۔۔۔۔پاکستان کی قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مکمل ہو چکے ہیں۔شکوک و شبہات اور گہما گہمی کے درمیان ہوجانے والے یہ انتخابات کئی اہم اثرات کے حامل ہیں ۔ ان کے بارے میں اہلِ دانش اور سیاسی مبصرین اپنے خیالا ت کا اظہار کرتے رہیں گے اور آنے والا وقت ان کے بارے میں اصل حقیقت کو بھی سامنے لاتا رہے گا۔میرے نزدیک اس الیکشن کے دوبڑے سرپرائز ہیں۔ ایک یہ کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے وعدہ کے مطابق فئیر اورشفاف انتخاب کرادئیے ہیں۔دوسرا یہ کہ دینی جماعتوں کے اتحاد ”متحدہ مجلس عمل“نے ناقابلِ یقین حد تک شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔صوبہ سرحد میں بلاشرکتِ غیرے ان کی حکومت بن رہی ہے اور بلوچستان کی حکومت میں بھی ان کا ایک فیصلہ کن کردار واضح ہو گیا ہے۔قومی سطح پر اگر ان کا اور قائدِ اعظم مسلم لیگ کا اتحاد ہوجائے تو ان کی مشترکہ حکومت بھی قائم ہو سکتی ہے۔اس امکان کا ابھر آنا ہی متحدہ مجلس عمل کی بڑی کامیابی ہے،چاہے مرکز میں کسی اور کی ملی جلی حکومت ہی کیوں نہ بن جائے۔
۔۔۔۔متحدہ مجلس عمل کی اس کامیابی پر بہت سے طبقات نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔مغربی ذرائع ابلاغ نے اس حد تک تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں بنیاد پرست غالب آرہے ہیں۔لیکن سرکاری طور پر امریکہ کی طرف سے کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا اور جنرل پرویز مشرف نے بھی عوامی فیصلے کا احترام کرنے کا واضح عندیہ دے دیاہے۔ اگر متحدہ مجلس عمل کی کامیابی سے امریکہ کو واقعتاً کوئی تشویش ہوتی تو الیکشن والی رات تمام نتائج کا اعلان ہونے سے پہلے ہی اعلان ہوجاتا کہ ملک کی سلامتی کو سنگین قسم کے اندرونی و بیرونی خطرات لاحق ہو گئے ہیں اس لئے ملک کو بچانے کے لئے مارشل لا لگایا جارہا ہے۔اسمبلیاں وجود میں آنے سے پہلے ہی ختم کر دی جاتیں، ملک میں خونیں مارشل لاءلگ جاتا۔امریکہ کے نشریاتی ادارے بھی پاکستان کی سلامتی کو لاحق مبینہ ”سنگین خطرات“کی نہ صرف توثیق کرتے بلکہ ان کی سنگینی کو مزید بڑھا کر بیان کرتے ۔مارشل لا کا خیر مقدم کیا جاتا اور پاکستان کو دوسرا الجزائر بنا دیا جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔۔۔ اور ایسا اس لئے نہیں ہوا کہ شاید امریکہ کو متحدہ مجلس عمل کی کامیابی سے خوداپنی کسی کامیابی کی امید ہے۔لیکن اس کا ذکر آخر میں۔۔۔۔ پہلے تھوڑا سا ماضی میں سفر کرتے ہیں۔
انگریزوں کے دور اقتدار میں مدرسہ علی گڑھ اور مدرسہ دیوبند کی صورت میں دو متوازی تحریکیں شروع ہوئیں۔سر سید احمد خان اور مولانا محمد قاسم نانوتوی ۔۔۔دونوں کے پیش نظر اسلامیانِ ہند کی بھلائی اور خیر خواہی تھی اور دونوں کا اپنا اپنا الگ انداز نظر تھا۔تحریک پاکستان شروع ہوئی تو علی گڑھ کالج سے وابستہ شخصیات نے عمومی طور پر پاکستان کی حمایت کی جبکہ مدرسہ دیوبند کے اکابرین نے اس کی مخالفت کی۔ایک اور محدود متوازی اسلامی تحریک جماعت اسلامی کے مولانا مودودی صاحب نے بھی قائد اعظم کے پاکستان اور مسلم لیگ کے ریزولیشن کی کھل کر مخالفت کی۔پاکستان بن گیا تو مولانا مودودی پاکستان میں آگئے اور پاکستانی سیاست میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔مدرسہ دیوبند سے وابستہ بیشتر اہم شخصیات بھی پاکستان میں آگئیں۔ پاکستان کی قومی سیاست میں دیوبند کے علماءمقدور بھر حصہ لیتے رہے۔پاکستان میں مدرسہ دیوبند اور جماعت اسلامی کو اس وقت نمایاں اہمیت ملی جب امریکہ نے افغانستان میں سوویت یونین روس کے خلاف افغانیوں سے جہاد میں شدت پیدا کرائی۔ اس کے عسکری امور سے قطع نظر تب اس جہاد کے بیشتر مجاہدین پاکستانی مدارس دیوبندسے دینی تربیت حاصل کرتے رہے۔سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد جب امریکہ نے اس سارے کھیل سے لا تعلقی اختیار کرلی اور سالہا سال کی خانہ جنگی کے بعد طالبان نے یہاں کا اقتدار سنبھالا تو دیوبندی مکتبہ فکر کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا۔کیونکہ طالبان کا ذہنی میلان اسی مکتبہ فکر کی طرف تھا۔
۔۔۔۔گیارہ ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد جب طالبان امریکی عتاب کا شکار ہوئے تو اس کے نتیجہ میں پاکستان میں دیوبندی مکتبہ فکر کو بھی شدید دباؤکا سامنا کرنا پڑا۔ ”انجمن سپاہ صحابہ“ اور”لشکر جھنگوی“ جیسی جہادی تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی تواس کا اثر بھی دیوبند مسلک کے اکابرین پر پڑا کیونکہ مذکورہ تنظیمیں عقائد کی فروعی سطح پر ان ہی کے زیر اثر تھیں۔ عالمی دباؤکے ساتھ مکتبہ دیوبند اس وجہ سے اندرونی دباؤمیں بھی تھا ۔
۔۔۔۔ایسی فضا میں جمیعتہ العلماءاسلام اپنے مخصوص سیاسی حلقوں میں اپنی عوامی مقبولیت کے باوجود کوئی فعال سیاسی کردار ادا کرنے سے قاصر تھی۔دوسری طرف جماعت اسلامی بھی امریکہ کے خلاف اپنے واضح موقف کے باوجود کسی حد تک عالمی دباؤمیں آئی ہوئی تھی۔ایسی فضا میں جب الیکشن کے دن سر پر آگئے تو جمیعتہ العلماءاسلام اور جماعت اسلامی نے مل کر نہ صرف متحدہ مجلس عمل قائم کر ڈالی بلکہ خود کو کسی حد تک پیچھے رکھ کر اس کی زمام اقتدار سواد اعظم کے عقیدہ سے وابستہ جمعیتہ العلما ئے پاکستان کے مولانا شاہ احمد نورانی کے سپرد کرکے اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت بھی دے دیا۔ بلکہ مولانا شاہ احمد نورانی کی اقتداءمیں نمازیں ادا کرکے اس دیرینہ اعتراض کو بھی دور کردیا کہ یہ علماءتو ایک دوسرے کے پیچھے نماز بھی نہیں پڑھ سکتے،عملی زندگی کا اتحاد کیا کریں گے؟۔خدا کرے کہ یہ نمازیں ان علماءکی محض سیاسی نمازیں نہ ہوں اور آئندہ بھی یہ سب ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لینا جائز رکھیں۔اتحاد باہمی کی ایسی کم از کم صورت تو دکھائی دیتی رہنی چاہئے۔
۔۔۔۔اس پس منظر میں جب علماءکے سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل نے انتخاب میں حصہ لیا تو انہیں صوبہ سرحد میں مکمل کامیابی کے ساتھ دوسرے تمام صوبوں میں بھی مناسب نمائندگی مل گئی۔بعض طبقات کی اس سلسلے میں تشویش اپنی جگہ بجا ہو سکتی ہے لیکن مجھے اس کامیابی کے بعض مثبت پہلو دکھائی دیتے ہیں۔مثلاً ایک مثبت پہلو تو یہی ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے زائدعرصہ سے شیعہ سنّی منافرت کے نتیجہ میں جو بم دھماکے ہوتے رہے ہیں اب ان کا مکمل خاتمہ ہو سکے گا۔ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ عام حالات میں جذباتی تقاریر کرنے والے ہمارے دینی رہنماؤں کو اب اقتدار میں آکر جب مقتدر ہوتے ہوئے اپنی مجبوریوں کا اندازہ ہوگا تو ان کے سیاسی وژن میں وسعت پیدا ہوگی۔مجھے سب سے زیادہ مثبت پہلو یہ دکھائی دے رہا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن ٹھہرئیے مجھے اس مثبت پہلو کی نشاندہی سے پہلے اپنی بات کو واضح کر لینے دیجئے۔
۔۔۔۔امریکہ تیل کے جن ذخائر پر قبضہ کرنے کا خواب لے کر افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا۔اتنی بربادی اور لوٹ مار کرنے کے باوجود اسے اپنے مشن میں کوئی بنیادی کامیابی نہیں ملی۔حامد کرزئی اور شمالی اتحاد کی حکومت کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ وہاں کے حالات کو نارمل کرسکیں۔اگر وہاں حالات نارمل نہیں ہو سکتے تو تیل کی پائپ لائن بچھانے کا خواب پورا ہونا تو کیا شروع بھی نہیں ہو سکتا۔ایسی صورت میں صرف ایک ضد ہوگی جو امریکہ کو افغانستان کی جنگی دلدل میں ویت نام سے بھی زیادہ مصیبت میں پھنسا دے گی۔اگر امریکہ متحدہ مجلس عمل کے اثر رسوخ سے فائدہ اٹھانا چاہے تو نہ صرف متحدہ مجلس عمل کے ذریعے طالبان کے سارے بکھرے ہوئے حامیوں کو یکجا کرکے صلح کی صورت نکالی جا سکتی ہے بلکہ افغانستان کی تعمیر نو کا عمل تیزی سے شروع کرکے افغانیوں کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے۔اس صورت میں امریکہ کے لئے افغانستان میں امن و امان قائم کرنا آسان ہو سکتا ہے۔لیکن اس سارے عمل کے لئے امریکہ کو اپنی عالمی دھونس کے انداز میں نہیں بلکہ مکالمہ اور مفاہمت کی راہ اختیار کرکے اپنے مقاصد کو حاصل کرنا ممکن ہوگا۔اگر موجودہ عالمی منظر میں متحدہ مجلس عمل کی وجہ سے افغانستان میں بحالیِ امن کا کام شروع ہوجاتا ہے اور امریکہ جیسا ملک مکالمہ اور مفاہمت کی راہ پر آجاتا ہے تو میرے نزدیک یہ متحدہ مجلس عمل کی کامیابی کا ایک انتہائی مثبت پہلو ہوگا۔
۔۔۔۔اگر ایسا کچھ نہیں ہوتا تو پھر وہ سب کچھ تو ہوگا ہی جس کے بارے مختلف طبقات کی طرف سے مختلف خدشات ،شکوک و شبہات اور تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
٭٭٭