٭٭ عراقی شہر حلہ میں عراقیوں کی طرف سے امریکہ کی اطاعت کے فارم پُر کرنے سے انکار۔
(اخبار ی خبر)
٭٭ یہ عجیب سی خبر ہے کہ امریکہ نے اپنی اطاعت کے فارم شائع کرائے ہیں اور اب ان فارموں کو پُر کرنے کے لئے عراقی شہریوں کو مختلف ترغیبات دھمکیاں دی جا رہی ہیں ۔ اطاعت فارموں سے دھیان خودبخود یزیدی خلافت کے دور کی طرف چلا جاتا ہے۔اگرچہ ابھی تک کی خبروں کے مطابق شہریوں کی بڑی تعداد نے بیعت کی طرز کے اطاعت فارموں پر دستخط کرنے سے انکار کیا ہے ،لیکن کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب اس خطے کے لوگوں کا موڈ بدل جائے۔ اس سرزمین پرپہلے بھی تو کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ القاعدہ کسی مغربی شہر پر آئیندہ چند روز میں کیمیائی ،حیاتیاتی اور ایٹمی حملہ کر سکتی ہے ۔
(برطانوی انٹیلی جینس کی اطلاع)
٭٭ برطانوی انٹیلی جینس ایم آئی۔5 کے ڈائریکٹر جنرل ایلیزا میلنگ ہام بلرنے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ سنبھالنے پر کہا ہے کہ کسی مغربی شہر پر دہشت گردوں کی طرف سے آئیندہ چند روز میں کیمیائی ، حیاتیاتی اور ایٹمی حملہ ہو سکتا ہے ۔یہ سب امریکی اور برطانوی حکام کی ایماءپر ان کی ایجنسیوں کا مکّارانہ کھیل ہے۔افغانستان پر حملہ کرتے وقت بھی کیمیائی ،حیاتیاتی اور ایٹمی ہتھیاروں کے حملہ کا پروپیگنڈہ کیا گیا تھا۔عراق پر حملہ کے وقت بھی یہی شرمناک پروپیگنڈہ کیا گیا تھا۔اب تو اس الزام سے امریکی اور برطانوی حکام کے خونی کردار کی بد بو آنے لگی ہے۔۔۔۔لکھ لیجئے اگر اس کھیل کو سچ دکھانے کے لئے کوئی حملہ خود امریکی اور برطانوی ایجنٹوں کے ذریعے کرایا گیا تو اس کے لئے ان مغربی ممالک کی سر زمین کو نشانہ بنایا جائے گا جو عراق پر امریکی حملے کی مخالفت کرتے رہے ہیں ۔اس طرح بہانے سے ان مغربی ممالک کو سزا بھی دے دی جائے گی اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف اپنی سامراجی خواہشات کی تکمیل بھی کر لی جائے گی۔امکان یہی ہے کہ ایسے کسی کھیل کا الزام ایران کے سر منڈھ دیا جائے گا۔امریکی اور برطانوی حکام کے موجودہ ٹولہ کی بدبودار سازشیں تو اب عام آدمی کو بھی صاف سمجھ میں آنے لگی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ پاک بھارت فوجی کشیدگی کے جنوبی ایشیا کے پورے خطے پر اثرات کا جائزہ لینے کے لئے نیپال میں اجلاس۔ (اخباری خبر)
٭٭سابق فوجی افسران اور سابق سفار تکاروں کا دوروزہ اجلاس نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں ہوا ۔جس میں انڈو پاک کشیدگی کم کرانے کے لئے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔اس اجلاس میں انڈیا، پاکستان اور نیپال کے وفود نے شرکت کی۔یہ اچھی بات ہے کہ برصغیر کے بنیادی مسائل کے حل کے احساس کے ساتھ سارک ممالک بھی تدریجاً خطے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہو رہے ہیں ۔یورپی یونین کے قیام کے بعد سے اب تک یونین کو کمزور کرنے اور ختم کرنے کی کئی ناکام سازشیں ہو چکی ہیں اس کے باوجود یورپی یونین مستحکم ہو رہی ہے۔اگرچہ ہم جنوبی ایشیا کے لوگ بیشتر میدانوںمیں یورپ سے دو تین صدیاں پیچھے ہیں ، اسی لئے یورپ کی دو صدیاں پہلی فکری تحاریک کی نقالی کرنے والے نقاد ابھی تک سارک یونین کے تصور میں بھی کسی ”سازش“کا راگ الاپ رہے ہیں ۔ایسا کام جس میں پورے خطے کے غریب عوام کی بھلائی ہے،اس کا ہونا ہی بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ صدر جمہوریۂہند عبدالکلام آزاد کی طرف سے انڈیا میں سیاسی جماعتوں کی کثرت پر دلچسپ طنز۔ (اخباری خبر)
٭٭ چینائی (مدراس)میں انا یونیورسٹی کی سلور جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی صدر نے انڈیا میں سیاسی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر طنز کرتے ہوئے ایک دلچسپ لطیفہ سنایا۔ان کے بقول خدا کرۂارض کے حالات کا مشاہدہ کرنے کے لئے آیا تو ایک فرشتہ اور ایک شیطان اس کے ساتھ تھے۔خدا اس زمین کے حالات دیکھ کر بہت خفا ہوا اور اس نے اس کی اصلاح کا حکم دیا۔فرشتے نے کہا کہ اس دھرتی کے موجودہ بگاڑ کو ٹھیک کرنے کے لئے دس لاکھ سال لگیں گے۔تب خدا شیطان کی طرف متوجہ ہوا۔شیطان اس کام کے لئے بخوشی راضی ہو گیا تو اس کا” کوالیفائی انگ“ ٹیسٹ لیا گیا۔اسے کہکشاں کے ستاروں اور دھرتی پر موجود ریت کے ذروں کی گنتی کا کام دیا گیا۔اس نے اس کا بالکل درست جواب دے دیا تو پھر اسے ہندوستان کی سیاسی جماعتوں کی گنتی کا کام دیا گیا۔آخری خبریں آنے تک شیطان ابھی تک ہندوستان کی سیاسی جماعتوں کی گنتی کرنے میں مشغول ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ سرکاری شعبے کے بینکوں اور مالیاتی اداروں کی جانب سے ۱۹۹۹ءسے اب تک بارہ ارب روپے کے قریب قرضے معاف کئے گئے۔اس میں 5.6 ارب روپے اصل رقم اور بقیہ مارک اپ تھا۔زرعی ترقیاتی بینک نے بھی 6ارب روپے سے زائد قرض معاف کئے۔
(قومی اسمبلی میں وقفۂسوالات کے دوران وزیر خزانہ شوکت عزیز کا تحریری جواب)
٭٭ جنرل پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تھا تب کرپشن سے پاک گڈ گورنینس کا دعویٰ کیا تھا۔ ان کے اسی دعوے پر ہمیں سب سے زیادہ خوشی ہوئی تھی۔وہ خود بھی سابقہ ادوار میں بینکوں سے قرضے لے کر معاف کروالینے والوں پر تنقید کرتے رہے اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس دلانے کے عزم کا اظہار کرتے رہے۔ لیکن پہلی لوٹی ہوئی رقم تو قوم کو کیا ملتی لٹی پٹی غریب پاکستانی قوم اپنے ہی لٹیروں کے ہاتھوں مزید لٹ گئی۔طبقۂاشرافیہ کے مگر مچھوں نے قوم کا مزید اٹھارہ ارب روپیہ لوٹ لیا ہے۔انا ﷲ و انا الیہ راجعون ط۔برطانوی ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق قرضہ معاف کرانے والے جن غرباءاور مساکین کے نام سامنے آئے ہیں ان میں شجاعت حسین فیملی سر فہرست ہے۔ان کے اپنے نام کے ساتھ ان کے خاندان کے دوسرے افراد کے جو نام بتائے گئے ہیں وہ یہ ہیں ۔ چوہدری شجاعت حسین اوران کی اہلیہ بیگم کوثر حسین ، چوہدری پرویز الٰہی اوران کی اہلیہ قیصر الٰہی ،چوہدری منظور الٰہی اورچوہدری صباحت حسین اورچوہدری شفاعت حسین۔
جنرل پرویز مشرف اپنی لٹی ہوئی غریب قوم پر اتنا احسان تو کردیں کہ طبقۂاشرافیہ کے جن مستحقین کے قرضے معاف کئے گئے ہیں بس ان کے نام اور معاف کی جانے والی رقم کی تفصیل جاری کرادیں ۔ممکن ہے لٹی پٹی قوم ان کی امداد کے لئے کوئی اور بندوبست بھی کر دے۔جنرل پرویز مشرف صرف کرپشن کے خلاف اور بینکوں سے قرضے معاف کرانے والوں لٹیروں کے خلاف اپنے سابقہ بیانات یاد کریں ،پھر اپنے عزائم اور دعووں کو یاد کریں ۔۔بس اس کے بعد صرف اسی خبر کے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ لیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ چوہدری شجاعت حسین گروپ کی پنجاب شوگر ملزخانیوال کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ ملز نے فوجی دور یا اس سے پہلے کوئی قرضہ معاف نہیں کرایا۔ساتھ ہی یہ بھی وارننگ دی گئی کہ آئیندہ کسی اخبار نے قرضے کے حوالے سے ہمارے بارے میں خبر لگائی تو اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی ۔ ( ا خبا ر ی خبر)
٭٭ اس خبر میں قرضے معاف کرانے کی تردید صرف پنجاب شوگر ملز کے حوالے سے کی گئی ہے۔کسی دوسرے پراجیکٹ کے لئے لئے ہوئے قرضوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ پھر خاندان کے باقی افراد کی طرف سے قرضے معاف کرانے کی بھی کوئی تردید نہیں کی گئی۔چوہدری شجاعت حسین اور ان کے گروپ کے بارے میں اخباروں میں جو خبر چھپی تھی وہ برطانوی ریڈیو کے حوالے سے چھپی تھی۔ویسے اب تو جرمنی کے سرکاری ریڈیو نے بھی اپنے ذرائع سے یہ خبر دیتے ہوئے اس میں چوہدری براداران کا خصوصی ذکر کیا ہے۔ اس لئے اگر ان کے ترجمان کا بیان درست ہے تو ان کو معاملہ آئیندہ پر نہیں لٹکانا چاہئے ،ابھی برطانوی اور جرمن ریڈیو کے خلاف کاروائی کرنی چاہئے۔اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ تین سال میں اٹھارہ ارب روپے کے قرضے معاف کئے ہیں ۔اس سلسلے میں مرکزی وزیر خزانہ کا تحریری بیان ریکارڈ پر موجود ہے۔یہ اٹھارہ ارب روپے کن سیاسی یتیموں ،مساکین اور دیگر مستحقین کو دئیے گئے؟اس کا جواب جنرل پرویز مشرف کے بڑے سیاسی حلیفوں پر بھی اخلاقی قرض ہے۔(یہ اخلاقی قرض معاف نہیں ہو گا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کا سود بڑھتا رہے گا۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ قرضوں کی عام معافی کا اعلان۔۔۔۔۔عطالحق قاسمی کا اسی حوالے سے ایک عمدہ کالم
٭٭ہمارے ثقہ لکھنے والوں نے ابھی تک جنرل پرویز مشرف کی جانب سے کرپشن کے خلاف سابقہ بیانات کی روشنی میں اعتراف کردہ اٹھارہ ارب روپے کے قرض معاف کرنے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تاہم معروف فکاہی کالم نگار عطاءالحق قاسمی نے ۲۱جون کے اخبار جنگ میں اپنے کالم ”روزنِ دیوار سے“میں اس خبر کا نوٹس لیا ہے۔عطاءالحق قاسمی نواز شریف فیملی کے انتہائی قرابت داروں میں شمار ہوتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ انہوں نے مذاق مذاق میں بھی ان سیاسی غرباءاور مساکین کے نام نہیں لئے جن کے قرضے معاف کئے گئے ہیں ۔ویسے ان کی احتیاط بھی مناسب ہے کہ لوگوں کو ہنسانے والے کو پھر رونا نہ پڑ جائے۔قرضے معاف کرانے والے مساکین اس وقت تو پوری طاقت اور سیاسی فارم میں ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ سعودی عرب میں ہزاروں ائمہ برطرف ،جمعہ کے خطبات سے روک دیا گیا۔
(روزنامہ خبریں کی خبر)
٭٭ روزنامہ خبریں اسلام پسند حلقوں کا ”مقبول“اخبار ہے۔اس کی ۱۵جون کی خبر کی صرف سرخی یہاں دی گئی ہے۔سعودی عرب کی حکومت نے بعض علماءکی امریکہ کے خلاف یا مبینہ ”اسلامی مجاہدین“ کی اپنے خطبات میں حمایت کرنے کی وجہ سے ایسا اقدام کیا ہے۔یہ اقدام سعودی عرب میں ہوا ہے تو پاکستان کے وہ تمام علماءخاموش ہیں جو ماضی میں سعودی عرب سے کثیر مالی امداد لیتے رہے ہیں اور وہ بھی خاموش ہیں جنہیں ابھی تک امداد مل رہی ہے۔۔۔اور یہ سب وہی علماءہیں جو موجودہ عالمی بحران کے باعث دینی مدارس میں جنرل پرویز مشرف کی مصلحت پسندانہ معمولی سی مداخلت پر بھی دھمکیاں دینا شروع کردیتے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف علماءکے امتیازی سلوک یاپھر دوہرے معیار پر سعودی حکومت سے کہہ سکتے ہیں ۔
تجھ تک آئی تو زلف کہلائی
وہ تِیرگی جو مِرے نامۂسیاہ میں تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ متحدہ عرب امارات کے ایک باشندہ داد محمد مراد کی بارھویں شادی۔بچوں کی سنچری پوری کرنے کی خواہش۔ (اے۔ ایف۔ پی کی خبر)
٭٭ عربوں کے پاس اب مردانگی دکھانے کے لئے ایسے کام ہی رہ گئے ہیں ۔داد محمد مرادکی عمر۵۳سال ہے اور ان کے ابھی تک ۶۳بچے ہیں ۔گیارہ بیویوں سے اتنے بچوں کے بعد اب بارھویں شادی کی ہے ۔ لگتا ہے داد محمد مراد نے اپنی ازدواجی زندگی کو کرکٹ کا کھیل بنا لیا ہے۔اسی لئے ہاف سنچری کے بعد سنچری بنانے کے چکر میں پڑ گئے ہیں ۵۳ سال کی عمر کے بعد کھلاڑی چاہے کتنے چوکے چھکے لگا لے مزید۳۷بچوں کا ٹارگٹ پورا کرنا خاصا مشکل ہے۔اتنے کم وقت اور کم اوورز میں وکٹ بھی گر سکتی ہے اور رَن آؤٹ ہونے کا خطرہ تو ہر وقت موجود ہے۔ بہر حال اس کے باوجود داد محمد مراد اپنی دلی مراد پوری کرنے کے لئے تن من دھن سے لگا ہوا ہے۔ دیکھیں ان کے اس ون لائف کھیل کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ عراق کی جنگ کے دوران تین بڑے مذہبی لیڈروں کو واپسی ٹکٹ دئیے تھے کہ شاہ احمد نورانی قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمن وہاں جا کر ہیومن شیلڈ بنیں ۔مگر یہ لوگ وہاں نہیں گئے۔ (ایم۔ کیو۔ ایم کے قائد الطاف حسین کی تقریر)
٭٭اگرچہ اس وقت ایسے بیانات کراچی میں ہونے والے انتخاب پر اثر ڈالنے کے لئے ہیں تاہم اس الزام میں کوئی شک نہیں کہ جب ایم۔ ایم۔ اے کے علماءعراق کے مسئلے پر پہلے سے کرب میں مبتلا قوم کو مشتعل کر رہے تھے تب ایم کیو ایم نے ہیومن شیلڈ کے حوالے سے علماءکو بے بس کر دیا تھا۔ عراق جانے سے انکار کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں تھا۔اس کے باوجود دنیا نے دیکھا کہ ہمارے علماءپاکستان میں ہی نعرے لگواتے رہے اور ”کافروں“ کے ملکوںسے مرد عورتیں بغداد میں پہنچ کر ہیومن شیلڈ بنے ہوئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ صدر بُش جنرل پرویز مشرف کے دورۂامریکہ کے موقعہ پر ان کا پاکستانی صدر کی حیثیت سے نہیں بلکہ فوجی سربراہ کی حیثیت سے استقبال کریں ۔
(پاکستانی اپوزیشن کی جانب سے امریکی صدر بُش کے نام پیغام)
٭٭ جنرل پرویز مشرف اس وقت امریکہ ہی نہیں سارے مغربی ممالک میں خاص اہمیت اختیار کر گئے ہیں ۔اس لئے اپوزیشن کی یہ درخواست کوئی پذیرائی حاصل نہیں کر سکے گی۔الٹااس کا خطرہ موجود ہے کہ اگر امریکہ نے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لئے انہیں فری ہینڈ دے دیا تو وہ ساری اپوزیشن کی چھٹی کرادیں ۔ ایسے کسی اقدام کے لئے جواز تو پہلے ہی سے موجود ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ مولانا محمود مدنی ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ دوسری اقلیتوں کو ملا کر ایک سیکولر پارٹی کے قیام کے لئے کوشاں۔ (اخباری خبر)
٭٭ یہ بڑی مزے کی خبر ہے۔پاکستان میں لبرل مسلمانوں پر بھی بڑا لعن طعن کیا جاتا ہےچہ جائیکہ سیکولر(غیر مذہبی یا لادینی)ہونے کو ہضم کیا جائے۔روزنامہ انقلاب ممبئی کی خبر کے مطابق جمعیتہ العلمائے ہند نے ایک پریس ریلیز میں اس ارادے کی خبر دی ہے۔اس سلسلے میں مزید کاوشیں جاری ہیں ۔توقع کی جانی چاہئے کہ ہندوستان میں مسلمان علماءکی تحریک پر ایسی پارٹی کے قیام کے کامیاب تجربہ کے بعد ان کے ہم مسلک پاکستانی علماءبھی اس سمت میں تھوڑا بہت قدم اٹھائیں گے۔زیادہ نہیں تو کم از کم جنرل پرویز مشرف کے لبرل ہونے پر اعتراض کرنا ترک کردیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ مولانا شاہ احمد نورانی ،مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق سمیت ۳۵علماءکے خلاف نااہلی کا ریفرنس دائر کردیا گیا۔ (اخباری خبر)
٭٭ خبر کے مطابق عوامی حمایت تحریک پاکستان کے چیئرمین مولوی سید اقبال حیدر نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین کے پاس مجموعی طور پر ۳۵علماءکے خلاف گریجوایٹ نہ ہونے کے ریفرنس دائر کئے ہیں ۔قبل ازیں اسلم خاکی ایڈووکیٹ نے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے اور علماءکی گریجوایشن کا مسئلہ اٹھا رکھا ہے۔الیکشن کے زمانے میں سرکاری سرپرستی میں بے نظیر بھٹو کی گریجوایشن کو مشکوک بنانے کا مضحکہ خیز کھیل کھیلنے کے ساتھ علماءکو گریجوایشن کے مساوی تسلیم کیا گیا تھا۔اب ان ڈگریوں کو مسئلہ بنانا سیاسی بلیک میلنگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ہم تو صرف ایک ہی اچھے اور اوریجنل شاعر اقبال حیدر کو جانتے ہیں یا پھر پیپلز پارٹی کے سینیٹر اقبال حیدر کو۔اور یہ دونوں جینوئن لوگ کراچی پاکستان میں آباد ہیں ۔یہ سید پہلے لگا کر سیاست کرنے والے اقبال حیدر کوئی جعلی قسم کی سیاسی شخصیت لگتے ہیں ۔ان کی تنظیم کے پاس اور جو کچھ ہو عوامی حمایت کہیں نہیں ہے۔بہتر ہو گا وہ اپنی تنظیم کا نام سرکاری حمایت تحریک رکھ لیں۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت نے سوچا ہو کہ مولویوں کو مارنے کے لئے کسی مولوی کو ہی ذریعہ بنایا جائے چاہے وہ مولوی سید اقبال حیدر ہی کیوں نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ملک میں ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف سری لنکا میں اپوزیشن کا انوکھا احتجاج۔
(اخباری خبر)
٭٭ ابھی تک ایسا ہوا تھا کہ پانی کی قلت کے خلاف مظاہرہ ہوا تو شہریوں نے خالی گھڑے اٹھا کر جلوس نکال لیا۔اباس سے ملتا جلتا ایک احتجاج سری لنکا کی اسمبلی میں ہوا ہے۔سری لنکا میں مقامی سیاستدانوں کی ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے اور حکومت کو اس کی ناکامی کا احساس دلانے کے لئے اپوزیشن ارکان ماتمی لباس پہنے ہوئے ، ایک تابوت لے کر پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہو گئے اور وہاں مظاہرہ شروع کر دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ بابری مسجد کو شہیدکرانے میں ایل کے ایڈوانی ،واجپائی اور مرلی منوہر جوشی اور دیگر مرکزی لیڈرز شامل تھے۔انہیں کی سازش اور حکم پر مسجد کو شہید کیا گیا۔
(بابری مسجد کی شہادت کے وقت یو پی کے وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے رہنما کلیان سنگھ کا بیان)
٭٭ گزشتہ ہفتے بی جے پی کے لیڈروں پر بالعموم اور ایل کے ایڈوانی پر بالخصوص مسجد شہید کرنے والے کارکنوں نے الزام لگایا تھا کہ انہیں کے حکم پر ایسا کیا گیا تھا۔پھر ایک دھارمک رہنما اور مندر کی تعمیر کے حامی نے بھی ایڈوانی کے نام پر شدت کے ساتھ اصرار کیاتھا۔ اب اُس وقت کے یو پی کے وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے رہنما کلیان سنگھ نے نہ صرف ایڈوانی کو اس سازش میں ملوث بتایا ہے بلکہ واجپائی جی کو بھی لپیٹ لیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ واجپائی جی کے دو چہرے ہیں ۔اگرچہ کلیان سنگھ اب بی جے پی سے الگ ہو کر مذہبی منافرت کے خلاف کام کر رہے ہیں ۔ تاہم ان کا بیان گھر کے بھیدی کا بیان ہے۔دیکھیں ابھی شہیدبابری مسجد اور کس کس کو لے بیٹھتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے یا نہیں ؟۔۔۔اے۔ آر۔ وائی چینل کے پروگرام ویوز آن نیوزمیں حیرت انگیز سیٹ بیک۔
٭٭ ۲۰جون ۲۰۰۳ءکو جرمنی کے وقت کے مطابق رات ساڑھے دس بجے اور انگلینڈ کے وقت کے مطابق ساڑھے نو بجے پروگرام ویوز آن نیوز میں اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ٹی وی کے ناظرین سے اپنی رائے دینے کے لئے کہا گیا۔پروگرام کے پریزینٹر کے ذہنی میلان کے پیش نظر بھی اور عمومی عوامی تاثر کی وجہ سے بھی یہی لگتا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خلاف شدید رد عمل سامنے آئے گا۔لیکن اس وقت حیرت انگیز سیٹ بیک کا سامنا کرنا پڑا جب سعودی عرب اوردبئی جیسے ملکوں میں بیٹھے ہوئے پاکستانیوں کی بھی زیادہ کالز اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں آنے لگیں ۔ کالرز اپنے موقف کو سیاسی ،اقتصادی اور عالمی حوالے سے واضح کر رہے تھے۔
٭٭