(عذرااصغر)
ہم تہی دست آبروئے فقر
سود دے کر زیان مانگتے ہیں
لڑکپن کے جذبات میں گھری ہوئی ایک لڑکی کاقصہ ہے۔وہ لڑکی اپنے ارد گرد موجودزندگی کے کرداروں کو غور سے دیکھتی پھر اپنے کچے پکے احساسات میں ان کرداروں کو گوندھ کران کی کہانیاں بنانے کی کوشش کرتی۔ اس کوشش میں کبھی اس لڑکی کے اپنے آنسوؤںکاپانی اتنازیادہ پڑجاتاکہ کہانی کے نقش ہی نہ بن پاتے اور کبھی پانی اتناکم ہوتاکہ کہانی بھربھراکررہ جاتی۔ اس کے باوجود اس لڑکی نے سیکھنے کاعمل اور ریاضت جاری رکھی اور آخر کارایک دن اپنے والد کی شخصیت کوسامنے رکھ کر ایک کہانی بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ حوصلہ افزائی کی امید کے ساتھ یہ کہانی بڑی بہن کودکھائی لیکن وہاں سے سخت ڈانٹ پڑی۔ بھائی سے شاباش ملنے کی توقع تھی وہ بھی پوری نہ ہوئی۔ حوصلہ شکن حالات کے باوجود اس لڑکی نے ہارنہیں مانی۔آنکھیں جو کچھ دیکھتیں اسے ذہن اور دل کے حوالے کردیتی اور کچھ عرصہ کے بعد اسے اپنے اندر سے کہانی کی صورت میں نکال لیتی۔ اس طرح اس نے کئی کہانیاں لکھیں،یہی اس کے لڑکپن کی محبت تھی۔ اپنی کہانیوں کو سب سے چھپاکررکھناشروع کردیا۔ اسی دوران وہ لڑکی لڑکپن کی دہلیز عبورکرکے جوان ہوئی اور پھر خاندان کے دستورکے مطابق پیاکے دیس سدھارگئی۔ پیاکے دیس جاکر اسے پتہ چلاکہ اس کے پیاکوشاعری کاشوق ہے۔ اس خبرنے جیسے لڑکپن کی محبت کوپھر سے بیدارکردیا۔حوصلہ کرکے اس لڑکی نے اپنے پیاجی کو دبے دبے لفظوں میں اپنی افسانہ نگاری کی اطلاع دی۔شاعرپیا اس خبرسے نہال ہوگئے گویا ان کے گھرمیں شاعری اور افسانے کاملن ہورہاتھا۔ انہوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ ا س کے اندرکی افسانہ نگارکو ابھارا، سنوارا۔۔اور پھر وہ لڑکی اردو ادب میںایک افسانہ نگار کی حیثیت سے سامنے آنے لگی۔ اس لڑکی کانام عذراتھااور اس کے پیاجی اصغرمہدی تھے، سویوں اردو دنیاکو اصغرمہدی کے وسیلے سے عذرااصغرجیسی افسانہ نگارملی۔
عذرااصغرکوافسانہ نگاری کے سلسلے میں مائیکے میں جس گھٹن کا شکار ہونا پڑا اسکے نتیجے میں انہوںنے اپنے گھریلوماحول کو بالکل ہی ادبی بناکررکھ دیا۔ادبی یوںکہ گھر،گھرنہیں لگتاکسی ادبی انجمن کادفتر لگتاہے۔عذراافسانہ نگار، اصغر مہدی شاعر، شبہ طراز شاعرہ بھی اور مصورہ بھی۔ بیٹا امبربھی فکشن سے دلچسپی رکھتاہے۔ ایک سفرنامہ اور چندکہانیاں لکھ چکاہے۔ اس خاندانی صورتحال کے باوجود بھی گھر تھوڑاساگھردِکھتاتھا۔سو اس کمی کو دور کرنے کے لئے یاپورا کرنے کے لئے انہوں نے ”تجدید نو“ کے نام سے ادبی رسالہ نکال لیااور مزید احتیاط کے طورپر ”تجدید اشاعت گھر“ کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ بھی قائم کرلیاتاکہ گھر اشاعت گھر لگے، یوں عذرااصغر نے اپنے گھرکو ادب کے گودام میں بدل دیا۔ تجدید اشاعت گھر ایسا ادارہ ہے جہاں میرے جیسے لوگوں کی کتابیں چھپتی ہیں۔ مجھے علم ہے کہ راولپنڈی اور لاہور کے بعض ناشر ادیبوں سے پچاس پچاس ہزار روپے (بعض اوقات اس سے زیادہ بھی) نقدلے کر ان کی کتابیں چھاپتے ہیں۔ یوں مجھے اپنے ناشر کی خیرخواہی کے جذبے کے تحت کچھ نہ کچھ ضرور کرناچاہئے تھالیکن وہ ادب کی بے لوث خدمت کرنے پر تُلی ہوئی تھیں تومجھے ان کے خلوص کو خراب کرنے کا کیاحق پہنچتاتھا۔ بلکہ میری تو دعا ہے کہ ”ادب کی بے لوث خدمت“ کرنے کاانکایہ جذبہ ہمیشہ سلامت رہے۔
۔۔۔۔عذرااصغرایک عرصہ تک ”تخلیق“ لاہور کی مجلس ادارت میں شامل رہیں اس زمانے میں ہی میں نے خانپور سے ”جدید ادب“ کا اجراکیا۔تب خانپور کے ایک نیم پاگل افسانہ نگارنے اپنی طرف سے بناکرپتہ نہیں ایڈیٹر تخلیق کو میرے حوالے سے کیاکچھ لکھ مارا۔ ایک مرحلے پر مجھے معلوم ہواکہ ادارہ تخلیق مجھ سے ناراض ہے۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کسی مخالف نے ایسا پاگل پن کیاہوگا۔ مدت بعد اس شرارت کاعلم ہوا۔ میں نے وضاحت کرناچاہی تو عذرااصغرنے فوراً کہاوضاحت کی ضرورت ہی نہیں۔”اُن حضرت“ کی کارستانیاں تو ساری ادبی دنیاجاتی ہے اور ان کے کئی لطیفے بھی مشہور ہوچکے ہیں۔
۔۔۔۔اظہرجاوید سے اصغرمہدی اور عذرااصغر کے گھریلو مراسم ہیں۔ شِبہ کو لاہور میں کوئی پرابلم ہوتو اظہرجاوید سے رہنمائی حاصل کرتی ہے۔ ادھر اظہرکی بیٹی جو اسلام آباد کے قرےب ہی مقیم ہے اس کی دیکھ بھال کافریضہ اصغرکواداکرناہوتاہے۔ ”تخلیق“ کے زمانہ ادارت میں اظہرجاوید اور عذرااصغر میں ایک دوستانہ اختلاف رہتاتھا۔ عذرااصغر کاخیال تھا کہ کوئی خاتون اگر افسانہ نگاریاشاعرہ نہیں ہے تو اسے خود لکھ لکھ کر دینے اور چھاپنے کا عمل ادبی زیادتی اور ظلم ہے جبکہ اظہرجاوید کے نزدیک یہ غالباً اظہارِ محبت یااشتہارِمحبت ہوتاہے۔ ایک دفعہ میں نے عذرا سے کہااظہرکی فلاں نظم سے سندھ کی ایک بی بی بی چھلکی پڑرہی ہے۔ جواب ملا: اظہرکاتویہ حال ہے کہ کوئی لڑکی اس کے دفترکے سامنے سے گزرجائے، اچھی لگ گئی تو اس پر بھی غزل ہوجائے گی۔ پہلے میراخیال تھاکہ میرے اور اظہرجاوید کے معاملات بہت ملتے جلتے ہیں لیکن بعد میں پتہ چلاوہ مجھ سے زیادہ مظلوم ہیں کیونکہ خانم کی خ کا نقطہ نیچے لانے میں انہوں نے اپنی آدھی سے زیادہ عمربِتادی۔
۔۔۔۔اسلام آبادآنے کے بعد عذرااصغرنے ”تخلیق“کی نمائشی ادارت کرنے کی بجائے اپنا رسالہ ”تجدید نو“جاری کیا۔ ”تخلیق“ پر اظہرجاوید کی چھاپ تھی۔ اب ”تجدیدنو“پرعذرااصغرکی اپنی چھاپ ہے۔ ”تخلیق“ اور” تجدید نو“ کے فرق سے اظہرجاویداور عذرااصغر کے مزاجوں کافرق معلوم کیاجاسکتاہے۔ عذرا صاف گو، دوٹوک بات کرنے والی اور سیدھی سادی ہیں۔ جسے سچ سمجھابے دھڑک کہہ دیا۔ جس طرح ”تجدیدنو“ اپنی اچھائیوں اور کتابت کی غلطےوں سمیت اپناایک تاثر رکھتاہے۔ ایسا ہی عذرا اصغر اپنی سادگی اور صاف گوئی کا ایک تاثررکھتی ہیں۔ ان کے برعکس اظہرجاوید ادبی دنیاکی اونچ نیچ سے بخوبی واقف ہیں۔ ”تخلیق“ کے صفحات پر متحارب دھڑوں کو ساتھ ساتھ رکھتے ہیں۔زندگی کے وارسہتے سہتے انہوں نے زندگی گزارنے کاہنرسیکھ لیاہے۔ عذرااصغریہ ہنرکبھی نہیں سیکھ سکیں گی۔
عذراصغرکی سادگی اور صاف گوئی کاایک واقعہ یادآرہاہے۔فیصل آباد سے کسی لڑکی نے تجدید کے لئے ایک مضمون بھیجایہ مضمون ایک ایسے صاحب کے بارے میں تھاجنہوں نے ادب کو صحافت کے مقام پرلاکھڑاکیاہے۔ اچھے بھلے ادیب ان صاحب کانام آتے ہی محتاط ہوجاتے ہیں۔ کوئی بھی ان کی صحافیانہ دہشت گردی کاشکار نہیں ہوناچاہتا۔ اسی لئے بعض معتبرقسم کے ادیب بھی اپنی سطح سے گرکراس ادیب نما صحافی کی تعریف بلکہ خوشامد کرتے ہیں اصولاًعذرااصغر کو اس صحافی کی شان میں لکھاگیا مضمون چھاپ کراس کی خوشنودی حاصل کرنی چاہئے تھی لیکن انہوںنے مضمون بھیجنے والی لڑکی کو خط لکھ دیاکہ جن صاحب کے بارے میں آپ نے مضمون بھیجاہے وہ سرے سے ادیب ہی نہیں ہیں۔ ڈنڈے کے زور سے وہ بے شک ادیب کہلاتے رہیں۔آپ کسی بھی ادیب پرمضمون بھیجیں میں ضرور چھاپوں گی لیکن میں غیر ادیبوں کو ادیب بناکر پیش نہیں کرسکتی۔ اس صاف گوئی کا نقصان عذرااصغرکو آخری دم تک اٹھاتے رہناہے۔
صاف گوئی سے بے مروّتی کاتاثر بھی پیداہوسکتاہے لیکن عذرااصغر بے مروّت نہیں ہیں۔ پرانے تعلقات کی ممکنہ حد تک پاسداری کرتی ہیں۔ سیدہ حنا سے ان کی پرانی دوستی ہے۔ ”تجدید نو“ چھپناشروع ہوا تو سیدہ حناکی طرف سے تعلقات میں کھچاؤپیداہوگیا۔ لیکن پہلے ایک اور ضمنی بات۔۔ سیدہ حنانے پہلے تین یکساں مصرعوں کے ہائیکو لکھے تھے۔ بعد میں بھید کھلاکہ ہائیکو کااصل وزن کچھ او رہے۔ اسی دوران سیدہ حنا نے تین یکساں مصرعوں کے ماہئے لکھنے شروع کردیئے بدقسمی سے مجھے وضاحت کرناپڑی کہ ماہئے کا اصل وزن بھی کچھ اور ہے۔ یہ ایک ادبی معاملہ تھااسے ادبی سطح پر ہی طے ہوناچاہئے تھالیکن شاید یہ سیدہ حناکی اناکامسئلہ بن گیا۔ اسی دوران ”سلگتے خواب“ چھپ گئی۔ میں نے کتاب کاایک سادہ سااشتہاربناکر ادارہ ”ابلاغ“ کی خدمت میں کتاب کے ساتھ بھیج دیا۔ ساتھ ہی لکھاکہ آپ کتاب پر تبصرہ مت چھاپیں صرف اشتہار چھاپ دیں۔ کسی دوست کادل پسیج گیاتوشاید کبھی کوئی مضمون بھی لکھ دے۔۔ سیدہ حناکواصل غصّہ تو ماہےے کے وزن کے مسئلہ پرتھامگر انہوں نے غلط طورپرمیرے خط کو آڑبناکرادارےے میں میری مذمت کرڈالی اور لکھاکہ ہم اتنی محنت کرکے تبصرے لکھتے ہیں اور آپ کو مختصر تبصرے پسند ہی نہیں آتے۔ میں نے ا سکے جواب میں پھر انہیں تفصیلی خط لکھاجسے انہوں نے اس طرح سنسرکرکے چھاپاکہ ان کی اصل نیت ظاہرنہ ہونے پائے۔۔ جب عذرااصغرکو یہ احوال معلوم ہوئے تو وہ خاصی حیران ہوئیں۔ پھر کہنے لگیں ادارےے کااصل پس منظر تو آپ سے معلوم ہواہے لیکن اگر صرف ادارےے کو ہی مدنظررکھیں تب بھی سیدہ حنانے آپ پر جوالزام لگایاہے بالکل وہی جرم تو وہ خود کرچکی ہیں۔ ”تجدیدنو“ میں ان کی ارسال کردہ کتب پر مختصر تبصرے چھپے تو ان کاشدید برہمی کا خط آیاکہ یہ تبصرہ چھاپنے سے بہترتھاآپ کچھ نہ چھاپتیں۔۔ یہ قصہ بتاکر عذرااصغرمسکرائیں پھر بولیں چاہوں تو میں بھی ان کاوہی برہمی والاخط چھاپ سکتی ہوں لیکن مجھے پھربھی پرانی دوستی کالحاظ ہے۔ اس بات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ صاف گوئی کے باوجود عذرااصغرپرانی دوستی کالحاظ بھی کرجاتی ہیں۔
ادیبوں اور پروفیسروں کے بھلکڑپن کے کئی لطیفے مشہور ہیں۔کسی حد تک یہ خوبی اس طبقے میں قدرتی طورپرہوتی ہے۔عذرااصغر کو قدرت نے اس نعمت سے کچھ زیادہ ہی نوازاہے اس کا سب سے زیادہ فائدہ خود عذراکواور نقصان اصغرمہدی کوہواہے۔
صاف گوادیبوں کواپنی صاف گوئی کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ پی آرشب کے اس دور میں انہیں ان کے جائز حق سے بھی محروم کردیاجاتاہے لیکن عذرا اصغر اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ بحیثیت افسانہ نگارپاکستان میں ہی نہیں بھارت میں بھی مسلسل نمایاں ہورہی ہیں۔ متعدد معیاری افسانوی انتخاب چھپے ہیں جن میں عذرااصغر کے افسانے شامل ہیں۔ جن دنوں میں عذرااصغر ”تخلیق“ کے ادارہ میں شامل تھیں تب ”تخلیق“ میں کچھ اس قسم کا اشتہارچھپاکرتاتھاکہ اب ادب کی جو بھی تاریخ چھپے گی اس میں عذراکانام نمایاںہوگا۔ ”تخلیق“ سے الگ ہونے کے بعد اب پتہ نہیں یہ اشتہارکیوں نہیں چھپتا۔۔ لیکن اس اشتہار کے نہ چھپنے کاایک فائدہ ضرور ہواہے اب عذرااصغرکانام سچ مچ افسانوی ادب کی تاریخ میں آنے لگاہے۔
٭٭٭