکی حملہ میں شمولیت کی غرض سے ملکی پارلیمان کو گمراہ کرنے پر قوم سے معافی مانگ لی۔ (اخباری خبر)
٭٭ جب عراق پر امریکی حملہ ہونے والا تھا اور دنیا بھر میں اینگلو امریکی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے تب آسٹریلیا میں ایک زبردست احتجاجی مظاہرے میں عوام نے جان ہاورڈ کا کارٹون ایک کتے کے روپ میں بنایا تھا جس پر جان ہاورڈ کا چہرہ لگایا گیا تھا اور اس کتے کے پٹے کی زنجیر جونئیر بُش کے ہاتھ میں دی ہوئی تھی۔۔۔۔جان ہاورڈ کس بات کی معافی مانگ رہے ہیں ؟ان کی ساری قوم جانتی ہے اور ساری دنیا جانتی ہے کہ اصل کھیل کیا تھا اور اس میں آسٹریلیا کا کیا کردار تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔