۔۔۔۔میں مذہبی معاملات کو چھیڑنا نہیں چاہتا لیکن اسلامی جہاد کو دہشت گردی کے ہووّے کے ساتھ جس طرح جوڑ دیا گیا ہے اس کے پیش نظر دیگر اہم مذاہب میں جہاد یا جنگ کے بنیادی تصور اور ان مذاہب کے پیروکاروں کے طریق کار اور حالیہ صورتحال پر ان کی تعلیمات کے شعوری یا غیر شعوری اثرات پر تھوڑی سی بات کروں گا۔تاکہ اندازہ ہو کہ بعض اقوام کس طرح اپنے مذموم مقاصد کے لئے کرّۂارض پر انسانیت کے لئے سنگین قسم کے خطرات پیدا کررہی ہیں۔اور اس کے لئے اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے حسبِ ضرورت پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
۔۔۔۔سب سے پہلے ہندوستان میں کرشن جی مہاراج کی شہرۂآفاق ”گیتا“کو دیکھیں۔یہ کتاب اپنی دوسری بہت ساری خوبیوں کے باعث مجھے ذاتی طور پر بھی پسند ہے اور ہندو مذہب سے ہٹ کر بھی اسے دوسرے علمی حلقوں میں ایک اہمیت حاصل ہے۔”گیتا“کا لب لباب اگر پیش کیا جائے تو وہ ”جہاد“ کا کھلا اعلان اور جہاد سے ہٹنے کا ارادہ کرنے والوںکے اندر جہاد کا جذبہ پیدا کرنے کا پیغام ہے۔اسلامی جہاد کے حوالے سے بعض قرآنی آیات سے اپنی مرضی کا استدلال کرکے،ان میں مین میخ نکال کر اعتراض کرنے والے ہندو اسکالرز کو کبھی ”گیتا“کا بھی اس زاویے سے مطالعہ کرنا چاہئے۔جو حق اور سچ کے نام پر اپنے ہی خون کے مدِ مقابل لا کر کھڑا کر دیتی ہے۔ اور اس کے لئے مسلسل اکساتی ہے۔
۔۔۔۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت کا معاملہ یوں ہے کہ ویسے تو ان کے بارے میں از روئے قرآن بھی جو کچھ لکھا ہوا موجود ہے اسرائیلی انتہا پسندوں نے گزشتہ نصف صدی سے جاری اپنے ظلم و ستم سے اوربار بار معاہدے کرکے ہر بار حیلوں بہانوں سے بد عہدی کرکے خوداس کا حرف حرف سچ ثابت کر دکھایا ہے۔تاہم اس جگہ خود ان کی اپنی آسمانی کتاب ”عہد نامہ قدیم“کی کتاب”خروج“(Exodus(سے دو حوالے پیش کروں گا۔اس سے یہودیوں کو جہاد کی جو کھلی چھوٹ سامنے آتی ہے ،گویا وہ اپنے مذہب کی تعلیم پر ہی عمل کر رہے ہیں۔”خروج“میں یہودیوں کو یوں کھلے طور پر جنگ کرنے اور فتح ہی فتح کی بشارت درج ہے:
”میں تیرے دشمنوں کا دشمن اور تیرے مخالفوں کا مخالف ہوں گا۔اس لئے کہ میرا
فرشتہ تیرے آگے آگے چلے گا اور تجھے اموریوں اور حتّیوں،اورفرزّیوں اور کنعانیوں
اور حوّیوں اور یبوسیوں میں پہنچا دے گا اور میں ان کو ہلاک کرڈالوں گا۔تو اُن
کے معبودوں کو سجدہ نہ کرنا نہ اُن کی عبادت کرنا نہ اُن کے سے کام کرنا بلکہ تو اُن کو
بالکل اُلٹ دینا اور اُن کے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنی ہیبت تیرے آگے آگے بھیجوں گا اور میں اُن سب لوگوں کوجن کے پاس تو
جائے گا شکست دوں گا۔اور میں ایسا کروں گا کہ تیرے سب دشمن تیرے آگے اپنی
پشت پھیر دیں گے۔۔ ۔۔۔وہ تیرے ملک میں رہنے نہ پائیں تا نہ ہو کہ وہ تجھ سے
میرے خلاف گناہ کرائیں“(خروج باب ۲۳)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔اسلامی جہاد کی بعض آیات سے استدلال کرکے اسلام کو نشانہ بنانے والے دانشور حضرات ذرا اس یہودی تعلیم کے مضمرات پر بھی غور کریں اور یہ بھی دیکھیں کہ کیا آج عملاً انتہا پسند اسرائیلی اسی ”یہودی جہاد“ کی تعلیم پر عمل نہیں کررہے جو ان کے عہد نامہ قدیم میں درج ہے ؟
۔۔۔۔اب اسرائیلی قوم کا مزاج بھی خود ان کی اپنی اسی کتاب”خروج“کے باب ۳۳کی آیت۳میںدیکھ لیں۔ دوسری قوموں پر فتح کے بعد جو کچھ اسرائیلی کرتے ہیں اس حوالے سے یہ لکھا ہے:
۔۔”چونکہ تو گردن کش قوم ہے اس لئے میں تیرے بیچ میں ہو کر نہ چلوں گا تا ایسا نہ ہو میں تجھ کو راہ میں فنا کردوں“
یہی بات پھر اسی کتاب اور اسی باب کی آیت ۵میں یوں دہرائی گئی ہے:
۔۔۔”خداوند نے موسیٰ سے کہہ دیا تھا کہ بنی اسرائیل سے کہنا کہ تم گردن کش لوگ ہو۔اگر میں ایک لمحہ بھی تیرے بیچ چلوں تو تجھ کو فنا کردوں گا“
۔۔۔۔ اب دیکھیں اسلامی تعلیمات میں ہے مفتوح اسلام قبول کر لے تو سب سے اچھا ہے ورنہ اسے جزیہ دینا ہوگا۔اس کے بر عکس یہودی تعلیم یہ ہے کہ جس علاقہ کو فتح کرو وہاں کے باشندوں کو وہاں سے نکال دو۔یہ ہے اصل ”یہودی جہاد“جس پر بنیاد پرست یہودی مسلسل عمل پیرا ہیں۔خدا نے یہودیوں کے بارے میں جوحضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہا ہے کہ یہ ”گردن کش“ لوگ ہیں۔اس لفظ کا مطلب ہے بغاوت اور نافرمانی کرنے والا،تکبر کرنے والا،اور شوخی کرنے والا شریر۔”یہودی قوم کی من حیث القوم گردن کشی“کا یہ عالم ہے کہ خود ان کی اپنی کتاب کے مطابق خدا کہتا ہے کہ اے موسیٰ !اگر میں ایک لمحہ بھی ان کے بیچ چلوں تو انہیں فنا کردوں۔گویا یہ اتنے بے رحم ،شریر اور سفاک لوگ ہیں کہ ان کا ہر لمحہ بے رحمی،سفاکی،شرارت،بغاوت اور نافرمانی کے بد اعمال میں گزرتا ہے۔کیا اس وقت بنیاد پرست یہودی ایریل شیرون اور اس کے ساتھی واقعتاً ایسے ہی کردار کا مظاہرہ نہیں کر رہے؟
۔۔۔۔اور اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت کا حال بھی دیکھ لیں۔تعلیم کے لحاظ سے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی تمہارے دائیں گال پر تھپڑ مارے تو اپنا بایاں گال بھی اس کے آگے کردو کہ لے بھائی تو اپنا غصہ پورا کرلے۔لیکن عملاً امریکہ کی سر پرستی میں مسیحی قوم کا عالمی کردار کیا ہے۔ایک طرف جونئیر بش اپنے پکے مسیحی ہونے کا ذکر کرتے ہیں دوسری طرف ان کے والد سے لے کر ان کی اپنی صدارت تک کا کردار یہ ہے کہ اگر کوئی تم سے اپنا دایاں حصہ بچانا چاہتا ہے تو اس کا بایاں حصہ بھی چھین لو۔عراق کے مسلمانوں پر امریکی حملہ،بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں پر سربین مسیحیوں کے خوفناک مظالم،سے لے کر افغانستان پر بے رحمانہ بمباری کے تجربوں تک صرف اسی ایک عشرہ میں ہی دیکھ لیں کہ مسیحی تعلیم کا کیا مثالی نمونہ پیش کیا جا رہا ہے اور پھر کس ناز کے ساتھ اپنے کٹڑ مسیحی ہونے کا اعلان بھی کیا جاتا ہے۔سوویت یونین کی شکست و ریخت کا عمل شروع ہوا تو ساری مسیحی اور یہودی ریاستیں بغیر کسی خون خرابہ کے سوویت یونین سے الگ ہوتی گئیں۔لیکن جیسے ہی مسلمانوں کی کثیر آبادی والی ریاستوں نے آزادی کے حصول کی جدوجہد شروع کی ،خون خرابہ شروع ہو گیا۔ مسلم آبادی والی کسی ایک ریاست کو بھی خون خرابہ کے بغیر آزادی ملی ہو تو بتائیں۔چیچنیا کا مسئلہ ابھی تک معلق رکھا ہوا ہے۔کشمیر کا مسئلہ نصف صدی سے خون میں ڈوبا ہوا ہے۔اقوام متحدہ اپنی قراردادکو فراموش کئے بیٹھی ہے۔اس کے بر عکس انڈونیشیا میں مشرقی تیمور کی مسیحی آبادی کی آزادی کا سلسلہ شروع ہوا تو مہینوں میں اسے آزادی دلا دی گئی۔یہ اس قوم کا کردار ہے جس کی تعلیم ہے کہ کوئی تمہارے دائیں گال پر تھپڑ مارے تو اپنا بایاں گال بھی اس کے آگے کردو۔ اس سب کچھ کے باوجود ”اسلامی جہاد“کو فکری طور پر ہدفِ تنقید بنانے کے ساتھ مظلوم فلسطینی،کشمیری،چیچن مسلمانوں ہی کو دہشت گردوں میں شمار کرنا اور پھر کہنا کہ ہم مذہب اسلام کے خلاف نہیں ہیں۔
۔۔۔۔مجھے افسوس ہے کہ مجھے مذکورہ تینوں معروف اور اہم مذاہب کے جنگ سے متعلق نظریات اور اس کی عملی صورت کا اتنا اور اس رنگ میں جائزہ لینا پڑا ۔
۔۔۔۔حال ہی میں جونئیر بُش روس کے دورہ پر گئے ہیں تو وہاں انہوں نے روسی صدر پیوٹن کے ساتھ گفتگو میں انہیں کہا ہے کہ روس ایران کو ایٹمی قوت بنا رہا ہے اور ایک دن ایرانی ایٹمی اسلحہ کا رُخ روس کی جانب ہو گا۔۔۔روسی حکام نے اس امریکی الزام کی تردید کی ہے تاہم یہاں میں امریکہ اور انڈیا دونوں کو وقت سے پہلے۔۔۔بہت پہلے ۔۔۔بتا رہا ہوں کہ وہ سب انتہا پسند یہودی سازش میں گھرے ہوئے ہیں۔جب یہودیوں کا مسلمانوں سے کوئی معمولی سا ڈربھی باقی نہیں رہے گا تب ہندوؤں کا کوئی مندر ان سے محفوظ نہیں رہے گا کیونکہ ان کی مذہبی تعلیم ہے کہ انہیں گرادیا جائے۔اور تب مسیحی دنیا کو بھی یہی یہودی یاد دلائیں گے کہ سابقہ زمانوں میں مسیحیوں نے ان پر کیا کیا مظالم کئے تھے۔یہودی اپنا انتقام کس طرح لیتے ہیں؟اور کیسے سازشیں کرتے ہیں؟یہ تب ہی امریکہ اور یورپ کو معلوم ہو سکے گا۔
اگر ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی ، مسلسل سامنے آتے ہوئے شواہدکی بنیاد پر یہودیوں ہی کا کیا دھرا ہے تو پھر ابھی ان کی ”گردن کش“حرکتوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔اس کی ایک جھلک ان دو خبروں میں دیکھئے۔دونوں خبریں ایک ہی دن(۱۵مئی۲۰۰۲ء)کے روزنامہ جنگ میں آئی ہیں:
” اسلامی انتہا پسند۴جولائی کو ایٹمی پلانٹس پر حملہ کر سکتے ہیں،امریکہ
واشنگٹن۔۔۔امریکا کے سمندری محافظوں نے اپنی حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ انہیں پچیس اسلامی انتہا پسندوں کے امریکا میں داخلے کے بارے میں اطلاعات ملی ہیں جو چار جولائی کو امریکا کے ایٹمی پلانٹس پر دہشت گرد حملہ کر سکتے ہیں۔فاکس نیوز کے مطابق امریکی محافظوں نے ایک ایسی دستاویز پکڑی ہے جس سے انتہا پسندوں کے امریکا میں داخلے کا پتہ چلتا ہے۔“
۔۔۔۔مجھے لگتاہے کہ امریکی محافظوں کو ملنے والی دستاویزات خود یہودی”گردن کشی“ کی کوئی صورت ہے۔یعنی خود سازش کرکے مسلمانوں کے سر الزام لگا دیا جائے۔اس کا اندازہ اسی روز کی دوسری خبر سے آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔دوسری خبر یہ ہے:
”امریکا:ٹرک میں دھماکہ خیز مواد کی موجودگی پر 2 اسرائیلی گرفتار
سیاٹل: امریکی بحریہ کے اڈے کے نزدیک پولیس نے دھماکہ خیز مواد کی موجودگی کے شبہے میں ایک ٹرک قبضے میں لے لیا ہے،جسے 2 اسرائیلیوں نے کرائے پر لیا تھا۔فوکس نیوز کے مطابق ٹرک کے گیر لیور اور اسٹیرنگ سے پی این ٹی اور فوجی استعمال میں آنے والے دھماکا خیز مواد کی موجودگی کے آثار ملے ہیں۔اسے ریاست واشنگٹن میں امریکی بحری اڈے کے نزدیک ٹاؤن اوک ہاربر میں قبضے میں لیا گیا۔اس ٹرک کو 2 اسرائیلیوں نے کرائے پر لیا تھا،جنہیں غیرقانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔“
۔۔۔۔ٹریڈ سنٹر پر حملہ سے لے کر آنے والے دنوں کی ”گردن کش“ ریشہ دوانیوں کی بنیاد پر انتہا پسند یہودی جو کھیل ،کھیل رہے ہیں اس کا فوری خمیازہ بے شک مسلمان ہی بھگت رہے ہیں لیکن اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا اور یہودی سازشیں مسلمانوں کے کھاتے میں لکھی جاتی رہیں تو پھر ایک وقت آئے گا جب ساری مسیحی دنیا۔۔۔اسرائیل کی زد پر ہوگی۔اور ان کے ساتھ جو کچھ ہوگا وہ اس سے کہیں زیادہ ہوگا جو اس وقت مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔
۔۔۔۔جونئیر بُش نے ایران کی ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے جو کچھ روسی صدر پیوٹن سے کہا ہے ،ویسا کبھی نہیں ہوگا لیکن اگر امریکا اور اہل یورپ نے اسرائیل اور مسلم ممالک کے تئیں اپنی پالیسی تبدیل نہ کی تو یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک دن امریکا اور یورپ اسرائیل کی زد پر ہوں گے۔
٭٭٭