۔۔۔۔ابھی تک میں نے زیادہ تر امریکہ کے ان اقدامات کی نشاندہی کی ہے جو”جس کی لاٹھی اُس کی بھینس“کے مطابق آج کی دنیا میں ایک غیر منصفانہ،غیر عادلانہ اور کھلے جابرانہ اندازکو فروغ دے رہے ہیں۔ اور ان کا نشانہ زیادہ ترمسلمان اور بڑی حد تک تیسری دنیا کے غریب عوام ہیں۔آج میں اپنی کچھ ایسی کمزوریوں،غلطیوں اور حرکتوں کا مختصراً ذکر کروں گا جس کے نتیجہ میں ہم سب اس حال کو پہنچے ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔بیشتراسلامی ممالک کاکردار ہمیشہ سے امریکہ نواز رہا ہے۔اسے امریکہ سے مخلصانہ دوستی بھی کہا جا سکتا ہے لیکن اس کی وجہ زیادہ تریہ رہی کہ اسلامی ممالک کی شاہانہ اور آمرانہ حکومتوںنے اپنے ذاتی استحکام پر توجہ مرکوز رکھی اور ملک اور قوم کے استحکام کو ثانوی بلکہ جزوی حیثیت دی۔اسلامی ممالک کی جو مختلف تنظیمیں بنی ہوئی ہیں ان کی حیثیت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔اسلامی ممالک کو درپیش حالیہ سنگین بحرانوں کے دوران اسلامی ممالک اور ایسی تنظیموں کا کردار افسوسناک ہی نہیں انتہائی شرمناک رہا ہے۔اگر ایسی حکومتیں اور ایسی تنظیمیں اتنی ناکارہ ہیں تو پھر عوام کو امریکہ کے ہاتھوں کیوں مروایا جارہا ہے۔یہ جو اَب بعض امریکہ مخالف حلقوں کی طرف سے افغانستان پر حامد کرزئی کی حکومت پر مختلف قسم کے طنز کئے جا رہے ہیں۔۔۔سارے طنز بجا ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کے نیاز مند سارے اسلامی ممالک کے حکمران حامد کرزئی سے بھی بڑھ کر امریکی مفادات کے نگہبان ہیں اور اس نگہبانی کی قیمت پر ہی ان کا اقتدار سلامت ہے۔تو پھر اکیلا حامدکر زئی ہی کیوں ہدفِ تنقید ہو جبکہ سارے اسلامی ممالک کے حکمران ہی اپنی اپنی جگہ حامد کرزئی بنے ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔چونکہ میرا تعلق پاکستان سے ہے اس لئے میں پاکستان کے اندر کے حالات کے حوالے سے چند اہم امور کی نشاندہی کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔من حیث القوم ہمارے دامن پر بہت سارے داغ ہیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں”ہاکس بے “پر قوم کی معصوم بچیوں پر کھلے عام جنسی حملے ہوتے ہیں اور حملہ کرنے والے بھی ہم میں سے ہی تھے۔اسی ملک میں جاگیردارانہ معاشرے میں غریب افراد کو کسی مخالفت کی سزا دینے کے لئے ان کے خاندان کی عورتوں کو سرِ بازار ننگا کرکے چلایا جاتا ہے اور ہم سار اتماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ کسی سیاسی بدمعاش کی کسی سے دشمنی ہوتی ہے تو اعتکاف میں بیٹھی ہوئی عورت کو اعتکاف سے اٹھا کر اسے بے آبرو کردیا جاتا ہے اور اسے معمولاتِ زندگی میں شمار کیا جاتا ہے۔یہ ہمارے معاشرے کے اخلاقی کردار کا ایک پہلو ہے۔
۔۔۔۔سیاستدانوں کا مجموعی کردار یہ ہے کہ جب سیاسی حکومتیں ہوتی ہیں تو ایک دوسرے کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ایک دوسرے پر سنگین الزامات ہی عائد نہیں کرتے،جھوٹے سچے مقدمات بھی قائم کرتے رہتے ہیں۔انتقام کا ایسا سنگین ماحول ہوتا ہے جس میں دوسروں کے خلاف جو کچھ بھی ناجائز سے ناجائز کردیا جائے،جائز قرار پاتا ہے۔ ایسے انتقامی ماحول میں جب فوجی حکومت آجاتی ہے تو پھر ایک دوسرے کو ذلیل کرتے چلے جانے والے بڑے مزے سے ہم نوالہ و ہم پیالہ ہوجاتے ہیں۔جمہوریت کے علمبردار بن کر آمریت کا خاتمہ کرنے کے لئے متحد ہوجاتے ہیں اور اس سارے کھیل میں عوام کے حصے میں سوائے بھوک اور بڑھتی ہوئی غربت کے کچھ نہیں آتا۔ہر کسی نے اس ملک کو لوٹا ہے اور نہایت بے دردی سے لوٹا ہے۔اس کے باوجود کمال یہ ہے کہ جو جتنا بڑا لٹیرا ہے وہی اتنا بڑا مصلحِ قوم ہے۔
۔۔۔۔علماءکی فرقہ پرستی نے ملک کوالگ سے جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔آئے دن مسجدوں اور امام باڑوں میں ہونے والے دھماکوں نے اسلام کی ایسی تصویر بنا دی ہے جسے ایکسپلائٹ کرنے کے لئے اہلِ مغرب کو زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔اس سب کچھ کے ساتھ خود کٹڑ اسلامی حلقے کے ایک معتبرصحافی کے بقول علماءکے کردار کا ایک روپ یہ بھی ہے۔
” شریف صاحب مسکرائے،گھڑی پر نظر دوڑائی اور کہا کہ میں ذرا نماز پڑھ لوں۔نماز ادا کرنے کے بعد وہ دوبارہ کرسی پر آبیٹھے اور بڑی بے شرمی سے کہنے لگے۔۔’میاں شام کا وقت ہے کوئی دارو وغیرہ کا بندوبست کرو‘۔نماز کے فوراً بعد دارو کے تقاضے پر پاکستان کے کئی باریش علماءاور دانشوروں کے چہرے میری نظروں کے سامنے گھومنے لگے جو دارو پی کر اﷲ اور اس کے رسول کے حوالے دینے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے“
(کالم”قلم کمان“از حامد میر۔ڈیلی اوصاف اسلام آباد انٹر نیٹ ایڈیشن۱۶مئی ۲۰۰۲ء)
۔۔۔۔ہماری عدلیہ کا کردار کسی دور میں بھی مثالی نہیں رہا۔حتیٰ کہ کبھی کبھار جو حق گوئی کا کوئی ایک آدھ نمونہ سامنے آتا ہے تو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ان نے بھی فلاں پارٹی سے کوئی بڑی ڈیل کر لی تھی۔فی ذاتہ حق گوئی کا وہ نمونہ بھی کسی ڈرامے کا کردار ہی ادا کر رہا ہوتا ہے۔ پولیس کا کردار اتنا گھناؤنا ہے کہ ظلم کی لاکھوں کروڑوں داستانیں رقم ہو سکتی ہیں۔حالیہ دنوں میں انڈیا نے پاکستان کے خلاف حربے کے طور یہ سلسلہ شروع کیا ہے کہ مختلف حوالوں سے طالبان اور القاعدہ کے نام انڈیا میں ہونے والے واقعات سے جوڑ رہا ہے۔ انڈیا میں فلاں دہشت گردی کے واقعہ میں طالبان ملوث ہیں،القاعدہ والے شامل ہیں۔ انڈیا کی تو اس وقت پاکستان کے ساتھ دشمنی چل رہی ہے اور ایسے مواقع پر دشمن ہر جھوٹ سچ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔لیکن پاکستانی پولیس تو اپنے عوام،اپنے شہریوں کی محافظ ہے۔اس کی چیرہ دستیوں کا یہ عالَم ہے کہ طالبان اور القاعدہ کی موجودہ صورتحال کو اس حد تک ایکسپلائٹ کرنے لگے ہیں کہ کسی شہری کو کسی چھوٹے موٹے چکر میں پکڑا اور اس سے بڑی رقم بطور رشوت اینٹھنے کے لئے اسے دھمکی دے دی کہ اتنی رقم مہیا کرو،ورنہ تمہیں طالبان یا القاعدہ کا بندہ بنا کر کیس رجسٹر کرلیں گے۔ اور ابھی تک ایسا ہورہا ہے۔جس قوم کی محافظ پولیس اتنی بے رحم اور سفاک ہو پھر اس قوم کاتواﷲ ہی حافظ ہے۔
۔۔۔۔یہ پاکستان کے حوالے سے چند اہم امور تھے جن سے ہمارے قومی زوال کے اسباب کو کسی حد تک سمجھا جا سکتا ہے۔اگر ہمارے اسلامی ملکوں کے اپنے معاشرے عدل و انصاف سے عاری اور ظلم و ستم کے مرکز بنے ہوئے ہیں تو پھر امریکہ کی حکومت بھی تو ہمارے ساتھ وہی کچھ کررہی ہے جو ہم خود اپنوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔فرق یہ ہے کہ ہم اپنے اپنے محدود دائرے میں ایسا کررہے ہیں،جبکہ امریکی حکومت اپنے پورے پھیلاؤمیں ایسا کر رہی ہے۔
۔۔۔۔میں جب امریکہ کے خلاف لکھتے ہوئے ان کے کسی ظلم یا زیادتی کی نشاندہی کرتا ہوں تو میرے پیش نظر امریکی حکومتیں ہوتی ہیں۔امریکی عوام نہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام جہاں امریکی حکومتوں کی غیرمتوازن پالیسیوں سے شدید شاکی ہیں وہیں امریکہ کی سلطنت اور اس کے عوام کے لئے ان کے دل میں قدر بھی ہے اورکشش بھی۔یہاں مجھے وہ زمانہ یاد آگیا ہے جب پاکستان میں سلمان رُشدی کے خلاف جلوسوں کا سلسلہ شروع ہواتھا۔جن دنوں میں جلسہ جلوس میں شدت آگئی تھی،انہیں دنوں میں امریکی حکومت نے اپنے پہلے لاٹری ویزہ پروگرام کا اعلان کردیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہی لوگ جو امریکی سفارت خانے پر پتھراؤکر رہے تھے،امریکی سفارت خانے کے باہر لمبی لمبی لائنوں میں لگ کر ویزہ لاٹری کے مقررہ فارم حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی سلمان رُشدی کے خلاف جلوسوں کا سلسلہ بھی رُک سا گیا۔
۔۔۔۔ من الحیث القوم پاکستانیوں کا یا ساری دنیا کے مسلمانوں کا ،یا تیسری دنیا کے لوگوں کاجائزہ لیں تو ایسے لگتا ہے کہ ایک چھوٹا سا امریکہ ہم سب کے اندر چھپا ہوا ہے۔ اپنے اپنے دائرۂ کار میں ہم بھی اتنے ہی غیر منصف،بے رحم اور ظالم ہیں جتنا کہ ہماری دانست میں امریکہ ہے۔ایسی تمام سیاسی یا دینی جماعتیں جو اپنے کسی محدود دائرے میں،یا اپنے ملک میںیا دنیا میں عادلانہ نظام کی علمبردار ہیں ،ان کو بنظرِ غائر دیکھیں تو اپنے اندورنی طریق کار میں وہ امریکہ سے بھی زیادہ ظالم اور بے انصاف دکھائی دیں گی۔بس بات صرف اتنی ہے کہ ان کے ظلم کا دائرہ ان کی پہنچ کی حد تک ہے،ورنہ ان کا بس چلے تو امریکہ سے بڑھ کر کام کر دکھائیں۔ شاید ہم مظلوم اس لئے ہیں کہ ہمارے بس میں کچھ نہیں ہے۔اگر ہمارے بس میں ہو تو ہمارے اندرکا امریکہ بھی دریافت ہونے میں دیر نہیں لگے گی ۔۔ابھی بھی ہم اپنوں کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ہمارے اندر کے امریکہ کی نشاندہی کرنے کے لئے کافی ہے۔لیکن ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ایک بہت بڑی خوبی تو ہے کہ یہ لوگ اپنی قوم کے افراد کو بلاتخصیص ایک عزت اور اہمیت دیتے ہیں اور ایک دو جان واکر جیسے کرداروں کو چھوڑ کر تاحال مجموعی طور پر اس قوم کے لوگ اپنے وطن کے غدار نہیں ہیں جبکہ ہماری تاریخ ہر طرح کے غداروں سے بھری پڑی ہے اور ابھی بھی ہمارے ہی کتنے سیاستدان،صحافی،بیوروکریٹس،مذہبی لوگ۔۔۔ کتنے ہی لوگ قوم کا سودا کرنے کے لئے امریکہ کے اشارے اور مناسب حق الخدمت کے منتظر ہیں۔
۔۔۔۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مجموعی کردار کو اس زاویے سے بھی دیکھیں کہ کہیں یہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہمارے اجتماعی گناہوں کی سزا تو نہیں ہے؟
٭٭٭