۔۔۔۔اس وقت دنیا کی سب سے بڑی ظاہری طاقت امریکہ ہے۔دنیا اس طاقت کا ادراک رکھتی ہے۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ جیسے امریکی حکمران اپنی تمام تر قوت کے باوجود کسی نفسیاتی کمی کے باعث اس طاقت کے اظہارکے لئے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں اور اب تو اسے بہانوں کی تلاش کی حاجت بھی نہیں رہی۔بس جو کہہ دیا وہی فیصلہ ہے، وہی حکم ہے۔
۔۔۔۔یورپی ممالک کے ساتھ امریکی تعلق کسی قسم کی بڑی کشیدگی سے پاک اور دوستانہ ہے۔اگرچہ ”دہشت گردی“ کے خلاف حالیہ عالمی امریکی”کاروائیوں “پریورپ کے عوام کا ایک حصہ ناراضی کا اظہار کر رہا ہے اور اس ناراضی کا اظہار اس وقت سامنے آگیا جب مئی کے آخری عشرہ میں امریکی صدر بُش جرمنی،روس اور فرانس وغیرہ ممالک کے دورے پر گئے اور ہر جگہ ان کے خلاف بڑے پیمانے پرسخت قسم کے جلوس نکالے گئے اور خود امریکہ کو اور صدر بُش کو عالمی دہشت گرد قرار دیا گیا۔تاہم اس کے باوجود عمومی طور پر یورپ کے ساتھ امریکی مراسم اعتماد والی دوستی کی حد تک ہیں۔یوں بھی سارے یورپ میں امریکی فوجی اڈے قائم ہیں۔سوویت یونین روس کے دور سے قائم یہ فوجی اڈے بھی اعتماد ہی کی کوئی صورت ہیں۔
۔۔۔۔ایشیا کے مختلف ممالک کے ساتھ امریکی حکومت کے تعلقات کی نوعیت مختلف النوع ہے۔ جاپان امریکی ایٹم بم کا شکار ہونے والا دنیا کا واحد ملک ہے ۔جب سے اس نے جنگی تیاریوں سے یکسر منہ موڑ کر اقتصادی ترقی کی طرف توجہ کی ہے،اس نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ میدانِ جنگ میں ہارنے والے جاپان نے اقتصادی میدان میں امریکہ کو شکست دے رکھی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔جن میدانوں میں جاپانی شہرت رکھتے ہیں،ان میں امریکی ان کے برابر بھی نہیں پہنچتے،آگے نکلنا تو بعد کی بات ہے۔
۔۔۔۔عرب ممالک کے امریکہ کے ساتھ مراسم انتہائی نیاز مندانہ ہیں۔اگرچہ عراق اورشام کو امریکہ نے زد پر رکھا ہوا ہے تاہم عمومی طور پر عرب بادشاہوں کا سارا حلقہ امریکہ کے حلقۂارادت میں شامل ہے۔ان کی بادشاہتوں میں امریکی عمل دخل سعودی حکمرانوں کے آغاز سے چلا آرہا ہے۔اس کے باجود عرب اسرائیل تنازعہ میں امریکی حکمرانوں کا کردار اتنا ا فسوسناک رہا ہے کہ امریکہ نے بے اصولی کی ہر حد کو پار لیا ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ عرب عوام میں امریکی حکومت کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔یہ نفرت جس انداز سے بڑھ رہی ہے شاید ایک وقت آئے کہ پھر خود امریکہ کے من پسند بادشاہوں کے تخت بھی الٹ جائیں اور عرب ممالک میں ایران جیسے انقلاب برپا ہونے لگیں۔اگرچہ اس وقت سعودی عرب میں شہزادہ عبداﷲ جیسے موثر کردار بھی ابھرے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ ایسے کردار تو آج سے ۵۰سال پہلے شروع ہونے چاہئیں تھے۔شاید اب بہت تاخیر ہو گئی ہے۔۔۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ ابھی بھی کچھ بچت ہو جائے۔
۔۔۔۔ عراق،اور شام کی طرح امریکہ نے ایران کے آزادانہ کردار کے باعث اسے بھی بلیک لسٹ کر رکھا ہے۔اور اس کی بنیاد کسی عالمی اصول پرنہیں بس امریکی حکمرانوں کی ذاتی ناپسند پر ہے۔ شاہ ایران کے زمانے میں ایران کی سلطنت ایشیا میں امریکی پولیس مین سمجھ جاتی تھی لیکن انقلاب ایران کے بعد امریکہ کو یہاں سے خاصا بے آبرو ہو کر نکلنا پڑا۔شاید اسی لئے امریکہ ابھی تک ایران کی قیادت سے ناراض ہے۔
۔۔۔۔روس اپنی موجودہ حالت میں امریکہ کا دوست بھی ہے اور کئی معاملات میں دست نگر بھی ہے۔اس لئے ابھی وہ نہ تو امریکہ کے لئے کسی قسم کاچیلنج بن سکتا ہے اور نہ ہی بننا چاہتا ہے۔اس لئے روس کی طرف سے بھی راوی ابھی چَین ہی چَین لکھ رہا ہے۔لیکن چِین ایسی عظیم مملکت کوامریکہ نے اپنے لئے جان بوجھ کر ایک ہوّا بنا لیا ہے۔کیمونزم کے سب سے بڑے مرکز سوویت یونین کو افغانستان کے ”مجاہدین“کے جذبۂجہاد کے بَل پر توڑدینے کے باوجود امریکہ کے حکمران سوشلزم اور کیمونزم کے خوف سے باہر نہیں آرہے۔ایک طرف کیوبا کے صدر کاسترو امریکی حکمرانوں کی ناک پر لڑے ہوئے ہیں تو دوسری طرف چِین کو اپنے لئے خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔حالانکہ اگر چِین کی پالیسیوں کو دیکھا جائے تو وہ بقائے باہمی کے اچھے اصولوں پر عمل پیرا ہے ۔اور کسی کے لئے بھی ناجائز طور پر دھمکی اور کھٹکا نہیں بنا ہوا۔
۔۔۔۔ہندوستان اور پاکستان کے معاملات میں صورت حال خاصی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔پاکستان اپنے قیام کے اول روز سے امریکہ کے ساتھ دوستی کا دَم بھرتا آیا ہے۔اپنے مشرقی آدابِ دوستی اور معیارِ دوستی کی بنیاد پر پاکستان امریکہ سے بھی محبت کے ویسے ہی سلوک کا متمنی رہا جیسا وہ خود امریکہ کے لئے کر رہا تھا۔لیکن پاکستان کی پوری تاریخ بتاتی ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو ہمیشہ اپنے مخصوص مفادات کے لئے استعمال کیا اور بڑی محبت کے ساتھ استعمال کیا اور ہر بار مطلب نکل جانے کے بعد نہ صرف نگاہیں پھیر لیں بلکہ پاکستان کے لئے مشکلات بھی پیدا کیں۔
۔۔۔۔ہندوستان کے ساتھ امریکی تعلقات ایک ڈپلومیٹک حد تک رہے۔اس حد کے اندر بھی ہندوستان نے امریکہ سے ایسے مفادات حاصل کر لئے جو مجموعی طور پاکستان کو نہیں مل سکے۔نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی دونوں عمارتوں کی تباہی کے بعد سے امریکی حکمرانوںنے اب جو نئے طور طریقے اختیار کر رکھے ہیں،ان کے نتیجہ میں خاص طور پر جنوبی ایشیا شدید خطرات سے دوچار ہو گیا ہے۔پاکستان سے محبت کی پینگ بڑھاکر افغانستان میں تباہی پھیلا نے کے بعد اب امریکہ نے ہندوستان کے ساتھ محبت کی پینگ بڑھا لی ہے۔اور میرا خیال ہے کہ اس کے نتیجہ میں ہندوستان اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحران سے دوچار ہو گیا ہے۔
۔۔۔۔امریکہ کا سارا رومانس اس لئے ہے کہ ہندوستان کو چِین سے لڑایا جائے۔اِدھر ہندوستان کو بخوبی علم ہے کہ وہ چِین سے لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے لیکن وہ امریکی التفات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔۔۔چنانچہ اس وقت کھیل یہ چل رہا ہے کہ جب امریکہ نے ہندوستان کو ”میرا بھارت مہان“کہہ کر چِین کے لئے تھپکی دی تو ہندوستان کی موجودہ فرقہ پرست قیادت نے اپنی چال چلی۔انہوں نے کہا ٹھیک ہے صاحب ہم چِین سے نمٹیں گے،لیکن پہلے ہمیں پاکستان سے نمٹ لینے دیجئے کیونکہ یہ اپنے قیام ہی سے ہمارے لئے دردِ سر بنا ہوا ہے ۔اب اپنی تھپکی کا بھرم رکھنے کے لئے امریکہ ہندوستان کو چھوٹ دے رہا ہے۔اس چھوٹ کے نتیجہ میں احمد آباد میں گزشتہ صدی کے سب سے ہولناک اور انتہائی شرمناک ہندومسلم فسادات ہوئے،مسلمانوں کو منصوبہ بند طریقے سے زندہ جلایاگیا،عصمتیں تار تار کی گئیں،حاملہ عورت کا پیٹ چاک کرکے بچے کو قتل کرنے تک کے گھناؤنے واقعات ہوئے ۔۔۔اس کے ساتھ ہی کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ اپنی ہی منظور کردہ قراداد سے لا تعلق ہو گئی۔کشمیرمیں آٹھ لاکھ کے لگ بھگ بھارتی فوج کے مظالم میں شدت آگئی اور پاکستان کے ساتھ گزشتہ چھ ماہ سے حالت جنگ جیسی کیفیت طاری کردی گئی۔کسی مسئلے پر بات چیت کرنے کے لئے مسلسل انکار کیا جانے لگا۔ یہ سب امریکی تھپکی کا نتیجہ ہے۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نے موجودہ ہندوستانی حکمرانوں کو بہت رعائت دے دی ہے۔لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔بلکہ ہندوستان امریکی جال میں پھنس گیا ہے۔
۔۔۔۔کشمیر کا سیاسی حل امریکہ کی ضرورت ہے۔وہ کشمیر کے سلسلے میں اپنی دو اہم ترجیحات رکھتا ہے۔ایک یہ کہ کشمیر میں ویسے ہی جہادی گروپ اقتدار پر نہ آجائیں جیسے افغانستان میں آگئے تھے۔دوسرے وہ اس خطے پر اپنا اتنا زیادہ کنٹرول رکھنا چاہتا ہے کہ اس طرف سے بھی چِین پر نظر رکھ سکے۔ہندوستانی حکمران اگر امریکی محبت کے جال میں پھنس گئے ہیں تو اب انہیں پاکستان کے ساتھ اپنے جنگی نفسیاتی حربے آزمانے کے بعد بہرحال کشمیر کے مسئلہ کے حل کی طرف آنا ہی ہوگا۔دوسرے چِین کے ساتھ”پنگا“بھی کرنا ہوگا۔جس دن ہندوستان نے چِین سے ”پنگا“کرنے سے انکار کیا اسی دن امریکی رویہ دیکھنے والا ہوگا۔بعد کی باتیں تو بعد میں ہوتی رہیں گی۔امریکہ نے اور اسی کی ایما پر دوسرے مغربی سفارتکاروں نے پاکستان کو چھوڑنے کے ساتھ ہندوستان کو بھی چھوڑنا شروع کردیا ہے۔اگر ہندوستان کے موجودہ حکمرانوں میں عقل ہے تو وہ سمجھیں کہ سفارت کاروں کے اس عمل سے انہیں ڈپلومیٹک سطح پر شدید دھچکا پہنچا ہے اور یہ دھچکا ان دنوں میں پہنچا ہے جب ابھی امریکہ سے ان کا ”ہنی مون “پیریڈ چل رہا ہے۔
۔۔۔۔ ایسے وقت میں جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایٹمی جنگ کے شدید خطرات پوری طرح زائل نہیں ہوئے۔ہندوستان کی افواج کی سرحدوں پر چھ ماہ سے مسلسل موجودگی،انتہا پسند ہندو جماعتوں کا دہشت گردانہ کردار،اقلیتوں کے خلاف شدید قسم کا جارحانہ رویہ،ایسے عوامل ہیں جن کے باعث ہندوستان کی جمہوریت بھی شدید خطرات میں گھر گئی ہے۔اگر ایسے کسی وقت میں ہندوستانی فوج موجودہ حکمرانوں کا تختہ الٹ دے تو اسے بعید از قیاس نہیں سمجھیں۔ اگر کوئی حتمی قدم نہ اٹھایا گیا اور غیریقینی کی موجودہ صورتحال برقرار رہی تو میرے نزدیک ہندوستان میں کسی وقت بھی فوج اقتدار سنبھال سکتی ہے۔ایسا ہوا تو بے شک یہ ہندوستانی جمہوریت کے لئے سخت صدمہ ہو گا لیکن اس کی تما م ذمہ داری بی جے پی کی موجودہ قیادت اور انتہا پسند ہندوؤں پر عائد ہو گی۔رہا امریکہ توجیسے پاکستان میں پرویز مشرف کی حکومت ہو یا بے نظیر بھٹو کی یا میاں نواز شریف آجائیں ،امریکی مفادات محفوظ ہیں،ویسے ہی اب امریکہ جس حد تک ہندوستان کے اندر گھس آیا ہے اس کے بعد ہندوستان میں امریکی مفادات بھی ہر حال میں محفوظ رہیں گے۔
٭٭٭