۔۔۔۔میں جنرل پرویز مشرف کے مداحوں میں سے ہوں۔جن حالات میں ان کو ملک کا اقتدار سنبھالنا پڑا اور پھر شروع میں انہوں نے جس بے لاگ انداز اور صاف گوئی کے ساتھ قوم کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا عام پاکستانیوں کی طرح مجھے بھی ان کا انداز بہت اچھا لگا تھا۔وطنِ عزیز اور اس کے غریب عوام کی بھلائی کے لئے میں نے ان سے بہت سی توقعات وابستہ کر لی تھیں۔مجھے افسوس ہے کہ جنرل پرویز مشرف نہ صرف اپنا وہ صاف صاف بات کرنا بھولتے جا رہے ہیں بلکہ اپنی اولین ترجیحات سے بھی کافی پرے ہٹ گئے ہیں۔
۔۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گیارہ ستمبر۲۰۰۱ءکے بعد پاکستان پر ایک نئی افتاد آن پڑی تھی۔جنرل پرویز مشرف نے کچھ اپنے لچکیلے رویے کے باعث اورکچھ عالمی منظر سے پیدا ہونے والی پاکستان کی مجبوریوں کے باعث ممکنہ حد تک قوم کو زیادہ بڑے نقصان سے بچانے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں لڑکھڑاتے ہوئے سہی وہ ابھی تک معاملہ سنبھالے ہوئے ہیں۔عالمی افتاد کے باوجود جنرل پرویز مشرف عام انتخابات کرانے جا رہے ہیں۔یہ بہت اچھی بات ہے لیکن ان کے کرنے کا جو سب سے اہم اور سب سے زیادہ ضروری کام تھا وہ چند دنوں کی گہما گہمی کے بعد جیسے بھلا دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔ سول حکومت۔۔۔فوج کی مداخلت۔۔۔انتخابات۔۔۔ اور پھر سول حکومت سے فوجی حکومت تک میوزیکل چیئر کا جو کھیل گزشتہ ۵۵برس سے جاری تھا،میرے نزدیک جنرل پرویز مشرف اس میوزیکل چیئر گیم سے بالکل الگ تھے۔لیکن اب ”جو کچھ ہونے جارہا ہے “اور” جو بالکل نہیں ہورہا ہے“ اس سے ان کی حکومت بھی سابقہ کھیل کا ایک تسلسل بن کر رہ گئی ہے۔جو کچھ ہونے جا رہا ہے وہ تو وہی کچھ ہے جو اس سے پہلے بھی بارہا ہو چکا ہے۔لیکن ”جو نہیں ہو رہا “ میرے نزدیک وہی اس قوم کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ہے۔اس ملک کو ”اشرافیہ“ کے ہر طبقہ نے بے دردی سے لوٹا ہے۔اس میں سیاستدانوں کی تخصیص نہیں ہے۔ سیاستدان،بیوروکریسی،فوج کے اعلیٰ حکام سب نے حسب توفیق اس ملک کو لوٹا ہے۔ملک پر بین الاقوامی قرضوں کا ہولناک بوجھ اسی لوٹ مار کا نتیجہ ہے۔
ڈاکٹر رشید امجد اردو کے معروف جدید افسانہ نگار ہیں۔ حال ہی میں ان کی یادوں کی کتاب ”تمنا بے تاب“ شائع ہوئی ہے۔اس میں سے ایک واقعہ یہاں درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔اسے کسی افسانہ نگار کا افسانہ نہیں سمجھیں ،یہ پاکستان میں ہونے والی لوٹ مارکی المناک صورتحال کی نشاندہی کرنے والا ایک سچا واقعہ ہے۔ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں:
”گزشتہ دنوں میں ذکریا یونیورسٹی ملتان میں گیا تو ایک شام ملک ظفر نے ایک حیرت انگیز بلکہ ناقابلِ یقین واقعہ سنایا۔انہوں نے بتایا کہ پنجاب کے ایک گورنر کو جو صاحبان عالیشان میں سے تھا،بہاولپور کے علاقہ میں مربعے الاٹ ہوئے۔ایک دن گورنر نے کمشنر بہاولپور سے فون پر پوچھا کہ ان مربعوں کی مالیت کیا ہو گی؟
کمشنر نے یونہی نمبر بنانے کے لئے کہہ دیا ”سر!تقریباً ایک کروڑ“
گورنر نے کہا ”تو ایک ہفتہ میں مربعے بیچ کر کروڑروپے انہیں بھجوا دئیے جائیں۔“
کمشنر کو مصیبت پڑگئی۔وہ تو اس نے یونہی نمبر بنانے کے لئے کہہ دیا تھا۔حقیقت یہ تھی کہ مربعے چند لاکھ سے زیادہ کے نہ تھے۔انہوں نے اپنے ماتحتوں کو بلا یا کہ اب کیا کریں؟۔میٹنگ میں ایک ایس پی بھی تھے۔انہوں نے کہا”سر!آپ اجازت دیں تو میں ایک راستہ بتاتا ہوں۔“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمشنر نے کہا”وہ کیا؟“
اس نے کہا ”مقامی نیشنل بنک کی شاخ میں تین چار کروڑ ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔آپ اجازت دیں تو آج رات اس پر ڈاکہ پڑوا دیتے ہیں“
رات کو بنک پر ڈاکا پڑا اور دو کروڑ لوٹے گئے۔ایک کروڑ تو گورنر کو بھیج دئیے گئے اور ایک کروڑ متعلقہ انتظامیہ میں بٹ گئے۔صبح چوری کا پرچہ درج ہو گیا۔کچھ عرصہ ذکر اذکار ہوا پھر داخل دفتر۔“
۔۔۔۔اس ڈاکے کی حقیقت سے قوم کے اصل لٹیروں اور ڈاکوؤں کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔اگر اس ڈاکے سے فائدہ اٹھانے والے لوگوں کو طبقاتی طور بانٹیں تو گورنر صاحب سیاست دان،کمشنر صاحب بیوروکریٹ اور ایس پی صاحب پولیس کے محکمہ سے۔ان طبقوں میں مزید کئی طبقے شامل ہو چکے ہیں۔عدلیہ اور فوج بھی اس قومی لوٹ مار سے پاک نہیں رہ سکی۔ اس ملک کو اس کے رہنماؤں اور محافظوں نے ہی لوٹا ہے اور جی بھر کر لوٹا ہے۔ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ اربوںکھربوں کے قرض لے کر معاف کرالئے گئے ہیں اور آج تک ان لٹیروں کے ناموں کی مکمل فہرست تک اخبارات میں شائع نہیں ہو سکی۔
۔۔۔۔جب جنرل پرویز مشرف نے لوٹی ہوئی دولت وصول کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا تو مجھے پورا یقین تھا کہ صرف اسی دولت سے ہی پاکستان کے سارے قرضے اتر جائیں گے۔شروع میں جب بحری فوج کے ایک اعلی ٰافسر کو امریکہ سے گھسیٹ کر پاکستان لایا گیا تو توقع تھی کہ اور بہت سارے سابق فوجی افسران بھی اب لپیٹ میں آئیں گے لیکن لگتا ہے پاک فوج میں صرف اسی ایک افسر نے ہی ملک کو لوٹا تھا۔باقی سب گنگا نہائے ہوئے ہیں۔ پھر سیاستدانوں کے احتساب میں پرنالہ پی پی پی کی قیادت سے بڑھا تو نواز شریف فیملی پر جا کر وہیں کا ہورہا اور پھر ان کو بھی ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔اﷲ اﷲ خیر صلا!
۔۔۔۔صرف بے نظیر اور نواز شریف کی شخصیات کی لوٹ مار اور بد عنوانیوں پر حکومت کی سوئی اٹک گئی۔نواز شریف کے دور میں ان کے دست و بازو بنے رہنے والے اور اسی بنیاد پر ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے جو سیاستدان مسلم لیگ ق میں چلے گئے وہ سب پاک پوتر ہو گئے۔ان سے کسی حساب کتاب کی بات ہی نہیں کی گئی۔بیوروکریسی میں بھی احتساب کا انداز ایسا ہی رہا۔اور اب قوم کو بتا دیا گیا ہے کہ ملک کو لوٹنے والے سزا بھگتنے کے لئے تیار ہیں لیکن دولت واپس کرنے کو تیار نہیں ہیں۔اگر جنرل پرویز مشرف اس ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں لا سکتے اور ملک کو کھاجانے والوں پر بلا امتیازاور بلا تخصیص شدید گرفت نہیں کر سکتے تو صاحب پھر وہ بھی جنرل ایوب،جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیا کا تسلسل ہیں۔ پھر اپنی بلا سے بُوم بسے یا ہُما رہے۔
لیکن مجھے ابھی پوری مایوسی نہیں ہوئی۔مجھے ایسے لگتا ہے کہ بین الاقوامی یا یوں کہہ لیں کہ مغربی فریب کاریوں سے نمٹتے نمٹتے انہیں اتنے داؤپیچ کھیلنے پڑ رہے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں وہ کئی نئے سے نئے مسائل میں الجھتے جا رہے ہیں۔تاہم اندرون ملک کے حوالے سے میں ایک بار جنرل پرویز مشرف کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اس ملک سے قرضے لے کر معاف کرا لینے والوں سے،قرضے لے کر واپس نہ کرنے والوں سے اور ہر طرح کے مہذب ڈاکوؤں سے نہ صرف قوم کی لوٹی ہوئی ایک ایک پائی وصول کریں بلکہ وصولی کے بعد انہیں عبرت ناک سزائیں دیں۔ایسا کرنے کے لئے وہ مکمل مارشل لا لگالیں تو قوم اس کو بھی برداشت کر لے گی۔ اگروہ لوگ ادائیگیاں نہیں کرتے تو ان کی ساری جائیدادیں ضبط کریں اور انہیں مارشل لا کے تحت سخت ترین سزائیں دیں۔ایسی سخت قیدو بند کہ اپنے چھپائے ہوئے سارے اثاثے خود ہی ظاہر کردیں۔اگر آپ ایسا کرنے پر تل جائیں اور ملک کی لوٹی ہوئی ایک ایک پائی واپس لے آئیں تو پاکستان کے تمام مالی مسائل حل ہونے کے ساتھ ملک کی دولت لوٹنے کا کھیل رک سکتا ہے۔ایسی صورتحال میں لٹیرے طبقوں کو چھوڑ کر قوم کا ہر فرد آپ کے ساتھ ہوگا۔لیکن اگر آپ ایسا نہیں کرتے یا وصولیاں کرنے میں آپ کے لئے سو عذر ہو گئے ہیں تو پھر ایک بات جان لیجئے۔۔۔۔”اشرافیہ“کی لوٹ مار تو گزشتہ ۵۵برسوں سے جاری ہے اب غریب تر اور بھوکے ،ننگے پاکستانیوں کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ وہ راہ چلتوں کو لوٹنا شروع کردیں ۔ گو اس وقت بھی ایسا ہونے لگا ہے تاہم ابھی ایسا بہت ہی کم تر سطح پر ہورہا ہے لیکن جب اس ملک کے امیر اپنے مہذب ڈاکوں سے امیر ترین ہوتے جارہے ہیں اور عام غریب پاکستانی غریب سے غریب ترین ہوتے جا رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں تو پھر ایسے غربا کا چھوٹے موٹے جرائم کی بجائے ڈاکے ڈالنا شروع کردیناممکن ہو سکتا ہے۔بہتر ہو گا کہ اتنے برے وقت کے آنے سے پہلے اصل بیماری کا علاج کرلیا جائے۔
۔۔۔۔اگر آپ اس طرف بے حد خصوصی توجہ نہیں کرتے اور اسے اپنی اولین ترجیح نہیں بناتے توپھر آپ بھی اسی سابقہ فوجی دخل اندازی کا تسلسل ہیں جسے قوم ۵۵برس میں نصف سے زائد عرصہ تک بھگت چکی ہے۔ اور آپ کے تعمیر نو بیورو اور اسی طرز کے سارے کام صرف لٹی پٹی قوم کومزید لوٹنے کا ایک کھیل ہیںاور کچھ نہیں۔
٭٭٭