(Last Updated On: )
ـسلگتے خواب ۔۔۔حیدر قریشی کی غزلو ں کا پہلا مجموعہ ہے ۔ان لو گوں کے برعکس جو اخبارات کے ادبی صفحات سے ابھرتے ہی پلک جھپکنے میں اپنا شعری مجموعہ پیش کر دیتے ہیں۔ حیدر قریشی نے ادبی روایا ت کے احترام میں اپنا اولین شعری مجموعہ پیش کر نے میں عمداً تا خیر کی ہے اور یہ ایک بہت اچھی بات ہے۔ حیدر قریشی نے ۱۹۷۱ء کے لگ بھگ ادب کے میدان میں قدم رکھا اور پچھلی ایک دہا ئی میں اس نے شاعری کے علا وہ انشائیہ ‘ افسانہ، تنقید اور خا کہ نگا ری میں بھی نا م پیدا کیا ہے۔علا وہ ازیں اس نے نہ صرف رسائل اور کتابیں مرتب کی ہیں بلکہ دوسرے مدیران اور مر تبین میں مشورے اور ہدایا ت بھی فراوانی کے ساتھ مفت تقسیم کی ہیں۔ حیدر قریشی میں فا ضل قوت اتنی زیادہ ہے کہ اس نے ادب کے محیط کو عبو ر کر کے بعض دیگر شعبوں میں بھی اپنی ذہا نت کا بھر پور مظا ہر ہ کیا ہے۔ مجھے اس کے ہا ں ایک انو کھا حصول آزادی کا رجحا ن نظر آیا ہے۔ وہ آزاد ہو نا چاہتا ہے مگر تا حال اسے شاید خود بھی معلوم نہیں کہ وہ کس سے آزاد ہونے کا خواہاں ہے۔ کیا وہ معاشرے کی جکڑ بندیوں سے باہر آنے کا متمنی ہے ؟یا کلیشوں کی گرفت اور عقائد کی سنہری زنجیروں سے؟ یا پھر خود اپنی ذات کے سلا سل سے ؟ بات پو ری طرح واضح نہیں ہے۔ ممکن ہے وہ ان سب دائروں سے باہر نکل کر خود کو ایک نا ظر کے مقام پر فائز کرنے کا متمنی ہو ۔
غالباً یہی بات ہو گی کیو نکہ نا ظر ہی وہ مرد آزاد ہے جو کھیل میں شریک ہو نے کے باوجو د اس سے آزاد ہو تا ہے۔ کھیل میں اگر انسان ایک کھلا ڑی کی حیثیت میںشامل ہو تو پھر اس کے باہر چلے جانے سے کھیل رک سکتا ہے لیکن نا ظربن جانے کی صورت میں اس کے باہر نکل جانے یا ویسے ہی آنکھیں مو ند لینے سے کھیل رک نہیں جاتا بلکہ جا ری رہتا ہے۔ حیدر قریشی کو اپنا یہی رول پسند ہے کہ جب چا ہا آنکھیں کھو ل کر کھیل میں جذب ہو گئے اور جب جی چا ہا آنکھیں میچ کر مراقبے میں چلے گئے یا ایک آنکھ میچ کر رننگ کمنٹری نشر کر نے لگے۔ حیدر قریشی کے اس رویے نے اس کی غز لو ں میں ایک ایسا ذائقہ پیدا کیا ہے جو آ ج کے نئے غزل گو شعراء میں سے شاید ہی کسی کے ہا ں نظر آئے۔ یعنی وہ غزل کی مقبول ترین تمثیل میں (جو عورت اور مرد کے رشتے پر مشتمل ہے ) اپنا کر دار ادا کر تے ہو ئے اس سے لحظہ بھر کے لئے باہر نکل کر اس پر ایک نظر ڈالنے کی کو شش کر تا ہے ، یہ معروضی رویہ شاعر کو بے معنو یت یا زیا ں کے ایک گہرے احسا س کے بھی سپرد کرسکتا تھا مگر حیدر قریشی کے ہا ں اس کے نتیجے میں ایک ایسی مو ہو م سی مسکراہٹ ابھری ہے جس میں شرارت کا عنصر واضح طور پر شامل ہے۔ خود پر ہنسنے کے لئے بلا کا اعتماد ہی نہیں اپنی ذات سے باہر نکل کر خود کو دیکھنے کا رویہ بھی در کا ر ہے۔ تا ہم اس رویے کو اپنا نا شاعری کے معا ملے میں خطرناک بھی ہو سکتا ہے کیو نکہ اگر معروضیت کی گرفت کڑی ہو جائے تو ایسی صو رت میں طنز یہ مزاحیہ ادب تو پیدا ہو سکے گا مگر غم میں بھیگی ہو ئی وہ مسکراہٹ جنم نہ لے سکے گی جو شاعری کی معراج ہے۔ اور جو محسوسات کی سطح پر بھر پور شر کت ہی سے حاصل ہو تی ہے۔ غو ر کیجئے کہ ہماری غزل کی روایت تین نما یا ں عناصر پر مشتمل ہے۔ فکری عنصر ، لذت کوشی کا عنصر اور گر یہ و زاری کا میلان !
گویا اس میںHedonist, Thinker اورLamenter تینوں کی کا ر کردگی دیکھی جا سکتی ہے اور یہ تینوں اپنے اپنے منقطے میں بے حد سنجیدہ لو گ ہیں۔ مگر وہ چو تھا عنصر جو ان تینوں کے ذا ئقے سے آشنا ہو نے کے با وجو د انہیں نا ظر کی حیثیت میں دیکھنے پر قا در ہو ، اردو میں خا ل خا ل ہی نظر آتا ہے۔ اس کی بہترین مثا ل غالب ہے جس کے ہا ں شاعرانہ مزاح Humour of Sublimity کے بہترین نمو نے ملتے ہیں یعنی انبسا ط کی وہ کیفیت جو آپ کو دیر تک ایسی سو چ میں مبتلا رکھے جس میں کسی گہرے دکھ کا احساس شامل ہو۔
۔۔۔غا لب کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک غم انگیز بلند فکری سطح سے جب چیزوں پر ایک نظر ڈالتا ہے تو غیر معمو لی اشیا ء معمو لی اور معمو لی چیزیں غیر معمو لی بن جا تی ہیں۔ تب اس کے ہا ں وہ تبسم جا گتا ہے جو”جا ن لینے” کا ایک انو کھا زاویہ ہے ۔اس سلسلے میں ایک کم تر سطح پر عدم کی مثا ل بھی پیش کی جا سکتی ہے۔ جو انسا نی اعما ل ، مظا ہر ، حتیٰ کہ خو د پر ہنسنا بھی جانتا تھا۔ ویسے غا لب اور عدم میں بُعد القطبین ہے مگر ان کی جہت ایک ہے وہ جہت جو شاعر کو لحظہ بھر کے لئے وقت کے بہا ئو سے الگ کر کے نا ظر کی حیثیت تفویض کر دیتی ہے۔ ولیم بٹلر یٹیس نے اپنی مشہور نظم Long Legged Fly میں اس بھنورے کے کر دار کو پیش کیا ہے جو پانی کی سطح پر چلتا ہے مگر اس کے ساتھ بہہ نہیںجاتا یعنی وقت کی ندی رواں دواں رہتی ہے مگر رواں ندی کے کسی ایک مقام پر” چلنے ـ” کے عا لم میں ٹھہر ا ہو تا ہے۔ اس کی دوسری مثال بھگو ت گیتا کا کنول ہے ـ جو پا نی میں رہتے ہو ئے بھی پا نی سے تر نہیں ہو تا ۔ غالب کی شاعری اس خاص قسم کے معروضی رویے کی بہترین مثال ہے۔
دو سری طرف عدم کے ہا ں کمتر سطح پر سہی لیکن یہ رو یہ اُبھرا ضرور ہے۔ اُردو کے نئے غزل گو شعراء میں مجھے حیدر قریشی کے ہا ں یہی رویہ نظر آیا ہے۔ اگر اس کی غزل میں یہ انداز مزید نکھر سنور سکا تو اس بات کا امکا ن ہے کہ اس کی غزل دیگر بہت سے غزل گو شعراء سے بالکل الگ نظر آنے لگے گی۔
دراصل کھیل میں پوری طر ح شریک ہو کر اپنا کر دار ادا کرنے یا کھیل سے یکسر منقطع ہو جا نے اور بحیثیت نا ظر کھیل میں شریک ہو نے کے با وجو د لحظہ بھر کے لئے اس سے با ہر نکل آنے میں بڑا فرق ہے۔ حیدر قریشی نے مو خر ا لذ کر کا ر کر دگی کا مظا ہر ہ کیا ہے۔ چنا نچہ اس کی غزل میں محبت کا تجربہ اپنے سا رے کر ب کے ساتھ سا منے آیا ہے۔ مگر پھر اس نے اپنے اس تجربے پر معروضی نظر بھی ڈالی ہے جہاں تک اس کے ہا ں محبت کے تجربے کا تعلق ہے تواس کا ذائقہ افلا طونی نہیں بلکہ زمینی اور جسما نی ہے۔ گو ایسا جسما نی بھی نہیں کہ اسے معا ملہ بندی کی سطح تک محدود سمجھا جا ئے۔ مثلاً اس محبت کا ایک نما یا ں پہلو Pangs کی صورت میں نما یا ں ہوا ہے۔ وہ اپنی محبت کو ایک گرم اور گداز ” یاد” کی صورت میں اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے اس طور کہ بعض اوقات “یاد”میں محبوبہ کی تجسیم بھی ہو گئی ہے۔ مراد یہ کہ ” یاد” کے تخیلی پہلو میں بھی بدن کی حرارت بلکہ کہنا چا ہیے کہ تجربے کی حدت صاف محسوس ہو تی ہے۔ حیدر قریشی کی غزلوں سے ” یاد” کی یہ مخصوص کا رفرمائی ان چند اشعار میں بخو بی نظر آ سکتی ہے۔
لفظ تیری یاد کے سب بے صدا کر آئے ہیں
سارے منظر آئینوں سے خود مٹاکر آئے ہیں
شاخ ِدل یو ں تیری یا دو ں سے ہری رہتی ہے
جیسے میووں سے کو ئی ڈال بھری رہتی ہے
رقصاں تھی اس طرح تری یا دوں کی آبشار
کہسار دل کے جھانجروں سے گو نجتے رہے
بیتی یادیں پرورہا تھا وہ
لو گ کہتے ہیں رو رہا تھا وہ
مجھ سے تیری یا د کے سا ئے بھی کترانے لگے
پھو ل تیری چاہتوں کے اب تو مر جھانے لگے
بھر کے آنکھوں میں سلگتے خواب اس کی یاد کے
مجھ کو سو تے میں بھی حیدرؔ جا گتا رکھا گیا
پلکوں پہ تیری یاد کے منظر بکھر گئے
جیسے ستارے سینہ ٔشب میں اتر گئے
کچھ ایسے آتے رہے اس کے لمس کے جھو نکے
دھنک اترتی گئی دل کے ذرے ذرے میں
اس کی چیخوں کی صدا آج بھی آتی ہے مجھے میں نے زندہ ہی تری یاد کو دفنایا تھا
ان اشعار میں یادوں نے بار بار محبوبہ کے گرم و گداز جیتے جا گتے بدن کا روپ دھارا ہے۔اس طور کہ کبھی تو یا د جھا نجروں کی آواز میں منقلب ہو کر آئی ہے۔ کبھی در پن بن کر ابھری ہے۔ کبھی وہ گرم سلگتاخواب ہے، کبھی میووں سے بھری ڈال ، کبھی سینۂ شب، مو تیوں کا ہار اور لمس کا جھو نکا ہے اور آخری شعر میں تو اس نے ایک ایسی انار کلی کا روپ دھارلیا ہے جیسے زندہ دیوارمیں چن دیا گیا ہے۔ محبت کا یہ پہلو تجربے کی صداقت کا اعلامیہ ہے نہ کہ محض تخیل کی پر واز کا۔ ویسے بھی حیدر قریشی کی غزل میں محبت کا تجر بہ ارضی سطح پر کسی شے کے گم ہو جانے کے کر ب ناک احساس سے عبارت اور جسمانی قرب سے سرشار ہونے کی آرزو پر دال ہے۔ مثلاً
وہ سرد رات کی تنہائی اور یخ بستر
سلگ رہے تھے ہزاروں اداسیوں کے بدن
کو ن جانے اس کی اپنی پیاس کا عالم ہو کیا
وہ جو میری روح کو پیا سا سمندر کر گیا
شب تنہا ئی میں اک شخص دل پر
اجا لے کی طرح بکھرا ہوا تھا
رُت بدل جائے گی اس کے جگمگا تے جسم کی
میری رگ رگ میں مگر اک ذائقہ رہ جائے گا
وہ پتھر دل سہی لیکن ہمارا بھی یہ دعویٰ ہے
ہمارے لب جنہیں چھو لیں وہ پتھر بول اٹھتے ہیں
کنواری رات کے سینے سے کھینچ کر آنچل
افق کی زردیوں میں حسن تیرگی بھر دو
میں اپنے ہونے کے احساس سے ہراساں ہو ں
مرے شعور میں کچھ کیف بے خودی بھر دو
کیف بے خودی کو آپ حسن طلب ہی سمجھیں کیو نکہ حقیقت یہ ہے کہ حیدر قریشی کے غزلیہ اشعار میں محبت کا کیف و کم شاعر کو مبہوت اور بے خود کرنے میںپور ی طرح کامیاب ہے۔ محبت کا یہ تجربہ ایک سچا اور کھرا جسمانی تجر بہ ہے اور اسی لئے اس سے پھو ٹنے والا کرب اور زیا ں کا احساس بھی سچا ہے۔ اگر حیدر قریشی کی جگہ کو ئی اور شاعر ہو تا تو محبت میں ناکا می کے بعد صوفیانہ مسلک کے تحت محبت کے جذبے کو منقلب کر لیتا یا پھر آہ و زاری کو اپنا مسلک بنا کر حدیث دل سناتا چلا جاتا یا اگر ترقی پسند جذبات سے سرشار ہوتا تو محبوبہ کو اپنے آنچل کا پرچم بنا لینے کا مشورہ دیتا۔ مگر حیدر قریشی نے محبت کے کر بناک تجربے کو اور ہی زاویے سے دیکھا ہے جس کے نتیجے میں اس کے ہا ں زیر لب تبسم کی نمود ہوئی ہے جو جذبے کی بے معنویت کو اُجا گر کرنے میں پوری طرح کا میاب ہے۔
ایک ایسے شخص کا تصور کیجیے جس کا ایک ہاتھ تو اپنے سینے میں سلگتے ہوئے درد پر رکھا ہو اور دوسرے ہا تھ سے وہ زندگی کو معنی خیز اشاروں سے چڑا رہا ہو تو آپ کو حیدر قریشی کے اس رویے کاکچھ اندازہ ہو گا جو اس کے بعض غزلیہ اشعار میں ابھرا ہے اور جو وقت کے ساتھ ساتھ اگر پھولتا پھلتا گیا تو اسے غزل گو شعراء کے جم غفیر سے بالکل الگ کر دے گا۔ اس سلسلے میں حیدر قریشی کے یہ چند اشعار درج کر کے اپنی بات ختم کر تاہوں۔
اس کو پانے کی تمنا پہ یقیں کب ہے مگر
ہاتھ جب اٹھ ہی گئے ہیں تو دعا ہی مانگوں
(ہلکی سی شرارت۔۔۔۔ کہ دعا تو اس سلسلے میں مستجاب ہونے سے رہی تاہم اگر ہا تھ اٹھ ہی گئے ہیں تو چلو اس بے نتیجہ تجربے سے بھی گزر جائیں)
گھر تو ہے اپنا ایک سو ایسے بچھڑ لئے
تم اپنے گھر کو چل پڑے ہم اپنے گھر گئے
اب اعتبار کرو میرے سبز باغوں کا
کہ یہ بھی سچے ہیں اٹھتی جوانیوں کی طرح
تماشا سا تماشا ہی بنا ڈالا مجھے اس نے
کبھی وہ قید کرتا ہے، کبھی آزاد کرتا ہے
عجب بے کیف سی ہے زندگی پچھلے مہینے سے
نہ کوئی یاد آتا ہے ‘نہ کو ئی یاد کرتا ہے
پاس آ کر پڑھ نہ پائے گا کتاب دل کبھی
وہ تو بس شیلفوں سے مجھ کو جھا نکتا رہ جائے گا
سوچ لو انجام بھی اس عشق کا
چن دیئے جائو گے پھر یادوں کے بیچ
رہا نہ دھیان کسی کو دیا بجھانا تھا
جب اس کو میں نے مجھے اس نے آ زماناتھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔