(فیض احمد فیض)
چند لمحے وہ ان سے ملاقات کے
میری سانسوں میں برسوں مہکتے رہے
فیض احمد فیض اردو شاعری کاایک معتبرنام ہیں۔ شخصی حوالے سے دیکھاجائے توایک ملاقات اور چند خطوط کے تبادلے ہمارے درمیان تعلق کی وہ صورت پیدانہیں کرسکے جو اجنبیت کودور کرنے والی ہوتی ہے۔ یوں کہہ سکتاہوں کہ میں فیض کے معاملے میں اجنبی کااجنبی ہوں، لیکن فیض کی شاعری اور شخصیت دونوں میں اتناجادو ہے کہ دور بیٹھے ہوؤں کو بھی اپنااسیر بنالیتاہے۔ سو میں فیض کے ایسے اسیروں میں سے ہوں اور اس لحاظ سے ان کا شناسابھی ہوں۔
فیض نے بچپن میں والدہ سے قرآن شریف پڑھا۔ کچھ حصہ قرآن شریف کاحفظ کیا۔ ایم اے انگریزی کیا۔ ایم اے عربی کیا۔ امرتسر کالج میں پڑھایا۔ برطانوی ہند کی فوج میں بھرتی ہوئے اور لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچے۔ پاکستان بننے سے پہلے قائد اعظم کی منظوری سے پاکستان ٹائمز اور روزنامہ امروز کے چیف ایڈیٹر بنے۔ بے باکانہ صحافت کے جرم میں ۸۴۹۱ءمیں پہلی بار گرفتار ہوئے، مشہور راولپنڈی سازش کیس میں گرفتارہوئے۔ مجموعی طورپر تین بار گرفتارہوئے۔ فیض نے ادب کا لینن پرائز حاصل کیاجسے ”یارلوگوں“ نے ان کی شہرت سے زیادہ رسوائی کاموجب بنادیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے اولین دور حکومت میں وزیراعظم کے مشیر برائے تعلیمی و ثقافتی امور بنے۔ اسی دوران بیوروکریسی سے اختلافات کے باعث مشیر کے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔مارشل لاءکا تیسرا دور آیاتو فیض کچھ عرصہ بعد ملک سے باہر چلے گئے۔بیروت میں فلسطینی کاز کو تقویت پہنچانے کے لئے کام کیا۔ لوٹس کے مدیربنے ۔وطن کی کشش پاکستان واپس لائی لیکن شاید یہ مٹی کا بلاواتھا۔ پاکستان واپسی کے تھوڑے عرصہ بعد ۴۸۹۱ءمیں فیض فوت ہوگئے۔ فیض کی زندگی کایہ بے حد مختصر سااشاریہ تھا۔
۔۔۔۔نقشِ فریادی ،دستِ صبا، زنداں نامہ، دستِ تہہ سنگ، سروادیٔسینا، شام شہریاراں، مرے دل مرے مسافر اور غبارایام یہ آٹھ شعری مجموعے شاعری کی دنیا میں فیض کی یادگارہیں۔ ان مجموعوں پر مشتمل کلیات فیض ”نسخہ ہائے وفا“ کے نام سے چھپ چکی ہے۔ ”صلیبیں مرے دریچے میں“۔ متاع لوح و قلم“ اور ”ہماری قومی ثقافت“ فیض کی نثری کتابیں ہیں۔
فیض کے ناقدین دو طرح کے ہیں۔ ایک تووہ جواُن کے ہاں ایک دور تک تازگی اور شعری توانائی کو تسلیم کرتے ہیں مگر بعد میں ان کے ہاں انجماد کااحساس دلاتے ہیں۔ ایسے ناقدین میں ڈاکٹر وزیرآغا، انیس ناگی اور خورشید الاسلام جیسے معتبر لوگ شامل ہیں۔ اپنا موقف دلائل کے ساتھ ثابت کرتے ہیں تاہم اس کا اعتراف تینوں کوہے کہ فیض ترقی پسند تحریک کی سب سے بڑی عطاہیں اور ان کے ابتدائی مجموعے انہیں بطورشاعر زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں۔ دوسرے ناقدین جناب احمدندیم قاسمی کے زیراثر لکھنے والے ہیں اور ان کا اختلاف علمی و ادبی سے زیادہ ذاتی ہے۔ چنانچہ ایسے ناقدین نے کبھی فیض اورقاسمی کو ہم پلہ ثابت کرنا چاہاتو کبھی کسی حیلے سے جناب قاسمی کو فیض سے بھی بڑا شاعر ثابت کرنے کی کوشش کی۔فیض کی وفات کے بعد خیال تھاکہ معاصرانہ چشمک ختم ہوجائے گی۔ لیکن جناب احمد ندیم قاسمی نے اخبار ”جنگ“ لاہور کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں خود کو درباری شاعر ہونے کے الزام سے بچانے کے لئے فیض کو بھی درباری شاعرہونے کاطعنہ دے دیاہے۔ یہ طعنہ اور الزام حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ فیض نے گرفتاری کے طویل تر زمانے کاٹے مگر جناب احمدندیم قاسمی کی طرح حکومت کو پہلی اور آخری گرفتاری پر ایسی پیش کش کبھی نہیں کی کہ سرکار ہم پر اعتماد کریں ہم آپ کو ایسا ادب پیش کریں گے جو پولیس رپورٹوں کا متبادل ہوگا۔۔ فیض بھٹودورمیں مشیر رہے تو جوڑ توڑکے ذریعے نہیں بنے بلکہ ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں انہیں یہ عہدہ دیاگیا۔ اس میں بھی انہیں خلاف مزاج کام کرنے کے باعث الجھن محسوس ہوئی تو انہوں نے بلاتاخیر استعفیٰ دے دیا۔
فیض سے میری ملاقات ان ایام میں ہوئی جب وہ وزیراعظم کے مشیر تھے۔ لاہور میں ان کے آفس میں سادہ سے کمرے، عام فرنیچر اور سخت گرمیوں کے باوجود چھت کے پنکھوں کے سواکچھ نظر نہیں آیا۔ نہ اعلیٰ فرنیچر، نہ خوبصورت قالین، نہ ایئرکنڈیشنڈ۔۔ میں ادب میں نووارد تھا۔ خانپور میں ہماری محدود ادبی سرگرمیاں تھیں۔ روزنامہ ”مغربی پاکستان“ لاہور کاایک شمارہ میرے پاس تھاجس میں خانپور کی ادبی ڈائری چھپی تھی۔ اس میں بیک وقت فیض اور نثری نظم کی تحریک کاذکرِ خیر تھا۔ میں نے اپنا مختصر سا تعارف کرایا۔ اخبار پیش کیا۔ فیض نے ہلکے سے انداز میں حوصلہ افزائی کی پھر کہنے لگے آپ نوجوان لوگ ہیں نثری نظم کے جھمیلے میں کہاں پڑرہے ہیں۔ سومیں فیض کے پاس سے ہی نثری نظم سے تائب ہوکراٹھا۔۔ رسمی گفتگو کے بعد میں نے اپنا ذاتی مسئلہ پیش کیا۔ ایک عرصہ سے مناسب جاب کی تلاش میں سرگرداں ہوں مگر بغیر سفارش کے کہیں بھی دال نہیں گلتی۔ فیض تھوڑی دیر کے لئے سوچ میں ڈوبے، پھر سراٹھایا۔ میرے ضروری کوائف معلوم کئے اورکہا ریڈیو کے اسسٹنٹ پروڈیوسر کی جاب کے لئے درخواست لکھ دو۔ میں نے وہیں درخواست لکھ کر ان کے حوالے کی اور گھر آگیا۔تقریباً ایک ماہ انتظارکے بعد میں نے انہیں ٹیلی گرام بھیجا۔ جواباً ان کا ٹیلی گرام آیاکہ درخواست آگے بھیج رکھی ہے بہتر امید رکھیں۔۔ تھوڑے عرصے بعد خبرسننے میں آئی،فیض نے وزیراعظم کے مشیر کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔میری قسمت میں تومستقل بے روزگاری لکھی تھی میں نے فیض کو بھی بے روزگارکردیا۔
تیسرے مارشل لاءکے کچھ عرصہ بعد فیض بیروت چلے گئے۔ مرزاظفر الحسن سے ان کا پتہ حاصل کرکے ان سے ”جدیدادب“ کے لئے تازہ غزل منگائی:
سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں
کبھی صحبتیں، کبھی فرقتیں، کبھی دوریاں، کبھی قربتیں
یہ غزل سب سے پہلے ”جدیدادب“ میں چھپی۔ بعد میں اسے ”افکار“ اور ”سیپ“ نے بھی شائع کیا۔ پھر ان کی نظم ”آج شب کوئی نہیں“ منگاکر شائع کی۔ ”جدید ادب“ سے لے کر جاپان کے پروفیسر کتاؤ کانے اسے جاپانی میں ترجمہ کیا۔ اس بارے میں فیض نے مجھے خط لکھاکہ پروفیسر کتاؤکاکوپاکستانی رسائل بہت کم پہنچتے ہیں آپ جدید ادب انہیں بھیجتے رہاکریں۔
۔۔۔۔بھارت میں برادرم مناظرعاشق ہرگانوی آزادغزل کی تحریک کو بڑھانے میں سرگرم ہیں۔ ایک بارانہوں نے مجھے آزاد غزلوں کاایک انتخاب بھجوایاجس میں فیض کی ایک آزاد غزل بھی شامل تھی۔ مجھے حیرت ہوئی تاہم میں نے فیض کی آزاد غزل سمیت انتخاب چھاپ دیا۔ یہی آزاد غزل پھر ماہنامہ شاعر بمبئی کے آزاد غزل و نثری نظم نمبر میں بھی شائع ہوئی۔ بعد میں معلوم ہواکہ یہ تو فیض کی ”شام شہریاراں“ کی ایک نظم تھی جسے قطع وبرید کرکے بڑی عمدگی سے آزاد غزل بنادیاگیاتھا فیض صاحب نے کسی محفل میں وضاحت کی کہ میں آزادغزل اور نثری نظم دونوں ”خوبیوں“ سے پاک ہوں۔ کچھ عرصہ بعد فیض کی آزادغزل کے سلسلہ میں آزاد غزل کے بانی مظہرامام سے جنگ لاہور میں چھپنے والے انٹرویومیںسوال کیاگیاتو انہوںنے کمال محبت سے فیض کی آزاد غزل کی دریافت واشاعت کا سہرا ”جدید ادب“ کے سرباندھ دیا۔ ممکن ہے انہیں واقعی علم نہ ہو لیکن ڈاکٹر مناظرعاشق ہرگانوی زندہ ہیں وہ یقیناً اعتراف کریں گے کہ فیض کی آزاد غزل مجھے انہوں نے بھجوائی تھی سو اس کی دریافت کاسہرا انہیں کے سر ہے۔
۔۔۔ ۔فیض کم گوانسان تھے۔ کہتے ہیں کہ کم گو لوگ یا بہت چالاک ہوتے ہیں یابہت بے وقوف ۔ فیض یقینا ہوشیار آدمی تھے۔ پاکستان کے ماحول میں ان کی کم گوئی ان کے لئے سوسُکھ کا موجب بنی۔ فیض بہت اچھے انسان تھے لیکن فرشتہ نہیں تھے۔ راولپنڈی سے ایک ممتاز ادیبہ ابھری تھیں۔ آج وہ تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ انہوں نے فیض کے مقام و مرتبہ کے باعث انہیں اپنے گھر پرمدعوکیا۔ فیض ”ہم مشربوں“ کے ساتھ پہنچے۔ وہاں ایک دو دفعہ محفل ناؤ ونوش جمائی۔ پھر فیض اپنی دیگر مصروفیات میں الجھ گئے مگر ان کے بعض ”ہم مشرب“ تواترسے وہاں جاتے رہے اور اپنی ثابت قدمی سے اس خاتون کو بھی اپنی محفل میں شریک کرلیا۔ ملک کاسیاسی منظرنامہ تبدیل ہوا۔ شراب مہنگی ہوئی تو یارلوگ تتربترہوگئے۔ خاتون نشہ کی عادی ہوچکی تھیں۔ آخر سستے نشے کی طرف راغب ہوئیں۔ ادبی تنقید کی متوقع ہیروئن۔۔ نشہ آور ہیروئن کی بھینٹ چڑھ گئی۔ یہ زندہ لاش ابھی بھی راولپنڈی میں موجود ہے۔ رشیدین(رشید امجد اور رشید نثار) سے تفصیلات معلوم کی جاسکتی ہیں۔ یہ لاش بزبان حال آج بھی اپنے مہربانوں سے کہہ رہی ہے:
ویسے توتمہیں نے مجھے برباد کیا ہے
الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا
۔۔۔۔فیض بہت بڑے شاعر تھے لیکن ان کے ساتھ المیہ یہ ہواکہ انہیں ایسے مدّاح مل گئے جن کے نزدیک فیض کی شاعری سے زیادہ ان کا ”پائے جامہ“ باعث افتخارہے۔ مریدان باصفاشاےدفیض کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈنا چاہتے تھے۔ وہ تو خدابھلاکرے ایلس فیض کا جنہوں نے قصۂ زمےن برسرزمین ہی نمٹادیاوگرنہ ”پائے جامہ“ کے بعد ”زیرجامہ“ کی باری بھی آتی۔ غالب کے ہاں تارتار گریباں اور دامن تارتار تو بہت ملتاہے مگر پائے جامہ کا کوئی ذکرہی نہیں ہے۔
۔۔۔۔میں فیض مرحوم کودُورسے دیکھنے والوں میں سے ہوں لیکن میری دعا ہے کہ خدا انہیں قریب کے ان ساتھیوں کے شرسے محفوظ رکھے جن کے ہوتے ہوئے فلک ناہنجار کو ان سے دشمنی کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔
٭٭٭