(ڈاکٹر وزیرآغا)
جو اپنی ذات میں سمٹا ہوا تھا
سمندر کی طرح پھیلا ہوا تھا
میراپہلا مضمون ۱۹۷۵ء کے لگ بھگ ”نگارپاکستان“ کے ایک شمارہ میں شائع ہواتھا۔ مضمون کاعنوان تھا ”موجودہ ادبی بے راہ روی“ اس مضمون میں ،میں نے ”ادب میں نیک مقصدیت“ کے تصور کو ادب کے لئے مضر سمجھا تھا اور ادب برائے زندگی اور ادب برائے ادب دونوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت کو محسوس کیاتھا۔تب میں ادبی دنیا میں نووارد تھا اور جدیداردوادب کا میرا مطالعہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ تاہم ادب کے بارے میں میرے تصورات مبہم اور غیرواضح ہونے کے باوجود میرے اندرکی کسی طلب کے ترجمان تھے۔ اسی دوران مجھے ”تنقید اور احتساب“ پڑھنے کا موقعہ ملاتویوں لگامیرے مبہم اور غیر واضح تصورات کو اصل صورت ملنے لگی ہے۔ یہ ڈاکٹر وزیرآغاسے علمی سطح پر میری پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد ”نظم جدید کی کروٹیں“اور ”نئے مقالات“ کے ذریعے ڈاکٹر وزیرآغاسے مزید دوملاقاتیں ہوئیںاور مجھے احساس ہواکہ ادب کے بارے میں جو کچھ میں سوچتاہوں مگر میری گرفت میں نہیں آپاتاوہ سب ڈاکٹر وزیرآغاکی گرفت میں ہے۔بقول غالب:
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
۱۹۷۸ءکے آخرمیں ”جدید ادب“ کتابی سلسلے کے اجراءکا پروگرام بنا۔ میں خانپور سے چل کر لاہور آیا۔ علی اکبر عباس پہلے ادیب تھے جو بڑی محبت سے ملے۔ میری حوصلہ افزائی کی۔ ٹی وی سنٹر اور پاک ٹی ہاؤس کی یاترا کرائی۔ لاہور کے ادیبوں سے نگارشات لے کر دیں۔ ”جدید ادب“ کے اولین کرم فرماؤں میں سراج منیر، اقبال ساجد،ا سلام عظمی، خالد احمد اور بعض دیگر ادباءشامل تھے۔ علی اکبر عباس کے توسط سے ہی ان ادباءنے اپنی تخلیقات عطاکی تھیں۔ ”جدید ادب“کا پہلا شمارہ چھپا۔ ادباءکی خدمت میں بھیجاگیامگر اہل لاہورنے اسے چنداں اہمیت نہ دی۔ اسی دوران ڈاکٹر انورسدید کاایک انٹرویو روزنامہ ”جسارت“ کراچی کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوا۔ اس انٹرویو کے ساتھ ان کا پتہ بھی درج تھا۔ میں نے انہیں خط لکھا اور ممکنہ حد تک قلمی معاونت کی درخواست کی۔ میں نے انورسدید کو خط کیا لکھاگویا دبستاں کھل گیا۔
دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے
کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو
ڈاکٹرانورسدید نے مجھے لاہور کے چکروں سے نجات دلادی۔ ادبی تحریروں کے حصول کے لئے اچھے اچھے ادیبوں کے پتے فراہم کئے۔ ان میں وزیرآغابھی شامل تھے۔ڈاکٹر وزیرآغانے میری معمولی سی درخواست پر جس محبت کے ساتھ اپنی نگارشات عطاکیں مجھے اس پر خوشگوار حیرت کا احساس ہوا۔ ”جدید ادب“ کے اجراءکابنیادی مقصدیہ تھاکہ بڑے شہروں کے ادیبوں کی اجارہ داری کے باوجود چھوٹے شہروں کے ٹیلنٹ کو بھی سامنے آنے کاموقعہ ملناچاہئے۔ بعد میں پتہ چلاکہ اہل سرگودہابھی ہماری طرح لاہوری ادیبوں کی اجارہ دارانہ ذہنیت کاشکارہیں اور کئی برس سے علمی اور تخلیقی سطح پر مصروف جہاد ہیں۔
اس تمہید طولانی سے میرا مقصد یہ ظاہرکرناتھاکہ ڈاکٹر وزیرآغاسے میرا تعلق کسی تعارف کے بغیرفکری سطح پر پہلے قائم ہواتھا۔ذاتی رابطہ اور شخصی سطح پر تعلق بہت بعد میں قائم ہوا۔میں نے وزیرآغاسے اپنے تعلق اور نیازمندی کو دوخانوں میں بانٹ رکھاہے۔ایک خانہ علمی اور فکری تعلق کاہے۔ ایک خانہ شخصی اور ذاتی تعلق کاہے۔ علمی لحاظ سے میں ڈاکٹر وزیرآغاکو اپنااستاد اور رہنماسمجھتاہوں۔ ان کی تنقید اور فکر سے میں نے ادبی رہنمائی حاصل کی ہے۔ میں نے افسانے لکھے تو انہوں نے قدم قدم پر مجھے شاباش دی۔ حوصلہ افزائی کی۔ مفید مشورے دیئے۔ کبھی کبھی بعض مشوروں سے مجھے الجھن بھی ہوتی تھی۔ ابھی میں نے چند افسانے لکھے تھے جو زیادہ تر”اوراق“ میں چھپ جاتے تھے۔ افسانہ ”پتھر ہوتے وجود کادکھ“ میں نے ”اوراق“ کے لئے بھیجاتو وزیرآغا نے مجھے خط لکھا: اگر آپ اسی انداز سے آگے بڑھتے رہے توبہت جلد صف اول کے افسانہ نگاروں میں شامل ہوجائیں گے۔ چنانچہ میں نے احتیاطاً اپنا انداز بدل لیاتاکہ صف اول کے جدید افسانہ نگاروں میں شامل ہوکر اپنا حشر بھی ان جیسانہ کرالوں۔ وزیرآغا نے مجھے انشائےے لکھنے کاشوق پیداکیا۔ میں نے اپنی ادبی زندگی کاآغاز غزل سے کیاتھا۔وزیر آغاسے رابطہ ہواتو مجھے پہلی بارماہنامہ ”اردو زبان“ میں شائع شدہ نظم ”دھوپ“ کے ذریعے شاعر وزیرآغاسے ملاقات کا موقعہ ملا۔ سردیوں کے موسم میں یہ نظم پڑھی تھی۔ مسرت اور حیرت کی ایک انوکھی سی کیفیت مجھ پر طاری تھی۔ میں شاعری کے ایک نئے ذائقے سے آشناہوا۔ پھر ”واپسی“ اور ”سمندر اگر میرے اندر گرے“ نظمیں پڑھیں اور میں وزیرآغاکی نظموں کا ہمیشہ منتظررہنے والا قاری بن گیا۔ میرے نزدیک وزیرآغاکی نظم میں جوجہانِ دیگر ہے وہ اس عہد کے کسی بھی دوسرے نظم نگار کونصیب نہیں ہوا۔
شخصی سطح پر قلمی رابطے کے بعد ڈاکٹر وزیرآغا۹۷۹۱ءکے اواخر میں اپنی بیٹی سے ملنے کے لئے رحیم یارخاں تشریف لائے۔خانپور بھی آئے۔ تب ان سے ملاقاتیں ہوئی۔ پہلی ملاقات کے وقت میرا پہلا تاثر یہ تھاکہ میں اس عہد کی اک بہت بڑی ادبی اور علمی شخصیت سے ملنے کااعزازحاصل کررہاہوں۔ پھر کبھی بہاولپور، کبھی لاہور اور کبھی سرگودہامیں ان سے ملاقاتیں ہوئی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
ڈاکٹر وزیرآغا میں ایک خوبی یہ ہے کہ اپنے دوستوں کو مطالعہ کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ عالمی ادب اور بالخصوص انگریزی ادب کی رفتار سے باخبر رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ شروع شروع میں انہوں نے مجھے بھی انگریزی کتب پڑھانے کی کوشش کی لیکن ان کے چکر میں آئے بغیر میں نے انہیں صاف صاف بتادیاکہ انگریز کی برصغیر پر سوسالہ غاصبانہ اور ظالمانہ حکمرانی کے باعث میں انگریزی زبان سے محبت نہیں رکھتا (انگریز خواتین اس سے مستثنیٰ ہیں)۔ دوسرے یہ کہ میری انگریزی اسکول کے زمانہ سے ہی اتنی خراب رہی ہے کہ انگریزی کتب پڑھنا میرے بس کا روگ نہیں ہے۔ سوانہیں اندازہ ہوگیاکہ انگریزی زبان سے میری واقفیت کاحال ان کے ”بھائےے“ جیساہے۔ چنانچہ پھر انہوں نے مجھے اس چکر میں الجھانا مناسب نہیں سمجھا۔۔۔۔وزیرآغاسے دوستی اور فکری ہم آہنگی نے مجھے عملی زندگی میں شدید نقصان بھی پہنچایاہے۔ میں پہلے ہی سے کچھ صوفیانہ فکروخیال کا آدمی تھا،اوپر سے وزیرآغانے دنیا سے بے نیازی اور ادب کوہی اولیت دینے کااتنااظہارکیاکہ میں نے دنیااور اس کی محبت کو بہت ہی حقیر سمجھ لیا۔۔ بچے بڑے ہوئے۔ سکول، کالج تک پہنچے۔ اخراجات بڑھے۔ مہنگائی بڑھی تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوا۔ تب پتہ چلاکہ دنیا سے اتنی بے نیازی بھی اچھی نہیں۔۔۔ دنیا سے بے نیازی اسی وقت اچھی لگتی ہے جب گھر میں کھانے پینے کے وافر اسباب موجود ہوں ورنہ انسان کاوہی حشر ہوتاہے جو میرا ہوا۔
۔۔۔۔وزیرآغاکے بہت سے دوست بنے۔ کچھ چند قدم چل کرجداہوگئے۔ بعض نے لمبی رفاقت کے بعد جدائی اختیارکرلی۔۔ بعض دوست غلام جیلانی اصغر، انورسدید، غلام الثقلین نقوی، صابر لودھی اور سجاد نقوی کی طرح دوستی نبھانے والے نکلے۔۔ جدا ہونے والوں میں سے کچھ لوگ جداہوکرخاموش ہوگئے۔۔ کچھ نے مخالفت پہ کمرباندھ لی۔۔ ایساکیوں ہوا؟
۔۔۔۔میں یک طرفہ بے لوث اور بے غرض محبت کونہیں مانتا۔ محبت ہمیشہ دوطرفہ ہوتی ہے۔ محبت بجائے خود ایک ایسا جذبہ ہے جو تسکین کی غرض رکھتاہے۔ اس لئے میں یہ نہیں مانتاکہ وزےرآغاکوچھوڑجانے والے لوگ محض اغراض کے بندے تھے۔ اصل خرابی یہ تھی کہ شدید محبت کے باعث وزیرآغاسے ان کی توقعات بہت بڑھ گئی تھیں۔ چنانچہ جب ان توقعات کو ٹھیس پہنچی تو جدائی واقع ہوگئی۔۔ جدائی کے بعد بعض صاحبان خاموش ہوگئے اور بعض نے مخالفت پرکمرباندھ لی یہ تو اپنے اپنے ظرف کی بات ہے۔
۔۔۔۔وزےرآغادشمن کے تیرسہنے کاحوصلہ رکھتے ہیں مگر دوستوں کے مارے ہوئے پھول نہیں سہہ سکتے۔ ہاں اگر دوست کھل کردشمن بن جائے تو پھر اس کی زہریلی مخالفت کو بھی ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ گھول کر پی جاتے ہیں۔ سطحی قسم کے مخالفین کے انداز مخالفت پر انہیں غصہ نہیں آتابلکہ مخالفوں کی ذہنیت پر رحم آتاہے۔ البتہ جو لوگ مکارانہ اور سازشی انداز اختیارکرتے ہیں ان کے روےّے پر وزیرآغاکو افسوس بھی ہوتاہے اور رنجیدہ بھی ہوتے ہیں۔۔علمی اور فکری اختلاف رائے کو وزیرآغانے ہمیشہ کشادہ بازؤں کے ساتھ سینے سے لگایاہے۔مخالفت کی آندھیوں اور دشمنی کے سیلابوں کے پے درپے حملے سہنے کے باوجود اور اپنی عمر کے ستربرس عبورکرلینے کے بعد بھی وزیرآغاباغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں۔شگفتگی ان کے مزاج کا حصہ ہے۔۔لطیفہ بازی، ہنسنے ہنسانے کااکتسابی عمل ہے۔ لطیفہ بازادیبوں پر بعض اوقات اس کا اتناگہرااثر پڑتاہے کہ ان کی تخلیقات بھی اکتسابی عمل دکھائی دینے لگتی ہیں۔ لطیفہ بازی کی کئی عبرتناک مثالیں لاہورمیں موجود ہیں۔ وزیرآغالطیفہ باز ہیں نہ جملہ باز۔۔ وہ تو جملہ تخلیق کرتے ہیں اور اس میں ایسابے ساختہ پن ہوتاہے کہ نشانہ بننے والا بھی لطف اندوز ہوتاہے۔ شاید اس لئے بھی کہ ان کے جملے میں ڈنک نہیں ہوتا۔
عام طورپر مجلسوں میں ہنسنے ہنسانے والوں کا علم کاخانہ خالی ہوتاہے مگر وزیرآغاایک طرف شگفتگی اور خوش مزاجی کا سمندرہیں تو دوسری طرف علم کا بحرذخارہیں۔ میں نے نجی گفتگو میں بھی وزیرآغا سے بہت کچھ سیکھاہے۔ الٰہیاتی مسائل، روح کی حقیقت، انسان کی مخفی قوتیں اور کائنات کی بے پناہ وسعتیں۔۔ ان موضوعات پر ان سے کھل کرباتیںکی ہیں۔بعض ایسی باتیں جو اپنے آپ سے کرتے ہوئے بھی کبھی کبھار خوف محسوس ہوتاہے وزیرآغاسے بے خوف ہوکرکی ہیں اور ان کی گفتگو سے بہت کچھ حاصل کیاہے۔ ان کے گاؤں وزیرکوٹ میں کھیتوں کے دورتک پھیلے ہوئے سلسلے بھی دیکھے ہیں اورآسمان پرڈوبتے سورج کا منظربھی دیکھاہے۔۔ طویل وعریض کھیتوں میں کھڑے ہوکر میں نے یہ تجربہ بھی کیاکہ کس طرح معمولی سازاویہ بدلنے سے سامنے کاسارا منظر تبدیل ہوجاتاہے۔ اس سے کائنات کی نیرنگیوں کا اندازہ ہوا۔
وزےرآغانے ایک دوبار میرے گھر کو بھی اپنی آمد سے رونق بخشی۔ ایک دفعہ اباجی کی زندگی میں آئے۔اباجی اور وزیرآغاکی مختصرسی ملاقات ہوئی۔ اباجی کسی اورلائن کے آدمی تھے لیکن وزیرآغاکے جانے کے بعد خوشی کااظہارکرتے ہوئے کہنے لگے بھئی تمہارے وزیرآغاکی آنکھوں میں بڑی انوکھی چمک ہے اور اس کے چہرے پر کسی روشنی کا ہالہ سا محسوس ہوتاہے اباجی کی ملاقات و۔ع۔خ سے ہوتی تو شاید کچھ ایسی صورت بنتی:
اس نے کاغذپہ لکھا روگ تمہارایہ ہے
میں نے کاغذ پہ لکھا روگ تمہارا بھی تومیرے ہی سجل روگ کاآئینہ ہے
اورپھرآئینے اک دوسرے کو دیکھ کے حیران ہوئے
اپنے روگوں کے نگہبان ہوئے!
وزیرآغاکوسائنسی انکشافات اور طبیعات کے مضمون سے بڑی دلچسپی ہے۔ طبعیات پر ان کی معلومات اتنی تازہ ترین ہے کہ میرے ایک عزیز اور طبیعات کے پروفیسر ادریس احمداس بارے میں باربارحیرت کااظہارکرتے رہے ہیں اور تاحال ان کی حیرت ختم نہیں ہوئی۔
جولوگ مختلف علوم کے ادب کے ساتھ ربط کی نوعیت کوجانناچاہتے ہیں انہیں وزیرآغاکی کتب ضرور پڑھنی چاہئیں اور طلب زیادہ ہوتو ملاقات بھی کرنی چاہئے۔ علم کے جو ایسے دلدادہ تاحال وزیرآغاکی کتابیں نہیں پڑھ سکے یا ان سے ملاقات نہیں کرسکے ان کے بارے میں یہی کہوں گا: افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
اردوانشائیہ کے بانی، جدید تر نظم کے پیش رو، اردو تنقید کی منفرد اور عالمانہ آواز۔۔ ڈاکٹروزیرآغاعہد ساز شخصیت ہیں۔ اپنی بعض بشری کمزوریوں کے باوجود ہمارے ادب اور ہمارے عہد کا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ مجھے فخرہے کہ مجھے ان سے اکتساب علم اور نیاز مندی کا شرف حاصل ہے۔
٭٭٭