۔۔ایک شاعر اور ادیب ہوتے ہوئے مجھے اس صحافیانہ کالم نگاری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
میرے ادبی دوستوں کو یقیناً اس پر حیرت ہو گی۔گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ءکے بعد عالمی سیاسی اخلاقیات اور اصولوں کی دنیا کا نقشہ جس سرعت کے ساتھ تبدیل ہوا،اس پر باقی دنیا کی طرح میں بھی عجیب سے دکھ اور بے بسی کی کیفیت میں مبتلا تھا۔شاعری یا کہانی کی صورت میں کچھ لکھنے کا ارادہ کیا تو جو کچھ لکھا گیا وہ میرے نزدیک صحافتی سطح کی شاعری اور اسی سطح کے افسانے بنتے تھے۔میں نے دو نظمیں اور تین افسانے لکھ تو لئے لیکن میری ان نظموں اور کہانیوں نے ہی مجھے روک لیا۔صحافت کا اپنا ایک جہان ہے ،جو ادب سے قربت رکھنے کے باوجود بالکل الگ جہان ہے ۔میں ادب اور صحافت میں پیش کش کے بنیادی فرق کو ہمیشہ ملحوظ رکھتا ہوں۔اسی لئے صحافیانہ انداز میں کہانیاں لکھنے والوں کی طرح اپنی کہانیاں پیش کر کے میں اس موضوع ،اس انسانی اور عالمی سیاسی المیہ پر اپنے جذبات کا پورے طور پر اظہار نہیں کرپاتا۔ بے شک بعض بڑے افسانہ نگاروں نے بعض ہنگامی موضوعات کو مس کرکے بھی بڑی کہانیاں لکھی ہیں لیکن میری لکھی کہانیاں مجھے ادبی تقاضوں سے ہٹ کر سطحی ہونے کا احساس دلا رہی تھیں۔چنانچہ ان کہانیوں اور نظموں کے کہنے پر میں نے ان سب کو ضائع کر دیا۔
۔۔۔۔باخبری کتنی بڑی نعمت اور کتنا بڑا عذاب ہے؟ مجھے ہمیشہ سے اس کا احساس رہا ہے کیونکہ میں اخبارات کا مستقل قاری ہوں۔اپنے ارد گرد سے بے خبر نہیں رہ سکتا۔پھرنائن الیون کے بعد جو قیامتیں گزری ہیں ،ان سے کیسے بے خبر یا بے تعلق رہ سکتا تھا!میںعالمی اور ملکی صورتحال پر مختلف انداز سے غور کرنے او راسے اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق سمجھنے کے نتیجہ میں مختلف ذہنی کیفیتوں سے گزرتا رہا۔اسی عرصہ میں نائن الیون کے سانحہ کو چھ ماہ گزر گئے۔
۔۔۔۔ اور پھر وہ ۲۳مارچ ۲۰۰۲ءکا دن تھا۔جب میں اسی گومگو ،بے چینی اور کرب کی کیفیت میں مبتلا تھا۔عالمی صورتحال سے لے کر علاقائی اور ملکی صورتحال تک جو کچھ دکھائی دے رہا تھا اس سب سے نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔اسی بے یقینی بے بسی اور دکھ کی حالت میں کوئی نظم یا کہانی لکھنے کے بجائے حالاتِ حاضرہ پر براہِ راست لکھنے کی تحریک ہوئی۔اور اسی دن میں نے ایک آرٹیکل لکھا جس کا عنوان رکھا ”ہماری اجتماعی غلطیاں“۔۔۔پھر اسی دن شام کو ایک اور آرٹیکل لکھا۔”اختلافِ عقیدہ کی بنیاد پر نفرت کیوں؟“۔۔۔یہ دونوں آرٹیکل اسی دن میں نے ای میل کے ذریعے اپنے کرمفرما ہارون عباس کو ان کی ویب سائٹ القمر آن لائن ڈاٹ کام کے لئے بھیج دئیے۔
۔۔۔ تب ہم اکثر ہاٹ میل میسنجر پر دن میں کئی کئی بار ملا کرتے تھے۔ہارون عباس سے اسی دن طے ہو گیا تھا کہ اگر ایسا کچھ لکھوں گا تو ان کو بھیجوں گا۔شومیٔقسمت کہ اِدھر میں نے ان کو اپنے آرٹیکل بھیجے اُدھر ان کی ویب سائٹ کسی ٹیکنیکل مسئلے کی وجہ سے غائب ہو گئی۔تاہم اس دوران میں نے اپنے آرٹیکل کے لئے ”منظر اور پس منظر “کا نام بھی طے کرلیا۔جب القمر آن لائن زیادہ دیر کے لئے آف لائن ہوگئی تو میں نے امریکہ میں قائم اردو کی ویب سائٹ” اردوستان ڈاٹ کام“ کے کاشف الہدیٰ سے بات کی۔انہوں نے کالم منگا کر پڑھے۔کچھ ان پر ڈسکس ہوئی اور پھر اسے اردوستان کا مستقل کالم بنا لیا گیا۔ابتدا میں ایک سہو یہ ہوا کہ پہلے کالم کو بعد میں اور بعد والے کالم کو پہلے لگا دیا گیا۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ ترتیب کے لحاظ سے یہ دونوں کالم اسی طرح لکھے گئے تھے جیسے اوپر ذکر کرچکا ہوں۔اور اصلاً ۲۳مارچ ۲۰۰۲ءکو لکھے گئے تھے۔جبکہ اردوستان ڈاٹ کام پر ۸اپریل ۲۰۰۲ءاور ۱۵اپریل ۲۰۰۲ءکو آن لائن ہوئے۔
۔۔۔باقی کے سارے کالم جیسے جیسے لکھے جاتے تھے ویسے ویسے ہی کاشف الہدیٰ صاحب کو بھیج دئیے جاتے تھے اور عموماً ایک دو دن کے وقفہ کے ساتھ آن لائن ہو جاتے تھے۔ہر کالم کے ساتھ میں نے فہرست میں ہی آن لائن کئے جانے کی تاریخ درج کر دی ہے تاکہ کسی واقعہ کو اس کے زمانی پس منظر میں رکھ کربھی سمجھا جا سکے۔اس کے لئے کاشف الہدیٰ صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے از خود تاریخوں کے اندراج کا کام کرکے میرے لئے سہولت پیدا کر دی۔
۔۔۔۔اگرچہ ہارون عباس صاحب نے بھی اپنی سائٹ کے مزاج کے مطابق میرے بہت سے کالم اپنی سائٹ القمرآن لائن پر لگا رکھے ہیں تاہم ۲۵کالموں پر مشتمل اس کی پوری فائل صرف کاشف الہدیٰ صاحب کی ویب سائٹwww.urdustan.com پر دستیاب ہے، اور اب یہ سارے کالم کتابی صورت میں شائع ہو رہے ہیں۔یہ کالم میری کسی سیاسی بصیرت کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ حالاتِ حاضرہ پر میرے دکھ اور کرب کے اظہار کے ساتھ ان حالات سے نکلنے اور دنیا کو جنتِ ارضی کی صورت میںدیکھنے کی خواہش کا نتیجہ ہیں۔ اسے کسی اچھے صحافی کی تحریریں نہیں سمجھیں بلکہ ایک عام پاکستانی ذہن اور ایک چھوٹے سے ادیب کی ذہنی کیفیات سمجھیں۔میں اپنے ادبی اصولوں پر قائم ہوں،جن کے مطابق شدید دکھ کی کیفیات پر فوری طور پر تخلیقی اظہار ممکن نہیں ہوتا اورایسا جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ عموماً اچھا فن پارہ نہیں بن پاتا۔اسی لئے حالاتِ حاضرہ کے شدید دباؤکے باعث میں نے اپنے دکھ کے اظہار کے لئے ادب کے نام پر سطحی تخلیقات پیش کرنے کی بجائے براہِ راست موجودہ حالات پر اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کر دیا ہے۔میرے لئے ایسا کرنا ناگزیر تھا ورنہ شاید میرا دَم گھٹ جاتا۔
۔۔۔۔”منظر اور پس منظر “کے تحت میں نے جو کچھ لکھا ہے ان میں سے تین اہم نکات ایسے ہیں،جو ویسے تو نئی بات نہیں تھے لیکن جن کو موجودہ سنگین حالات کے تناظر میں شاید مجھے ہی پہلی بار پیش کرنے کی توفیق ملی ہے۔عین اس وقت جب انڈیا اور پاکستان کی فوجیں آمنے سامنے آگئی تھیں جنگ کا شدید خطرہ تھا تب میں نے جنوبی ایشیا میں مستقل امن کے قیام کی خواہش کے ساتھ ایوب خان کے دور میں ہندوستان کو خصوصی دوستی کے لئے کی جانے والی ایک پیش کش کا ذکر کرتے ہوئے یوروپی یونین کی طرز پر سارک یونین کو متحرک کرنے کا ذکر کیا تھا۔(ایوب خان نے صرف مشترکہ دفاع ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے ساتھ ایک ڈھیل ڈھالی کنفیڈریشن قائم کرلینے کا عندیہ دیا تھا)اس حوالے سے میرا پہلا کالم ۲۲جولائی ۲۰۰۲ءکو آن لائن ہوا( انڈوپاک مسائل اور مستقبل)۔اور دوسراکالم ۵جنوری ۲۰۰۳ءکو آن لائن ہوا (سارک یونین کا قیام وقت کی ضرورت)۔مذکورہ پہلے کالم کے بعد سارک یونین کے حوالے سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے ایک مضمون (”ہماری خارجہ پالیسی اور خطہ کی صورتحال“از بے نظیر بھٹو۔جنگ ۔انٹر نیٹ ایڈیشن 25 دسمبر2002 ء) میں سارک یونین کو یورپین یونین کی طرز پر متحرک کرنے کی بات کی۔ان کے اسی مضمون کے نتیجہ میں میں نے اس موضوع پر اپنا دوسرا کالم ۵جنوری ۲۰۰۳ءکو پیش کیا۔ پھر بنگلہ دیش میں مئی ۲۰۰۳ءمیں ہونے والی ایک اہم کانفرنس میں مشاہد حسین نے مشترکہ دفاع کے مسئلہ پر ایوب خان کی پیش کش کا حوالہ پیش کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ ایوب خان سے پہلے قائدِ اعظم نے بھی ہندوستان کو مشترکہ دفاع کا مشورہ دیا تھا۔اس کے نتیجہ میں ارشاد احمد حقانی نے اپنے کالم(”پاک بھارت تعلقات۔۔ایک تجزیہ“ جنگ انٹرنیٹ ۷جون،۸جون۲۰۰۳)میں اس اہم نکتہ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔مجھے خوشی ہے کہ ہمارے بڑی سطح کے قومی دانشور جس نہج پر سوچ رہے ہیں میرے جیسے عوام بھی لگ بھگ اسی میں اس خطے کی نجات محسوس کرتے ہیں۔یہ الگ بات کہ ان پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آنے دی جا رہی کیونکہ پورے خطے کے برسرِ اقتداربیشتر ٹولوں کے مفادات باہمی دشمنی کے ڈرامے میں ہی پورے ہوتے ہیں۔
۔۔۔دوسری بات۔۔میں نے اپنے بچپن میں ایک کتابچہ پڑھا تھاالکفر ملة واحدة جس میں بتایا گیا تھا کہ اسرائیل کے قیام سے مسئلہ صرف یروشلم کا نہیں بلکہ مسئلہ خود مکہ اور مدینہ کی عزت ،سلامتی اور آزادی کا ہے۔کیونکہ گریٹر اسرائیل کے نقشہ میں مکہ اور مدینہ کو شامل رکھا گیا ہے۔
۔۔۔۔اسی وجہ سے میں نے اپنے دو کالموں ”تاریخ سے فرار کیوں“(۱۳مئی ۲۰۰۲ء) اور”انتہائی خطرے کی گھنٹی“(۱۲اگست ۲۰۰۲ء)میں اسی حوالے سے نشاندہی کر دی کہ اب مکہ اور مدینہ پر عالمی گِدھ منڈلانے لگے ہیں۔میرے دوسرے کالم کے بعد نہ صرف بعض مقتدر کالم نگاروں نے اپنے طور پر اسی حوالے سے کالم لکھے بلکہ مختلف ٹیلی وےژن چینلز پر بھی اس سنگین مسئلہ پر گفتگو ہونے لگی۔گو یا خطرے کا ادراک کیا جانے لگا۔متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی نے بھی ایک بیان میں کہا کہ واقعی اسرائیل کا گریٹر اسرائیل کا منصوبہ ہے اور اس کا نقشہ میں نے منگا یا ہے۔اس میں مکہ اور مدینہ کو بھی اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
۔۔۔۔کاش اس وقت ہمارے رہنماؤں نے اس آواز پر کان دھرا ہوتا جب بظاہر بالکل نارمل حالات میں اس خطرے کی نشاندہی نصف صدی پہلے کی گئی تھی۔لیکن ہمارا مزاج بھی تو اب یہی بن گیا ہے کہ جب تک پانی سر سے اوپر نہیں گزر جاتا ہمیں خطرے کی سنگینی کا احساس نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔تیسری بات عالمی صورتحال کو آسمانی اور بعض دینی کتب میں مذکور پیشین گوئیوں کی روشنی میں دیکھنے کی کاوش تھی۔میں نے اپنے کالم”عراق پر اینگلو امریکن حملہ“(۳۰مارچ ۲۰۰۳ء)کے آخر میں مذہبی حوالے سے لکھا تھا کہ اگر شام کو اس کھیل میں ملوث کیا گیا تو عالمی جنگ چھڑ جائے گی۔میں نے واضح طور پر مذہبی پیشین گوئیوں کی بنیاد پر اس خدشہ کانہیں بلکہ یقین کا اظہار کیا تھا۔یہ کالم ۳۰مارچ کو آن لائن ہوا۔میں اس کی اطلاع جن بعض احباب کو ای میل سے دیا کرتا ہوں ان میں اے آر وائی چینل کے معروف پریزینٹر ڈاکٹر شاہد مسعود بھی شامل ہیں۔چنانچہ اس کالم کی اشاعت کے اگلے ہی دن یعنی ۳۱مارچ ۲۰۰۳ءکو رات کو اپنے پروگرام ویوز آن نیوز میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے ڈاکٹر اسرار احمد سے اس موضوع پر گفتگو کی کہ حالاتِ حاضرہ کے بارے میں قرآن و حدیث سے کیا خبر ملتی ہے؟۔مجھے یہ پروگرام دیکھ کر خوشی ہوئی کہ میرے ایک نکتہ نے ایک اہم پروگرام کے پیشکار کو فوری طور پرمتوجہ کیا۔لیکن ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اصل موضوع پر کوئی اہم بات نہیں کر سکے۔شاید وہ اس حوالے سے کوئی تیاری نہیں کر سکے تھے اور اس موضوع کو اس زاویے سے دیکھ بھی نہیں رہے تھے۔چنانچہ میں نے اگلے روز ہی نیا کالم لکھا”موجودہ حالات اور مذہبی پیشگوئیاں“۔اس میں وہ بیشتر حوالے درج کر دئیے جو آج کے حالات اور مزید آنے والے ایام کی نشاندہی کرتے ہیں۔یہ کالم ۳اپریل ۲۰۰۳ءکو اردوستان پر آن لائن ہوا۔
۔۔۔۔یہ حوالے آج بھی ایسی پیشگوئیوں سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے مزید غور کا سامان فراہم کرتے ہیں۔بہر حال ان تین مثالوں سے یہ بتانا مقصود ہے کہ حالات کے شدید دباؤکے باعث وقتی طور پر سہی،میں نے جو کچھ لکھا ہے،میرا نام لئے بغیر سہی لیکن کسی نہ کسی رنگ میں بڑی سطح پر اس
کا نوٹس لیا گیا ہے۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری پروپیگنڈے کے باوجود پاکستان کے عوام ،عام لوگ اپنے طور پر درست نتائج اخذ کرنے اور حالات کی کنہ کو سمجھنے کی
صلاحیت رکھتے ہیں۔ہاں حالات و واقعات کی قومی سطح ہو یا بین القوامی سطح ہو،بے بسی ہمارا مقدر ہے۔میرے یہ کالم دکھ اوربے بسی کی کیفیت میں گھرے ہوئے ایک عام پاکستانی کے خیالات کا اظہار ہیں۔اور بس!
۔ حیدر قریشی
ای میل: [email protected]
(جرمنی سے)