۔۔۔۔کیا دنیا اب اپنے انتہائی خطرناک ترین مرحلے میں داخل ہونے والی ہے اور اس انتہائی خطرے کی گھنٹی بجائی جا چکی ہے؟
۔۔۔۔مجھے کچھ ایسا لگ رہا ہے۔میرے خدشے کی بنیاد یہ ہے کہ حال ہی میں ”واشنگٹن پوسٹ“نے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔یہ رپورٹ ایک تھنک ٹینک کی سفارش ہے جو امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کو کی گئی ہے اور محکمہ دفاع پینٹاگون کے ذریعے امریکہ کے صدر کو بھیجی جائے گی۔وہاں بھیجی جا چکی ہے یا نہیں اور بھیجنے کی ضرورت ہے یا نہیں اس کی اب اتنی اہمیت نہیں جتنی اہمیت اس بات کی ہے کہ پریس کے ذریعے اس رپورٹ کو متعلقہ حلقوں تک پہنچا دیا گیاہے پہلے اس رپورٹ کا یہ حصہ دیکھ لیں:
”سعودی عرب بدی کا محور ہے۔وہ مالی مدد سے لے کر نظریہ سازی تک دہشت گردوں کی مدد کررہا ہے۔امریکہ کو چاہئے کہ وہ سعودی عرب کی حکومت کو نوٹس دے کہ وہ ہر طرح کی دہشت گردی سے ہاتھ کھینچ لے ورنہ اس کے آئل فیلڈز اور اثاثے منجمد کر دئیے جائیں“
۔۔۔۔ ابھی تک ایران،عراق،لیبیا اور شمالی کوریا کو بدی کا محور قراردیا گیا تھا۔سعودی عرب ہمیشہ سے امریکہ کا نیاز مند رہا ہے۔لیکن حالیہ دنوں میں اس کی طرف سے چند ایسے اقدامات کا اشارا دیا گیا ہے جو امریکہ کی بنیادی پالیسی سے میل نہیں کھاتے۔ان میں سے دو بہت ہی اہم ہیں۔ایک عراق پر متوقع امریکی حملہ کی واضح طور پر مخالفت اور دوسرا فلسطینیوں کے بہیمانہ قتل عام پر اسرائیلی رویے کی مذمت کے ساتھ امریکہ ہی کو اس کا ذمہ دار قرار دینا۔ان معاملات میں اگرچہ دوسرے سعودی حلقے بھی اب کھل کر بات کرنے لگے ہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ شہزادہ عبداﷲ کی جرأت مندی کے بعد باقی سب کو حوصلہ ملنے لگا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”واشنگٹن پوسٹ“کی رپورٹ کے بعد فوری طور پر امریکی وزیر دفاع سے لے کر دوسرے اعلیٰ حکام تک نے صورتحال پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔لیکن یہ سب ان کا ڈپلومیٹک انداز ہے۔اصل پیغام جو اس خبر کی صورت میں دینا تھا وہ دیا جا چکا ہے۔اس پیغام کے دو مقصد ہیں۔ایک کا تعلق مستقبل (بے حد) قریب سے ہے۔وہ پیغام یہ ہے کہ عراق پر حملہ کے سلسلے میں ہماری حمایت کرو۔اس وقت امریکی حکومت عالمی سطح پر اپنے جارحانہ طرز عمل سے مسلسل رسوا ہو رہی ہے ۔تیسری دنیا میں تو امریکی حکام کا نام نفرت کی علامت بنتا چلا جارہا ہے۔یورپ کے متعدد ممالک میں بھی امریکہ کے جارحانہ رویے کو محسوس کیا جانے لگا ہے اور خود امریکہ کے دانشور طبقوں نے بھی حال ہی میں نسبتاً بڑی سطح پر امریکی حکومت کی جارحیت کا نوٹس لیا ہے اور کڑے لفظوں میں اس کی مذمت کی ہے۔ایسے حالات میں امریکہ کا سعودی عرب کے حکمرانوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ عراق کے خلاف امریکی جارحیت کی ۱۹۹۱ءکی طرح یا کسی نہ کسی طرح تائید کریں،ایک مشکل امر ہے۔اگر سعودی عرب کے حکمران چاہیں بھی تو ان کے لئے بہت مشکل ہے۔کیونکہ انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ اس وقت عالم اسلام میں عمومی طور پر اور عالم عرب میں خصوصی طور پر امریکی حکام کی عالمی بے انصافیوں کے خلاف شدید رد عمل پایا جاتا ہے۔ایسے حالات میں عراق پر امریکی حملے کی حمایت کرنا سعودی عرب کے لئے کسی طورممکن ہی نہیں ہے۔چنانچہ اس معاملہ میں سعودی حکومت کے صاف جواب کے نتیجہ میں امریکی حکام نے بڑے سلیقے سے سعودی حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی ہے۔سیدھے لفظوں میں یہ جتا دیا گیا ہے کہ اگر عراق پر حملہ کی صورت میں ہماری حمایت نہ کی تو پھر تھنک ٹینک کی رپورٹ ہمارے پاس پہلے سے موجود ہے اور ہم کسی بھی وقت سعودی عرب کو بھی دہشت گردی میں ملوث قرار دے دیں گے۔
۔۔۔۔ایک پہلو سے یہ دھمکی سعودی عرب کو وقتی طور پر دباؤ ڈال کراپنی بات منوانے کی چال ہے تو دوسری طرف ساری دنیا پر اپنی ”دہشت گردی کے خلاف مہم“کی دھاک بٹھانے کے بعد امریکہ اب یہودی ایجنڈے پر عمل کرنے کے فائنل راؤنڈ میں داخل ہونے کی تیاری کررہا ہے۔ میں نے اپنے کالم زیر ذیلی عنوان ”تاریخ سے فرار کیوں؟“میں واضح کیا تھا کہ گریٹر اسرائیل کے لگ بھگ نصف صدی پرانے نقشہ کے مطابق یہودیوں نے مکہ اور مدینہ کو بھی گریٹر اسرائیل کا حصہ بنا رکھا ہے۔اور یہی امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ ریلیز کرنے کا دوسرا اور اہم مقصد ہے ۔عراق اورایران سے نمٹنے کے بعدامریکہ اندازہ لگائے گا کہ اب وہ قلب اسلام پر حملہ کردے یا نہیں؟
۔۔۔۔بہانہ تو اب امریکہ کے پاس گھڑا گھڑایا موجود ہے۔جس ملک میں گھسنا ہو وہاں القاعدہ اور طالبان کو داخل ہوتے دیکھنے کا اعلان کر دیجئے اور پھر ان کے تعاقب میں اس ملک میں گھس جائیے ۔کون مائی کا لال آپ کو اس ”نیک کام“ سے روک سکتا ہے۔یہ رویہ کسی بھی ملک کی خود مختاری کے خلاف براہ راست حملہ ہے اوربے شک امریکہ کو ایسے حملے کرنے کی عادت ہو چکی ہے۔لیکن اگر امریکہ نے مستقبل کے یہودی عزائم کی تکمیل کے لئے درپردہ عملی اقدامات شروع کر دئیے ہیں تو پھر ”واشنگٹن پوسٹ“ کی مذکورہ بالا رپورٹ کو اس تناظر میں انتہائی خطرے کی گھنٹی سمجھ لینا چاہئے۔لیکن یہ خطرے کی گھنٹی خود امریکہ اور اسرائیل کے لئے بھی تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔ارض حجاز مکہ اور مدینہ کے معاملے میں دنیا بھر کے مسلمان ،گنہگار ترین مسلمان بھی بے حد جذباتی ہیں۔اس سلسلے میں مجھے آغا حشر کاشمیری کاایک واقعہ یاد آرہا ہے۔آغا حشر ڈرامہ نگار تھے،تھیٹریکل کمپنیوں سے وابستہ تھے۔پینا پلانا ان کے روزمرہ کا معمول تھا۔ایک دن محفل ناؤنوش جمی ہوئی تھی ،آغا حشر کو خاصی چڑھی ہوئی تھی اسی دوران ان کے ایک بے تکلف ہندو دوست نے بے تکلفی کی لہر میں حضور اکرم ﷺکی شان اقدس کے خلاف کوئی نازیبا سی بات کہہ دی۔آغا حشر کا نشہ ہرن ہو گیا۔شراب کی جو بوتل ان کے ہاتھ میں تھی وہی اس دوست کے سر پر دے ماری اور پھر کہنے لگے میرے پلے تو کچھ بھی نہیں ہے،صرف اسی نام کا ایک آسرا ہے جو میری نجات کا سبب بن سکتا ہے اور تم اسی کے خلاف بکواس کر رہے ہو۔ میں ماضی قریب کی تاریخ سے بڑے اور اہم ترین واقعات کی مثالیں دینے کے بجائے صرف اسی معمولی سے واقعہ کو بیان کرنا ہی کافی سمجھتا ہوں ۔خطرے کی گھنٹی آگے چل کر طبل جنگ بن سکتی ہے۔اس کا ایک نتیجہ تو امریکہ کی اپنی توقعات کے مطابق ہو سکتا ہے کہ وہ جیسے ساری دنیا میں دندناتا پھرتا ہے ویسے ہی عالم اسلام کے مقدس ترین مقامات کو بھی یہودی عزائم کے مطابق کر دے۔لیکن اس کا دوسرا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ پورے عالم اسلام کی حکومتیں بے بس ہو جائیں اور پورا عالم اسلام ”ناقابل تسخیر“سمجھے جانے والوں کی تاریخ اور جغرافیہ سب کچھ تبدیل کرکے رکھ دے۔
ابابیلوں کا ایک واقعہ پہلے بھی ہو چکا ہے۔
میں امید کرتا ہوں کہ امریکہ کے جن ساٹھ دانشوروں نے بڑے پیمانے پر صدر بش کی جارحانہ پالیسیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی وہ اس سے بھی زیادہ سخت لفظوں میں امریکی حکومت کو اس کے مستقبل کے ان مذموم عزائم سے روکنے کے لئے آواز بلند کرے گی تاکہ امریکی حکمران مزید ایسے اقدامات نہ کریں جن سے دنیا کی مکمل تباہی کا خطرہ حقیقت بن جائے۔
٭٭٭