اردو ماہیے کے بانی ہمّت رائے شرما جی کی چار کتابوں پر میںنے تعارفی نوعیت کے مضامین لکھے ہیں۔ ”شہاب ثاقب“ (شاعری) ، ” میاں آزاد کا سفر نامہ“ (پیروڈی) ،” ہندو مسلمان “(کہانیاں) ، اور نکاتِ زباندانی“ ۔ ان کتابوں پر لکھے ہوئے میرے مضامین بر صغیر کے مختلف اخبارات ورسائل میںشائع ہو چکے ہیں ۔ تاہم میں نے شرما جی کے بارے میں سب سے پہلے جو مضمون لکھا تھا وہ تعارفی سے زیادہ تحقیقی نوعیت کا تھا۔ ’اردو ماہیے کے بانی ہمّت رائے شرما ‘ کے عنوان سے لکھے گئے اپنے اولین مضمون کے بعد مجھے اسی تحقیقی حوالے سے پھر ایک اور مضمون بھی لکھنے کا موقعہ ملا جو اس عنوان سے شائع ہو چکا ہے ” اردو ماہیے کے بانی ہمّت رائے شرما ، فلم ”خاموشی “ کے گیت اور تحقیق مزید“۔
اردو ماہیے کی تحریک ابھی ابتدائی مراحل سے گزر رہی ہے۔ کل تک ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ صرف فلم ”پھاگن“ اور ” نیا دور “ میں قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی نے اردو ماہیے لکھے تھے لیکن اب تک یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ ان سے پہلے ہمّت رائے شرما اور قتیل شفائی نے فلم ” خاموشی “اور فلم” حسرت“ (پاکستان) میں اردو ماہیے پیش کئے تھے۔ اب تک سات فلموں میں گائے گئے اردو ماہیے دریافت ہو چکے ہیںاور لوک فنکار عطاءاللہ خاں نیازی عیسیٰ خیلوی کے (پرائیویٹ) گائے ہوئے اردو ماہیے بھی سامنے آچکے ہیں۔
میں نے ہمّت رائے شرما جی کے بارے میںاپنے پہلے مضمون میںیہ لکھا تھا کہ ہمّت رائے شرما جی نے درست وزن کے اردو ماہیے سب سے پہلے ۱۹۳۶ءمیں کہے تھے اس لئے انہیں ابھی تک کے ماہیے کے بانی قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی پر اولیت حاصل ہے۔ اسی طرح میںنے یہ بھی لکھا تھا کہ ” تحقیقی اور تاریخی لحاظ سے انہیں چراغ حسن حسرت کے ثلاثی گیت پر بھی اولیت اور فوقیت حاصل ہے“۔ اس سلسلے میں میرے پیش نظر دو اہم باتیں تھیں۔
۱۔ چراغ حسن حسرت کے ثلاثی قسم کے ”ماہیے“ پیش کرنے والوں نے ان کا سال اشاعت ۱۹۳۷ءبتایا تھا جو۱۹۳۶ءکے بعد آتا ہے۔
۲۔ پروفیسر آل احمد سرور نے” کوہسار جرنل“ کے شمارہ دسمبر ۱۹۹۷ءمیں حسرت کے مبینہ ماہیوں کو نظم قرار دیتے ہوئے حمید نسیم کی خود نوشت ” ناممکن کی جستجو “ کا حوالہ دیا تھا۔ چونکہ مجھے جرمنی میں حمید نسیم کی کتاب دستیاب نہ تھی اس لیے میں نے پروفیسر آل احمد سرور کے بیان پر انحصار کرلیا۔ لیکن مضمون کی اشاعت کے بعد اب مجھے ”ناممکن کی جستجو “ کے متعلقہ صفحات ملے ہیں تو اندازہ ہو کہ آل احمد سرور صاحب کو سہو ہوا تھا۔ کیونکہ حمید نسیم نے اس میں ” حسرت“ کے ثلاثی قسم کے گیت کو ماہیا ہی لکھا ہے۔ مزید یہ کہ حمید نسیم کی یاد داشت کے مطابق حسرت نے جنوری ۱۹۳۶ءمیںمذکورہ ” ماہیے“ ایک مشاعرہ میں سنائے تھے۔
تحقیقی معاملات میں حقائق مقدس ہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں ماہیے سے دلچسپی رکھنے والوںکے لئے سامنے لار ہا ہوں ۔ حمید نسیم، ڈاکٹر تاثیر اور چراغ حسن حسرت تینوں ہی میرے نزدیک محترم ہیں۔ اول الذکر دو نے اگر ”باغباں“والے گیت کو ” ماہیا“ لکھا ہے تو ماہیے کی بحث کے حوالے سے مجھے احمد حسین مجاہد کے ایک جوابی مضمون کا اقتباس یاد آگیا ہے۔ وہ اقتباس یہاں درج کر رہا ہوں:
”علامہ اقبال نے اپنے چند قطعات کو رباعی کہا ہے تو کیا علامہ اقبال کے کہنے سے قطعات ، رباعی ہو گئے ہیں…. غالب جیسا بڑا شاعر بھی رباعی کہتے ہوئے بحر سے باہر ہو گیا تھا۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ غالب سے غلطی سرزد نہیں ہوئی“۔
(مضمون ”اردو ماہیے کا وزن“ از احمد حسین مجاہد ،
مطبوعہ ادبی صفحہ روزنامہ ”نوائے وقت“ اسلام آباد، مورخہ۹۸۔۵۔۹ا)
سو حمید نسیم اور ڈاکٹر تاثیر کے الفاظ کو بھی غالب اور اقبال اور رباعی اور قطعہ کے حقائق کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔
جہاں تک حمید نسیم کے اس بیان کا تعلق ہے کہ ڈاکٹر تاثیر جنوری ۱۹۳۶ءمیں امرتسر کالج کے پرنسپل بن کر آئے اور انہوں نے آتے ہی مشاعرہ کرایا۔ ابھی تحقیق طلب ہے۔ شرون کمارورما نے اس سلسلے میں امرتسر سے ریکارڈ تلاش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہاں سے کوئی ریکارڈ نہیں مل سکا۔ البتہ لاہور سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر عارف فرہاد نے پورے اعتماد کے ساتھ ڈاکٹر تاثیر کی بحیثیت پرنسپل ایم اے او کالج امرتسر میں تقرری کی تاریخ ۲۰مئی ۱۹۳۶ءبیان کی ہے۔ سو اس معاملے میں مزید تحقیق کی جا سکتی ہے۔ تاہم یہ دو حقائق بہر صورت اپنی جگہ موجود ہیں کہ:
۱۔ اگر چراغ حسن حسرت نے جنوری ۱۹۳۶ءمیں اپنے مبینہ ” ماہیے“ سنائے تھے۔ تب بھی حسرت کے ثلاثی اور ہمّت رائے شرما کے ماہیوں کی تخلیق کا وقت تقریبا ایک سا ہی بنتا ہے۔ شرما جی کے ماہیے مئی ۱۹۳۶ءمیں چھپے تھے۔ ان کے لکھے جانے، قبول کئے جانے ، بک لٹ میں شامل کئے جانے اور پھر بک لٹ کے شائع ہونے تک کے دورانیہ کا قیاس کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ حسرت اور شرما جی نے تقریبا ایک ہی وقت میں الگ الگ مقامات پر اپنی زیر بحث تخلیقات لکھی تھیں۔
۲۔ قمر جلال آبادی نے حسرت سے لگ بھگ ۲۰سال کے بعد درست وزن کے ماہیے لکھے تھے۔ میں نے تب بھی واضح الفاظ میں لکھا تھا کہ:
” حسرت پنجابی ماہیے کے وزن کی نزاکت کا خیال نہیں رکھ سکے….اس لحاظ سے قمر جلال آبادی اردو کے سب سے پہلے ماہیا نگار قرار پاتے ہیں“
(کتاب” اردو ماہیا نگاری“ص۲۱،۲۲)۔
سو اب قمر جلال آبادی کی جگہ ہمّت رائے شرما جی ہی اردو ماہیے کے بانی ہیں، کسی بھی دوسری ”سہ مصرعی صنف “ کے مصنف کو اردو ماہیے کے بانی ہمّت رائے شرما جی کی جگہ نہیں دی جا سکتی ۔ اس کے باوجود فلم ”خاموشی“ کے لئے لکھے گئے اردو ماہیوں اور فلم” باغباں“ کے لئے لکھے گئے ثلاثی قسم کے گیت کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ ہمّت رائے شرما جی کو زمانی لحاظ سے بھی چراغ حسن حسرت پر تقدم حاصل ہے۔
یہ وضاحتیں اس لئے کر دی ہیںکہ میں نے اپنے دونوں تحقیقی مضامین کو کسی تبدیلی کے بغیر اس کتاب میں شامل کیا ہے۔ اردو ماہیے کے آنے والے زمانے میں یہ سارے تدریجی مراحل ماہیے کے سفر کی داستان سناتے رہیں گے۔
ہمّت رائے شرما جی کے بارے میں لکھے گئے میرے سارے مضامین ان رسائل اور اخبارات میں چھپ چکے ہیں۔ ”اوراق “ لاہور ”انشائ“ کلکتہ۔”جدید ادب“جرمنی۔ ”شعروسخن“ مانسہرہ۔ ” گل کدہ“ سہسوان ۔ روزنامہ ”منصف“ حیدر آباد اور ویکلی ”صدائے پوٹھوہار“ راولپنڈی ۔ فلم ”خاموشی“ کے ماہیوں کے بعد ہمّت رائے شرما جی نے مزید ماہیے بھی کہے ہیں۔ انکی طویل عمر اور علالت کے باعث ان کے بعض ماہیے خارج ازلحن ہوئے تو میں نے انہیں اس طرف توجہ دلائی۔ مجھے خوشی ہے کہ میری درخواست پر انہوں نے ایسے سارے ”ماہیوں“ پر نظر ثانی کی اور مجھے لکھ کر بھیجے۔ سو ان کے اب تک کے سارے ماہیے اپنی اس کتاب میں یک جا کر رہا ہوں۔ ان ماہیوں کے ساتھ ہمّت رائے شرما جی کا خط بھی شائع کر رہا ہوں۔
شرما جی کے فن کے حوالے سے یہ کتاب میری حقیر سی کاوش ہے۔ مجھے امید ہے کہ جیسے جیسے اردو ماہیے کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا ویسے ویسے ہمّت رائے شرما جی کے فن پر مزید کام ہوگا۔
میں برادرم شاہد ماہلی کا خاص شکر گزار ہوں جن کی خصوصی توجہ اور محبت کے باعث یہ کتاب شائع ہو رہی ہے۔
حیدر قریشی
مورخہ۳۰جون ۱۹۹۹ء