سلگتے خواب،عمرِ گریزاں،محبت کے پھول اور دعائے دل،میرے پہلے چار مجموعوں کی اشاعت کے بعد ان چاروں مجموعوں کو ۸۹۹۱ءمیںایک جلد میں”غزلیں،نظمیں،ماہیے“کے نام سے شائع کیا گیا تھا۔اس کے بعد جو شاعری ہوئی،اسے ”درد سمندر“کے نام سے ایک مختصر مجموعہ کی صورت میں ترتیب دے لیا۔لیکن اسی دوران’غزلیں،نظمیں،ماہیے‘کے نئے ایڈیشن کی اشاعت کا پروگرام بناتو میں نے ”درد سمندر “کو الگ سے شائع کرانے کی بجائے”غزلیں، نظمیں ، ماہیے“ میں پانچویں مجموعہ کے طور پر شامل کرنا بہتر سمجھا۔گویا ’غزلیں،نظمیں،ماہیے‘میں پہلے میرے چار مجموعے شامل تھے تو نئے ایڈیشن میں پانچ مجموعے شامل ہو جانا تھے۔اسے ۲۰۰۲ء ۔ ۲۰۰۱ء تک برادرم نذر خلیق نے شائع کرانا تھا۔انہوں نے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا تھا اور اسی کے زیرِ اہتمام یہ کتاب چھپنے جا رہی تھی لیکن پھر بعض وجوہات کی بنا پر ڈاکٹر نذر خلیق اپنے اشاعتی ادارہ کو قائم نہ رکھ سکے اوریہ منصوبہ معلق ہو گیا۔
۲۰۰۵ء میں دہلی سے شاہد ماہلی صاحب نے ”عمرِ لاحاصل کا حاصل“کا پہلا اور عوامی ایڈیشن شائع کیا۔اس میں میری نثر کی چھ کتابوں کے ساتھ شاعری کی پانچ کتابیں بھی شامل تھیں۔گویا سال ۲۰۰۱ء میں ترتیب دیاہوا شعری مجموعہ’درد سمندر‘قدرے تاخیر سے سامنے آیا، اور
پاکستان سے ڈاکٹر نذر خلیق صاحب کے ادارہ کی جانب سے”غزلیں،نظمیں،ماہیے“میں چھپنے کی بجائے دہلی سے معیار پبلی کیشنز کی جانب سے”عمرِ لاحاصل کا حاصل“ میں شامل ہوا۔اس کے بعد’عمرِ لا حاصل کا حاصل‘کے لائبریری ایڈیشن(۲۰۰۹ء) میں اور انٹرنیٹ ایڈیشن(۲۰۱۲ء)میں
بھی”درد سمندر“شامل رہا۔اب جو میں انٹرنیٹ پر اپنے الگ الگ شعری مجموعوں کی ای بکس لا رہا
ہوں تو’دردسمندر‘بھی الگ سے پیش کر رہا ہوں۔یہاں ”غزلیں،نظمیں،ماہیے“کے اُس ایڈیشن
کا پیش لفظ ”مزید عرضِ حال“بھی درج کر رہا ہوں جوتب بوجوہ شائع نہ ہو سکاتھا۔تاہم اس میں جوباتیں لکھی گئی تھیں،اب بھی اپنے قارئین کو ان میں شریک کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔سو اب نیچے
۲۰۰۱ء کا لکھا ہوا پیش لفظ پیش کرتا ہوں اور اسی کے ساتھ اپنی بات مکمل کرتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید عرضِ حال
(غزلیں،نظمیں ،ماہیے“کے نہ چھپ سکنے والے دوسرے ایڈیشن کے لیے ۲۰۰۱ء کا تحریرکردہ)
”غزلیں،نظمیں،ماہیے“کا پہلا ایڈیشن۱۹۹۸ء میں شائع ہوا تھا۔اس میں ۱۹۹۶ء تک شائع ہونے والے میرے چار شعری مجموعے یکجا کئے گئے تھے۔اس کے بعد یعنی ۱۹۹۷ء کے بعد سے اب تک جومزید غزلیں، نظمیں اور ماہیے کہہ چکا ہوں۔ ان کو” درد سمندر“ کے نام سے ترتیب دے دیا ہے۔پہلے ارادہ تھا کہ یہ مختصر سا مجموعہ الگ سے شائع کرالوں۔اسی دوران ”غزلیں ،نظمیں،ماہیے“کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت ہونے لگی تو میں نے مناسب سمجھا کہ ایک مختصر سا مجموعہ الگ سے چھپوانے کے بجائے اس مجموعہ کو بھی اس ایڈیشن میں شامل کر لوں۔سو اب یہ کتاب ”غزلیں،نظمیں،ماہیے“ اپنے دوسرے ایڈیشن میںمیرے چار شعری مجموعوں کے بجائے پانچ شعری مجموعوں کا مجموعہ بن گیا ہے۔ ”درد سمندر“میں چند تخلیقات اکیسویں صدی کی عطاہیں تاہم زیادہ تر تخلیقات ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۰ء کے دورانیے میں ہوئی ہیں۔ اس لحاظ سے ”غزلیں‘ نظمیں،ماہیے“میں شامل پانچوں مجموعوںکی بیشتر شاعری بیسویں صدی میں کہی ہوئی شاعری ہے۔سو بیسویں صدی کی اپنی یہ شعری تخلیقات میں اکیسویں صدی کی نذر کرتا ہوں۔
اکیسویںصدی کی ابتدا انسانیت کے لئے کچھ اچھی ثابت نہیں ہو رہی۔نفرتوں کی نئی صورتیں نشوونماپا رہی ہیں اور ان کے خاتمے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔نفرت اور دہشت کی مسموم فضامیں شروع ہونے والی اکیسویں صدی کے لئے میں ایک بے مایہ سا شاعرمحبت کے تحفہ کے طورپر اپنی اب تک کی کل شاعری پیش کررہا ہوں۔مجھے احساس ہے کہ اکیسویں صدی کی بارگاہ میں شاید یہ حقیر تحفہ قبول نہ ہو۔پھر بھی ایک فقیر کی گدڑی میں جو کچھ موجودہے، پیش ہے۔
حیدر قریشی