۔۔۔۔حالیہ دنوں میں پاکستان اور مغرب کے بعض دانشور حلقوں کی جانب سے اسلامی اور مغربی تہذیبوں کے ٹکراؤکی باتیں کی گئی ہیں۔اس کے پس منظر میں امریکی صدر جونیئر بُش کا وہ بے اختیاری بیان تھا جو انہوں نے اس عہد میں صلیبی جنگوں کے حوالے سے دیا تھا۔یہ سوچا سمجھا بیان تھا یا غم و غصہ کی حالت میں کہی گئی بات تھی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان تھا جو امریکہ کے صدر کے منصب کے وقار سے گرا ہوا تھا۔اسی بیان کے پیش نظر میں یہاں تہذیبی ٹکراؤکے بعض پہلوؤں،اور بعض امکانی گنجائشوں کے حوالے سے کچھ عرض کروں گا۔
۔۔۔۔اگر امریکہ نے اسامہ بن لادن اور طالبان کے نام کی آڑ لے کر اور ٹریڈ سنٹر پر ہوائی جہازوں کے حملے کو بہانہ بنا کر افغانستان کی سرزمین اور وہاں کے عوام کے لئے جہنم کا دہانہ کھول دیا ہے تو یہ کوئی تہذیبی ٹکراؤنہیں ہے۔ یہ کوئی صلیبی جنگ نہیں ہے ۔لیکن اگر یہ تہذیبی ٹکراؤہے اور صلیبی جنگ ہے تو اپنی تمام تر تباہ کاریوں کے ارتکاب کے باوجود امریکہ کے لئے یہ جنگ ہارنے کا امکان زیادہ ہے۔
۔۔۔۔اگر عام نظر سے دیکھا جائے توتہذیبی سطح پر مغربی دنیا بالخصوص امریکہ اور برطانیہ کی سیٹلائٹ تہذیب صرف اسلامی دنیا پر ہی نہیں مشرق کے ایک بڑے حصے پر غالب آچکی تھی اور مزید غالب آتی چلی جا رہی تھی۔اس سلسلے میں سامنے کی مثالیں یہ ہیں کہ سیٹلائٹ کے اس دور میں امریکی اور برطانوی میڈیا ہمارے اسلامی اور مشرقی ممالک میں ایک خاص اہمیت کر چکا تھا۔اس کے اثرات ہماری فلموں،ٹی پروگرامز سے لے کر ہماری عام زندگی تک گہرے ہوتے چلے جا رہے تھے۔ہم اپنے میڈیا کی اطلاعات کے مقابلہ میں امریکی اور برطانوی میڈیا کی اطلاعات پر زیادہ بھروسہ کرتے تھے اورغیر محسوس طریقے سے مغربی تہذیب کی چکا چوند کے زیر اثر آتے چلے جا رہے تھے۔گلوبل کلچر کی ایک نا مکمل سی شکل بھی بننے لگی تھی۔پورے انسان کی بات کرنے والے نیک نیتی سے خوش تھے کہ اس کرۂارض پر سارے انسان کسی نسلی، قومی،مذہبی،رنگت کے فرق یا کسی اور فرق کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسان ہونے کی بنیاد پر پہچانے جائیں گے۔اس طریقے سے اگر دیکھا جائے تو خود امریکی اور اس سے منسلک دوسرے ممالک کی تہذیب ہی غالب آتی جا رہی تھی۔امریکہ واضح طور پر کسی خون خرابہ کے بغیر تہذیبی جنگ میں فتح یابی کی طرف گامزن تھا۔ایک ایسی امریکی تہذیب فتح حاصل کر رہی تھی جس کے خود اپنے تہذیبی خدو خال ”تہذیب“کے کسی بڑے پیمانے پر پورے نہیں اترتے تھے۔
۔۔۔۔لیکن جیسے ہی امریکہ نے افغانستان پر اسامہ بن لادن کے بہانے سے شدید حملہ کیا،خون خرابہ کرنے کے باوجود امریکہ تہذیبوں کی جنگ میں بہت پیچھے آگیا ہے ۔فلسطینیوں پر یہودی حکومت کے وحشیانہ حملوں نے اس تہذیبی جنگ میں امریکی شکست کے امکانات کو مزید واضح کردیاہے۔اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل جو کچھ فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا ہے،وہ مکمل طور پر امریکی حمایت کے بعد کر رہا ہے۔پھر بھارت کے صوبہ گجرات کے انتہا پسند ہندوؤں کے عام اور مظلوم مسلمانوں پر وحشیانہ حملوں کے بارے میں امریکی حکومت کا ڈپلومیٹک انداز۔۔یہ سب شاید اسی تہذیبی ٹکراؤکا حصہ ہیں ۔ اسی کے نتیجہ میں پوری اسلامی دنیا کے عوام میں اسلامی تہذیب کے تحفظ کا وہ احساس بیدار ہونے کی امید ہے جو ایک عرصہ سے خود مغربی میڈیاکی سحر کاری میں کہیں سوکر رہ گیا ہے ۔اسی لئے میں نے لکھا ہے کہ اگر امریکہ نے تہذیبی ٹکراؤشروع کیا ہے تو اس نے خود اپنی اس جیت کو شکست کی راہ پر ڈال دیا ہے۔اسلامی تہذیب اور مشرقی تہذیب کی وسعت اور پھیلاؤکے سامنے امریکی تہذیب جو اپنے تہذیبی عقب میں کسی قدیم ثقافت کے ثمرات سے بھی محروم ہے ،کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔ خیال رہے کہ بات ملکوں کی نہیں تہذیبوں کی ہو رہی ہے۔
افغانستان پر امریکی تسلط سیاسی طورپر اور معاشی طور پر بھی اس کے لئے نقصان کے سوا کچھ نہیں لائے گا۔ سویت یونین روس کی جن سابقہ ریاستوں سے اس نے تیل کے ذخیرے نکال کر لانے ہیں ان کے لئے افغانستان پر اس کا مکمل کنٹرول ہونا یا پھر افغانستان میں مکمل امن و امان کا قائم ہونا بے حد ضروری ہے۔یہ دونوں امور امریکیوں کے بس میں نہیں ہیں۔افغانیوں کا جتنا خون بہالیں،ان کی مرضی کے خلاف امریکہ وہاں کچھ بھی نہیں کرپائے گا۔یوں اس جنگ میں” افغانیوں کے خون سے غسل کرنے“ کے سوا امریکہ کو نہ کوئی کامیابی ملی ہے نہ اس طریقے سے کوئی کامیابی مل سکتی ہے۔اس کے تہذیبی،سیاسی اور اقتصادی مقاصد ابھی تک پورے نہیں ہوئے اور نہ ہی اس طریقے سے پورے ہو سکتے ہیں جو امریکہ نے اختیار کر رکھا ہے۔
۔۔۔۔تہذیبی ٹکراؤمیں صرف فوجی قوت ہی کام نہیں کرتی۔اس میں حملہ آور تہذیب کا اپنا تہذیبی سرمایہ بھی بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔چونکہ امریکہ کے پاس نہ ایسا کوئی تہذیبی سرمایہ ہے اور نہ صلیبی جنگ کے نعرے میں کوئی جان تھی اسی لئے امکان غالب یہی ہے کہ امریکہ اپنی تہذیبی اور صلیبی دونوں جنگیں ہار سکتا ہے۔ہاں ظلم اور زیادتی کی جنگ ابھی وہ جیت سکتا ہے۔اور جیت رہا ہے۔
۔۔۔۔افغان عوام ہوں ،مجبور اور بیکس فلسطینی ہوں،انڈیاکے مقہور مسلمان ہوں یا تیسری دنیا کے سارے مظلوم عوام۔۔ان کے دلوں میں امریکہ کے لئے نفرت گہری ہوتی جا رہی ہے۔جو لوگ اپنے سینوں پر بم باندھ کر ذلت کی زندگی پر عزت اور وقار کی موت کو ترجیح دیتے ہوں اور جو جان کو خدا کی امانت سمجھ کر ہتھیلی پر لئے پھرتے ہوں،امریکہ ایسے لوگوں پر فتح حاصل کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔اگر فتح دلوں کو جیتنے سے ہوتی ہے توشاید اس وقت دنیا میں سب سے بڑا شکست خوردہ ملک امریکہ ہے۔میرے نزدیک اس کے سب سے زیادہ ذمہ دار امریکی صدر بُش جونیئر ہیں۔ امریکہ کے دانشور طبقے کو خود موجودہ امریکی حکومت کے طرزِ عمل کا جائزہ لینا چاہئے اور ”تاریخ کی موت“کا اعلان کرنے کے بجائے اب تک کی غلطیوں کی تلافی کے لئے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ آنے والے وقت میں لکھی جانے والی اِس زمانے کی تاریخ میں امریکی حکام کا کردارامریکی قوم کے لئے بھی بہت زیادہ شرمندہ کرنے والا نہ ہو۔
٭٭٭