٭٭ صدارتی ریفرنڈم کرانا ایک غلطی تھی۔ الیکشن کے بعد جس قسم کی جمہوریت اور پارلیمنٹ سامنے آئی ہے اس کا مجھے افسوس ہے۔
(صدر جنرل پرویز مشرف کا بھارتی ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی سے انٹرویو)
٭٭ انسان خطا کا پتلا ہے۔ جب انسان کوئی غلطی کر لے اور اس کا احساس بھی ہو جائے تو اچھے انسان کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اس غلطی پر اَڑ جانے کی بجائے اس کی تلافی کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔اگرچہ اس وقت جنرل پرویز مشرف کو اقتدار کے کوریڈورز کے خوشامدیوں نے اپنے گھیرے میں لے کرخوشامد کے شکنجے میں کس رکھا ہے،لیکن بہتر ہو گا کہ وہ موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کے لئے کسی قسم کی بچکانہ یا غیر پارلیمانی پابندیاں لگانے کے بجائے از سر نوکھلے پارلیمانی انتخاب کرائیں (اس کے لئے اخراجات بعض عرب اور یورپی ممالک ادا کرنے کو راضی ہو سکتے ہیں )۔اس میں نام نہاد گریجوایشن کی پابندیاں ختم کریں ۔بے نظیر سے لے کر شریف فیملی تک سب کو عوام کی عدالت میں جانے دیں اور پھر عوام کے فیصلے کو دل سے قبول کرلیں ۔کرپشن کے خلاف ان کے سارے دعوے اور اب تک کے عملی اقدامات تو میرے جیسے ان کے مداحوں کو بھی بہت شرمندہ کرنے لگے ہیں ۔اتنا اشارا کافی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ بابری مسجد کی شہادت میں ملوث ملزمان میں سے پانچ ملزمان نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ انہوں نے ایل کے ایڈوانی اور دوسرے رہنماؤں کے کہنے پر بابری مسجد کو شہید کیا تھا۔اس جرم میں ان کے ساتھ ایل کے ایڈوانی اور دوسرے انتہا پسند ہندو رہنما برابر کے شامل تھے۔ (اخباری خبر)
٭٭ اکھل بھارتیہ ایودھیا رام مندر کارسیوک سَنگھ کے قومی کنوینر وینکٹیشور راؤاور بعض دیگر کار سیوکوں نے بھی ایل کے ایڈوانی کے ایماءپر بابری مسجد کے انہدام کی تصدیق کر دی۔
(اخباری خبر)
٭٭خبر کے مطابق بابری مسجد کو شہید کرنے کے مقدمہ کے پانچ ملزمان ونود واستو، سنتوش،آر سی کھتری،امرناتھ گوئل اور آر این داس نے اسپیشل سی بی آئی کورٹ میں مقدمہ کی پیشی کے موقعہ پر اس بات پر احتجاج کیا کہ اب ایل کے ایڈوانی اور دوسرے لیڈر خود کو اس جرم سے الگ کر رہے ہیں ۔۔۔ایل کے ایڈوانی نے اور ان کے وکیل نے اس کی تردید کی ہے۔وکیل کی تردید کے بعد رام مندر کی تعمیر سے متعلق ایک تنظیم کے اہم لیڈر نے بھی نہ صرف ایڈوانی کے وکیل کے بیان کی مذمت کی ہے بلکہ ایڈوانی کے ایماءپر ہی بابری مسجد گرائے جانے کے الزام کی تصدیق کی ہے۔ بر صغیر کے تمام مذہبی انتہا پسند وں کا،چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہوں، یہ بڑا المیہ ہے کہ وہ قوم کو اشتعال دلا کر نفرت کا زہر تو پھیلاتے ہیں لیکن اگر کبھی قانون کی گرفت میں آنے والی بات ہو تو اپنے کسی بھی”بہت بڑے کارنامے“سے صاف مکر جاتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ پاکستان میں نئے سال کا بجٹ پیش کردیا گیا۔۔۔بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ شوکت عزیز اور وزیر اطلاعات شیخ رشید کے خلاف اپوزیشن کی نعرہ بازی۔۔۔اس کے باوجود شیخ رشید کے بقول اپوزیشن کا رویہ ذمہ دارانہ تھا۔ (اخباری خبر)
٭٭ جہاں تک بجٹ کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ دس پندرہ برس میں پیش کئے گئے کسی بھی بجٹ کے مقابلہ میں یہ بہت بہتر اور متوازن بجٹ ہے۔جو ارکان اس کی مخالفت برائے مخالفت کر رہے ہیں ،اگر وہ اس کا موازنہ اپنے دور حکومت کے کسی بجٹ سے کرلیں تو ان کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ یہ بجٹ نسبتاًبہتر ہے یا نہیں ؟اجلاس کے دوران اپوزیشن نے ہنگامہ تو کرنا ہی تھا۔لیکن لگتا ہے کہ اس سلسلے میں بھی پہلے ہی سے کچھ حدود کا تعین کر لیا گیا تھا۔ چنانچہ ایل ایف او کے خلاف نعرہ بازی کے ساتھ شیخ رشید کے لئے ”شید اٹلّی“ اور شوکت عزیز کے لئے ”امریکی لوٹا“کی نعرہ بازی ہوئی۔شیخ رشید تو اپنے خلاف یہ نام سن کر بھی مسکراتے رہے، اور شوکت عزیز نے نعرے سنے ہی نہیں ۔تاہم اپوزیشن کو میرا ذاتی اور دوستانہ مشورہ ہے کہ جملہ کسنے میں کم از کم حافظ حسین احمد کے اس معیار کو برقرار رکھا کریں جو انہوں نے کشملہ طارق کے جواب میں کہا تھا۔ورنہ جملہ گالی بن جاتا ہے جو شرفاءکو زیب نہیں دیتی۔شیخ رشید نے اس کے باوجود اپوزیشن کے رویے کو ذمہ دارانہ کہا ہے تو اس سے ان کی سیاسی پختگی کا اندازہ ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ”ویل ڈن شوکت عزیز!“بجٹ کو کامیابی سے پیش کرنے پر جنرل پرویز مشرف کا خراجِ تحسین۔۔”ویل ڈن پرویز الٰہی!“لاہور میں وکلاءکنونشن کے کامیاب انعقاد اور اس میں وکلاءکی بھر پور شرکت پر جنرل پرویز مشرف کا خراجِ تحسین۔(اخباری خبر)
٭٭ در اصل بجٹ اجلاس کی کامیابی میں بھی چوہدری برادران کے جوڑ توڑ کا بڑا دخل رہا ہے۔اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ بجٹ اجلاس اور وکلاءکنونشن کی کامیابی کے نتیجہ میں چوہدری برادران کی پوزیشن پھر بہتر ہو گئی ہے۔ان کے خلاف جو فائلیں کھلنے والی تھیں،وہ فی الحال تو بند کر دی جائیں گی۔
حسرت ان فَیلوں پہ ہے جو بِن کھُلے بند ہو گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ انڈیا کے صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام حیدر آباد(دکن)کے ایڈمنسٹریٹیو اسٹاف کالج میں وائس چانسلرز اورپروفیسرز کے ساتھ گھل مل گئے۔ (اخباری خبر)
٭٭ خبر کے مطابق صدر جمہوریۂہند نے وائس چانسلرز اور پروفیسرز سے بعض سوالات کرکے انہیں آزمائش میں ڈال دیا۔جب ایک دو جواب دینے والی شخصیات اصل سوال سے ہٹ کر بات کرنے لگیں تو صدر نے فوراً انہیں روک کر اصل موضوع کی طرف آنے کی تاکید کی۔ایک صاحب نے ان کی تعریف کرنا شروع کی تو اسے ٹوک دیا اور کہا کہ مجھ سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ اپنی اچھی باتوں سے مجھے متاثر کیجئے۔یہاں تک تو ساری خبر ایک سابق پروفیسر اور موجودہ صدر جمہوریہ کے مزاج کی عکاسی کرتی ہے۔باقی صدر ان میں گھل مل گئے والی خبر پر ابھی شک ہے ۔کیونکہ امریکی صدور سے لے کر پاکستانی صدور تک ہم نے بہت سوں کو حاضرین میں گھلتے ملتے دیکھا ہے اور یہ بھی دیکھا ہے کہ اس گھلنے ملنے میں ہر ”شہری“کے ساتھ تین تین خفیہ والے اس کے دائیں بائیں اور پیچھے تین اطراف سے گھلے ملے ہوتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ہندوستانی صدرِ جمہوریہ ایک تیرہ سالہ بچے کے سوال کے سامنے لاجواب ہو گئے تھے۔
(اخباری خبر)
٭٭حیدرآباد میں بِرلا سائنس ایوارڈز تقریب میں صدرِ جمہوریہ ہند عبد ا لکلام نے حاضرین سے گفتگو کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ ایک بار ایک اسکول کے آٹھویں جماعت کے طالب علم تیرہ سالہ بچے نے ان سے سوال کیا تھا کہ دنیا کا سب سے پہلا سائنسدان کون تھا؟ انہوں نے کہا کہ میں اس کا جواب سوچتا ہی رہ گیا تھا۔ہمیں اس سوال کو پڑھتے ہی یہ جواب سوجھا ہے کہ دنیا کا پہلا سائنسدان وہ بے نام یا نامعلوم شخص تھا جس نے پہیہ ایجاد کیا تھا۔پہیے کی ایجاد ہی انسان کو بیل گاڑی کے دور سے لے کر آج کے ہوائی اور خلائی سفر تک لائی ہے۔اب پتہ نہیں یہ جواب درست ہے یانہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ بنگلور میں نماز استسقاءکے اختتام تک موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔
(گزشتہ ہفتہ کی اخباری خبر)
٭٭ ان دنوں بر صغیر میں خاص طور پر جو قیامت خیز گرمی چل رہی ہے،ایسے لگتا ہے جیسے سورج سوا نیزے پر آگیا ہے۔سینکڑوں کی تعداد میں ا موات ہو چکی ہیں ۔اسی گرمی کی شدت کے دوران بنگلور کے مسلمانوں نے نماز استسقاءکا پروگرام بنایا۔جس دن یہ نماز پڑھی گئی اس دن کے بارے میں محکمہ موسمیات کی پیش گوئی تھی کہ گرمی بدستور رہے گی،برسات نہیں ہو گی۔لیکن جیسے ہی مسلمانوں نے نماز استسقاءکا سلام پھیرا موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔نماز استسقاءاجتماعی دعا ہے۔میں نے بہت پہلے اپنی ”کھٹی میٹھی یادیں “میں ایک واقعہ لکھا تھا۔اسے یہاں دہرا دیتا ہوں۔
’نسیم سیفی صاحب طویل عرصہ تک افریقی ممالک میں رہے۔وہ ایک بار بتانے لگے کہ خشک سالی کے باعث قحط کا خطرہ پیدا ہو گیاتو مسلمانوں نے نماز استسقاءپڑھنے کے لئے ایک تاریخ کا اعلان کر دیا۔ اس تاریخ سے ایک یا دودن پہلے سکھ حضرات نے ایک گراؤنڈ میں اپنے طریق کے مطابق اجتماعی دعا کی۔اور مسلمانوں کے نماز استسقاءپڑھنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ برسات نے پہلے ہی دھرتی کو سیراب کر دیا‘ (کھٹی میٹھی یادیں “باب”دعائیں اور قسمت“۔یہ بک میری ویب سائٹwww.haiderqureshi.com پر آن لائن موجود ہے)بے شک خدا ہر ایک کی دعا سنتا اور قبول کرتا ہے۔بس صحیح معنوں میں مانگنے والی (دلِ مضطرب والی) کیفیت پیدا ہونی چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ اس دور میں اسلامی ا سٹیٹ اجتماعی دائرہ میں ایک ویلفیئر اسٹیٹ کا نام ہے۔اگر آپ ویلفےئر اسٹیٹ نہیں بنا سکتے اور ہورڈنگز اور اشتہارات توڑتے ہیں اور بچوں کے لئے سلوار، قمیص یا پاجامہ پہننا لازمی قرار دیتے ہیں تو یہ حقیقی اسلامی ریاست نہ ہوگی۔ صرف نام کی اسلامی ریاست ہوگی۔
(ارشاد احمد حقانی کے ”حرفِ تمنا“۔پاک بھارت تعلقات۔ایک تجزیہ“سے اقتباس)
٭٭ یہ حقیقت ہے کہ اسلامی اسٹیٹ کا تصور ہی ویل فیئر اسٹیٹ کا تصور ہے۔ لیکن بعض انتہا پسند طبقے اسلام کے نام کو ایکسپلائٹ کرکے اپنی مرضی کی ایسی اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں جو ویل فیئر کے بجائے” وَل فریب“کے سوا کچھ نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ سرگودھا میں حکومت کے خلاف متحدہ مجلس عمل کی رابطہ عوام مہم۔۔۔مہم کے دوران جیسے ہی مغرب کی نماز کا وقت ہوامتحدہ مجلس عمل کے کارکنوں اور رہنماؤں نے اپنے اپنے مسالک کے مطابق تین الگ الگ نمازیں ادا کیں ۔(اخباری خبر)
٭٭متحدہ مجلس عمل نے اپنے قیام کے آغاز ہی میں اپنے اتحاد کا ٹھوس ثبوت دیتے ہوئے ایک امام کے پیچھے نمازپڑھ کر اپنے اتحاد کے بارے میں عوام کو واضح پیغام دیا تھا۔اب تین الگ الگ مسالک کی اپنے اپنے اماموں کے پیچھے لگ کر تین الگ الگ جماعتوں سے بھی عوام کو ایک پیغام گیا ہے۔ اگر متحدہ مجلس عمل نے اپنے اتحاد کا ایسا مظاہرہ جاری رکھا تو اس کا نتیجہ بھی ماضی سے مختلف نہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ پردھان منتری واجپائی کی جانب سے مولانا محمود احمد مدنی کی قیادت میں علماءکے وفد کو پاکستان کے دورے کی اجازت مل گئی۔مولانا اسعد مدنی کی قیادت میں ہندو اور سکھوں کے مذہبی رہنماؤں کا وفد بھی پاکستان جائے گا(مولانا محمود احمد مدنی کا بیان)
٭٭علماءڈپلومیسی کے تحت انڈیا سے وفد آنے کی خبر پہلے آ چکی تھی۔تب ہم نے اپنے اسی ”خبر نامہ“ کالم نمبر ۴۔مورخہ ۱۲مئی ۲۰۰۳ءمیں اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے یہ مشورہ بھی لکھا تھا:” ویسے بہتر تھا کہ پاکستان سے علماءکے وفد جاکر انڈین پنڈتوں اور پروہتوں سے ملتے اور انڈیا سے پنڈتوں اور پروہتوں کے وفود پاکستان آکر علماءسے ملتے،اس طرح دونوں طبقوں میں رابطے سے یا تو فساد کی جڑ ختم ہوتی یا فساد پوری طرح اٹھ کھڑا ہوتا “۔ اب مولانا اسعد مدنی کی قیادت میں ہندو اور سکھ مذہبی رہنماؤں کے دورے کی خبر آگئی ہے۔یہ درست سمت میں ایک اچھی پیش رفت ہے۔خیر اور بھلائی کی توقع کی جانی چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ آئی بی کے سابق سربراہ مسعود شریف کو کرپشن اور دیگر مقدمات سے بری کر دیا گیا۔
(اخباری خبر)
٭٭ بے نظیر بھٹو کے دور میں رہےآئی بی کے سربراہ مسعود شریف کو ۱۹۹۶ءمیں تب گرفتار کیا گیا تھا جب بے نظیر حکومت کو ختم کیا گیا تھا۔مسعود شریف کی مقدمات سے بریت کو شگون کے طور پر لیا جائے تو لگتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی اور مقدمات سے بریت کا کام آسان ہو سکتا ہے۔اسی طرح مسعود شریف کے نام کی مناسبت سے جدہ میں مقیم شریف خاندان کی مشکلات بھی کم ہو سکتی ہیں اور ان کے لئے وطن واپسی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔دیکھیں پردۂغیب سے کیا ظہور میں آتا ہے؟(قارئین سے معذرت کہ غیر ارادی طور پر یہ تبصرہ پیر پگاڑا صاحب کے مخصوص انداز میں لکھا گیا ہے۔کبھی کبھار شگون سے کام لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ جنرل پرویز مشرف کے حکم پر ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے امیگریشن کراچی کا تبادلہ روک دیا گیا۔ (القمر آن لائن کی خبر)
٭٭ اس خبر کے مطابق ڈی ڈی ایف۔ آئی۔ اے امیگریشن کراچی ذوالفقار علی شاہ کو ان کے اسٹیشن سے تبدیل کرنے کا حکم جاری کرکے ان کی جگہ چوہدری شجاعت حسین (مسلم لیگ قاف)کے ایک عزیز فیاض کو یہاں لایا جا رہا تھا۔یہ خبر جنرل پرویز مشرف کے نوٹس میں لائی گئی تو انہوں نے فوری طور پر چوہدری شجاعت حسین کے عزیز کا تبادلہ کینسل کرکے ذوالفقار علی شاہ کو ان کے اسٹیشن پر بحال کر دیا۔اس خبر سے بہت اندرکی سیاست میں جو نشیب و فراز آرہے ہیں ان کا تھوڑا بہت قیاس کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ امریکی حکام طالبان کے بعض رہنماؤں اور پاکستانی خفیہ کے بعض افسران کی مشترکہ میٹنگ۔ (اے آر وائی چینل کی رپورٹ)
٭٭ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے کسی مقام پر امریکی حکام طالبان کے بعض رہنماؤں اور بعض پاکستانی افسران کی مشترکہ میٹنگ ہوئی۔اس کا مقصد افغانستان میں امن و امان کے قیام کے لئے طالبان کے بکھرے ہوئے اراکین کو راضی کرکے حکومت میں حصہ دینا تھا۔ابھی یہ اس نوعیت کے مذاکرات کی ابتدا ہے۔طالبان کے تعاون کے ساتھ امریکہ کو علماءکے بعض طبقوں کا تعاون بھی لینا پڑے گا۔اسی صورت میں افغانستان میں ایسا دیر پا امن قائم ہو سکے گا جو امریکہ کے اصل عزائم کی تکمیل میں ممد ثابت ہو گا۔یعنی سابق سوویت ریاستوں سے تیل کے ذخیروں کو پائپ لائن کے ذریعے آگے لے جانا۔ابھی تک امریکہ نے افغانستان میں تباہی پھیلائی ہے مگر اس کا پائپ لائن بچھانے کا خواب پورا ہونا تو بعد کی بات ہے ابھی کام کی ابتدا بھی نہیں ہو سکی۔بہر حال طالبان اور علماءایک بار پھر امریکہ کے ساتھ ملنے والے ہیں ۔لیکن یہ طے ہے کہ امریکہ ایک حد سے زیادہ انہیں آگے نہیں آنے دے گا ۔ جبکہ عدم تعاون کی صورت میں مزید تباہی ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ علامہ اقبال کے نظریہ پاکستان سے لے کر سارک یونین کے بارے میں پروفیسر فتح محمد ملک کا ارشاد احمد حقانی کے انداز نظر سے برہمی کے ساتھ اختلاف اورارشاد احمد حقانی کا مدلل عالمانہ جواب ۔ (”جنگ “اور” نوائے وقت“ میں چلی ایک تازہ بحث)
٭٭ پروفیسر فتح محمد ملک صاحب بنیادی طور پرادبی نقاد ہیں ۔ ان کی حالاتِ حاضرہ پر نظر اور سیاسی سوجھ بوجھ ان کی ادبی سوجھ بوجھ سے کم ہے۔ وطنِ عزیز ان دنوں جس قسم کے سنگین حالات سے دوچار ہے اس کے پیش نظر سنجیدہ دانشورطبقے کو بہت زیادہ محتاط اور غیر جذباتی ہونا چاہئے تھا۔ارشاد احمد حقانی اس لحاظ سے بہت اہم دانشور ہیں کہ وہ آنے والے دنوں کی آہٹ کو نہ صرف سن رہے ہیں بلکہ اہلِ وطن کواس سے باخبر بھی کر رہے ہیں ۔اپنے۱۴جون کے کالم ”جواب آں غزل“میں انہوں نے بڑے عالمانہ انداز سے فتح محمد ملک صاحب کے غیر عالمانہ اور جذباتی قسم کے آرٹیکل کا جواب دیا ہے۔ملک صاحب سے قطع نظرہمارے بیشتر جذباتی انداز سے لکھنے والے صحافی ان طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جو قیام پاکستان کی تحریک کے دوران قائد اعظم کو کافرِ اعظم کہتے رہے اور پاکستان کی شدید مخالفت کرتے رہے۔پاکستان بن گیا تو وہی عناصر نظریۂپاکستان کے چیمپیئن بن گئے۔پھرجب۱۹۷۱ءمیں پاکستان دو لخت ہوا تب انہیں میں سے بعض عناصر نے برملا کہا خدا کا شکر ہے ہم اور ہمارے بزرگ پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔ باقی پاکستان قائم رہ گیا تو وہی لوگ پھر نظریۂپاکستان کے چیمپیئن بن گئے۔اس ساری تاریخ کو دیکھتے ہوئے مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ کبھی خدانخواستہ کوئی بڑا سیٹ بیک ہوگیا توہمارے بیشتر جذباتی انداز سے لکھنے والے ”مخالفِ پاکستان قوتوں“سے سمجھوتہ کرکے نئے انداز میں جذباتی طریقے سے لکھنا شروع کردیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ چین کے ایک اخبار میں شائع ہونے والا ایک انوکھا اشتہار”ضرورت ہے باپ کی“۔
(اخباری خبر)
٭٭ خبر کے مطابق مغربی چین کے ایک شہرسی چوان کے رہنے والے ایک شخص کی اپنی بیوی سے علیحدگی ہو گئی ہے۔اس کا بارہ سالہ بیٹا اس کے ساتھ ہے ۔جو اس صورتحال سے بہت دلبرداشتہ ہے۔جبکہ وہ شخص اپنے بیٹے کی دلجوئی نہیں کر سکتا۔چنانچہ اس نے اخبار میں اشتہار دیاہے کہ اسے ایک ایسے ملازم کی ضرورت ہے جو اس کے بیٹے کو ایک باپ کی طرح سنبھال سکے۔اصولاً تو اشتہار میں باپ کی جگہ بیٹے کے لئے ماں کی ضرورت کا اظہار ہونا چاہئے تھا۔یا پھررنڈوے ، طلاق یافتہ باپ کی ضرورت کا اشتہار ہونا چاہئے تھا۔ایسا نہیں کیا گیا تو بیٹے کے ساتھ ماں بھی ہونی چاہئے تھی تاکہ منتخب ہونے والا امیدوار پوری طرح بچے کے باپ کا فریضہ ادا کر سکتا۔ بہر حال ایسے اشتہار اپنی جگہ ایک لطیفہ بھی ہوتے ہیں اور المیہ بھی۔