(خان پور کے احباب)
شہر کی گلیوں نے چومے تھے قدم رو رو کر
جب ترے شہر سے،۔یہ شہر بدر آئے تھے
چھوٹی موٹی تک بندی تودوتین سال پہلے سے جاری تھی لیکن میں نے باقاعدہ طورپرشاعری کا آغاز ۱۷۹۱ءمیں کیا۔ اس شوق کو چھپاچھپاکررکھا۔ کسی ہفت روزہ کو غزل بھیج دی۔ چھپ گئی تو کئی دن تک خوشی کے نشے میں رہا، مگر کسی محفل میں کلام سنانے کا مجھے کوئی تجربہ نہ تھا۔ جمیل محسن اسکول کے زمانے کا میرادوست تھا۔ ۳۷۹۱ءکاکوئی دن تھا۔ جمیل محسن میرے پاس آیااورکہنے لگاکہ ہم نے ایک ادبی انجمن ”بزمِ فرید“ قائم کی ہے۔ آج شام کواس کے زیراہتمام ایک شعری نشست ہورہی ہے آپ بھی اس میں شرکت کریں۔ میں نے جمیل سے صاف صاف کہہ دیاکہ مجھے مشاعرے پڑھنے کاکوئی تجربہ نہیں ہے۔ اگر اپنے ساتھ لے جاؤ گے توجانے کی ہمت کرلوں گاچنانچہ وقت مقررہ پر جمیل مجھے لینے آگیا۔ خانپورکے جیٹھ بھٹہ بازارمیں ایک بڑی سی دوکان کے اندر فرشی نشست تھی۔ بیس کے لگ بھگ حاضرین موجودتھے۔ بڑے احترام کے ساتھ میرا استقبال کیاگیا۔مشاعرہ شروع ہوا۔ جب مجھے کلام سنانے کی دعوت دی گئی مجھ پر شدید گھبراہٹ طاری تھی۔ پتہ نہیں میں نے غزل کیسے پڑھنی شروع کی اور کیسے مکمل کی اتنایادہے کہ غزل ختم ہونے پر دوکان داد سے گونج رہی تھی اور میں پسینے سے تربترتھا۔ یہ بزمِ فرید میں میری پہلی آمدتھی۔ یہ بزم ریاست بہاولپور کی عظیم رحانی شخصیت اور سرائیکی شاعری کی عظیم ہستی حضرت خواجہ غلام فرید رحمة اللہ علیہ کے نامِ نامی اسمِ گرامی سے منسوب تھی۔
اگلے ہفتے بزم کا انتظامی اجلاس تھا۔ اس میں مجھے جائنٹ سکریٹری کا عہدہ دیاگیاجسے میں نے اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہوئے قبول کرلیا۔ جنرل سکریٹری جمیل محسن تھااوربزم کے صدرملک غلام رسول سندرتھے۔ مزید اگلے دوہفتوں تک جمیل محسن نے جنرل سکریٹری کا عہدہ مجھے سونپ دیااور خود مجلس عاملہ کی رکنیت پر قناعت کرلی۔ بحیثیت جنرل سکریٹری میں نے بزمِ فرید کی پریس رپورٹنگ پر خاص توجہ دی۔ اس سلسلہ میں بہاولپورکے ہفت روزہ ”مدینہ“کے ایڈیٹر علامہ منظوراحمد رحمت کی خصوصی توجہ، محبت اور حوصلہ افزائی کا اعتراف نہ کروں تو احسان فراموشی ہوگی۔یہ وہ دورتھا جب میں ابھی قلم پکڑناسیکھ رہاتھا۔علامہ منظور احمد رحمت نے ہفت روزہ ”مدینہ“ میں نہ صرف بزمِ فرید کی ادبی رپورٹیں شائع کیں بلکہ مجھے مختلف ادبی اور سماجی موضوعات پر لکھنے کی تحریک کرکے نثرنگاری کی طرف راغب کیا۔ میری ابتدائی دو رکی ڈھیروں ڈھیر غزلیں ”مدینہ“ میں چھپتی رہیں۔اگرچہ اب وہ غزلیں میرے کسی مجموعے میں شامل نہیں ہیں لیکن آج میں جتنابھی چھوٹاموٹا ادیب ہوں اس میں ہفت روزہ مدینہ بہاولپور کی حوصلہ افزائی اور علامہ منظوراحمد رحمت کی محبت کا بہت حصہ ہے۔۔ بزمِ فرید خانپورکے بیشتر شعراءواجبی سی تعلیم کے حامل تھے۔ ملک غلام رسول سندر، امیر بخش حاذق، باباعلی بخش سیف فریدی، عبدالرحیم خوشدل، عبدالرشےد گاہلہ۔۔ یہ لوگ سرائیکی کے شاعر تھے۔ رئیس گل دل سرائیکی اور اردو دونوں میں شاعری کرتاتھا جمیل محسن اور رشید ایاز صرف اردو غزلیں سناتے تھے۔
مذکورہ بالادوستوں نے سماجی لحاظ سے معزز شاعروں کی ادبی انجمن کو چھوڑ کر اپنی الگ بزم سجائی تھی۔ حاذق،باباسیف اور گاہلہ تینوں مکانات کی تعمیر کاکام کرتے تھے۔ خوشدل کی اپنے تیارکردہ جوتوں کی دکان تھی۔ رئیس گل دل ریڈیومکینک کا کام کرتاتھا۔ جمیل غالباً اسکول ٹیچرہوچکاتھااور رشید ایاز کالج میں زیرِ تعلیم تھا۔ جمیل محسن کے والد عبدالرحمن آزاد خانپورکے مشہور شاعرتھے،اس کے دادا محسن بریلوی بھی اپنے زمانے میں ریختی، قصیدے اور مثنویاں لکھ چکے تھے والد کی وفات کے بعد جمیل محسن نے والد کے کلام پر ہاتھ صاف کرناشروع کردیا۔ رشید ایاز اس کاگہرادوست تھااس لئے اسے غزل مہیاکرنا بھی جمیل کا فرض تھا۔ ایک دفعہ دونوں نے آزاد صاحب کی بیاض سے اپنی پسند کی غزلیں نکالیں۔ مقطع میں اپنے اپنے تخلص فٹ کئے اور مشاعرے کے لئے روانہ ہوگئے۔ رستے میں کہیں رشید ایازکو خیال آیاکہ جمیل کی غزل زیادہ اچھی ہے اس نے ضد کی کہ جمیل اس سے غزل تبدیل کرلے چنانچہ غزلوں کاتبادلہ ہوگیااور مشاعرہ میں یہ تماشاہواکہ جمیل محسن اپنی غزل کامقطع ایاز تخلص کے ساتھ سناگیااور رشید ایاز اپنی غزل کا مقطع ”جمیل“ تخلص کے ساتھ پیش کرگیا۔ ایک اور مشاعرہ میں جمیل نے غزل کا مطلع ہی ’عرض‘کیاتھاکہ حاضرین میں سے ایک صاحب نے کہاکہ اس غزل کے اگلے دو شعرمیں سناتاہوں۔ ان صاحب سے دوشعرسن لینے کے باوجود جمیل محسن نے پورے اعتمادکے ساتھ غزل سنائی۔ غزل کے اختتام پر اسی معترض نے کھڑے ہوکر اعلان کیاکہ یہ غزل تو آزادصاحب مرحوم کی ہے۔ اس پر جمیل نے بڑی جرأت سے کہاکہ میں اپنے باپ کاجائز وارث ہوں اور پھر وہاں سے کھسک گیا۔کچھ میرے سمجھانے بجھانے پر اور کچھ ”انجمن انسدادِ شعراءخانپور“ کی تگ ودوکے نتیجہ میں آخرکارجمیل نے شاعر کی حیثیت سے دستبردارہونے کا اعلان کردیا۔شاعر بننے کے شوق سے قطع نظر جمیل محسن ذاتی طورپرایک بہت اچھادوست تھا۔ اس میں صرف ایک خرابی تھی کہ مسلسل ملتارہتااور پھر یکایک لمبے وقفے کے ساتھ غائب ہوجاتا۔ وقفے کے بعد پھرملتا تو سارے دنوں کی غیر حاضری کی کسرنکال دیتا۔جمیل کے ذریعے مجھے کئی انٹ شنٹ قسم کے لوگوں سے ملناپڑالیکن اس کے ذریعے بزم فرید اور سعید شباب سے تعارف میری زندگی کے اہم موڑثابت ہوئے۔
۔۔۔۔امیربخش حاذق مستری کاکام کرتے تھے۔نفیس شخصیت کے مالک، انہیں دیکھ کر مغل شہزادوں کا حلیہ ذہن میں آتا، شخصیت میں ایسی نفاست جو نسوانیت کی حدوں کو ہلکاساچھو رہی ہو۔ بزم کے سرائیکی شعراءمیں حاذق میرے سب سے زیادہ قریبی دوست تھے۔ بزم میں جب بھی کوئی اختلاف ہوا، حاذق نے ہمیشہ میرے موقف کی حمایت کی۔ سرائیکی میں کافی اور غزل کہتے تھے۔ شعر کہنے کاسلیقہ تھا۔ بزم کے بعد بھی میری ان سے دوستی قائم رہی۔۔ عبدالرحیم خوشدل اور عبدالرشید گاہلہ گزارے لائق شاعر تھے۔ باباعلی بخش سیف فریدی پہلے کریانے کی چھوٹی سی دوکان چلاتے تھے۔ ان کی دوکان ہمارے باباجی کی دوکان سے ملحق تھی۔ جب ہم ابھی رحیم یار خاں میں رہتے تھے، بچپن کازمانہ تھا، تب باباجی سے ملنے کے لئے خانپورآتے تو مجھے اچھی طرح یاد ہے میں باباسیف فریدی کی دوکان سے ڈرکو،چنے اورمکھانے وغیرہ خرید کرکھایاکرتاتھا۔ بزم فرید کے زمانے تک باباسیف نے مستری کا کام شروع کردیاتھا۔بس بے چارے گزارہ کرتے تھے۔ ان کے بارے میں ایک روایت بزم کے دوستوں سے سننے میں آئی۔ آپ دیوار تعمیرکرتے تو دائیں بائیں ٹانگیں لٹکاکر، دیوارپر بیٹھ کر اُساری کرتے۔ ساتھ ساتھ پیچھے سرکتے جاتے۔ دیوار آدھی سے زیادہ بن چکی تھی۔ مزدوری کاوقت ختم ہواتو باباسیف نے دیوارپر بیٹھے بیٹھے دیہاڑی وصول کی پھر نیچے چھلانگ لگائی۔ باباسیف مشرقی جانب زمین پر اترے تودیوار اسی وقت مغربی جانب زمیں بوس ہوگئی۔ مالک مکان نے کہا مستری جی یہ کیاہوا؟ باباسیف نے کہا اللہ کی مرضی!انسان بھی مرجاتے ہیں یہ تو پھر دیوارہے۔ لیکن رفتہ رفتہ باباسیف اپنے کام میں تجربہ کارہوتے گئے۔ ان کی شاعری داخلی سے زیادہ خارجی موسیقی سے لبریز ہوتی تھی۔ کلام سنانے سے پہلے اس کی دھن بتاتے مثلاً یہ کلام بطرز ”اک پردیسی میرا دل لے گیا“ پیش ہے۔ اور پھر اسی گیت کی طرز پر اپنا کلام پیش کرتے۔افسوس کہ باباسیف وفات پاچکے ہیں۔ رئیس گل دل میں شعرکہنے کی عمدہ صلاحیت تھی۔ میری خواہش تھی کہ وہ ادبی جرائد کا مطالعہ کرے تاکہ شاعری کی تازہ صورتحال سے باخبرہوسکے لیکن پتہ نہیں کیوں وہ نئے ادب کی بات سننا بھی پسند نہ کرتاتھا۔ افسو س کہ اس جوان رعنا کو اس کے بے رحم سسر نے قتل کردیا۔
۔۔۔۔بزم فرید کے روح ِ رواں ملک غلام رسول سندرتھے۔آپ سرائیکی کے بہت اچھے شاعر تھے۔صدرایوب کے زمانے میں بی ڈی ممبرکاالیکشن جیتے تو محلے میں ممبرصاحب کے نام سے مشہورہوگئے۔غالباً بچپن میں انہیں پیارسے لالو کہتے تھے۔ چنانچہ ان کے بے تکلف دوست انہیں لالوقصاب بھی کہتے ۔پہلوانی کاشوق بھی پوراکرتے رہے۔ ایک بار آپ نے پنسارکی دوکان کھول لی۔ ایک بار دیکھاتو ان کی دوکان پر ڈاکٹر ملک غلام رسول سندر کا بہت بڑا بورڈ لگاہواتھا۔ پنساری سے ڈاکٹری تک کے سفر پر حیرت ہوئی۔ بھید کھلاکہ ملک صاحب نے ”گھربیٹھے ڈاکٹر بنئے“والوں کا ہومیوپیتھک کورس کرکے یہ ڈاکٹری شرع کی ہے۔ ڈاکٹری شروع کئے چند دن گزرے تھے، محلے کاایک مریض آیا۔ملک صاحب نے احوال پوچھ کر کوئی مرکب پڑیابنادی اور مریض کو ہدایت کی کہ گھرجاکریہ پڑیاکھالینا۔ مریض نے کہا کہ گھر کی کیا ضرورت ہے یہیں کھالیتاہوں۔ یہ کہہ کروہ پڑیا کھولنے لگا۔ ملک صاحب نے اصرارکیاکہ پڑیاگھر جاکر ہی کھانا۔لیکن مریض پڑیاکھول چکاتھا، ا س نے اللہ کا نام لیا اور پڑیا پھانک لی۔ یکایک نجانے کیاہوا۔ مریض پہلے تو جھومنے لگااور پھر لہراکرزمین پر آرہا۔ مریض بے ہوش ہوچکاتھااور ملک صاحب اس کے پیروں کے تلوے مل رہے تھے۔ جب مریض نے ہلکی سی ڈکارلی تو ملک صاحب قریبی ہوٹل کی طرف بھاگے۔وہاں سے آدھ کلوگرم دودھ پیالے میں لیا اور آکر مریض کو پلانے لگے۔ مریض نے دودھ پی کر کپڑے جھاڑے اور لڑکھڑاتے ہوئے گھر کی راہ لی۔غالباً اس کے بعد ملک صاحب نے حساب کیاہوگاکہ اس ڈاکٹری میں آمدن توہے ہی نہیں بس خرچ ہی خرچ ہے۔ چنانچہ چند دن بعد جب جیٹھ بھٹہ بازار سے گزرہواتو دیکھاکہ ڈاکٹری والابورڈ اترچکاہے اور ملک صاحب نے کبوتر خانہ کھول لیاہے۔
یہ سار ے دوست میری کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ان کایہی بڑاکریڈٹ تھاکہ واجبی سی تعلیم ہونے کے باوجود ادب سے مخلصانہ طورپروابستہ تھے۔ ان میں جتنی ادبی صلاحیت تھی اسے بروئے کارلائے اور اپنی استطاعت سے بڑھ کر بزمِ فریدکی خدمت کی۔ملک غلام رسول سندر کی دوکان ہی بزم کا دفتر تھا۔ بزم کی محفلیں اپنے عروج پر تھیں جب ملک صاحب کی دوکان کے سامنے ایک لڑکے خلیل قیصر نے دوکان کھولی۔ یہ لڑکاایک دن بزم فرید کے اجلاس میں چلاآیااور کہنے لگامیں بھی شاعر ہوں۔ امیر بخش حاذق نے پوچھااگر آپ شاعر ہیں تو آپ کا تخلص کیاہے؟خلیل قیصر نے فکرمندی سے کہاتخلص تو ابھی نہیں سوچا۔ ملک صاحب کہنے لگے آپ فکر نہ کریں ہم خود تخلص تجویز کئے لیتے ہیں۔ پھر ملک صاحب، حاذق اور جمیل محسن نے مل کراس کا تخلص چاند تجویز کیاچونکہ خلیل قیصر کی رنگت گہری سیاہ تھی اس لئے دوستوں نے تو مذاق کیاتھا لیکن خلیل قیصر سچ مچ چاند بن گیا۔اب سناہے اس نے چاند تخلص ترک کردیاہے۔ اے کے ماجد چھٹی جماعت سے میرا کلاس فیلو تھا۔ جب بھی خانپورکی ادبی فضا میں مجھے بالکل تنہاکردینے کی سازش کی گئی تب اے کے ماجد لازماً میرے ساتھ ہوا۔ خانپورکی ادبی دنیا میں پاؤں جمانے کے لئے اے کے ماجد اور جمیل محسن نے میری خاصی مدد کی۔ سعید شباب کی دوستی ایک الگ مضمون کی متقاضی ہے۔ ایک اور دوست ارشد خالدقدرے تاخیر سے ملا۔ ا س نے خانپور سے رسالہ عکاس جاری کیا۔یہ رسالہ اردو اور سرائیکی دونوں زبانوں میں ادبی تحریریں چھاپتاتھا۔رسالے کامواد معےاری اور ہنگامہ خیز ہوتاتھا۔ یہ پرچہ تھوڑے عرصہ کے لئے نکلالیکن خانپور کی ادبی فضاپر ا س کا گہرانقش ابھی تک موجود ہوگا۔ ارشد خالد دیہاتی مزاج کایارباش آدمی تھا۔ بینک آفیسر ہونے کے باوجود اس کی شخصیت میں سادگی تھی سناہے ہمارا یار مزید ترقی کرگیاہے۔
بزم فرید کی سرگرمیوں کے اثرات ایسے تھے کہ جو شعراءسماجی لحاظ سے ”معزز“ ہونے کے باعث بزمِ فرید کے غریب شاعروں کو ساتھ بٹھاناپسند نہیں کرتے تھے پھر بزم فرید کی تقریبات میں شرکت کے لئے خود چل کر آنے لگے۔ان شعراءمیں پروفیسر نردوش ترابی، آسی خانپوری، رانا پٹیالوی اور حفیظ شاہد خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ حفیظ شاہد سے مسلسل ملاقاتیں ہوئیں تو پتہ چلاکہ ان کا مزاج اپنے حلقۂ احباب سے یکسر مختلف ہے۔ پُرخلوص، بے لوث، محبتی اور دوستی نبھانے والے۔ ”معزز شعرائ“ کی انجمن میں ان کی شمولیت کااصل سبب صرف آسی خانپوری اور نردوش ترابی سے دوستی نبھاناتھا، یہ الگ بات کہ خود ان دوستوں نے بعد میں حفیظ شاہد کی بے لوث دوستی کی ناقدری کی۔ جب میرے خلاف بے جاطورپر”متحدہ محاذ“ بنایاگیاتب حفیظ شاہد نے دوستی اور اصول ساتھ ساتھ نبھائے۔ دوستی نبھانے کے لئے وہ دوستوں کے کیمپ میں شامل رہے لیکن ا س کیمپ میںمیرے حق میں ہمیشہ آواز بلندکرتے رہے۔ دراصل انہوں نے اصل شرارتی کوجان لیاتھا۔ اپنے دوستوں کو باربارسمجھاتے کہ اس شرارتی کی سازش کاشکارنہ بنو۔ بائیکاٹ کرکے کسی ادیب کی صلاحیتوں کو ختم نہیں کیاجاسکتا۔ انہیں دنوں میں جب بھی میں نے کوئی چھوٹاموٹا فنکشن ترتیب دیا حفیظ شاہد نے اس میں ضرور شرکت کی۔ شرکت سے پہلے اپنے دوستوں کو بتاکر آتے کہ میں حیدر کے فنکشن میں شرکت کرنے جارہاہوں۔
آسی خانپوری اردواور پنجابی کے خوبصورت شاعرہیں۔ایڈووکیٹ بھی اور زمینداربھی۔ زودرنج بہت تھے۔ ذراذرا سی بات پر ناراض ہونے لگتے۔ انہوں نے پہلے نردوش ترابی کے مشوروں پر عمل کیاپھرصفدر صدیق رضی پر انحصارکیا۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے۔اگر انہوں نے حفیظ شاہد کے طرز زندگی سے استفادہ کیاہوتاتوشاید اب بہتر پوزیشن میں ہوتے۔
خورشید احمدٹمی ڈائجسٹوں میں کہانیاں لکھتے ہیں۔ میں نے ان کی صلاحیتوں کودیکھتے ہوئے انہیں ادب کی طرف راغب کیا۔ ٹمی نے ادبی دنیاکے طور طریقے دیکھے، سمجھے اور پہلاحملہ مجھی پر کردیا(تفصیل لکھتے ہوئے خود مجھے شرم آتی ہے)پھر کوئی بھی ان کی زد سے نہ بچا۔اپنے والد کو بھی ٹمی نے نہیں بخشا، ٹمی میں اچھاافسانہ نگاربننے کی صلاحیت تھی لیکن اپنے بعض نفسیاتی مسائل کے باعث ٹمی کی صلاحیتوں کازیاںہوا۔اُس زمانے میں مجھے بھی غصہ جلد آجاتاتھااگر میں اُس زمانے میں حفیظ شاہد جیسے مزاج کامالک ہوتاتوشاید ٹمی کی زیادتیوں کو نظراندازکرکے اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتاجس سے اس کی اندرونی اذیتوں کاازالہ ہوتااور وہ ایک اچھاافسانہ نگاربن پاتا۔ اس کے باوجود ٹمی نے بلاشبہ اپنی استطاعت کے مطابق کئی اچھے افسانے لکھے۔
صفدرصدیق رضی سے جب دوستی ہوئی تو چند دنوں میں ہی برسوں کے یارانے جیسی کیفیت ہوگئی۔ رضی کی ایک غزل چھپی اس کاایک شعرتھا:
لذتیں دفن کر گیا کو ئی
روح میں جسم کی دراڑوں سے
میں نے جب” جسم کی دراڑوں“ کی نشاندہی کی تو رضی نے زوردارقہقہے کے ساتھ کہا”مارے گئے“۔
میں نے فوراً کہا مارے نہیں گئے، پکڑے گئے۔
اس سے ہماری بے تکلفی کا اندازہ کیاجاسکتاہے۔ آسی خانپوری اور نردوش ترابی کی مجھ سے ناراضگی کی اصل وجہ یہ تھی کہ میں ان سے زیادہ رضی کا دوست ہوں لیکن افسوس رضی نے ایک حقیر سے مفا دکی خاطر نہ صرف دوستی ختم کی بلکہ ایسا انداز اختیارکیاکہ میں حیران رہ گیا۔ میرے خلاف جو کچھ کیاگیااور جس طرح کیاگیااس کے لئے ایک الگ مضمون درکارہے۔ رضی سے دوستی گہری تھی شاید اسی لئے اس کے غلط طرز عمل پر شدید دکھ کے باوجو دابھی بھی دل میں کہیں اس کی محبت کی لہر محسوس وتی ہے۔
اظہرادیب اچھے شاعرہیں۔ ادب کے دھارے سے کٹے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں ادبی جرائد سے متعارف کرایا۔ ان کے ساتھ مل کر ایک کتاب ”کرنیں“ مرتب کی ایک عرصہ تک ان سے پیارمحبت کاسلسلہ رہا۔ ہمارے بیشتر دکھ مشترک تھے اس بناپر ہماری دوستی زندگی بھرقائم رہناچاہئے تھی ہماری دوستی کسی ناراضی کے باعث ٹوٹی بھی نہیں لیکن قائم بھی نہیں رہی۔ مجھے ابھی تک پتہ نہیں چل سکاکہ ہمارے درمیان خلاکیسے پیداہوااور پھراس خلامیں اتناسناٹاکہاں سے آگیا؟ رضی کی شدیدترین مخالفت کے زمانے میں اظہرادیب کی میرے لئے محبتیں اب بھی میری یادوں میں تروتازہ ہیں۔
ظفراقبال ماچھے بنک آفیسر تھے۔ادیب نہیں تھے لیکن ادبی دنیاکے حالات سے خاصے باخبررہتے تھے۔ جنرل ضیاءکے مارشل لاءکے زمانے میں ہی مواد جمع کرتے رہے تھے اور ان کی ہلاکت کے ساتھ ہی انہوں نے مارشل لاءاور عدلیہ کے تعلق سے ایک کتاب لکھ لی تھی۔ مکتبہ دانیال کراچی سے ان کا تحریری معاہدہ بھی ہوگیاتھا۔ شاید کتاب اب تک چھپ چکی ہو٭خانپورکے ادبی ہنگاموں میں شامل نہیں تھے لیکن پورے ادبی منظرنامہ کے بارے میںایک نپی تلی رائے رکھتے تھے۔ ان کا کہناتھاکہ ان کی رائے غیر جانبدارانہ ہے جبکہ میرا خیال تھاکہ وہ مجھے تقویت پہنچارہے ہیں۔ معتدل لبرل تھے۔ ادب اور سیاست میں معتدل لبرل ازم کے قائل تھے۔ انتہاپسندوں سے بیزار تھے خواہ وہ کسی کیمپ کے ہوں۔
محمداکبربابرایڈووکیٹ ادب کا اچھاذوق رکھتے تھے۔ ”جدیدادب“ کے لئے انہوں نے متعدد اشتہارات کے حصول میں مدددی،خانپور کے کامیاب وکلاءمیں شمارہوتے تھے۔ کھلی ڈلی گفتگوکرتے۔ ترقی پسندوں میں صرف فیض احمد فیض اور ظہور نظرکوپسندکرتے تھے۔ ادب اور سیاست کے ساتھ فلسفے میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ ہیگل کی جدلیات اور مغربی فلسفۂ وجودیت سے میری پہلی شناسائی اکبر بابرکے ذریعے ہوئی۔ اکبربابر کے مزاج میں اکبربادشاہ کا جلال اور شہنشاہ بابرکاجمال دونوں شامل تھے اسی لئے کسی اور کے جلال و جمال کو اہمیت ہی نہیں دیتے تھے۔
خانپورمیں شعری ذوق رکھنے والے چند نوجوانوں نے تک بندشاعروں کی حوصلہ شکنی کے لئے ایک ”انجمن انسداد شعرائ“ قائم کی۔ اس کارِ خیر میں شیخ فیاض الدین، سلطان خاں، رب نواز قریشی او رخواجہ ادریس پیش پیش تھے۔ان کا طریقہ واردات بڑا دلچسپ ہوتاتھا۔کسی شاعرکو بلاکر اچھی طرح کھلاتے پلاتے، پھر دروازے بندکرکے شاعرکاکلام سننے پر تل جاتے۔ کلام سن سن کر شاعرکو زچ کردیتے۔ ٹمی پہلے شاعری بھی کرتاتھااسی انجمن نے اسے شاعری سے تائب کرایا۔ اچھے شعرپر اچھی داد اور برے شعرپر بری داد دیتے۔ کسی مشاعرے کاانہیں پتہ چل جائے،بن بلائے جاپہنچتے اور مشاعرے کو چارچاندلگادیتے۔میں خود تو اس تقریب میں شامل نہیں تھالیکن باوثوق ذرائع سے معلوم ہواتھاکہ بلدیہ خانپورکے ایک مشاعرے میں باہر سے کوئی پختون شاعربھی آئے تھے۔ انجمن انسداد شعراءکے اراکین کی ہوٹنگ کاجب انہوں نے کوئی نوٹس نہیں لیاتو انجمن کے صدرنے کھڑے ہوکر ہاتھ باندھ لئے کہ حضور!اب بس کریں۔شاعر صاحب پختون تھے، موصوف نے اسی وقت ریوالور نکال لیا۔ ریوالورکے زور پر کلام سنایااور بعد میں انجمن کے صدر کو شوٹ کرنے پر تل گئے۔بڑی مشکل سے ، منت سماجت کرکے انہیں ٹھنڈاکیاگیااور پھر دونوں کی صلح کرائی گئی۔ اس بدمزگی کے بعد انجمن انسداد شعراءکی سرگرمیاں ماند پڑگئیں۔ بہرحال یہ زندہ دل لوگوں کی بے قاعدہ مگر دلچسپ انجمن تھی۔
٭٭٭