۔۔۔۔مشرق اور مغرب کے سیاسی تناظر میں بہت کچھ لکھا جارہا ہے اور ہمارے مشرقی نکتۂنگاہ سے ایسا سارا لکھا ہوا بے حد صائب بھی ہے۔میں یہاں سیاسی تناظر سے پہلے مغربی معاشرے کے اُس ذہنی پس منظر کے حوالے سے بات کروں گا جو ہمارے موجودہ ذہنی ٹکراؤکا سبب بنا ہوا ہے۔ پھر تھوڑا سا سیاسی حوالے سے بھی بات کروں گا۔
۔۔۔۔مغربی ممالک کے بارے میں ہم لوگوں کا تاثر ہمارے اپنے ذہنی پس منظر سے بنا ہے اور ہمارے بارے میں مغربی ممالک کا تاثر اُن کے اپنے ذہنی پس منظر سے تعمیر ہوا ہے۔مغربی ممالک کے بارے میں ہم اگر انسانی تاریخ کے حوالے سے ایک سرسری جائزہ لیںتو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے گرم ممالک کے مقابلہ میں ان ٹھنڈے یخ ممالک کے انسانوں کو ابتدائی انسانی زندگی میں شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔شدید ترین گرمی کے مقابلہ میں شدید ترین سردی کو برداشت کرنا زیادہ مشکل ہے۔مغربی ممالک کے انسان کو ایسے ہی مشکل ترین ماحو ل سے گزر کر موجودہ عہد کی پُر آسائش زندگی نصیب ہوئی ہے۔اس دوران خود یورپ نے پوپ کی حد سے زیادہ مذہبی دخل اندازی سے تنگ آکر ایک طویل سیاسی جدوجہد کی جس کے نتیجہ میں خاصا خون خرابہ ہوا لیکن آخر پوپ کو ویٹی کن سٹی تک محدود کیا گیا اور اس حد میں اسے سارا مذہبی احترام دے کر مسیحیت کی ترویج اور انسانیت کی فلاح کے کام کرنے کے لئے بہت سارا اختیار دے دیاگیا۔
۔۔۔۔۔اُدھر امریکہ میں جب جمہوری عمل کی نشوونما ہونے لگی تو وہاں کے مسیحی مذہبی حلقوں نے ان تبدیلیوں کو اپنے مذہب کے خلاف قرار دیتے ہوئے ان کی مزاحمت کرنا شروع کی۔تب مذہبی حلقوں اور دانشور طبقے میں شدید ٹکراؤہوا۔Fundamentalist (مذہبی بنیاد پرستی)کی
اصطلاح سب سے پہلے خود امریکہ کے مذہبی انتہا پسند طبقے کے خلاف استعمال کی گئی اور ایک عرصہ تک امریکہ میں اس کا بڑا چرچا رہا۔اب جو ہمارے انتہا پسند علماءکے سلسلے میں یہ اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ صرف مسلمانوں کے مذہبی لیڈروں اور ان کے پیروکاروں کے لئے گھڑی گئی ہے۔یہ وہی اصطلاح ہے جسے وہ اس سے پہلے خود اپنے مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف استعمال کر چکے ہیں۔
۔۔۔۔یورپ اور امریکہ کے عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اپنے ڈھنگ سے جینا چاہتے ہیں۔اس کے لئے کسی اور کے مذہب کا تو ذکر ہی کیا وہ خود اپنے مذہب کی پابندی کرنا زیادہ ضروری نہیں سمجھتے۔بس ایک معاشرتی حد تک مذہب ان کی ضرورت ہے،اس سے زیادہ نہیں۔ایک طرف ا ہلِ مغرب کا زندگی کی طرف عمومی رویہ ایسا ہے تو دوسری طرف ان کے دینی اسکالرز نے اسلام کے بارے میں کچھ دانستہ اور کچھ نادانستہ ایسی غلط فہمیاں پیدا کی ہیں جو ان لوگوں کے ذہنوں سے چپک کر رہ گئی ہیں۔پھرمشرقی ثقافت سے مغربی عوام دیکھنے کی حد تک تو لطف لیتے ہیںلیکن اس کے سماجی بندھنوں کو وہ جکڑبندیاں سمجھتے ہیں۔ اور انہیں ایسی زندگی گزارنے کے تصور سے بھی خوف آتا ہے۔ اب جن لوگوں نے اپنے انتہائی قابلِ احترام پوپ کو بھی ایک کونے میں بٹھا دیا ہو۔اپنی زندگی سے مذہب کے بہت زیادہ عمل دخل کو ختم کردیا ہو اورنجی آزادی کو اہمیت دی ہواُن کے سامنے مشرقی معاشرت یا کسی اور مذہب کی طالبان جیسی سختی کے ساتھ پابندی انہیں حد سے زیادہ خوفزدہ کر دیتی ہے۔اسی لئے ان کے نزدیک ایسی معاشرت کے علمبرداربنیاد پرست ہیں۔
۔۔۔۔یہ میں نے ابھی تک مغربی معاشرے کے حوالے سے بات کی ہے۔جہاں تک سیاسی زاویے سے دیکھنے کی بات ہے ،میں مغربی ملکوں کو اس حد تک تو فلاحی جمہوری مانتا ہوں کہ یہاں ہر انسان کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کی جاتی ہیں ۔ان کے سیاسی اور سماجی حقوق کا احترام کیا جاتا ہے۔سماجی انصاف کی فراہمی عمومی طور پرخوش کن ہے۔لیکن اگر اس جمہوریت کو غور سے دیکھا جائے تو یہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کانظام ہے۔بے شک پہلے یہاں جمہوریت عوام کی سطح سے شروع ہوئی لیکن رفتہ رفتہ اسے یہاں کے سرمایہ داروںاورصنعتکاروں نے اپنے قابو میں کر لیا۔اب یہاں کے بڑے بڑے صنعتکار اور ان کے نمائندے ہی پارلیمنٹوں تک پہنچ پاتے ہیں۔صنعتی مفادات کا ایک سلسلہ ہے جو اِن معاشروں میں جاری و ساری ہے۔چونکہ عوام کی اکثریت کو ان کی بنیادی ضرور یات آسانی سے فراہم کر دی جاتی ہیں اس لئے عوام کو خود اقتدار میں اس حد تک شریک ہونے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کہ وہ بھی پارلیمنٹ تک پہنچ پائیں۔ہم جمہوری روایات سے زیادہ بہرہ ور نہیں ہیں اس کے باوجود الیکشن کے دنوں میں ہمارے ہاں جو رونق میلہ ہوتا ہے ،مغربی ممالک میں ہونے والے انتخابات میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں دیکھا جاتا۔اس لحاظ سے اگر کہا جائے کہ مغربی ممالک میں سرمایہ دارانہ اور صنعتی نظام کی سرپرست جمہوریت پھل پھول رہی ہے تو یہ بے جا نہ ہو گا۔
۔۔۔۔اسی سرمایہ دارانہ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے جمہوری نظام نے اب دنیا کے ہر اُس خطے پر نظر رکھی ہوئی ہے جہاں اُنہیں سرمایہ میں غیرمعمولی اورپُر کشش اضافے کا امکان دکھائی دے رہا ہے۔ دولت کے یہ انبار انہیں عرب ممالک کے تیل کے خزانوں کے ذریعے سے ملیں یا افغانستان کے رستے سے سابقہ سوویت یونین کی بعض سابقہ ریاستوں سے ملیں،انہوں نے وہاں تک لازماً رسائی حاصل کرنا ہے۔
۔۔۔۔مغربی ممالک کے عوام کے دلوں میں اسلام سے متعلق ایک نفرت آمیز خوف مسیحی علماءنے صدیوں سے پیدا کر رکھا ہے۔مغربی طرزِ زندگی بھی وہاں کے عوام کے لئے اسلام سے ذہنی دوری کا باعث ہے۔تاہم مغربی سیاستدانوں کو تب سے اسلام سے شدید خوف محسوس ہونے لگا ہے جب سے انہوں نے سوویت یونین کی شکست و ریخت کا منظر دیکھا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ممالک کی طرف سے اسلحہ کی فراہمی نہ ہوتی، بھر پوراقتصادی اور سیاسی امدادنہ ہوتی تو افغانستان محض عرب ممالک اور پاکستان کے تعاون سے کبھی بھی سوویت روس نواز حکومت کو ہٹا نہیں سکتا تھا۔امریکہ کے پیش نظر تو صرف اتنی سی بات تھی کہ اسے ویت نام میں جو شدید ہزیمت اٹھانا پڑی تھی کچھ ویسی ہی ہزیمت روس کو مل جائے۔۔۔۔اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس
جدو جہد میں جسے تب امریکہ خود بڑے طمطراق سے”جہاد“قرار دیتا رہا ،اس سے سوویت یونین کے ٹکڑے ہوجائیں گے۔جب ایسا ہو گیا تب پہلے تو امریکہ تھوڑا سا خوشی کے نشّے میں رہا لیکن جلد ہی اس کا نشہ ان لوگوں کے جذبۂجہاد کے خوف سے ہرن ہو گیا۔اس خوف کی جو بھی نفسیاتی توجیہات کر لی جائیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کا یہ خوف ہی اسلام کے خلاف محاذ آرائی کا سبب بن گیا۔مزید اتفاق یہ ہوا کہ امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پُر کشش مالی مفادات بھی اِنہیں اسلامی خطوں سے وابستہ تھے ۔یوں امریکہ نے افغانستان میں جو کچھ کیا اور جو کچھ ابھی اس نے کرنا ہے اس میں اسے اپنے نفسیاتی ”اسلامی خوف“ سے نجات کے ساتھ اپنے مفادات بھی سمیٹنے ہیں۔
۔۔۔۔مغربی ممالک کے عوام جو پہلے سے اپنے مذہبی رہنماؤں سے چھٹکارا حاصل کرچکے تھے۔ان کے لئے جب مغربی میڈیا نے”اسلامی بنیاد پرستی“کا ہوّا کھڑا کیا تو وہ فوراً اس پروپیگنڈہ کے زیر اثر آگئے۔عمومی طور پر اس وقت مغربی ممالک کے باشندے اسلام فوبیا میں مبتلا ہیں۔ مغربی میڈیا دن بدن اس فوبیا کو بڑھا رہا ہے۔اس حوالے سے جب میں ایک عام پاکستانی اور ایک مغربی باشندے کا ذہنی تجزیہ کرتا ہوں تو میں یہ بات ایمانداری سے لکھ رہا ہوں کہ ہمارے ایک عام شہری کی سیاسی سوچ اور بصیرت مغربی ممالک کے عام شہریوں سے کہیں بہتر اور اِن کا واقعات کو سمجھنے کا تجزیہ سرکاری پروپیگنڈے کے باجود اِن کے اپنے ذہن کا زائیدہ ہوتا ہے۔جبکہ مغربی عوام زیادہ تر اپنے میڈیا ہی پر انحصار کرتے ہیں۔
۔۔۔۔”طالبان“نے دین اسلام اور اس کی تشریح کے حوالے سے بعض انتہائی فاش قسم کی غلطیاں نہ کی ہوتیں اور اپنے مسلک کو کٹڑ پن کی حد تک نہ لے گئے ہوتے تو شاید افغانستان کو اتنی بڑی تباہی کا شکار ہونے سے بچایا جا سکتا۔تاہم طالبان کی سیاسی اور مذہبی فیصلوں کی کئی غلطیوں کے باوجود امریکہ اور برطانیہ نے افغانستان پر جو ظلم توڑا ہے وہ تاریخ انسانیت کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔ یہ جاننے کے باوجود بھی کہ کوئی اسلامی ملک اس کے سامنے پر نہیں مار سکتا،امریکہ نے جن اسباب کے تحت بھی افغانستان میں جو کچھ کیا ہے،اس سے ایک بات تو بہر حال ثابت ہو گئی ہے کہ انسان مادی ترقی کی دوڑ میں کتنا ہی عظیم، کتنا ہی ترقی یافتہ۔۔ اور کتنا ہی مہذب ہو جائے،اس کے اندر کا وحشی درندہ کبھی نہیں مرتااور ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس “کا قانون ہی اصل سچائی ہے۔
امریکہ نے اس سچائی کواکیسویں صدی میں پھر سے ثابت کردیا ہے!
٭٭٭