۔۔۔۔بے نظیر بھٹو اور شہباز شریف کی واپسی کے بارے میں ایک عرصہ سے متضاد خبریںآرہی ہیں۔کبھی ”شیر آیا۔۔شیر آیا“ کی طرح دونوں کی واپسی کا شور مچتا ہے توحکومت کی طرف سے فوری طور پرسخت الفاظ میں اس کی تردید کر دی جاتی ہے۔لیکن اس کے ساتھ اگر اس سارے کھیل کو ذرا دھیان سے دیکھا جائے تو جنرل پرویز مشرف کی حکومت کی طرف سے بھی بعض سگنلزمعنی خیز رہے ہیں۔مثلاً ایک مرحلہ پر نواز شریف کی حب الوطنی کی بالواسطہ طور پر توثیق کی گئی اور بے نظیر بھٹو کو ”سیکیورٹی رسک“قرار دیا گیا۔پھر ایک مرحلہ میں بے نظیر کے لئے نرم رویے کا اظہار کیا گیا تو شریف فیملی کے لئے لہجے میں سختی پیدا کر لی گئی۔نواز شریف اور بے نظیر دونوں نے اپنی اپنی سیاسی حکمت عملی سے جب جنرل پرویز مشرف کے مطالبے کے مطابق خود کو اپنی سیاسی پارٹیوں کی انتخابی عملی صورتحال سے الگ کر لیاتو توقع تھی کہ اب جنرل پرویز مشرف کے رویے میں لچک آئے گی۔لیکن کسی لچک کے بر عکس حکومت کے رویے میں یکایک مزیدسختی آگئی۔
۔۔۔۔اگرچہ یہ سارا اقتدار کا کھیل ہے اور پاکستان کے غریب عوام کو اس کھیل سے اب کوئی خاص دلچسپی نہیں رہ گئی۔تاہم اس خطے پر بین الاقوامی اثرات کے باعث پاکستانی اقتدار کی سیاست بھی تھوڑی سی زیادہ اہمیت حاصل کر گئی ہے۔اس سیاست کے مرکزی کرداروں اور ان کے رویوں کے حوالے سے اس صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔بے نظیر بھٹو بین الاقوامی سطح پر ایک اہمیت کی حامل سیاستدان ہیں۔ان کی سیاسی سوجھ بوجھ سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔ان کے مراسم موثرعالمی سیاسی شخصیات سے ہیں اور ان مراسم میں ان کی اپنی سیاسی دانشمندی کا بہت دخل ہے۔ان کی پارٹی لبرل خیالات کی حامل ہے،مغرب کے نزدیک فکری لحاظ سے کسی بھی دوسرے اہم لیڈر کے مقابلہ میں بے نظیر بھٹو زیادہ قابل قبول ہیں۔انڈیا سے ان کے دوستانہ رویے کو منفی رنگ میں بھی لیا گیا لیکن میرا خیال ہے اسے مثبت انداز سے دیکھا جائے تو یہ رویہ پورے خطے کی بھلائی کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔شریف فیملی میں سے اگر نواز شریف کو وقتی طور پر سیاست سے الگ بھی رکھا جائے تو شہباز شریف اور کلثوم نواز کی صورت میں نواز شریف کے سیاسی اثرات سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔نواز شریف اگرچہ عالمی سطح پر اتنی اہمیت کے حامل نہیں ہیں تاہم انڈیا کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم بہر حال بر صغیر پاک و ہند کی بھلائی کے لئے کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔۔دونوں لیڈروں یعنی بے نظیر اور نواز شریف(شہباز شریف)میں یہ مشترکہ خوبی موجود ہے کہ یہ لوگ بھارت کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کرانے میں ممد ہو سکتے ہیں۔اگرچہ بھارت کے بعض اہم ڈپلومیٹس بے نظیر کے بارے میںکچھ تحفظات رکھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ جب بھی بے نظیر بر سر اقتدار آئی ہیں کشمیر کا مسئلہ بھارت کے لئے زیادہ درد سر بنا دیا جاتا رہا ہے۔اس لحاظ سے شریف خاندان بے نظیر سے بھی زیادہ کار آمد ہو سکتا ہے۔تاہم مجموعی طور پردونوں بڑی جماعتوں کی یہ اصل قیادت فی الوقت یقینی طور اس مقام پر ہے کہ بر صغیر میں کشیدگی کی خطرناک صورت حال کو ختم کرا سکے۔ایسے افراد کے ہوتے ہوئے جنرل پرویز مشرف گزشتہ تین برس سے مسلسل انڈیا سے مذاکرات کرنے کی درخواستیں کئے جا رہے ہیں لیکن اس سیاسی قیادت سے استفادہ کرنے کو تیار نہیں ہیں جو اس سلسلے میں پل کا کام انجام دے سکتی ہے۔انڈیا ہر بار ان کی مذاکرات کی اپیل جھٹک دیتا ہے ،حکومت اس کا برا نہیں مناتی لیکن دونوں بڑی جماعتوں کے مذکورہ قائدین سے ربط کرنے کو اپنی توہین سمجھتی ہے۔اپنے اپنے ذہن کی بات ہے۔
۔۔۔۔جنرل پرویز مشرف نے دونوں پارٹی رہنماؤں پر ملک کو لوٹنے کے جو الزامات لگائے ہیں ،اگر وہ سچ ہیں تو پھر ان کا احتساب پورے پاکستانی نظام تک جانا چاہئے تھا۔صرف ان دو جماعتوں سے آگے بڑھ کر ان سیاستدانوں کا بھی احتساب ہونا چاہئے تھا جو پہلے ان دونوں میں سے کسی نہ کسی کے ہمرکاب رہے اور مبینہ لوٹ مار میں شریک رہے اور اب جنرل پرویز مشرف کی سیاسی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے قریب آچکے ہیں۔اسی طرح احتساب کا یہ سلسلہ پوری ایمانداری اور نیک نیتی کے ساتھ سیاستدانوں،بیوروکریسی، فوج کے اعلیٰ حکام اور عدلیہ تک جانا چاہئے تھا۔ابھی تک اس حوالے سے سرکاری کارکردگی اتنی یک رخی ہے کہ بعض مضبوط کیس ہونے کے باوجود اب یہ احتساب ”انتقامی“لگنے لگا ہے۔یہ جملہ معترضہ بیچ میں آگیا وگرنہ یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔
۔۔۔۔اب اس سارے منظر کا ایک اور رخ بھی دیکھیں۔۔۔اگر نواز شریف اور بے نظیر دونوں کے بھارت کے ساتھ خوشگوار مراسم ہیں اور ان کا سیاسی اثر رسوخ ہے تو کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ بھارت انہیں کے اشارے پر،یا ان کی حمایت کے جذبے کے ساتھ بہانہ بنا کر فوجیں سرحدوں پر لے آیا ہو؟میرے نزدیک اس کا امکان موجود ہے ۔بے شک اس سلسلے میں امریکہ کی منظوری کے بغیر انڈیا اس حد تک نہیں جا سکتا تھا لیکن اس منظوری کے ملنے میں بھی دیگر عوامل کے ساتھ مذکورہ دونوں سیاسی لیڈر بھی اثر انداز ہونے میں کامیاب ہوئے ہوں تو بعید از قیاس نہیں ہے۔میرے اس مفروضے کو اس امر سے مزید تقویت ملتی ہے کہ انڈیا نے اکتوبر تک فوجیں لازماً سرحدوں پر رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے اور اکتوبر ہی میں پاکستان میں انتخابات ہو رہے ہیں۔گویا انڈین فوجیں پاک فوج کے ذریعے پاکستان کے انتخاب کراکے ہی سرحدوں سے واپس جائیں گی ۔کیا اب یہ مفروضہ ایک واضح امکان نہیں بن جاتا؟
۔۔۔۔میں ایک عرصہ سے انہیں خطوط پر سوچ رہا ہوں اور پہلے پہل مجھے دونوں لیڈروں کے رویے پر افسوس ہوا تھا کہ وہ واقعی ایسا کرکے پاکستان کے لئے سیکیورٹی رسک بن رہے ہیں۔۔۔۔لیکن اب جب کہ جنرل پرویز مشرف اپنی تمام تر نیک نیتی کے باوجود ویسے ہی خوشامدیوں کے نرغے میں گھر چکے ہیں جیسے خوشامدیوں نے پاکستان کے ہر حکمران کو گھیر کر ملک کو مسلسل برباد کیا ہے،ایسے حالات میں اگر بے نظیر اور شریف فیملی نے اپنے بس کے مطابق امریکہ اور بھارت سے کہہ کر بھارتی فوجی دباؤڈالنے میں کوئی کردار اداکیا ہے تو پھر اسے اتنا زیادہ برا بھی نہیں کہا جا سکتا ۔
۔۔۔۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آگے کیا ہوگا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔دراصل جنرل پرویز مشرف جیسے یکایک امریکہ کے پسندیدہ حکمران بن گئے تھے ،ویسے ہی یکایک امریکہ ان سے آنکھیں پھیرنے لگا ہے۔ امریکی حکمرانوں کی پسندیدگی کا معیار ان کے اپنے مفادات اور ان کے اپنے مطالبات ہیں۔جنرل پرویز مشرف اپنے لبرل خیالات اور اپنے فوجی ساتھیوں کی حدود کے مطابق جہاں تک امریکی مطالبات پورے کرسکتے تھے،پورے کرتے رہے ہیں۔اب اندر کی بات اتنی ہی سمجھ میں آتی ہے کہ امریکہ حالیہ دنوں میں جنرل پرویز مشرف سے کچھ اور مطالبات اور تقاضے کر رہا ہے جنہیں پورا کرنا شاید ان کے لئے مشکل ہو رہا ہے۔ان امریکی مطالبات اور اپنی مشکلات کو جنرل پرویز مشرف خود بہتر جانتے ہوں گے۔اگر جنرل پرویز نئے امریکی مطالبات کا کڑوا گھونٹ پی لیتے ہیں تو وہ ابھی الیکشن ملتوی کرکے مزید پانچ سال کے لئے سپریم کورٹ سے اجازت لے لیں،امریکہ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور یورپی یونین کی موجودہ انتخابی مبصر ٹیم بھی مسکراتی ہوئی پاکستان سے چلی جائے گی ۔کہیں کوئی شور نہیں ہوگا۔۔۔۔اگر وہ امریکی مطالبات پورے نہیں کرتے تو پھر یہ بھی ممکن ہے امریکہ دباؤڈال کر بے نظیر اور شہباز شریف کی وطن واپسی ممکن بنادے۔اور اکتوبر کے انتخابات کے بعد ۱۹۷۷ءجیسی تحریک بھی چلوائی جا سکتی ہے۔امریکہ کو پاکستان میں ایسی تحریک چلوانے کا کامیاب تجربہ ہے۔
۔۔۔۔بے نظیر کی وطن واپسی کا قصہ ہو یا شہباز شریف اور کلثوم نواز کی واپسی کا مسئلہ اس کا حتمی فیصلہ امریکہ کرے گا اور اس کے فیصلے کا انحصار امریکہ کے نئے مطالبات پر جنرل پرویز مشرف کے رویے پر ہے۔۔۔باقی کاہے کی جمہوریت اور کاہے کی مختاری و خود مختاری۔ناحق سب مجبوروں پر اک تہمت ہے مختاری کی۔
جمہوریت تو ہمارے ملک میں مظلوم مختاراں بی بی کی طرح ہے۔
٭٭٭