بی آر بی نہر کے ہوم بینک پر اگر آپ بھینی روڈ چھوڑ کر شمال کی نیت کریں تو بھینی گاوٗں سے ساتھ نہر کا پلُ پار کرکے 23 کیولری کے شہیدوں کی ایک یادگار اور سوار شوکت علی کی قبر ہے بی آر بی سے ہمارا یارانہ پرانا ہے۔ اور اسی نسبت سےلاہور کی نہر سے ہماری دوستی بھی جو جلو کی ہمسائیگی میں بی آر بی کے بہتے پانیوں سے جنم لیتی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ باغبان پورہ سے تھوڑا اِدھر عین برلبِ جی ٹی روڈ گھوڑے شاہ اور کاپر سٹور کی شاموں میں آوارہ گرد ہم یو ای ٹی کے باسی لاہور کی نہر سے حسد کرتے تھے کہ اس پر پنجاب یونیورسٹی کانیو کیمپس آتاتھا جہاں بقول فرحت عباس شاہ
نہر کے کنارے پر، شام سے ذرا پہلے
تتلیاں اترتی ہیں
آتے جاتے پھولوں کو، چھیڑکرگزرتی ہیں
ہمارے حسد کی وجہ آخری دو لائنوں میں صاف ظاہر ہے۔
رہ گئی بی آر بی کی دفاعی نہر توجنگِ ستمبر کی کہانیوں کی کھوج میں ایکسل لیب کے لاہور اسائنمنٹ کے دنوں میں افسر نے نہر اور اس کی نواحی زمینوں کی بہت خاک چھانی۔ لاہور کی ایک یادگار شام واہیات کمپنی کے رحمان ارشد المعروف راشد منہاس کے ساتھ ہم میجر عزیز بھٹی کی جائے شہادت تک گئے
تو برکی کی خبر لائے۔ایک دن باٹا پور کے پُل سے واہگہ بارڈر کی شست باندھی تو گرینڈ ٹرنک روڈ پر گوسل دیال دیکھ آئے جہاں میجر عارف جان شہید نے جان کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ واپسی پر بی آربی نہر کے مشرقی کنارے سے پرے ڈوگرئی گاوٗں بھی دیکھا جسکی مسجد کا منارہ لیفٹیننٹ برجندر سنگھ نے پاکستانی توپخانے کے گپت آبزرور کی تلاش میں ٹینک سے اڑا دیا تھا۔ ہندوستانی 3 جاٹ کی صفوں کو تاک تاک کر چیر دینے والا یہ گمنام آرٹلری آبزرور انجام کار لکھنکے گاوٴں کے ایک درخت پر پکڑ میں آگیا اور شہید کردیا گیا۔ ہندوستانی روزنامچے اس بہادر افسر کو سیکنڈ لیفٹیننٹ الطاف حسین گِل کے نام سے یادکرتےہیں۔ بہت ممکن ہے یہ ہماری 23 فیلڈ آرٹلری کا نائب صوبیدار ہو، افسوس ہمیں اپنے ریکارڈ میں اس کا نام نہیں ملتا
توصاحبو بی آر بی کی محبت میں ہم نے برکی بھی دیکھ رکھا تھا اور ڈوگرئی بھی۔ اس دفعہ پاکستان گئے تو سوچا شمال میں بھسین گاوٗں اور بھینی کا پُل بھی دیکھ آئیں۔
گاڑی چلاتے پرویز کو جسے ہمارےساتھ آوارہ گردی کرتےلگ بھگ تین شہر اور اتنے ہی دن ہوچلے تھے بی آر بی نہر پر بھینی کا پُل دیکھنے کی ہم سے زیادہ جلدی تھی سو لاہور رنگ روڈ سے بھینی روڈ سے پہلے ہی راستہ بھول کر ٹھیڑی روڈ پر اتر گئے۔
ویڈیو لِنک
لاہور انڈسٹریل ایریا کی اوازار حد تک ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور لاہور کے نواحی دیہات کی تنگ گلیوں سے گاڑی گزار جب ایک چوڑے اور پرویز کی زبان میں وی آئی پی بھینی روڈ کاسرِ ا ہاتھ آیا توکچھ جان میں جان آئی۔ بھینی روڈ سے بی آر بی کےلاہور کی طرف کے کنارے کےساتھ شمال کو رُخ کر لیں توتھوڑا آگے جاکربھینی گاوٗں کے بالکل ساتھ بی آربی کا پُل آتا ہے
پل پار کرکے جہاں اب رینجرز کی چوکی ہے اس کے بالکل ساتھ ایک چاردیواری میں ایک یادگار اورساتھ ایک اکیلی قبر ہے۔ 23 کیولری کا یادگاری منارہ رجمنٹ کے ان تمام شہداء کو یاد کرتا ہے جو ستمبر کی جنگ میں وطن پر نثار ہوئے۔ بالکل ساتھ جہاں قبر ہے وہاں آٹھ ستمبر کی صبح ہمارے تین جوان شہید ہوئے تھے۔ رسالدار غلام علی، اے ایل ڈی محمد رضا خان اور سوار شوکت علی۔
8 ستمبر کی صبح جب بریگیڈیئر قیوم شیر کا بریگیڈ بی آر بی کے پار ڈوگرئی گاوٗں میں ہندوستانی سپاہ پر جوابی حملہ کرنے کو جاتا تھا تو بھینی کے پُل کے پاس 23 کیولری کے ہراول ٹروپ کے دو ٹینک
ہندوستانی 14 ہارس کے فائر کی زد میں آگئے تھے اور دونوں ٹینکوں میں آگ لگ گئی تھی۔ رسالدار غلام علی اور ساتھ والے ٹینک کے دلیر سپاہی شعلوں میں گھرے ٹینکوں سے آخر دم تک اپنی مشین گنوں سے فائر کرتے رہے تاکہ پیچھے آنے والی سپاہ کو فائری آڑ مہیا کی جاسکے۔ انجام کار ایک ٹینک کے کریو نے جلتے کپڑوں سمیت بی آر بی کے پانیوں میں کود کر جان بچائی۔
رسالدار غلام علی کا کریو اتنا خوش قسمت ثابت نہیں ہوا ۔ آگ کے شعلے سوار شوکت اور مشین گن کا فائر کرتے اے ایل ڈی رضا کو نگل گئے۔ رسالدار غلام علی جبکہ وہ جلتے ٹینک سے اپنے کریو کو نکالنے کی تگ و دو کررہا تھا دشمن کے مشین گن فائر کی زد میں آکر شہید ہوگیا۔ سوختہ ساماں اور سوختہ جاں سوار شوکت علی کو اسی مقامِ شہادت پر سپردِ خاک کردیا گیا کہ جسدِ خاکی پیچھے لے جانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ وطن کی حفاظت کی خاطر جنگ کی آگ میں بے خطر کود جانے والا شوکت علی اب بی آربی کے ٹھنڈے پانیوں کی قربت میں آرام کررہا ہے۔
اسی جگہ پر نہر کے پُل کے اِس پار بھینی مانیومنٹ ہے جو گیارہ بلوچ کے شہداء کی یادگار ہے جنہوں نے ستمبر کی جنگ میں بھینی کے دفاع میں جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔