(محمد اکبر)
مرجھا چکے ہیں پھول تری یاد کے مگر
محسوس ہو رہی ہے عجب تازگی مجھے
مدّت ہوئی گوجرانوالہ کے قریب ایک گاؤں میں ایک لڑکا اپنے غریب ماں باپ کے زیرِسایہ پل رہاتھا۔ اس لڑکے کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ گاؤں سے کئی میل کے فاصلے پر ایک سکول تھا۔ یہ لڑکاایک سیکنڈ ہینڈ بائیسکل پرروزانہ اسکول آیاکرتاتھا۔ ایک دفعہ اس کی بائیسکل خراب ہوگئی۔ مرمت کے لئے کل خرچہ دو روپے بنتاتھا۔ دس دن تک کچھ رقم پس انداز کی گئی او ریہ دس دن وہ لڑکا کئی میل کا سفر روزانہ پیدل طے کرتارہا۔ سائیکل مرمت کرالی گئی اور مرمت کاکل خرچہ چھوٹی چھوٹی قسطوں کی صورت میں دوماہ میں جاکراداہوا۔وہ لڑکا بھیانک غربت کے دُکھ سہتارہالیکن اس نے اپناتعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ ایک دن آیاجب اسے فوج میں کمےشن مل گیا۔ کمیشن ملنے پر اسے اتنی خوشی ہوئی کہ بلڈپریشر خطرناک حد تک بڑھ گیا۔ اگر ایک ذہین فوجی آفیسرنے اسے بروقت سنبھال نہ لیاہوتاتویہ خوشی جان لیوا ثابت ہوتی۔ اس لڑکے کانام اعجازاکبرتھا۔ جواَب بریگیڈیئر محمد اعجاز اکبرکے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے نام اعجاز کامادہ معجزے سے بھی ہے اورعاجزی سے بھی۔ معجزہ سے اس طرح کہ انتہائی عُسرت کی زندگی بسرکرنے والالڑکا اب ایک ماہر تعلیم بھی ہے اور کروڑپتی بھی۔ لیکن ان کے نام اعجازکاتعلق عاجزی سے بہت گہراہے۔طبیعت کی عاجزی اور انکسار نے ہی شاید یہ معجزہ دکھایاہے کہ وہ اب ایک کامیاب زندگی گزاررہے ہیں۔
۔۔۔۔آرمی برن ہال پبلک سکول ایبٹ آباد میں انہیں پرنسپل بناکربھیجاگیا۔ یہیں بریگیڈیئر کا عہدہ ملا۔جب ریٹائرمنٹ کاوقت قریب آیا،ان کے سامنے ایک پرکشش پیش کش موجود تھی۔ ایک اہم سرکاری ادارہ میں انہیں ڈائریکٹر بنایاجارہاتھا۔ انہوں نے اس عہدے کو اپنی خوش قسمتی تصوّر کیالیکن فیصلہ کرنے سے پہلے ایبٹ آباد کے ایک ملنگ سے مشورہ کرلیا۔ ملنگ نے اپنی ترنگ میں کہہ دیاادھر جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چنانچہ بریگیڈیئراعجاز اکبر نے اتنی بڑی پیش کش رد کردی۔ پھر انہوں نے آرمی برن ہال سکول سے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک سال پہلے اپنا تعلیمی ادارہ بنوالیا۔ پاکستان انٹرنیشنل پبلک سکول ایبٹ آباد کرائے کی عمارت میں قائم کیاگیا۔ اُس برس آرمی برن ہال سکول سے مسترد کردہ کئی بچوں کو نئے سکول میں داخلہ مل گیا۔یوں ناکام بچوں کے مایوس والدین کے لئے اعجاز اکبر اور اعجاز اکبرکے لئے مایوس والدین سہارابن گئے۔ بریگیڈیئراعجاز اکبر کی زندگی کایہ نیادور صبر آزمادور تھا۔ دن رات محنت کرکے انہوں نے اپنے تعلیمی ادارہ کو مستحکم کیا۔ اس کی ساکھ بنائی۔ اب یہ عالم ہے کہ ادارہ کی اپنی عالی شان عمارت ہے اور ایک بڑے تعلیمی کمپلیکس کی تعمیر کا منصوبہ تکمیل کی طرف گامزن ہے۔ اسکول وکالج کاسالانہ بجٹ دوکروڑ روپے سے زیادہ ہوتاہے۔
بریگیڈئیر صاحب بے حد خوش مزاج اور زندہ دل انسان ہیں۔ طبیعت روانی پر آئی ہوئی ہوتو پھر وہ کہیں اورسناکرے کوئی۔ لیکن افسوس اس خوش مزاج محمد اعجاز اکبر کو ”فوجی آدمی“ اور کاروباری مصروفیات دبادیتی ہیں۔ ان کے پاس فی الوقت اتنی دولت اور اتنے وسائل ہیں کہ ان کو بے دردی سے نہ لٹایاجائے تو ان کی آنے والی سات پُشتیں آسائش کی زندگی بسرکرسکتی ہیں۔ پھر پتہ نہیں کیوں یہ اب آرام نہیں کرتے۔ انسان دولت اپنے سکھ اور آرام کے لئے کماتاہے لیکن اگر آرام نہیں کرناتوپھر اس دولت کاکیافائدہ۔۔ کبھی کبھی سوچتاہوں کہ جس لڑکے نے انتہائی غربت اور افلاس کے سائے میں ابتدائی زندگی گزاری تھی، حالات کی بے یقینی سے نکل آنے کے باوجود حالات کی بے یقینی اور خدشات کا شکارہے۔ اسی لڑکے نے شاید بریگیڈئیر محمد اعجازاکبرکو ابھی تک کاروباری مصروفےات میں الجھا رکھا ہے۔
پاکستان انٹرنیشنل پبلک سکول اینڈ کالج ایبٹ آباد بلاشبہ ایک معیاری درسگاہ ہے جس کا مقابلہ ”آرمی برن ہال“ اور”اے پی ایس“ جیسی اعلیٰ درسگاہوں سے ہے۔ عموماً ایسا ہوتاہے کہ جن طلبہ کو مذکورہ دونوں درسگاہوں میں داخلہ نہیں مل پاتاانہیںPIPSمےں داخلہ مل جاتا ہے ۔اس کے باوجود امتحانی نتائج مےں مقابلہ ہمےشہ سخت رہتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ برےگےڈئےر صاحب اساتذہ کا انتخاب کرتے وقت ان کے علمی معےار اورپےشہ ورانہ صلاحےت کو مدّ نظر رکھتے ہےں اور بندے کو پرکھنے مےں بہت کم دھوکہ کھاتے ہےں۔PIPS کے نسبتاً کمزور ٹیچروں کو برن ہال او راے پی ایس میں ملازمت مل جاتی ہے۔ ایک بار تینوں تعلیمی اداروں کے چند اساتذہ جمع تھے۔ گپ شپ کے دوران برن ہال کے ایک ٹیچر نے مذاق کرتے ہوئے کہا: جس لڑکے کو ہم نکما سمجھ کر داخلہ نہیں دیتے اسےPIPSمیں داخلہ مل جاتاہے۔ اس پرPIPSکے ایک ٹیچرنے اسی انداز میں جواب دیاآپ کی بات درست ہے لیکن اس میں یہ اضافہ کرلیں کہ جس ٹیچر کوPIPSوالے ناکارہ سمجھ کر نکال دیتے ہیں آپ انہیں ٹیچر رکھ لیتے ہیں۔یہ باتیں خوشگوارموڈ میں ہوئی تھیں لیکن اس میں شک نہیں کہ دونوں اداروں کے ٹیچرز کی دونوں باتیں عمومی طورپردرست ہیں۔
بریگیڈیئر صاحب کو ان کی ایک خوبی یا کمزوری کے باعث بآسانی دھوکہ دیاجاسکتاہے۔کسی کی دکھ بھری داستان سن کر آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ ایک صاحب نے اس طرح انہیں اپنی دکھ بھری داستان سنائی کہ انٹرویولینے والا اور دینے والادونوں زاروقطاررورہے تھے۔ پھر ان صاحب کو گریڈ اٹھارہ میں ملازمت مل گئی لیکن تین ماہ کے اندر ان کی داستان کا جھوٹ اور بحیثیت ٹیچر اصلیت ظاہرہوگئی چنانچہ انہیں باعزت اور قانونی طریقے سے فارغ کردیاگیا۔۔ ایک اور صاحب جو طالب علم بننے کے لائق بھی نہیں تھے، ٹیچربن گئے۔ پھرانہوںنے سیاست بازی بھی شروع کردی چنانچہ انہیں بھی قانونی طریقے سے فارغ کردیاگیا۔موصوف سیاسی اثر رسوخ رکھتے تھے اس لئے ایسی اونچی سفارش لے آئے کہ بریگیڈئیر صاحب کے لئے انکارکی گنجائش ہی نہیں تھی۔ لیکن وہ ادارے کے طلبہ کو خراب نہیں کرناچاہتے تھے۔چنانچہ انہوں نے سفارش کرنے والی ہستی سے مودبانہ طورپرگذارش کی کہ میں ان صاحب کو کلاسز تونہیں دے سکتاالبتہ انہیں گھر بیٹھے پوری تنخواہ ماہ بماہ بھجوادیاکروں گا۔اس گذارش کے نتیجہ میں ان کی باآسانی گلوخلاصی ہوگئی۔۔ ان واقعات سے یہ بھی نہ سمجھیں کہ بریگیڈیئرصاحب کسی کارخانہ دار کی طرح اپنے ٹیچروں کی چھٹی کراتے رہتے ہیں۔ اول تو ایسی مثالیں دوچارہیں پھر ان کا طریقہ کاریہ ہے کہ اگر کوئی ٹیچربڑی کلاسز کوٹھیک طرح سے پڑھانہیں سکتاتوپہلے اسے طریقے سے سمجھاتے ہیں۔طرز عمل میں تبدیلی نہ آئے تو اسے چھوٹی کلاسیں دے دی جاتی ہیں۔ وہ کلاسیںبھی نہ سنبھالی جائیں تو پھر اس سے بھی چھوٹی کلاسیںدے دی جاتی ہیں۔ مقصد یہی ہوتاہے کہ ممکنہ حدتک کوشش کی جائے کہ کوئی شخص بے روزگارنہ ہونے پائے۔۔ ایک ٹیچر ایم۔اے اسلامیات تھے۔ اسلامیات پڑھاتے تھے۔ ہوم ورک چیک کئے بغیر دستخط کردیتے تھے۔ امتحانی پرچے جانچے بغیر نمبر دے دیتے تھے۔ جونیئر کیمبرج کے ایک طالب علم نے اسلامیات کے پرچہ میں حدیث شریف افضل الذکر لاالہ الااللہ کا ترجمہ یوںکیا
AFZAL SAID THAT LA ILAHA ILLALLAH
یہ جواب درست سمجھاگیااورپورے نمبردیئے گئے تب اس ٹیچرکو بلا کربریگیڈئیر صاحب نے سمجھایاکہ رزق حلال کرکے کھاناچاہئے۔ آنکھیں بندکرکے نمبردے دینے سے تعلیمی معیار بہتر نہیں ہوجائے گا۔حالانکہ ایسے ٹیچرکوکھڑے کھڑے فارغ کیاجاسکتاتھا۔لیکن انہوںنے اصلاح کاموقعہ ضرور دیا۔
جب میں نے اکتوبر۰۹۹۱ءمیںPIPSکوجائن کیا، میرا قیام ٹیچرز کے بیچلرہاسٹل میں تھا۔فیملی ہاؤس تومارچ میں جاکر ملناتھالیکن دسمبرکے وسط میں مبارکہ اور بچوں کو بھی میں نے بلالیا۔ ایک اور دوست کاکمرہ لے لینے سے ہمارا الگ پورشن بن گیاتھا۔اس عمارت میں پانچ اور اساتذہ بھی مقیم تھے۔فزکس کے ایک استاد دن رات ہیٹرچلاتے تھے۔ جب دسمبرکے مہینے کابجلی کابل آیاتوغیرمعمولی حد تک زیادہ تھا۔ مجھے پتہ بھی نہیں تھااور فزکس کے انہی استاد صاحب نے استادی دکھائی۔ بریگیڈیئرصاحب سے جاکر کہہ دیاحیدر قریشی اپنی فیملی کو لے آیاہے او راسی نے ہی بجلی کااتنااستعمال کیاہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے کسی طرح کیئرٹیکرکو بھی ساتھ ملالیا۔ اگلے روز بریگڈیئر صاحب نے برہمی کے ساتھ مجھے کہاکہ بجلی کے استعمال میں کچھ تواحتیاط کریں۔میں چکراگیا۔ اس وقت تو کچھ نہ کہا۔ گھر آکر تفصیلی خط لکھ کر انہیں بھجوادیا۔ اس سے اگلے روز میں بازارکی طرف جارہاتھا، ایک کارمیرے قریب آکررکی، دیکھاتو بریگیڈئیرصاحب تھے۔گاڑی میں بٹھالیااور کہنے لگے: رات گئی بات گئی۔ آپ تو خوامخواہ جذباتی ہوگئے۔ میرے لئے اتنی دلجوئی کافی تھی۔فزکس کے مذکورہ استاد چونکہ بجلی کے بے محابا استعمال کے عادی تھے اس لئے اگلے سال دسمبر میں دسمبر۰۹۹۱ءسے بھی ہزارڈیڑھ ہزارروپے زیادہ کابل آگیا۔ اتفاق سے اب اس عمارت میں صرف تین اساتذہ ہی مقیم تھے چنانچہ بریگیڈئیر صاحب نے سٹاف میٹنگ کے دوران بڑے اچھے طریقے سے انہیں بجلی کے بل کی زیادتی سے آگاہ کیااور وہ صاحب سب کے سامنے زمین میں گڑے جارہے تھے۔
بریگیڈئیرصاحب اچھے ادبی ذوق کے مالک ہیں۔ مجھے انہوں نے کئی بارمحبت کے ساتھ اورایک بارڈانٹ کرداددی۔ میں کبھی اپنی کوئی تازہ غزل، افسانہ یا خاکہ انہیں برائے مطالعہ دیتاتو اس کی تعریف کے ساتھ تجزیاتی نوٹ بھی ساتھ ہی لکھاآتا۔ ایک بارایک غزل کے ساتھ ان کی ”جواب آں غزل“ موصول ہوئی تو پتہ چلاکہ انہیں شعر کے وزن کا بھی علم ہے۔ افسانہ ”کاکروچ“پڑھنے کے بعد ایک دفعہ بعض اساتذہ سے کہنے لگے: میں حیران ہوں یہ اردو کے ٹیچرہیں یا سائنس کے۔ ایک بارمیری کلاس میں آئے اور کالج کے طلبہ سے کہنے لگے: آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہے کہ ایسا ادیب آپ کا استاد ہے ان سے علم حاصل کرنے کے لئے انہیں نچوڑلیں۔ پھر مسکراکربولے لیکن بلی کی طرح نہلاکرنہیں نچوڑیں۔PIPSکی وائس پرنسپل مس روزلین کی والدہ کا انتقال ہوگیاتھا۔ ان سے ان کی والدہ کی باتیں ہورہی تھیں۔ دوران گفتگو میں نے انہیں اپنی والدہ کا خاکہ ”مائی نی میں کنوں آکھاں“ کے بارے میں بتایا۔ انہو ںنے وہ خاکہ پڑھنے کااشتیاق ظاہرکیا۔ میں نے ”اوراق“کاوہ شمارہ انہیں بھیج دیاجس میں وہ خاکہ چھپاتھا۔اگلے دن بریگیڈئیر صاحب ملے تو برہمی سے کہنے لگے: یہ آپ نے کیا زیادتی بلکہ حماقت کردی ہے؟۔۔ میں پریشان، یاالٰہی یہ ماجراکیاہے۔پھر کہنے لگے مس روزلین کو اپنی والدہ والاخاکہ کیوں دیاتھا۔والدہ کی وفات کے بعد دوماہ میں بمشکل ان کی طبیعت سنبھلی تھی لیکن آپ کادیاہواخاکہ پڑھ کر انہوں نے روروکر براحال کرلیاہے۔میرے لئے انہیں چپ کرانامسئلہ بن گیاہے۔ پھر تھوڑاسارُکے اورکہنے لگے ان کی والدہ تو ابھی فوت ہوئی ہیں، میری ماں کو فوت ہوئے مدت گذرچکی ہے لیکن خاکہ پڑھ کر تو میرے بھی آنسو نکل آئے تھے۔ یہ کہتے کہتے ان کی آواز بھراگئی اور وہ تیزی سے اپنے آفس میں چلے گئے۔ ان کی ڈانٹ والی اس داد کو میں آج بھی اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہوں۔
بریگیڈئیرصاحب اسلام سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ چونکہ صوفیائے کرام سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں اسی وجہ سے وسیع ا لمشرب اورکشادہ نظر ہیں۔ شروع میں ایک ملنگ کاذکرآیاہے جس نے بریگیڈئیرصاحب کو ڈائریکٹرکی پیش کش قبول کرنے سے روکاتھا۔ بعد میں اس ملنگ کاروکنا بے حد مفید ثابت ہوا۔ چنانچہ صوفیاء، فقیروں اورملنگوں سے ان کی عقیدت اور بھی بڑھ گئی۔ایبٹ آباد کے مذکورہ ملنگ ایک ننگ دھڑنگ مجذوب ہیں۔ بریگیڈئیرصاحب انہیں جہاں کہیں بھی دیکھ لیں اپنی کارمیںبیٹھنے کی درخواست کردیتے ہیں۔ اکثریوں ہواکہ ملنگ باباعالمِ جذب سے حکم صادرکرتے راولپنڈی چلو۔ گاڑی حسن ابدال تک پہنچتی تو صداآتی اب مانسہرہ چلو۔ چنانچہ وہیں سے پھر واپس ہوکر مانسہرہ کا سفرشروع ہوجاتا۔ ایک بارتو رات کے دوبج گئے۔اہل خانہ پریشان کہ بریگیڈئیر صاحب بتائے بغیر کہاں چلے گئے۔ بعد میں پتہ چلاملنگ باباکے حکم کی تعمیل ہورہی تھی۔ میں نے بھی ایک باران ملنگ باباکو ننگ دھڑنگ حالت میں بریگیڈئیر صاحب کے ساتھ ان کی کارکی اگلی سیٹ پر تشریف فرمادیکھاہے۔ ان کے بیٹھنے کے انداز سے مجھے ایک ہلکی سی تشویش ضرور ہوئی کہ دوران سفر گیئر تبدیل کرتے ہوئے بریگیڈئیر صاحب کاہاتھ کہیں چوک نہ جائے۔ مسائل تصوف سے مجھے بھی تھوڑی بہت رغبت ہے، تاہم میں انسانی لاشعور میں ہزاروں برس پرانے کلچرکی کارفرمائی کو بھی تلاش کرتارہتاہوں۔بریگیڈئیرصاحب کے ملنگ باباکو دیکھ کر کبھی کبھی سوچتاہوں کہ لنگ پوجاکے قدیم تصورنے صورت بدل کر کیسا شاندار روپ اختیارکرلیاہے۔
میرے اور بریگیڈئیرصاحب کے مزاج اور عادات میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ لیکن یہ ہم آہنگی میرے لئے سودمند ہونے سے زیادہ خطرناک تھی کیونکہ دوشیر ایک کچھار میں نہیں رہ سکتے۔حسن کے معاملے میں ہم دونو ںکاذوق بالکل ایک جیساتھا۔ جیسے چہرے مجھے اچھے لگتے ہیں ویسے ہی انہیں اچھے لگتے ہیں ایک دو جھٹکوں کے بعد جب مجھے اس ”حُسنِ توارد“کااحساس ہواتو میں نے خودہی محتاط رویہ اختیار کر لیا کہ آخر مجھے نوکری بھی کرناتھی۔
بریگیڈئیرصاحب کی درسگاہ میں ملازمت کامجھے ایک فائدہ یہ ہواکہ طاہراحمد،میجراظہر علی، محمد منیر، سید مختارشاہ، سید طیب علی، ارشد عادل اور مرتضیٰ جمال جیسے خوبصورت اور پیارے اساتذہ سے میرا دوستی او رمحبت کاتعلق قائم ہوا۔ نیز مولوی محمد یونس،میجرشاہجہاں اور مسٹر ایڈون جیسے ”صاحبان علم“ لوگوں کو دیکھنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔
پاکستان انٹرنیشنل پبلک سکول اینڈ کالج ایبٹ آباد ایک مستحکم تعلیمی ادارہ بن چکاہے۔ اس کی شاخیں گجرات اور گوجرانولہ میں بھی قائم کردی گئی ہیں۔ بعض عرب ممالک میں پاکستانیوں کے بچوں کو جو تعلیمی مسائل درپیش ہیں ان کے پیش نظر بریگیڈیئر صاحب کسی عرب ملک میں بھیPIPS کا سکول شروع کرنے کے آرزومندتھے۔میں ان کی کامیابیوں کے لئے دعاگوہوں لیکن میری دلی خواہش ہے کہ وہ اپنی دفتری مصروفیات کو آدھاکم کردیں۔ ان کی بیٹی رخسانہ اور دونوں بیٹے ان کے حصّے کی ساری ذمہ داریاں سنبھالنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ویسے مجھے علم ہے کہ میری یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہونے والی، ان کے اندرکا فوجی اور لڑکپن کا غریب اور محنتی اعجاز، دونوں مل کر انہیں کبھی آرام سے بیٹھنے نہیں دیں گے۔
٭٭٭