۔۔۔۔۱۱ستمبر۲۰۰۱ءسے پہلے تک دنیا میں عدم توازن کی جو لکیریں سی بن رہی تھیں،۱۱ستمبر کے بعد اس کا نقشہ کھل کر سامنے آگیا ۔امریکہ کے ٹریڈ سنٹر کی دونوں عمارتوں کی تباہی کے بعد امریکہ کا غم و غصہ انتہا تک جا پہنچا۔پھر دہشت گردی کے خلاف ایسی جدوجہد شروع ہوگئی جس میں کسی ثبوت کی ضرورت نہ تھی۔ جب دہشت گردی کی کوئی معین تعریف ہی وضع نہ کی جا سکی تو پھر یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کوئی تحریک ”آزادی“ کی تحریک ہے یا دہشت گردی کی تحریک؟گویا اب کسی اصول اور ضابطے کی گنجائش نہ تھی۔اقوام متحدہ جو پہلے امریکہ کی باندی تھی اب داشتہ دکھائی دینے لگی لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کو داشتہ جتنی اہمیت بھی نہیں دی اور خود ہی جو کچھ کر سکتا تھا،کر گزرا۔گوامریکہ نے دکھاوے کے طور پر متعدد ہمنوا ساتھ شامل رکھے تاہم اصلاً یہ سارے کا سارا امریکی ردِ عمل تھا اور ابھی تک یہ امریکی رد عمل چل رہا ہے۔
۔۔۔۔اصل حقائق کی نشاندہی سے پہلے یہ وضاحت کردوں کہ مجھے ذاتی طور پر،فکری طور پر طالبان یا القاعدہ قسم کے گروہوں سے کبھی کسی قسم کی انسیت نہیں ہوئی۔بلکہ میرے فکری دھاروں کو جاننے کے بعد وہ یقینی طور پر میرے واجب القتل ہونے کا فتویٰ دے سکتے ہیں۔اس کے باجود جہاں تک حق اور انصاف کا تعلق ہے اگر اس کا اظہار کرنے سے محض اس لئے گریز کیا جائے کہ متعلقہ فرد یا طبقہ سے میری نہیں بنتی تو یہ کم ظرفی کی انتہا ہوگی۔ بلند بانگ دعوے کرنے والے کم ظرف لوگ اور کم ظرف طبقے ہی اتنا گر سکتے ہیں۔ میں ایک معمولی سا لکھنے والااور کچھ نہیں تو سامنے کے حقائق کو جیسے دیکھ رہا ہوں اور محسوس کر رہا ہوں ویسا ہی لکھ تو سکتا ہوں۔برائی کو روک نہیں سکتا ،لیکن اسے برائی تو کہہ سکتا ہوں۔
۔۔۔۔اگر واقعی ٹریڈ سنٹر کی عمارتوں کی تباہی میں طالبان اور القاعدہ کا ہاتھ ہے تو جو کچھ امریکہ نے کیا ہے وہ اس سارے عمل میں بالکل حق بجانب ہے۔لیکن اگر اس کی دونوں عظیم عمارتوں کی تباہی میںطالبان یا القاعدہ کا کوئی ہاتھ نہیں تھا تو پھر موجودہ امریکی حکمرانوں سے زیادہ بے رحم ،انسانیت کا دشمن اور سفاک اور کوئی نہیں ہے۔ اگرچہ ابھی تک حقائق کی شفاف صورت سامنے نہیں آئی لیکن جو کچھ سامنے آیا ہے اگر اس سب کو مربوط کرکے دیکھا جائے تو دو واضح نقشے سامنے آتے ہیں۔ایک نقشہ امریکہ اور اس کے حواریوں کا ہے اور ایک نقشہ طالبان اور القاعدہ کا ہے۔پہلے امریکہ کا نقشہ دیکھ لیں۔اس کے مطابق ٹریڈ سنٹر پر ہونے والا حملہ خود یہودیوں اور بعض امریکیوں کی ملی بھگت سے منظم طور پر کرایا گیا اور منظم طور پر ہی اس کا الزام القاعدہ کے سر تھوپ دیا گیا۔اس الزام کے ثبوت میں یہ حقائق اب تک سامنے آچکے ہیں اور ان حقائق کو مربوط کرکے دیکھنے سے پس منظر میں موجود منظر سامنے دکھائی دینے لگتا ہے۔
٭امریکی صدر جونیئر بُش کو جب حادثہ کی اطلاع دی گئی وہ بچوں کے ایک سکول میں تھے اور خبر سننے کے بعد بھی کافی وقت تک وہیں رہے۔ان کو حادثہ کی خبر دئیے جانے کی جو ویڈیو فلم امریکی ٹی وی چینلز دکھا چکے ہیں اس سے ایسے لگتا ہے جیسے ان کے لئے یہ کوئی عام سی خبر ہے(”اچھا حملہ ہو گیا ہے؟“)۔”باڈی لینگوئج “کو سمجھنے والے امریکی ماہرین امریکی صدر کے انداز سے خود بہتر نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔
٭۱۱ستمبر کو حادثہ کے وقت کوئی یہودی ٹریڈ سنٹر میں موجود نہ تھا۔جب اس حقیقت کا انکشاف کیا گیا تو اسے مضحکہ خیز قرار دے کر رد کردیا گیا لیکن بعد میں یہ بات سچ ثابت ہوئی۔واقعی حادثہ کے وقت کوئی یہودی ان عمارتوں کے اندر موجود نہ تھا۔
٭امریکی صدر جونیئر بُش نے امریکی کانگریس سے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ اس حادثہ میں ۱۳۰اسرئیلی یہودی ہلاک ہوئے ۔یہ کوئی عام اخباری بیان نہ تھا اور کسی عام ترجمان کے منہ کی بات بھی نہ تھی۔امریکی صدر کا بیان تھا اور امریکی کانگریس کے سامنے دیا گیا تھا۔
٭نیویارک ٹائمز نے اپنی ۲۲ستمبر۲۰۰۱ءکی اشاعت میں واضح کیا کہ جن ۱۳۰اسرائیلی یہودیوں کی ہلاکت کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ۱۲۹افراد اپنے گھروں میں زندہ موجود ہیں ۔صرف ایک اسرائیلی یہودی مرا ہے وہ بھی ٹریڈ سنٹر کے اندر نہ تھا بلکہ تباہی کے منظر کا باہر سے نظارا کرتے ہوئے اس کی لپیٹ میں آیا تھا۔
٭حادثہ کے وقت جب سارے نیویارک میں نفسانفسی کا عالم تھا تباہ ہوتی عمارت کے چاروں اطراف سے کم از کم ایسے چھ افرادکو پکڑا گیا جو تباہی کے منظر کی ویڈیو فلمیں بنا رہے تھے۔یہ سارے کے سارے افراد یہودی تھے اور کوئی پیشہ ور ویڈیو میکر نہیں تھے۔
٭اس تباہی میں جہاں کولمبیا کے ۱۹۹اورفلپائن کے ۴۲۸باشندے ہلاک ہوئے۔متعدد دوسرے ممالک کے باشندے ہلاک ہوئے مگراسرائیلی اور غیر اسرائیلی یہودی بالکل محفوظ رہے۔جبکہ اس کے مالکان بھی یہودی تھے،اس میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد ملازم تھی۔
٭ ٹریڈ سنٹر کی دونوں عمارتیں تھوڑا عرصہ پہلے یہودیوں نے خریدی تھیں۔ان کی بھاری بھر کم انشورنس چند ماہ(غالباً دو ماہ) پہلے کرائی گئی۔یوں عمارتوں کی تباہی سے یہودیوں کو کوئی مالی نقصان نہ ہوا۔بلکہ فائدہ ہی ہوا۔
٭جائے حادثہ سے سارا ملبہ ہٹانے کا ٹھیکہ بھی یہودیوں کو دیا گیااور یہ ٹھیکہ اصل عمارت کی لاگت سے بھی زیادہ ہے۔
٭دنیا میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرانے والے جہازوں کے بلیک باکس نہیں ملے۔
( شایدغائب کردئے گئے) ۔
٭پینٹا گون کی عمارت سے ٹکرانے والے جہاز کا بلیک باکس ملاتو کہا گیا کہ اس میں کوئی ٹیکنیکی خرابی ہو گئی ہے اس لئے کچھ سنائی نہیں دیتا۔اﷲ اﷲ خیر صلّا۔
٭ جہازوں کو جس ماہرانہ طریقے سے ٹکرایا گیا تھا ، ایسا سارا کام کسی ہائی جیکر کے ذریعے نہیں بلکہ زمین پر ریموٹ کنٹرول کے ذریعے ہو سکتا ہے اور ایسی صورت میں بلیک باکس کچھ بھی بتانے سے قاصر ہوتا۔اسی لئے ایسے بلیک باکسز کا نہ ملنا ہی بہتر تھا۔
٭ٹریڈ سنٹر کی عمارتوں سے ٹکرانے کے بعد سے پینٹا گون سے ٹکرانے تک ایک بڑا وقفہ تھا لیکن تب تک کوئی بچاؤکرنے والا حفاظتی ادارہ حرکت میں نہیں آیا۔
٭بعد میں یہ ہوّا کھڑا کیا گیا کہ وائٹ ہاؤس کی عمارت کو بھی خطرہ لاحق ہے ۔حالانکہ پینٹا گون سے ٹکرانے والا جہاز وائٹ ہاؤس سے گزر کر آیا تھا۔ کسی” امریکہ دشمن“ کا ایسا کوئی پلان ہوتا تو وہیں وائٹ ہاؤس سے نمٹ لیا جاتا۔
٭اس سارے ڈرامے میں یہودیوں کے اتنے واضح کردار کے باوجود بڑے موثر طریقے سے پروپیگنڈہ کیا گیاکہ اس میں مسلمانوں کا ہاتھ ہے چنانچہ ایک پورا دن مغربی میڈیا چند عرب افراد کا ایک ایسا منظر دکھاتا رہا جس میں وہ لوگ جشن جیسی خوشی منا رہے تھے۔یوں یہ باورکرادیا گیا کہ مسلمان ہی امریکہ کی تباہی سے خوش ہوسکتے ہیں۔جب نفرت کا زہر پوری طرح انجیکٹ کردیا گیا تو آدھی رات کے بعد اتنی وضاحت کی گئی کہ یہ کویت کی پرانی فلم تھی جو عراقی قبضہ ختم ہونے کی خوشی منا رہے تھے۔ہمیں کسی نے غلط خبر دی تھی۔آدھی رات کے بعد صرف ایک بار اتنی وضاحت کرنے کے بعد مغربی میڈیا نے دن میں کسی وضاحت کی ضرورت محسوس نہ کی۔دن میں جو نفرت کا زہر انجیکٹ کیا گیا تھا وہی اپنا اثر دکھاتا رہا اور ابھی تک اثردکھا رہا ہے۔
٭اسامہ بن لادن اور القاعدہ پر الزام لگایا گیا لیکن کسی قسم کا کوئی ثبوت دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔بس خود ہی مدعی،خود ہی گواہ اور خود ہی منصف۔امریکہ سارے مراحلِ تصوف سے ایک ہی جست میں گزر گیا۔اور پھر افغان عوام پر قیامتیں گزرنے لگیں۔دنیا کی سب سے بڑی اور واحد سپر پاور کہلانے والا امریکہ دنیا کے کمزور ترین اور مفلوک الحال ملک کو فتح کرنے میں کامیاب ہو گیا۔(لیکن کیا واقعی؟)
۔۔۔۔ اب دوسری طرف طالبان اور القاعدہ کا نقشہ بھی دیکھ لیںاگر یہ درست ہے کہ بھوکا، ننگاافغانستان طالبان اور القاعدہ کی ملی بھگت سے یا صرف القاعدہ ہی کی ہمت سے ٹریڈ سنٹر کو تباہ کر گیا ہے توپھر اسامہ نے دنیا کو یہ دکھادیا ہے کہ واقعی
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
۔۔۔۔افغانستان پر امریکہ کی اتنی تباہ کن کاروائیوں کے باوجودطالبان کے قائد ملّا عمر اور القاعدہ کے قائد اسامہ بن لادن امریکہ کے ہاتھ نہیں لگے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ اپنی بے سروسامانی کے باوجود لڑنے کی اعلیٰ ترین مہارت رکھتے ہیں۔مجھے یقین نہیں ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے لیکن اگر واقعی ایسا ہے تو پھر امریکہ اور اس کے حواریوں کے لئے دنیا میں کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔اسرائیل اپنی تما م تر غارت گری کے باوجود اور اپنی تمام تر جنگی حشرسامانیوں کے باوجود درحقیقت ایک نہیں، صرف آدھے ایٹم بم کی مار ہے۔اور امریکہ کو بخوبی علم ہے کہ کبھی سوویت یونین کی بعض سابق ریاستوں نے ایک طرح سے کھلے عام ایٹم بم بیچے تھے۔ صرف اسرائیل تک ہی کیوں پھر ٹریڈ سنٹر کو کسی اسلحہ کے بغیر نابود کردینے والے ”مومن“توکسی بھی طرح ایٹم بم امریکہ کے اندرتک پہنچا سکتے ہیں۔امریکہ اس قیامت کا سامنا کیسے کرے گا جب اس کے اپنے عظیم شہروں کو طالبان اور القاعدہ کے” خود کش ایٹم بم“ اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔وہ لازماً یومِ حساب ہوگا۔
۔۔۔۔یہ میں نے امریکی الزامات کی بنیاد پر ایک مفروضے کی مکمل صورت دکھائی ہے۔اب امریکی حکومت سے بہتر کون جانتا ہے کہ ٹریڈسنٹر پر ہوائی جہازوں کا حملہ کس کی سازش تھی۔اگر یہ امریکی اور اسرائیلی سازش تھی تو کم از کم امریکہ کو اپنے عالمی اخلاقیات،انسانی حقوق اور عالمی تمدن کے دعووں پر تو شرمندہ ہونا چاہئے۔ لیکن اگر یہ واقعی کسی القاعدہ اور طالبان ہی کا ”کارنامہ“ تھا تو پھر امریکہ اور اسرائیل کو اپنے بچاؤکی فکر کرنا چاہئے۔عام حملوں سے بچاؤکی فکر نہیں۔”خودکش ایٹم بم حملوں“سے بچاؤکی فکر کرنا چاہئے۔کیونکہ جو لوگ خالی ہاتھوں سے آپ کے سروں پر اتنی ہولناک تباہی لا سکتے ہیں،وہ آپ کو ایٹمی تباہی کا نشانہ بھی آسانی سے بنا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔اس منظر اور پس منظر سے” امریکہ و اسرائیل“ اور”طالبان و القاعدہ“ کے عسکری کردار کے دونوں امکانی نقشے سامنے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کی بے فکری اور دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پرانسانیت کی دھجیاں اڑانے والی کاروائیاں بتاتی ہیں کہ انہیں تو کسی کا خوف ہی نہیں ۔اس سے دو ہی مطلب نکلتے ہیں۔یا تو یہ دونوں انتہائی چالاک ہیں کہ اپنا کیا دھرا اپنے فکری مخالفوں کے کھاتے میں ڈال کر ان سب کا تیا پانچہ کئے جا رہے ہیں اور یا پھر انتہائی بے وقوف ہیں کہ انتہائی خطرناک قسم کے دشمنوں کے امکانی خود کش ایٹمی حملے سے بے خبر ہوئے بیٹھے ہیں۔
میں ذاتی طور پر امریکہ اور اسرائیل کواتنا بے وقوف نہیں سمجھتا۔اب اصل حقیقت کیا ہے؟
خود ہی جان لیجئے!
٭٭٭