ولایتی زبانوں میں ایسے سکیچ اپنے اپنے انداز میں بہت ملتے ہیں لیکن اردو میں ”میری محبتیں“اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے۔
اشفاق احمد(لاہور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی کا ذہن زرخیز ہے اور منہ کھٹی میٹھی باتوں سے لبریز۔حیدر قریشی چونکہ پورا منہ کھول کر جی جان سے بات کرتا ہے اس لئے اس کی تحریر برجستہ اور غیر مبہم ہوتی ہے اور قاری اس میں شامل ہو کر محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس کے خاکے میں ممدوح اسی کی جان پہچان والوں میں سے ہے اور یوں وہ مطالعہ کو بے تامل اپنی مرضی اور خواہش سے گھٹاتے بڑھاتے گویا اس کے بارے میں پڑھ نہیں رہا ہوتا بلکہ اپنے معمول کے دوران اس سے عین مین مل کر اپنے نتائج اخذ کر رہا ہوتا ہے۔حیدر قریشی کی اس خوبی نے اس کے خاکوں کو واقعی بہت جاندار اور قابلِ مطالعہ بنا دیا ہے۔حیدر قریشی کی اس کتاب کے بیس خاکے دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔پہلے دس کے لئے تو وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں ہی تاکا کیا ہے اور باقی دس کے لئے گھر سے باہر نکل آیا ہے۔اوّل خویش،بعد درویش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھر والوں کے تو کلوز اپ تیار ہو گئے ہےں اور درویشوں کے پروفائل، اور ہر دو پر سے نظر ہٹانے کو جی نہیں چاہتا۔ آج کے مشینی دور کی مصروفیت میں سچ مچ کی ملاقاتوں کی گنجائش خطرناک حد تک سکڑتی جا رہی ہے۔ان حالات میں یہ بھی غنیمت ہے کہ اوروں کے خاکے پڑھ پڑھ کر ہی ہماری ان سے ملنے کی چاہ پوری ہوتی رہے۔ یوں نہیں تو یونہی سہی،جیسے بھی انسان اپنے آپ کو ”انسانیا“ لے۔ مجھے یقین ہے کہ حیدر قریشی کی محبتوں کی یہ کتاب بہت دلچسپی سے پڑھی جائے گی!
جوگندر پال(دہلی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”میری محبتیں“کے ابتدائی پانچ چھ مضامین میں نے پوری طرح پڑھے ‘بقیہ کو سرسری دیکھا۔دوسرے حصہ میں پہلے چار خاکے نیز آخری مضمون پرانے ادبی دوست پڑھا۔خوب لکھتے ہیں،آپ نے اپنے بزرگوں کے محیرالعقول واقعات لکھے ہیں‘ان سے میں متاثر ہوا۔ تمام مضامین بہت دلچسپ اور دلکش ہیں۔
ڈاکٹر گیان چند جین(امریکہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی نے اپنی والدہ،دادا،والد،بیوی،بہن اور بچوں کو انسانی زاویے سے دیکھا اور ان کی صرف انسانی خوبیوں کا تذکرہ کیا لیکن یہ تذکرہ اتنا دلچسپ ہے کہ یہ سب کردار حقیقی معاشرے کی غیر معمولی شخصیات نظر آتی ہیں۔”برگد کا پیڑ“ ”اجلے دل والا“ ”زندگی کا تسلسل“ ”پسلی کی ٹیڑھ“بے حد معنی خیز خاکے ہیں اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمانہ جن لوگوں کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر رہا ہے وہ حقیقی معنوں میں عظیم تھے۔ان کی عظمت اشتہاری نہیں تھی۔
ڈاکٹر انورسدید(لاہور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی شاعر ،افسانہ نگار اور انشائیہ نگار بھی ہیں اوران کی یہ تینوں خصوصیات ان خاکوں میں جمع ہوگئی ہیں۔ ان میں جا بجا بہت سے چھوٹے چھوٹے خوبصورت اور خیال انگیز افسانے بھی مل جاتے ہیں ۔۔ایک شاعر کی حیثیت سے انہوں نے کثرت سے شعروں کاموزوں اور برمحل استعمال کیاہے اور ہر خاکے یامضمون کے آغاز میں ان کااپنا ایک شعردرج ہے۔۔ایک انشائیہ نگار کے طور پر ان کے خاکوں میں بہت سے انشائی ٹکڑے موجود ہیں ۔بلکہ یہ خاکے ان کے شوخ اورشگفتہ جملوں سے ہی دلچسپ بنے ہیں۔۔حیدر قریشی نے خاکہ نگاری کے فن کو محض شوخی ، شگفتگی اور تعارف وتبصرہ تک محدود نہیں رکھا۔ان میںنہایت سنجیدہ معاملات اور دانشورانہ نکتے بھی پیداکئے ہیں۔ ان سب خصوصیات کی روشنی میں میری محبتیں “خاکوں کا ایک بہت ہی خوبصورت اور خیال انگیز مجموعہ اورخاکہ نگاری کے فن میں ایک اہم اضافہ ہے۔
منشا یاد (اسلام آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاصر اردو ادب کی بہت سی شخصیات اپنی داخلیت زدگی کی وجہ سے اپنے عہد کے تجربہ کردہ انسانوں کے مسائل کوگرفت میں لانے سے قاصر رہی ہیں۔حیدر قریشی نے اپنی نثری اور شعری تخلیقات میں ذات اور سماج کے معاملات کو یکجا کرنے کے لئے جدےد اسالیبی تنوع سے بھر پور کام لیا ہے۔ان کا ادبی کام باسی کڑھی میں ابال کی مثال نہیں ہے۔حیدر قریشی نے جدید اردو نثر کو تازہ کاری کی ایک پُر تاثےر لہر سے آشناکیا ہے۔
ڈاکٹر سعادت سعید (انقرہ،ترکی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی بھیجی ہوئی”میری محبتیں“مجھے مل گئی ہے۔یقیناََ یہ کتاب کا کمال ہے کہ اسے پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی گیا۔او ر اس وقت تک کسی اور طرف توجہ دینے کا ہوش ہی نہ رہا جب تک کہ وہ ختم نہ ہوگئی۔آپ کی”محبتیں“پڑھی تو آپ کے قلم اور مشاہدہ کا قائل ہونا پڑا۔
محمود ہاشمی (برمنگھم،انگلینڈ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’میری محبتیں‘کئی مرتبہ پڑھ چکی ہوں اور اگر یہی حال رہا تو میں اس کی حافظ ضرور ہو جاؤں گی۔آپ کی تحریر میں بلا کی سادگی اور قاری کو باندھ رکھنے کی طاقت ہے۔درد کی پوشےدہ لہریں دل و دماغ میں اندر تک اتر جاتی ہیں اور قاری اپنے کو قاری نہ سمجھ کر حیدر قریشی بن جاتا ہے،یہ آپ کی تحریر کا کمال ہے۔
ڈاکٹررضیہ حامد(بھوپال)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”میری محبتیں“میری نظر میں اردو خاکہ نگاری میں ہی نہیں مجموعی اردوادب کی بھی ایک بڑی اہم کتاب ہے۔اس کتاب کا پہلا حصہ اس لیے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اسے حیدر صاحب نے اپنے اہل و اقارب کی نذرکیا ہے اور یہ بات اردو ادب میں بہت ہی نادر ہے۔انہوں نے اس حصے کا”اول خویش“نام رکھا اور ایسے خوبصورت خاکے نقش کیے جن میں خاکہ نگاری،افسانہ نگاری،سوانح نگاری اور خود نوشت سوانح نگاری کا امتزاج دل نشیں صورت سے ظاہر ہوتا ہے۔ان خاکوں میں ادب مصوری سے قریب تر ہوتا ہے کہ ہم ان خاکوں پورٹریٹس کو پڑھ کر ایسا محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ان کے رشتے دار وں کی ایسی صاف صاف تصویریں دیکھ رہے ہیں جن کے نقشے ایک خاص اور معتبر زاویۂ نگاہ نے کھینچ لیے ہیں۔جن میں ان شخصیات کے ساتھ ساتھ حیدر صاحب کے جوہر بھی سامنے آتے ہیں۔ یوں ظاہر ہوتا ہے کہ قریشی صاحب نے ”اپنے اندر کی آواز بڑے دھیان سے سن کر“یہ خاکے تراشے ہیں۔اسی لیے ہر خاکہ ایک معیاری پورٹریٹ کی طرح دکھائی دیتا ہے۔دورانِ مطالعہ ہمیشہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے قلم سے نہیں بلکہ اپنے دل سے لکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں بھی دورانِ مطالعہ اس بات کا شدید احساس ہوتا ہے کہ ہم ان خاکوں کے افرادکو پڑھ نہیں رہے بلکہ ان سب سے مل رہے ہیں۔
ہانی السعید(مصر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”میری محبتیں“ تو کمال کی کتاب ہی سےدھی،سنجےدہ باتےں لکھتے ہوئے آپ جو ہلکا سا مزاحیہ رنگ دے کر جملہ مکمل کرتے ہےں تو اےسا معلوم ہوتا ہے جےسے قہوہ پیتے پیتے الائچی کا کوئی دانہ دانت تلے آکر ذہن و دہن کو خوشبو سے معطر کرجائے۔
ترنّم ریاض (دہلی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی کتاب ”میری محبتیں“دیکھنی شروع کی ہے۔لگتا ہے آپ کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔کہہ سکتے ہےں اور کہنے کا یارا بھی ہے۔میرا دل چاہا کہ آپ کو بتا ؤں کہ جو پڑھا ہے‘ پسند آیا ۔آپ نے بڑی مشکل باتیں بڑی آسانی سے لکھ دی ہےں‘آپ کو اس کی داد ملے گی۔۔۔بڑی بے ساختگی ہے،روانی ہے اور گندھی ہوئی خوشگواریت لا جواب ہے ۔۔۔آپ کی نثر میں شاعروں سے اچھی اور زےادہ شعریت ہے۔
مقصود الہٰی شیخ(انگلینڈ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نرم اسلوب سے جھانکتی ہوئی تصویریں جاذب نظر ہی نہیں قابلِ تقلید بھی بن گئی ہیں۔خاکہ نگاری نہ ہی کارگہ شےشہ گری ہے اور نہ ہی فن بت تراشی یا مصوری اور فوٹو گرافی‘بلکہ یہ تو ایک طرح کی کلوننگ ہے۔آپ نے جن ہستےوں کی کلوننگ کی ہے ان میں ہر ہستی اپنے مکمل وجود کے ساتھ اُبھر آئی ہے۔یہی آپ کے اسلوب اور فن کی بڑی کامیابی ہے۔
اسلم حنیف(انڈیا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے خا کے ”میری محبتیں“ماشاءاﷲ زبردست ہیں۔یہ نہ صرف آپ کی محبت کی غمازی کرتے ہیں بلکہ اس ثقافتی پس منظر اور روایات کو اجاگر کرتے ہیں جن میں آپ کی تربےت اور ذہنی نشوونما ہوئی ہے۔آپ کے دےکھنے پرکھنے کے انداز کا اچھوتا پن اور یوں ایک مخصوص زاویے سے زندگی کرنے کی دعوت‘ان خاکوں کا نمایاں پہلو ہیں۔اپنی خوشگوار تحریروں سے آپ نے ایسی قدروں کوبے نقاب کیا ہے جن سے نئی نسل کے جیالے آشنا نہیں ہیں۔
نیاز احمد صوفی(لاہور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی سے غائبانہ تعارف اس دور میں ہوا جب “بالمشافہ“ تعلق کسی بلائے ناگہانی کو دعوت دینے کا باعث بن سکتا تھا – بلا کوئی اتنی ناگہانی بھی نہیں بلکہ کسی مارنے والے بیل کی طرح “قابل دید“ بھی تھی – اس تعارف میں حیدر قریشی کی شخصیت کا غالب پہلو اس کی “مومنانہ شان “ تھی – وہ والی مومنانہ شان جس کا خلاصہ یہ ہے کہ : رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن -بعدازاں متعدد معرکہ آرائیوں کے تذکرے سننے اور پڑھنے کے بعد یہ حسن ظن مزید مستحکم ہوا–
مار دھاڑ سے بھرپور اس منظر نامے سے باطن میں چھپے کسی “چھوٹے سے مومن بچے“ کی آنکھوں میں تراوت تو ضرور پیدا ہوتی لیکن دل کو اس “آہنی ہاتھ“ کے پیچھے موجود حلقہءیاراں میں بریشم کی طرح نرم شخصیت کی موجودگی کا یقین بھی رہا اور جستجو بھی – چند ماہ قبل جب “عمر لاحاصل کا حاصل“ پڑھنے کا موقع ملا تو لطیف تر حسیات رکھنے والے اس منکسر المزاج اور رقیق القلب شخص سے ملاقات ہوئی تو لطف دو آتشہ ہو گیا -آج مدرز ڈے کے حوالے سے حیدر قریشی کی تحریر پڑھ کر مجھے اپنی ماں یاد آگئی اور ایک ایک لفظ کے ساتھ جہاں حیدر قریشی کی امی جی کو تصور (ویژولائز) کر تارہا وہیں اپنی امی جی کا چہرہ آنکھوں کے سامنے لاکر اشکبار ہو تا رہا – ماوؤں کے سانجھا ہونے کا ایک یہ مفہوم بھی تو ہے۔
محمد اکرم (امریکہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاکوں پر مشتمل آپ کی کتاب میری محبتیں مجھے ملی۔اس عنائت کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ ! روشنی کی بشارت کے افسانے پڑھنے کے بعد آپ کے ساتھ جو تعارف ہوا تھا‘اس کتاب کے مطالعہ کے بعد اس نے ایک اور منزل طے کر لی ہے۔آپ سے شناسائی کی سمت ”میری محبتیں ‘ ‘ ایک دلگداز پھاٹک کی مانند ہے۔
سعید انجم(ناروے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔