(Last Updated On: )
کب ہے کہ حقیقت سے دل آگاہ نہیں ہے
گم، راہ بھی ہوتے ہوئے گمراہ نہیںہے
افلاک کے در وا ہوئے کس شخص کی خاطر
مظلوم ہے ہونٹوں پہ مگر آہ نہیں ہے
جب اذنِ مسافت نہ تھا ہر سمت تھے رستے
اب اذن ملا ہے تو کہیں راہ نہیں ہے
پھر قصرِ زلیخا میں رَسائی بھی ہو کیسے
کنعانِ تمنا میں کوئی چاہ نہیں ہے
آنکھوں میں ہماری کوئی سورج نہیں باقی
ماتھے پہ تمہارے بھی کوئی ماہ نہیں ہے
شرطوں پہ محبت کی کوئی بات نہ کرنا
یہ تیرا طلب گار شہنشاہ نہیں ہے
بس پیار کو بھی پیار کی حد تک ہی نبھائیں
دل، دل ہے کسی پِیر کی درگاہ نہیں ہے
اس چشمِ فسوں ساز کے جادو کو نہ سمجھیں
اب اپنی نظر اتنی بھی کوتاہ نہیں ہے
رہنے دو مِری جان یہ توقیر و تکلف
حیدرؔ ترا اب اتنا بھی ذی جاہ نہیں ہے
٭٭٭