۔۔۔۔امریکی حکومت کی غیرمنصفانہ پالیسیوں اور عدم توازن کو بڑھاتے چلے جانے والے اقدامات پر خود امریکہ کے اندر سے ردِ عمل آنے کی ابتدا ہو گئی ہے اور امریکہ کی حلیف حکومتوں کی طرف سے بھی سگنل ملنے شروع ہو گئے ہیں۔بعض امریکی دانشور تو پہلے دن سے ہی امریکی ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں لیکن اس بار مغربی میڈیا کے ایک طاقتور ترین ذریعہ” سی این این“ اور” اے او ایل“ کے ایک اعلیٰ ترین عہدیدار نے ایک انٹرویو میں اسرائیلی ظلم و ستم کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں ”کلمۂحق“کہا ہے جس کی امریکی حکمران اور یہودی لابی کو بالکل توقع نہ تھی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودیوں کے حق میں لکھنے پر مامور ذرائع ابلاغ بھی جھوٹ بولتے بولتے شرمندہ ہونے لگے ہیں۔پتھر چلانے والوں کو دہشت گرد اور گولیوں،گولوں،ٹینکوں کے ساتھ حملہ آور ہونے والوں کو مظلوم کہنے کے ظلم کی بھی حد ہوتی ہے۔آخر یہ جھوٹ بولنے والے خود ہی اپنے جھوٹ پر شرمندہ ہو کر ایک اخبار ی انٹرویو میں سہی ،لیکن کچھ سچ تو بولنے لگے۔
۔۔۔۔اس سے زیادہ اہم بیان برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی اہلیہ نے دیا۔جنہوں نے فلسطینیوں کے خود کش حملوں کا ایک منصفانہ انداز میں جواز پیش کیا۔اگرچہ بعد میں برطانوی حکام اپنی وضاحتیں پیش کرتے رہے لیکن شیری بلیئر کے بیان سے برطانوی عوام کی سوچ میں ہوتی ہوئی تبدیلی کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔شاید ایسے بیان سے حوصلہ پاکر مصر کی الازہر یونیورسٹی سے بھی ایک جرات مندانہ فتویٰ آگیا ہے کہ اپنے حقوق کے لئے لڑتے ہوئے اپنی جان دینے والے فلسطینی اور کشمیری دہشت گرد نہیں بلکہ شہید ہیں۔لیکن سب سے اہم بیان برطانیہ میں سعودی عرب کے سفیرغازی القیتی کا ہے۔انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ اگر وہ نوجوان ہوتے تو خود فلسطینیوں کے حق کے لئے لڑتے اور خود کش حملے کی بہادری دکھاتے۔انہوں نے خودکش حملوں کو دہشت گردی ماننے سے انکار کیا اور ایسے حملوں کو حق بجانب قرار دیا۔ان کے بیان کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں انہوں نے موجودہ” مہذب دنیا“سے درخواست کی کہ میں فلسطینیوں کے لئے انسانی حقوق کا مطالبہ نہیں کرتا،میں صرف اتنا کہتا ہوں کہ جتنے آپ کے نزدیک جانوروں کے حقوق ہیں اتنے حقوق تو فلسطینیوں کو دے دیں۔
۔۔۔۔ سعودی عرب کے شہزادہ عبداﷲ نے جو حالیہ دنوں میں تھوڑی سی جرأت دکھائی تھی ،غازی القیتی کا بیان در اصل اسی جرأت کی توسیع ہے۔خدا کرے ہمارے سعودی حکمران طبقے میں پیدا ہونے والی نیم بیداری کی یہ حالت مکمل بیداری میں بدل جائے ۔بے شک اس وقت عرب دنیا ایک طرح سے امریکی جال میں پھنسی ہوئی ہے لیکن اگر ذاتی مفادات کو چھوڑ کر قوم کے مفادات کا ادراک کرلیا جائے تو ابھی بھی عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کو ذلت کی موجودہ حالت سے نکالا جا سکتا ہے۔شاید سعودی عرب اورمصرکے ان حالیہ روّیوں کے نتیجہ میں اب مسلمانوں کی عالمی تنظیم میں بھی تھوڑی سی جان پڑنے لگی ہے۔
۔۔۔۔ان معمولی سی تبدیلیوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اسرائیل کے وزیر دفاع بن یامین نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ممکن ہے فلسطینی فدائین جس مایوسی کا شکار ہو کر خودکش حملے کر رہے ہیں ، وہ اسرائیلی فوج کے طرز عمل سے پیدا ہونے والی مایوسی ہو۔ساتھ ہی انہوں نے کہا ہے کہ اگر فلسطینیوں کو ایک اچھی زندگی گزارنے کے مواقع ملیں تو وہ ایسے حملے بند کردیں گے۔اگر دیکھا جائے تو اسرائیل کے وزیر جنگ کا بیان بھی سی این این کے ڈپٹی سربراہ اور شیری بلیئر کے بیانات کی توثیق کررہا ہے۔
۔۔۔۔اسی دوران امریکی صدر جونیئر بش کا فلسطینی ریاست کے قیام کا فارمولا سامنے آگیا ہے جس میں یاسر عرفات کو ہٹایا جانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔اس فارمولا کے بارے میں کچھ کہنا اس لئے بیکار ہے کہ اسرائیل نے ابھی تک کون سے معاہدے کا پاس کیا ہے اور کون سے فارمولے کو صدق دل سے قبول کیا ہے۔پھر بھی جہاں تک جونیئر بش کی جانب سے یاسر عرفات کو ہٹانے کے فرمان کا تعلق ہے روس اور چین نے فوری طور پر اس کی مخالفت کی ہے اور اب تو امریکہ کے سب سے سرگرم اور قریبی حلیف برطانیہ نے بھی اس کی تائید کرنے سے انکار کردیا ہے۔جرمنی،فرانس اور بعض دیگر یورپی ممالک میں پہلے ہی سے من مانے امریکی اقدامات کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور اب تو کینیڈا جیسے ملک نے بھی امریکہ کی ایسی پالیسیوں کے حوالے سے محتاط طرز عمل کا مظاہرہ شروع کردیا ہے۔بے شک ایسی باتوں سے ابھی امریکی حکومت کی صحت پر کوئی خاص اثر پڑنے والا نہیں ہے۔لیکن عرب اور اسلامی بلاک میں امریکہ کی طرف سے عربوں اور مسلمانوں کی مسلسل تذلیل کئے جانے کا جو احساس مستحکم ہوتا جا رہا ہے اور امریکہ کے حلیفوں میں امریکی متشدد فیصلوں کے خلاف جو ردِ عمل پیدا ہو رہا ہے اس سے ایک ہلکی سی امید کی جا سکتی ہے کہ شاید امریکہ سرکار خود ہی اپنی اداؤں پر غور کرے ،اپنے طرز عمل میں تبدیلی لائے اوراپنے لئے ”ایک جارح عالمی طاقت“ کے بجائے ”ایک عظیم عالمی مملکت“کہلانے میں عزت محسوس کرنے لگے۔مطلب دونوں کا ایک ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ اول الذکر سے ”بدی کا محور“ ہونے کی بو آتی ہے اور ثانی الذکر سے دنیا بھر کے لئے”محبت کی خوشبو“ آتی ہے۔دنیا بھر کے ممالک امریکہ کے حکمرانوں سے ”محبت کی خوشبو“ کی توقع رکھتے ہیں،لیکن۔۔۔۔۔؟
۔۔۔۔اگر امریکی حکومت کسی عالمی رد عمل کو خاطر میں نہیں لاتی اور ایسے ہی من مانی دھاندلی کئے جاتی ہے تو پھر ایسا امکان موجود ہے کہ تھوڑا آگے چل کر اسلامی ممالک سمیت بعض اہم ممالک اقوام متحدہ سے علیحدگی اختیار کرلیں اور اس عالمی ادارہ کا حشر بھی ادارہ اقوام عالم جیسا ہوجائے۔ایسا نہیں ہوتا اور بین الاقوامی رد عمل کو بھی امریکہ مزید بڑھنے سے پہلے کسی طریقے سے روک لیتا ہے اور موجودہ جارحانہ اور غیر عادلانہ کردار سے بھی باز نہیں آتا تو پھر یہ امکان موجود ہے کہ اسرائیل،کشمیر،افغانستان اور دنیا جہان کے مظلوم خطوں کے نوجوان اور ان کے جائز مطالبات سے ہمدردی رکھنے والے اپنے دھماکوں اور خود کش حملوں کا سلسلہ اسرائیل ، کشمیر اور اسی طرح کے خطوں سے بڑھا کر براہ راست امریکہ تک لے آئیں ۔ اگر امریکہ کے مختلف شہروں میں خودکش حملے ہو نے لگے توپھر امریکہ ہی خود کش حملوں کا مرکز بن جائے گا اور اس کی سو فیصد ذمہ داری امریکی حکام کے پالیسی ساز اداروں کے طویل غیرمنصفانہ طرز عمل پر عائد ہو گی۔
۔۔۔۔ طاقت کا نشہ اپنی جگہ لیکن امریکی حکام اپنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات کے ساتھ اپنے سادہ دل اور سادہ لوح امریکی عوام کے مفادات کا بھی خیال کریں۔ویسے میں تو چاہوں گا کہ امریکہ واقعی دنیا کا سب سے بڑا ملک بنے،سب سے بڑی طاقت بنے لیکن میں اس بڑائی کی بات کر رہا ہوں جو چھوٹوں پر دھونس جمانے والی نہیں بلکہ محبت نچھاور کرنے والی ہوتی ہے۔امریکی حکام کو ابھی تک اس محبت کا ایک قطرہ بھی نصیب نہیں ہواہے۔
۔۔۔۔سعودی سفیر غازی القیتی کے جس بیان کا میں نے شروع میں ذکر کیا ہے۔اس سے بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے وہ فلسطینیوں کے لئے رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں جبکہ زندگی بھیک میں نہیں ملتی۔۔۔۔۔لیکن اگر غور کریں تو یہ ایک زبردست بیان ہے۔مغربی ممالک میں جانوروں کے حقوق کے لئے کئی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں اس لئے مغربی ممالک اس بیان کی اہمیت کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔غازی القیتی کا یہ کہنا کہ میں فلسطینیوں کے لئے انسانی حقوق کی نہیں بلکہ صرف ان حقوق کی درخواست کرتا ہوں جو جانوروں کو دئیے جاتے ہیں۔۔۔رحم کی بھیک نہیں ہے بلکہ ان تمام ”مہذب ممالک” کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے جو براہِ راست یا بالواسطہ کسی نہ کسی رنگ میں اسرائیلی مظالم کی تائید کررہے ہیں۔
۔۔۔۔یہ ایسا زور دار طمانچہ ہے جس کی گونج ان تمام مہذب ممالک کو اس وقت تک اپنے اندر سے سنائی دیتی رہے گی جب تک وہ خود فلسطینیوں کو ان کا جائز حق نہیں دلا دیتے۔ سعودی عرب کے شہزادہ عبداﷲ کے بعد سعودی سفیر کے ایسے تیوروں سے مجھے عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کے حالات بہتر ہونے کے سلسلے میں امید کی کرن سی محسوس ہونے لگی ہے۔
٭٭٭