٭٭ امریکہ نے پندرہ غیرملکیوں کے اکاؤنٹس سے بیس لاکھ ڈالر کی رقم زبردستی نکال لی۔
(اخباری خبر)
٭٭ اطلاع کے مطابق امریکی وزارت انصاف نے اس قانون کے تحت یہ کاروائی کی ہے جس کے مطابق اگر اسے یہ شک ہو جائے کہ کسی نے فراڈ کے ذریعے رقم کمائی ہے تو اس کی دولت کو ضبط کیا جا سکتا ہے۔اس کے لئے فراڈ کو ثابت کرنا ضروری نہیں ہے۔صرف شک کرنا ہی کافی ہے۔امریکی وزارتِ انصاف کا ”انداز انصاف“اس کے لئے مزید جگ ہنسائی کاموجب بنے گا۔بلکہ اس کی وجہ سے خود امریکہ میں بنکنگ سسٹم اور غیر ملکی بینکوں کی برانچوں سے معاملات بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔فراڈ کی کمائی اور کالے دھن کا تعاقب ضرور کریں لیکن انصاف کے ساتھ۔۔۔وزارت انصاف والے انصاف کے ساتھ نہیں بلکہ سچ مچ کے انصاف کے ساتھ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ نظم ”بے نظیر کی کہانی“ لکھ کربے نظیر بھٹو شاعرہ بن گئیں ۔
(واشنگٹن سے موصولہ خالد حسن کی اخباری رپورٹ)
٭٭خبر کے مطابق بے نظیر بھٹو نے ایک نظم لکھی ہے جو ان کی جلا وطنی اور پیش آمدہ صورتحال پر ان کی کیفیات کی عکاسی کرتی ہے۔اس نظم کا عنوان ہے”بے نظیر کی کہانی“۔۔۔خبر سے واضح نہیں ہے کہ نظم اردو میں ہے،سندھی میں ہے یا انگریزی میں ۔۔۔گمان غالب ہے کہ نظم انگریزی میں ہو گی۔۴جون کو ان کی سالگرہ کے موقعہ پر نظم جاری کئے جانے کی خبر ہے۔نظم دیکھنے کے بعد اندازہ کیا جا سکے گا کہ بے نظیر بھٹو کس پائے کی شاعرہ بن کر سامنے آتی ہیں ؟۔۔۔واقعی شاعرہ ہیں یا بس شری واجپائی جی جیسی شاعری کرتی ہیں ۔ویسے بے نظیر بھٹو کی اپنی شخصیت،چند سیاسی غلطیوں کے باوجود سیاسی بصارت اور بصیرت ،عالمی سطح کی دانشورانہ اپروچ اور ایک بہادر خاتون رہنما کی حیثیت اتنی متاثر کن ہے کہ خود ان پر نظمیں لکھی جانی چاہئیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ وزیر اعظم میر ظفر اﷲ خان جمالی نے جہلم کے ایک جلسۂ عام میں تقریر کرتے ہوئے بتایاہے کہ جب وہ ۱۹۸۳ءمیں وفاقی وزیر تھے تو شارجہ کے ایک وزیر پاکستان کے دورے پر آئے۔جمالی تب بطور پروٹوکول وزیر ان کے ساتھ تھے۔ شارجہ کے وزیر نے جہلم کی ایک مسجد کا دورہ کیا اور وہاں کے منتظم علماءسے ان فنڈز کے استعمال کے بارے میں پوچھا جو شارجہ سے ان کو ملتے رہے تھے۔تب بجائے حساب دینے کے،۔ موقعہ پر موجود علماءایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے لگے۔اور آپس میں لڑنے لگے۔وزیر اعظم جمالی نے کہا کہ جو لوگ اﷲ کے گھرکا مال کھا جاتے ہیں ،وہ لوگ ملک کا کیا حال کریں گے ۔ (اخباری خبر)
٭٭ میر ظفر اﷲ جمالی جیسے مرنجاں مرنج وزیر اعظم کا یہ انکشاف خود ہی ایک تبصرہ ہے۔اس پر مزید کیا تبصرہ کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ علماءکے بارے میں وزیر اعظم کا بیان ہرزہ سرائی ہے،ہمیں فخر ہے ہم مسجد کے ٹکڑوں پر پلے ہیں ،انگریزوں اور امریکہ کے ٹکڑوں پر نہیں پلے۔مولانا فضل الرحمن کا رد عمل ۔ جمالی اوقات میں رہیں ،مجلس عمل کی قیادت کا دامن کرپشن سے داغدار نہیں جبکہ جرنیل اور جمالی جیسے لوگ اس گند میں ملوث ہیں ۔مولانا ساجد میر کا ردعمل۔(اخباری خبر)
٭٭ بتایا تو یہ جانا چاہئے تھا کہ جہلم کی مسجد میں شارجہ کے وزیر کا سوال اور وہاں کے مولویوں کے آپس میں لڑنے کی خبر درست ہے یا نہیں ؟اس کے بارے میں دونوں علماءنے کچھ نہیں کہا بس اونچے لہجے میں وزیر اعظم کو برا بھلا کہہ کردل کی بھڑاس نکالی ہے۔جہاں تک کرپشن سے پاک ہونے کا دعویٰ ہے یہ پاکیٔداماں کی حکایت کو بڑھانے والی بات ہے۔کیا دونوں علماءبتا سکتے ہیں کہ وہ مسجدوں کے ٹکڑوں پر پلتے ہوئے اتنے دولتمند کیسے ہو گئے؟کیا وہ سوویت یونین کے دور میں افغان جنگ کے بہانے امریکہ سے بالواسطہ طور پر ڈھیروں ڈھیر دولت نہیں کھا چکے؟اور کیا امریکہ کی پٹھو بعض عرب حکومتوں سے آج تک ان کو بھاری امداد نہیں ملتی رہی؟اور خدا خیر رکھے ابھی آپ نے اسی حکومت اور اسی امریکہ کے لئے بہت سی خدمات سرانجام دینی ہیں ۔ ہم سب یہ سب کچھ ہوتا دیکھیں گے۔اس لئے شدید رد عمل میں بھی کچھ حقیقت پسندانہ انداز کو ملحوظ رکھنا مناسب ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ متحدہ عرب امارات میں تین لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کاروائی شروع کر دی گئی۔ (اخباری خبر)
٭٭ متحدہ عرب امارات نے جنوری میں عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کو خود پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔اس پر تین لاکھ سے زائد افراد میں سے ایک لاکھ نے بھی اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔چنانچہ اب حکومت کی طرف سے ان تمام افراد کے خلاف کاروائی شروع کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔اب جو لوگ پکڑے جائیں گے،انہیں دس سال کی قید اور دس ہزار درہم جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔غیر قانونی تارکین وطن میں اکثریت پاکستان،انڈیا اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھتی ہے۔اس خبر کا ایک اور پہلو بھی ذہن میں رہنا چاہئے۔جب نائن الیون کے بعد امریکہ نے بعض ممالک کے غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی رجسٹریشن کا حکم دیا تھا تو صحافیوں کی طرف سے اتنے کالم اور مضامین لکھے گئے جیسے غیرقانونی پاکستانیوں کو تحفظ فراہم کرنا امریکی حکومت کی ذمہ داری ہے۔اگرچہ امریکی طرزِ عمل غیر دوستانہ تھا لیکن امریکہ کو اس کا جائز قانونی حق حاصل تھا۔اب دیکھیں کہ ہمارے صحافی حضرات اسلامی برادری کے خیرخواہ متحدہ عرب امارات کی اس کاروائی پر کیا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں ۔(ابھی تک کسی نے اس خبر کا نوٹس نہیں لیا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ میلسی(پاکستان)میں ایک عورت کا سر مونڈ دیا گیا۔میلسی کے علاقہ میں گزشتہ سات ماہ کے دوران عورتوں پر الزام تراشی کے بعد سر مونڈنے کا پانچواں پنچایتی فیصلے کا واقعہ ہوا ہے۔(اخباری خبر)
٭٭ خبر کے مطابق اس عورت نسیم مائی کے شوہر محمد حسین نے اسے طلاق ثلاثہ دے دی تھی لیکن کچھ عرصہ کے بعد وہ گاؤں کے ایک جاگیر دار کے ساتھ آیا اور اسلحہ کے بل پر یہ کہتے ہوئے نسیم مائی کو اٹھا کر لے گیا کہ میں نے اپنی طلاق واپس لے لی ہے۔بعد ازاں نسیم مائی کے بیان کے مطابق جاگیر دار سمیت متعدد افراد اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرتے رہے۔صرف میلسی کے علاقہ میں اس نوعیت کا یہ پانچواں واقعہ ہے۔فیصلہ کرنے والی پنچایت کا سرپنچ اور دوسرے پنچایتی نسیم مائی کے ساتھ زیادتی بھی کرتے رہے اور خود ہی منصف بن کر اس کے خلاف فیصلہ سنا کر عمل بھی کر دیا۔
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی ،منصف بھی
جس معاشرے کی اخلاق باختگی کا یہ عالم ہو وہاں علمائے کرام سائن بورڈ توڑنے اور سرکس کے تماشوں پر حملہ کرنے کو ہی اصل اسلامی نظام سمجھ رہے ہیں ۔اس قسم کے واقعات سے انہیں کوئی دینی حوالہ کیوں نہیں یاد آتا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ”ٹیلی وےژن امریکی سماج کا زبردست آئینہ دار ہے۔اس پر ایک نوجوان لڑکی کو غصے سے یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ اس کے بوائے فرینڈ(Boy Friend) کے ساتھ اس کی ماں معاشقہ کر رہی ہے۔ایک بات چیت میں دونوں ماں اور بیٹی اسی بات پر بحث کر رہی ہیں ۔یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ماں اور بوائے فرینڈ کے مابین جنسی تعلقات کا بڑے ہی کھلے الفاظ میں تذکرہ کیا جا رہا تھا“
(سیما مصطفیٰ کے آرٹیکل”امریکہ میں اب سب کچھ ٹھیک ہے!“سے ایک اقتباس)
٭٭ میلسی سے امریکہ تک سماجی سطحوں پر جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ ان معاشروں کے بہت اندررُونما ہونے والے کئی سانحوں کی ہلکی سی جھلکیاں ہیں ۔عصرِ حاضر کی جہالت ہو یا روشن خیالی۔۔۔۔معاشروں میں کسی اچھی تبدیلی یا اعتدال کی صورت نظر نہیں آتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ امریکہ کو صدر مشرف کے متحدہ مجلس عمل سے اتحاد پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
(نیشن رپورٹ)
٭٭ اب تک افغانستان میں امریکہ نے جو کاروائی کی ہے،اس کے نتیجہ میں وہ اپنے اصل ہدف سے ابھی تک کوسوں دور ہے۔سابق سوویت یونین کی تیل سے لبریز ریاستوں کا تیل براستہ افغانستان حاصل کرنے کا کام ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔ایسا تب ہو گا جب افغانستا ن میں امریکہ کے خلاف شدید نفرت کو کم کیا جا سکے گا۔یہ کام علماءکی مدد کے بغیرہو نہیں سکتا۔اسی لئے ہم تو ایک عرصہ سے کہہ رہے ہیں کہ بے شک امریکہ علماءکو ایک خاص حد تک رکھے لیکن اسے ان کی مدد کی ضرورت رہے گی۔ اور علماءبھی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ جنرل ضیاع الحق کے دور سے ویسے بھی پاک فوج اور علماءکے درمیان ایک خاموش اتحاد بن چکا ہے۔ اس لئے جنرل پرویز مشرف کا ایم ایم اے کی طرف جھکاؤاندرونی اور بیرونی دونوں عوامل کی بنیاد پر ہے۔ تاہم علمائے کرام بھی اپنی اس حیثیت کا اندازہ ایک حد سے زیادہ نہیں لگائیں ۔ موجودہ نازک صورتحال میں جتنا مل جائے غنیمت سمجھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ہالینڈ میں ایک تیس سالہ خاتون نے اپنی زندگی کے مایوس کن تجربات کے بعد اپنے آپ سے شادی کر لی۔ (اخباری خبر)
٭٭ یہ دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی شادی ضرور ہے لیکن حرکت پہلی نہیں ہے۔مشرقی اور مسلم ممالک کے معاشروں میں بھی وہ سارے معائب پائے جاتے ہیں جنہیں مغربی دنیا نے کھلے عام اپنا رکھا ہے۔گے اور لزبن کلچر سے لے کرme to me تک کی ساری غلط کاریاں ہمارے ہاں بھی پائی جاتی ہیں ۔مغرب کے ایک دانشور نے لکھا تھا کہ دنیا کے ننانوے فی صد افراد اپنی عمر کے کسی نہ کسی حصے میں اسme to me کا ارتکاب ضرور کرتے ہیں ،اور جو ایک فیصد اس کا ارتکاب نہیں کرتے وہ در اصل جھوٹ بولتے ہیں ۔ہمارے ہاں اس کا اقرار کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اسے ایک رنگ میں لیا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ دوہرے پن کا شکار ہے لیکن اسے مثبت انداز سے دیکھا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم برائی کو چوری چھپے کرکے کم از کم اسے برائی تو سمجھتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ وفاقی وزیر اطلاعات شیخ رشید کی طرف سے متحدہ مجلس عمل صوبہ سرحد کی حکومت اور اسمبلی کے ارکان کوان پڑھ کہنے پر اسمبلی اور علماءکا شدید رد عمل۔میں نے سیاسی اَن پڑھ کہا تھا،سیاسی اَن پڑھ دور اندیش نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک سیاسی اَن پڑھ کہنے کے اپنے بیان پر قائم ہوں۔شیخ رشید کا جوابی موقف۔(اخباری خبر)
٭٭ مولویوں اور وزیر اطلاعات کے اس جھگڑے سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں ہے۔بس شیخ رشید کی وضاحت سے ایسا لگا کہ وہ اپنے پہلے بیان سے تھوڑا سا پیچھے ہٹے ہیں ۔پہلے انہوں نے غالباً ”اَن پڑھ ‘ ‘ کہا تھا۔۔اب اپنی بات پر اصرار بھی کر رہے ہیں لیکن ساتھ”سیاسی اَن پڑھ“ کی وضاحت کر دی ہے ۔ اگر وہ اپنے بیان میں پہلے ہی کچھ مارجن رکھتے تو اب تردید کر کے بھی ان کی بات درست رہتی۔ایک لطیفہ تھوڑی سی تبدیل شدہ صورت میں حاضر ہے۔ایک اخبار نے خبر شائع کی کہ فلاں اسمبلی میں آدھے اراکین اسمبلی انتہائی جاہل ہیں ۔اس پر اسمبلی کے ارکان نے شدید احتجاج کیا تو اخبار کے ایڈیٹر نے اگلے دن ”اعتذار“کے عنوان کے ساتھ لکھا کہ ہم اپنے کل کے لکھے پر شرمندہ ہیں ۔ اورکل کے لکھے کی معذرت اور تردید کرتے ہوئے اقرار کرتے ہیں کہ اس اسمبلی کے آدھے اراکین جاہل نہیں ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ سکھوں کے مقدس دھارمک انسٹی ٹیوشن اکال تخت نے بھنڈرانوالہ کو ”پنتھ کے شہید“کا درجہ دے دیا۔ (اخباری خبر)
٭٭شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی نے ایک بڑا دلیرانہ فیصلہ کیا ہے۔خیال رہے کہ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کی گرفتاری کے لئے سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹمپل امرتسر پر انڈین حکومت کی جانب سے جو حملہ کیا گیا تھا،اس کی تلخی ابھی تک ختم نہیں ہو سکی۔اسی حملہ کے رد عمل میں مسز اندرا گاندھی کا قتل ہوا،پھر انڈیا میں سکھوں کا وسیع پیمانے پر قتلِ عام کیا گیا۔جس سے ہندو سکھ کڑواہٹ میں اضافہ ہوا۔اتنے طویل عرصہ کے بعد شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی کی جانب سے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کو ”پنتھ کے شہید“کا درجہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ سکھوں نے اس ظلم کو تسلیم نہیں کیا اور بھنڈرانوالہ کو دہشت گرد کہنے والوں کو رد کرکے اسے اپنا ہیرو مانا ہے۔زندہ قومیں ایسے اقدامات سے اپنی زندگی کا ثبوت دیتی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ترشول کی تقسیم کے مسئلہ پر بی جے پی اور بجرنگ دَل میں اختلاف بڑھ گئے۔(اخباری خبر)
٭٭ خبر کے مطابق بی جے پی کے ترجمان پرمود مہاجن نے ترشول کی تقسیم کے بارے میں تھورا سا معتدل بیان دیا تھا جس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بجرنگ دَل کے قومی کوآرڈی نیٹر پرکاش شرما نے پرمود مہاجن کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مہاجن وزیر اور پارٹی جنرل سیکریٹری بننے کے بعد اپنی حد بھول گئے ہیں ۔۔۔ بجرنگ دَل کی ترشول تقسیم کی منصوبہ بندی اور پرکاش شرما کے اس پُر تشدد بیان پر اتنی ہی پرارتھنا کی جا سکتی ہے کہ انتہا پسند ہندوؤں کو ان کا بھگوان عقل اور سمجھ عطا کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ صوبہ سرحد کے بعد پنجاب میں ’فحاشی کے خلاف مہم‘شروع۔خواتین کی تصاویر والے سائن بورڈز پر سیاہی پھیر دی گئی۔ (اخباری خبر)
٭٭ صوبہ سرحد میں خواتین کی تصاویر والے سائن بورڈز اور ہورڈنگز کی بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ کے بعد ،گوجرانوالہ کی ایک سرکس پر حملہ کا واقعہ ہوا،جس میں سرکس دیکھنے والوں پر ڈنڈے برسائے گئے اور قناتوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔اور اب ملتان میں ”فحاشی کے خلاف مہم‘ ‘ کا آغاز کردیا گیا ہے۔ سائن بورڈز پر خواتین کی تصاویرپر کالک ملی جا رہی ہے۔ ایسے اقدامات کرنے والے مذہبی انتہا پسند وں کے رہنماؤں کو چاہئے کہ ایک بار اطمینان سے بیٹھ کر اپنے طرزِ عمل اور انڈیا کے انتہا پسند ہندوؤں کے طرزِ عمل پر غور کریں ۔نتائج کے لحاظ سے دونوں اطراف کے اقدامات ایک جیسے ”ثمرات“لارہے ہیں ۔اﷲ ان پر رحم کرے اور پوری پاکستانی قوم پر رحم کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔