(Last Updated On: )
گہرے سناٹے میں
دُور سے
کالے انجن کی سیٹی کی آواز آتی ہوئی
دل کو بھاتی ہوئی
اک لرزتی، سسکتی صدا
دُور ہوتے ہوئے
کسی تانگے کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز
تانگے کے پہیوں کی آواز سے مل کے
کوئی انوکھا سا جادو جگاتی ہوئی
دکھ کا احساس دیتے ہوئے
دُور ہوتے ہوئے
منظروں کی صدا
چوڑیوں کی چھنک
ٹوٹتی چوڑیوں کی چھنک
زخم خوردہ مگر مسکراتے ہوئے
گیت گاتی چھنک
بانسری کی دُکھی اور سُریلی صدا
سَرخوشی اور دُکھ کے رَچاؤسے
دل میں کچھ ایسے اترتی ہوئی
جیسے الہام ہو
یہ ساری صدائیں مِری آشنا ہیں
مجھے جانتی ہیں
میں اِن سب کو پہچانتاہوں
متاعِ فقیراں۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب میرے دردوں کی آوازہیں
درد
جو میرے مونس ہیں
ماں جائے ہیں!