(پانچوں بچے)
میں نے اپنی دیانت کی سب دولتیں اپنی اولاد کو دیں فقط
اور باقی عزیزوں کو صرف اور صرف اپنے حصے کا گھر لِکھ دیا
بعض والدین کی اولاد نالائق ہوتی ہے۔ میں وہ خوش قسمت ہوں جو پانچ اچھے بچوں کا نالائق باپ ہوں۔ میرے بچوں کی عالی ظرفی ہے کہ انہوں نے میری تمام تر نالائقیوں کے باوجود مجھے باپ کاپورااحترام دے رکھاہے۔ یہ بات میں نے مزاح پیداکرنے کے لئے نہیں لکھی بلکہ واقعتاً ایک حقیقت بیان کی ہے۔ زندگی بھر میں ادب اور کچھ اور فضول سے چکروںمیں ایسا الجھارہاکہ بچوں کی پرورش کی طرف دھیان ہی نہیں دیا۔ ویسے اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ مبارکہ نے بچوں کو بخوبی سنبھال رکھاتھا۔ پھر اباجی اور امی جی بھی زندہ تھے اس لئے مجھے بچوں کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی۔
رضوانہ میری پہلی بیٹی ہے۔ ابھی میں خود کو بچہ ہی سمجھتاتھاکہ باپ بن گیا۔ باپ کہلانے کی خوشی میں رضوانہ کی پیدائش پر میں نے اسے گودمیں اٹھایااور پیارسے اس کا منہ چومنے لگا۔ اس پر ایک بزرگ نے مجھے ٹوکاکہ بیٹیوں کی پیدائش پر ایسی خوشی کا اظہارنہیں کرتے۔ چونکہ مجھے ایسے رواجوں کی کچھ خبرنہ تھی اس لئے ان بزرگ کے احترام کو توملحوظ رکھا لیکن رضوانہ کو اسی طرح پیارکرتارہا۔ اس کے لئے کئی کھلونے خریدے لیکن اس کے کھیلنے سے پہلے ہی وہ کھلونے میرے چھوٹے بھائیوں چنّو، منّو کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ جاتے رہے۔ رضوانہ تھوڑی بڑی ہوئی تو اس کے لئے ایک ٹرائیسکل خریدی لیکن اس سے پہلے کہ رضوانہ اسے چلاناسیکھتی، یہ ٹرائیسکل بھی چنے، منے کے ہاتھوں اپنے انجام تک جاپہنچی۔ رضوانہ نے اس نقصان کی تلافی یوں کی کہ بڑی ہو کر بائیسکل چلاناسیکھی۔ پاکستان میں بھی اور جرمنی آکر بھی، سکول جاناہوتایاکوئی چھوٹی موٹی شاپنگ کرنی ہوتی وہ اپنے بچپن کا سائیکلنگ کاشوق پوراکرلیتی تھی۔ اب تو خیر سے کارڈرائیونگ بھی سیکھ چکی ہے۔
۔۔۔۔میں مارپیٹ کواچھانہیں سمجھتا لیکن ناتجربہ کارباپ ہونے کے زمانے میں بچوں کے ساتھ تھوڑی سی ماردھاڑ(مار کم اور دھاڑزیادہ) ضرورکی تھی۔ بیٹوں کی مرمت کرنے میں تو خیر کوئی خاص حرج نہیں لیکن بیٹی کومارنازیادتی ہے۔ میں نے رضوانہ کو اس کے بچپن میں تین دفعہ مارا۔ اب سوچتاہوں تو دوباتیں ذہن میں آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ رضوانہ میں مجھے آپی کی ہلکی سی جھلک محسوس ہوتی ہے۔ آپی پہلوٹھی کی تھی،رضوانہ بھی پہلوٹھی کی ہے۔بچپن میں شرارتیں کرنے پرمجھے خاصی مارپڑتی تھی مگر قصور ثابت ہوجانے کے باوجود آپی کوایک تھپڑ یا چپت سے زیادہ سزا نہیں ملتی تھی۔ آپی سے محبت کے باوجود ہوسکتاہے لاشعور میں غصے کی کوئی لہردبی ہوئی ہو،پھر جب رضوانہ میں مجھے آپی کی جھلک نظرآئی تو رضوانہ کو پیٹ کر میں نے آپی کا غصہ اتارلیا۔دوسری بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بچپن میں اکثر یہ خواہش ہواکرتی تھی کہ جلدی سے بڑاہوکرابو بن جاؤں اور پھر اپنے بچوں کی پٹائی کیاکروں۔ سو اس خواہش کی زد میں بھی پہلے رضوانہ ہی آئی۔ اب جواُن تین پٹائیوں کویادکرتاہوں تو اس کے سر اور کندھوں پر پڑے ہوئے سارے تھپڑ مجھے اپنے دل پر پڑتے محسوس ہوتے ہیں۔ رضوانہ کو تو شاید وہ ماریاد بھی نہ ہومگر میں ابھی تک اپنے دل پر وہ مار سہہ رہاہوں۔
سب سے چھوٹی بیٹی درِّثمین(مانو) رضوانہ سے گیارہ سال چھوٹی ہے۔ ایک دفعہ مانواپنی موج میں محمد رفیع کاایک گیت توتلی زبان میں گارہی تھی۔ بابل تی دعائیں لیتی جا، جاتجھ تو ستھی سنسارملے۔۔ رضوانہ نے مانو سے پوچھا: بابل کا مطلب جانتی ہو؟۔۔ مانو نے کہا: نہیں۔۔ اس پر رضوانہ نے اسے بتایاکہ بابل، ابو کو کہتے ہیں اور گیت کا مطلب یہ ہے کہ باپ اپنی بیٹی کی شادی کرکے اسے رخصت کررہاہے۔ ساتھ ہی اسے یہ بھی کہہ دیاکہ جب تمہاری شادی ہوگی تو تمہیں رخصت کرتے وقت ابویہی کسیٹ لگائیں گے۔ یہ بات سن کر مانونے زاروقطار روناشروع کردیا۔ میں نے اور مبارکہ نے اسے سمجھایاکہ بیٹیاں تو ہمیشہ دوسرے گھروں میں بیاہی جاتی ہیں۔ یہ سن اس نے اور زیادہ روناشروع کردیا۔میں نے امی ابو کونہیں چھوڑنا۔ آخر ہم نے کہا اچھا باباجیسا تم چاہوگی ویسا کریں گے، بس اب چپ کر جاؤ۔ بڑی مشکل سے اسے چپ کرایاتو رضوانہ کہنے لگی: ”چندری ماری!اتنا تو تم اپنی شادی پر بھی نہیں روؤں گی جتنا اب رورہی ہو“۔
امی ابونے جس طرح ہمیں مروّجہ اخلاقیات کی خوفناک حد تک تلقین کی تھی کچھ ایسا ہی رضوانہ کے ذہن میں بھی بٹھادیاتھا۔ ”دیانت داری“کاایک دلچسپ واقعہ رضوانہ سے سرزد ہوا۔رضوانہ اپنے بھائی عثمان کے ساتھ جارہی تھی۔ رستے میں عثمان کو کرنسی نوٹوں والا ایک ہارملا۔ اس نے اٹھالیا۔رضوانہ نے ایمانداری کے جذبے سے سرشار ہونے کے باعث عثمان کو سختی سے کہاکہ یہ ہارہمارا نہیں ہے اس لئے اسے فوراً پھینک دو۔ عثمان چھوٹا ہونے کے باعث بڑی بہن کی بات ماننے پرمجبورتھا چنانچہ اس نے ہار پھینک دیا۔ مجھے اس کاعلم ہواتو میں نے بچوں کو سمجھایاکہ اصل دیانت داری کیاہوتی ہے۔ رضوانہ کو اپنی حماقت کااحساس ہوچکاتھا۔ جلد ہی اس نے پہلی حماقت کی تلافی کردی۔ اس بار بھی عثمان اس کے ساتھ تھا۔ رضوانہ کو چیونگم کاایک پیکٹ سر راہ ملا جو اس نے اٹھالیا۔ اب عثمان نے اسے کہاکہ اسے پھینک دو۔ لیکن میں نے بچوں کو اصل دیانتداری کا جو مفہوم بتایاتھا وہ رضوانہ کویادتھا اور وہ اپنی پہلی حماقت کی تلافی بھی کرناچاہتی تھی چنانچہ اس نے چیونگم نہیں پھینکی۔ عثمان کو آج تک اپنے کرنسی نوٹوں کے زیاں کاغم ہے۔ اس کا خیال ہے کہ دو تین سو روپوں والا وہ ہار ہمارے پاس ہوتاتو ہم بے حد امیر ہوگئے ہوتے۔
جب میں ابھی پاکستان میں تھا،رضوانہ نے مجھے جرمنی سے خط لکھاکہ میںنے مختلف مضامین میں اتنے اچھے نمبرلئے ہیں۔ ساتھ ہی لکھاہمارے انگلش کے ٹیچر کہتے ہیںکہ تمہاری انگریزی اتنی اچھی ہے کہ اندازہ نہیں ہوتاتم برصغیر کے کسی ملک سے تعلق رکھتی ہو۔ اس پر میں نے اسے لکھاکہ آپ کے ٹیچرکے ریمارکس سے یہ یقین کرنے کی بجائے کہ آپ کی انگلش واقعی اچھی ہوگئی ہے، مجھے یہ یقین ہوگیاہے کہ آپ کے انگلش کے ٹیچر کی اپنی انگلش خاصی کمزورہے۔ یوں بھی جرمنوں جیسی انگریزی تومیاں خود بھی بول لیتاہوں جسے انگریزی آتی ہی نہیں۔
رضوانہ،شعیب اور درِّثمین کی زبان بچپن سے ہی صاف تھی، تتلاہٹ نہیں تھی۔ عثمان ’ش‘ کو’س‘ بولتاتھا۔ اس نے بھی اس کمی کو جلد کورکرلیا۔ ایک دن باہر سے کھیل کرآیاتو کہنے لگامیں اب ش بول سکتاہوں۔ ہم نے کہاکوئی لفظ بولو۔ اس پر اس نے کہا ”شبنم“ (تب فلمی اداکارہ شبنم خاصی مشہور تھیں) ٹیپو(طارق محمود) کاف کوتاف اور گاف کو داف بولتاتھا۔ چار سال کی عمر میں اس نے مجھے بتایاکہ مجھے یہ گانا بہت اچھالگتاہے:تبھی نہ تبھی، تہےں نہ تہےں، توئی نہ توئی تو آئے دا(کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی تو آئے گا)
مانو(درِّثمین)ٹیپو کے توتلے پن کا مذاق اڑاتی۔ اس کی نقل اتارتے اتارتے خود توتلی ہوگئی۔شروع میں تو ہم اس کے توتلے پن کو اس کا مذاق سمجھتے رہے لیکن جب یہ اس کی عادت بن گئی تب پریشانی ہوئی۔ گیت گانے کا مانو کو بہت شوق ہے۔ اپنی موج میں گاتے ہوئے اس نے کئی گیتوں کاحلیہ درست کرکے رکھ دیاتھا:تٹ تٹ باجرہ میں توٹھے اتے پانی آں(کٹ کٹ باجرہ میں کوٹھے اتے پانی آں)
تبھی تبھی مرے دل میں تھیال آتاہے( کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتاہے)
کبھی کسی بھائی یا بہن سے تنگ آتی تو بڑا ایکشن بناکرماتھے پر ہاتھ مارتی اور کہتی:
”اومائی داڈ“ (اومائی گاڈ)۔
اب مانوکاتوتلاپن ختم ہوچکاہے لیکن فکرمندی کے باوجود اس کی توتلی زبان ایک عرصہ تک ہم سب کی دلچسپی اور تفریح کاسامان بنی رہی۔ رضوانہ سے سب سے زیادہ محبت بھی اسی کوہے اور سب سے زیادہ جھگڑابھی اسی کے ساتھ کرتی ہے۔ ایک دفعہ میں نے دیکھادونوں میں کوئی اختلاف تھا۔رضوانہ نے اس کے سرپرایک چپت رسید کردی۔ مانو نے پہلے توبڑی بیبیوں کی طرح بے حد سنجیدگی سے رضوانہ کودیکھااور پھر اپنے سے گیارہ سال بڑی بہن کو ڈانٹتے ہوئی بولی ”شرم نہیں آتی۔۔ بڑی باجی سے بدتمیزی کرتی ہو“۔ یہ ڈرامائی ڈائیلاگ سن کر رضوانہ نے اپنی پانچ سالہ ”بڑی باجی“ کو پیارسے گود میں اٹھالیا۔
۔۔۔۔مانو خواب دیکھنے سے زیادہ خواب سوچتی ہے۔کئی دفعہ ایسا ہواکہ سوکر اٹھی اور کہنے لگی ابو۔ابو میں نے ایک خواب سوچاہے۔ اس پر سارے بہن بھائی اس کا مذاق اڑاتے لیکن میں پوری سنجیدگی سے اس کا خواب سنتا۔ اس کے دیکھے ہوئے یاسوچے ہوئے خوابوں میں مجھے ننھی منی کہانیاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ننھی منی کہانیاں مانو کے ساتھ کھیلتی رہتی ہیں اور لگتاہے کہ کھیلتے کھیلتے مانو کے ساتھ ہی بڑی ہوتی جائیں گی۔ جہاں تک میں اندازہ کرسکاہوں میرے باقی سارے بچے سائنٹیفک اور حقیقت پسند قسم کے ذہن رکھتے ہیں۔میرا ادبی ورثہ شاید مانو سنبھالے گی۔ مانو میں مستقبل کی ادیبہ کی جھلکی مجھے کئی بار دکھائی دی ہے میںنے اباجی کا خاکہ لکھاتو پانچوں بچوں اور مبارکہ کوبٹھاکرسنایا۔سب نے اسے پسند کیا۔ بعد میں جتنے عزیزوں کے خاکے لکھے سب سے پہلے پانچوں بچوں اور مبارکہ کو سنائے۔ باباجی کا خاکہ سب نے پسند کیالیکن مانو نے فوراً کہا: ہائے ابو!آپ نے باباجی کاوہ نورجہاں کے گانے والا واقعہ تو لکھاہی نہیں۔ تب مجھے مانو میں مستقبل کی ادیبہ کی جھلک پہلی بار دکھائی دی۔ اسی دن سارا خاکہ دوبارہ لکھا اور اس میں مانو کے یادکرائے گئے واقعہ کااضافہ کیاور پھر اسے مانو سےOK! کرایا۔
ایبٹ آباد کی ملازمت کے دوران میں سکول کی لائبریری سے ٹیپو اور مانو کے لئے بچوں کی کہانیاں لے آیاکرتاتھا۔ آٹھ دس کہانیاں ایک ساتھ لے آتابعد میں وہ کہانیاں واپس کرکے اور کہانیاں لے آتا۔ ایک بارمانو میرے پاس آئی اور کہنے لگی: ابو!آپ کو لیلیٰ مجنوں کی کہانی کاپتہ ہے؟۔۔ میرے کان کھڑے ہوگئے۔ سات سال کی بچی اور لیلیٰ مجنوں کی کہانی۔۔ یا اللہ خیر!۔۔ میں نے ملائمت سے پوچھابیٹا!آپ نے یہ نام کس سے سنے ہیں؟ جواب ملاکہ کل آپ جو کہانیاں لائے تھے ان میں یہ کہانی تھی۔ میں نے کہانیا ںچیک کیں تو واقعی ان میں سولہ صفحات کی ایک چھوٹی سی کہانی موجود تھی۔ اب مانو نے مجھے بتاناشروع کیاکہ یہ کہانی بہت اچھی ہے۔مجنوں کی امی نے اسے بھیجاکہ لیلیٰ کے گھر سے گھی لے آؤ۔ لیلیٰ کی امی نے لیلیٰ سے کہاکہ مجنوں کو گھی دے دو۔ لیلیٰ نے کنستر اٹھاکر گھی انڈیلناشروع کیا تو لیلیٰ اور مجنوں دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور کنسترکا سارا گھی زمین پرگرکرضائع ہوگیا۔ اس پر لیلیٰ کی امی نے مجنوں اور لیلیٰ کو ڈانٹا تو مجنوں ڈرکے مارے جنگل کی طرف بھاگ گیا۔ لیلیٰ کی امی نے ٹھیک ہی تو ڈانٹاتھا۔ اتنا سارا گھی گراکر کتنا نقصان کردیاتھا۔کہانی کے اس ٹچ پر میں نے اطمینان کاسانس لیا۔ پھر مانو کہانی سناتی رہی مگر میں اس وقت چونکا جب اس نے کہا کہ آخر میں لیلیٰ اور مجنوں مرکردونوں ایک ہی قبر میں بندہوگئے اور پھر وہاں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔
ایک بار گھر میں بات ہورہی تھی کہ ہاشم اور اُمیہ٭ جڑواں بھائی تھے۔ پیدائش کے وقت دونوں کی پیٹھ آپس میں جڑی ہوئی تھیں۔ جنہیں تلوار سے آپریشن کرکے الگ کیاگیا۔سو ہاشم اور امیہ کی نسلوں میں بھی دیرتک تلوار چلتی رہی۔ اس دوران میرے دو چھوٹے بھائی اعجاز اور نوید باہر سے گھر میں داخل ہوئے بچپن میں اعجاز کو چنّا اور نوید کو منّا کہتے تھے۔ دونوں چاچوں کو ایک ساتھ دیکھ کر مانو نے بے ساختہ کہا: چُنّی مُنّی چُنّی مُنّی۔۔۔ دو بھرانواں دی اِکو پُنی (پنجابی میں بچے کی پیٹھ کو پُنی بھی کہتے ہیں)۔ بس ایسے ہی واقعات سے میرا قیاس ہے کہ درِّ ثمین (مانو) مستقبل میں ادیبہ بنے گی۔ واللہ اعلم
رضوانہ کے بعد پہلا بیٹا شعیب(زلفی) تقریباً سوادو سال کے وقفے سے پیدا ہوا۔ شعیب سے ٹھیک ایک سال اور آٹھ دن کے بعد عثمان پیداہوا۔ عثمان کی جلدبازی کے باعث شعیب نے ماں کادودھ بہت کم پیا۔ اس کااثر اس کی صحت پر پڑا۔ تاہم اب اس نے اس کمی کو بڑی حد تک پوراکرلیاہے۔ عثمان کے بعد لمبا وقفہ دینا پڑاکیونکہ شعیب کے علاوہ خود مبارکہ کی صحت بھی خراب ہورہی تھی۔ ساڑھے چھ سال کے بعد طارق(ٹیپو) پیداہوا اور اس سے ایک سال چار ماہ کے بعد مانو پیداہوئی۔
میں نے شروع میں بحیثیت باپ اپنی نالائقی کا اعتراف کیاہے۔ شعیب کے معاملے میں ایک باریہ نالائقی حد سے گزرگئی۔ میرے بھائی اکبر کی شادی تھی۔ شعیب تقریباً چھ سال کاتھا۔اسے اکبرکا شہ بالابنایاگیا۔ کراچی سے شادی کرکے واپس آئے۔ خانپور ریلوے اسٹیشن پر ساری بارات اترآئی۔ اسٹیشن سے اترکر تانگوں پر آبیٹھے۔ اچانک مبارکہ چلائی زلفی کہا ںہے؟ دراصل شعیب گاڑی میں سویا رہ گیاتھا۔ گاڑی نے آخری وسل دے کر رینگنا شروع کردیاتھا۔ چھوٹے بھائی طاہرنے دوڑ لگائی۔ چلتی گاڑی میں چھلانگ لگاکرسوار ہوا، زنجیر کھینچی۔ گاڑی رُک گئی۔ شعیب بدستور برتھ پر سویا ہواتھا۔ طاہر اسے سوئے ہوئے کواٹھالایا۔اب بھی کبھی یہ واقعہ یادآتاہے تو اپنی نالائقی کا احساس بڑھ جاتاہے۔ اگر گاڑی نکل گئی ہوتی تو کیاہوتا!
شعیب پڑھائی میں تیز ہے جبکہ عثمان جسمانی طورپر تیز ہے۔ ایک بار طاہر نے اپنے بھتیجے عثمان سے کہاکہ اگر شعیب اور رضوانہ دونوں کو ہرادوتوتمہیں دو قلفیاں کھلاؤں گا۔کھانے پینے کی چیزیں تو ویسے بھی عثمان کے اندر ایک نئی روح پھونک دیتی ہیں۔ اس نے بڑی بہن اور بڑے بھائی کااکیلے مقابلہ کیا۔جب بھی دبنے لگتاقلفیوں کے ذائقے کااحساس اس میں طاقت بھردیتا۔ آخر اس نے دونوں کو ہراکر اپنے چچاسے دو قلفیاں کھائیں۔ چونکہ شعیب ذہنی طورپر اور عثمان جسمانی طورپر تیزہے اس لئے میں نے کئی بار من ہی من میں خواہش کی ہے کہ دونوں زندگی میں ایک ساتھ مل کر چلیں۔ میرا خیال ہے اس طرح دونوں زندگی کی کئی منزلیں آسانی سے سرکرلیں گے اور باقی بھائی بہنوں کابھی خیال رکھ سکیں گے لیکن اگر دونوں نے الگ الگ رستے اختیارکرلئے تو شاید دونوں کو زندگی کی مشکلات سے نمٹنے میں قدرے وقت کاسامنا کرنا پڑے۔ دونوں زندگی میں کس طرح ایک ساتھ مل کر چلیں، اس کا کوئی واضح نقشہ میرے ذہن میں نہیں آتا۔ ویسے ایک ساتھ مل کر چلنے سے میری مراد جائنٹ فیملی سسٹم ہرگز نہیں ہے۔
۔۔۔۔رضوانہ، شعیب اور مانواسکول میں پڑھنے کے لئے شوق سے داخل ہوئے تھے۔ ٹیپو بھی مانوکے ساتھ کی وجہ سے ہنسی خوشی چلاجاتاتھا۔ البتہ کبھی بیماری کی وجہ سے مانو سکول نہیں گئی تو ٹیپو اکیلا اسکول جانے سے انکار کردیتا۔ صرف عثمان پہلے پہل سکول جانے سے گھبراتاتھا۔روتے ہوئے سکول جاتا اور وہاں بھی وقفے وقفے سے روتارہتا۔ ایک دن سکول سے آیا تو سلام کرنے کے بجائے اس نے دروازے سے ہی خوشی سے پکارکرکہا: آج میں سکول میں رویا بھی نہیں۔۔ بس پھر اس کے بعد تعلیم کے ساتھ اس کا تعلق جڑتاچلاگیا۔ میرے بچے میری شاعری میں بھی آئے ہیں۔ ”پھاگن کی سفاک ہوا“ اور ”نصف سلور جوبلی“ دونوں نظموں میں میرے پانچوں بچے موجود ہیں۔ ایک ماہےے میں دونوں بیٹیاں آئی ہیں:
مِری چڑیوں کی جوڑی ہے
اک پہلوٹھی کی
اک پیٹ کھروڑی ہے
میرا ایک ماہیاتھا:
دریا کی روانی ہے
اب مرے بیٹے میں
مری گزری جوانی ہے
اس پر عثمان نے پوچھااس میں کس بیٹے کاذکرہے؟۔۔ میں نے کہا اصولاً تو بڑا بیٹاولی عہد ہوتاہے اس لئے شعیب ہی ہونا چاہئے۔ عثمان نے تحریک استحقاق پیش کرتے ہوئے کہا: آپ تو جمہوری نظام کے مدّاح ہیں۔ بادشاہت او رکسی بھی طرح کی آمریّت کے خلاف ہیں اس لئے یہ ولی عہد کاشاہانہ خیال غور طلب ہے۔ عثمان نے مزید وضاحت کرتے ہوئے اور اپنے موقف کو مستحکم کرتے ہوئے کہا کہ ویسے میں بھی جوان ہوچکاہوں۔ چنانچہ مجھے اس ماہےے میں تبدیلی کرکے جمع کاصیغہ لاناپڑا:
دریا کی روانی ہے
اب مرے بیٹوں میں
مری گزری جوانی ہے
اس طرح اب پانچ چھ سال کے بعد ٹیپو کو بھی شکایت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ماہےے میں ترمیم کرالینے کے بعد عثمان نے پھر میری ایک غزل کاشعر بھی ایسی ہی ترمیم کے لئے پیش کردیا۔
کاروبار عشق سے مل جائیں گی پھر فرصتیں چند برسوں تک مرا بیٹا جواں ہونے کو ہے
یہاں جمع کا صیغہ لانے کی صورت میں ردیف میں گڑبڑہوتی تھی اس لئے میں نے اسے سمجھایاکہ اس شعر میں تیکنیکی وجوہ کی بناپر تبدیلی کرنا ممکن نہیں البتہ آپ تینوں بیٹے اسے یکساں طورپر اپنے اپنے لئے سمجھ لیں لیکن اپنا اپناکاروبار ایک دوسرے سے الگ رکھیں۔ یہ شعر میں نے شعیب اور عثمان کے جوان ہونے سے بہت پہلے کہاتھا لیکن اب دونوں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہے ہیں۔ تومجھے ایک لطیفہ شدت سے یاد آنے لگاہے۔
ایک صاحب اپنے دوست سے شکایت کررہے تھے کہ میرا بیٹا پڑھائی کی طرف بالکل توجہ نہیں دے رہا۔ زیادہ تریونیورسٹی کی لڑکیوں کے ساتھ گھومتارہتاہے۔ کبھی یونیورسٹی کے لان میں، کبھی کنٹین میں، حتیٰ کہ یونیورسٹی سے باہر بھی۔ اگر مجھے علم ہوتاکہ یونیورسٹی میں یہی کچھ ہوتاہے تو اسے دوکان پر بٹھاکر بزنس میں لگادیتا اور خود یونیورسٹی میں داخلہ لے لیتا۔
شعیب اور عثمان دونوں کوکرکٹ کھیلنے اور گیت گانے کاشوق ہے۔ شعیب کی گیم بہت اچھی ہے میرے کالج کے طلبہ نے مجھے ایک باربتایاتھاکہ سر!آپ کا بیٹا شعیب تو کرکٹ کا زبردست کھلاڑی ہے لیکن عثمان نے اس کی گیم کوکبھی اچھاتسلیم نہیں کیا۔ اسی طرح عثمان نسبتاً گیت بہت اچھے گالیتاہے لیکن شعیب نے اس کی آواز کا ہمیشہ مذاق اڑایاہے۔ عثمان کی گلوکاری سے یاد آیاکہ رفیع، لتا، مکیش، مہدی حسن، نورجہاں، آشا، نسیم بیگم، مالا، سمن کلیان پورا اور کشور کمار جیسے مقبول گلوکارتو ہر خاص و عام کی پسند ہیں۔ عثمان کو بھی یہ سارے گلوکارپسند ہیں لیکن اس کے پسندیدہ گلوکاروں میں سہگل، سی ایچ آتما، ہیمنت کمار، طلعت محمود، گیتادت اور مناڈے زیادہ اہم ہیں اور اس کے پاس ان سب کے گیتوں کی بہترین کیسٹس موجود ہیں۔ ایک بار کیسٹ پلیئر پر شعیب کاکوئی پسندیدہ گانالگاہواتھا۔ عثمان کی طبیعت جولہرائی تو اس نے گلوکار کے ساتھ سُرملاناشروع کردیامگر شعیب نے اسے براہِ راست روکنے کی بجائے احتجاج کاانوکھا طریقہ نکالا۔ گانے کی دھن کے مطابق سینہ کوبی شروع کردی۔
۔۔۔۔ٹیپو کواللہ میاں کو دیکھنے کابہت شوق رہاہے۔اس کے اس شوق کاایک واقعہ امی جی والے خاکے میں آچکاہے جس سے اس کے تجسّس اور تگ ودو کااندازہ ہوتاہے۔ ٹیپو کے ایک اور ایکشن نے میری ایک پرانی الجھن دور کردی تھی۔ اباجی کویوں تومیرے پانچوں بچوں سے بے حد محبت تھی تاہم ٹیپواور مانوچونکہ سب سے چھوٹے تھے اس لئے ان دونوں سے کچھ زیادہ ہی پیارکرتے تھے۔ نتیجتاً وہ محبت ان بچوں میں بھی ظاہر ہوئی۔ اباجی کی وفات پر ٹیپو پریشان تھا کہ داداابوجاگتے کیوں نہیں؟۔ اسے طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اب نہیں جاگیں گے کیونکہ اللہ میاں نے انہیں اپنے پاس بلالیاہے۔ٹیپونے غصے سے کہا میں اللہ میاں کو ماردوں گا۔ تب چار سال کے اس بچے کو مزید سمجھاناپڑاکہ اللہ میاں کے بارے میں ایسی بات نہیں کہتے کیونکہ وہ بہت بڑاہے۔ٹیپوکے نزدیک تو سارے خاندان میں داداابو ہی سب سے بڑے تھے چنانچہ اس نے پوچھاکیا اللہ میا ںداداابوسے بھی بڑے ہیں؟ اس پر اسے یقین دلاناپڑاکہ اللہ میاں داداابو سے بھی بڑے ہیں اور ہر کسی سے بڑے ہیں۔کوئی زیادہ سے زیادہ کتنابڑاہوسکتاہے اوراس لحاظ سے اللہ میاں کتنا بڑاہے؟یہ جاننے کے لئے ٹیپو نے اپنے دونوں بازو کھولے اورانہیں جس حد تک پیچھے لے جاسکتاتھا، لے جاکر پوچھا: کیا اللہ میاں اتنے بڑے ہیں؟۔۔ بس اسی لمحے میں مختلف مذاہب اور فرقوں کے خداکے بارے میں عقائد اور تصورات مجھ پر آئینہ ہوگئے۔ مجھے محسوس ہواکہ سارے مذہبی لوگ ننھے منے معصوم بچوں کی طرح اپنی اپنی بانہیں پھیلائے کھڑے ہیں۔ جس کی بانہیں جہاں تک جاسکی ہیں اس نے اسی حد تک خداکو بڑا سمجھ رکھاہے کیونکہ اس سے زیادہ بڑائی اس کی سمجھ میں ہی نہیں آسکتی۔ تاہم اس سے مجھے تمام مذاہب کی خداکے معاملے میں سچی جستجواور محبت کا احساس ضرور ہوا۔ یہ الگ بات کہ اس کی ہستی کسی بھی عقیدے اور تصور سے بڑھ کر ہے۔
نام اور روپ سے جو بالا ہے کس قیامت کے نقش والا ہے
۔۔۔۔وہ تو ایک مقدس بھید ہے۔ اس کی جستجو میں جتنا سفر کرلیں اس سفر کی لذت ہی اس کا اجر ہے لیکن اس سفرکاکوئی اختتام نہیں۔ بس کوئی جتنا سفرکرکے لذت کشید کرسکتاہے کرلے۔۔ مذہب میں خداکے نام پرنفرت پھیلانے کاکام تو تنظیمی قسم کے ادارے کرتے ہیں۔ جنہوں نے مذہب کو بندے اور خداکا معاملہ سمجھنے کی بجائے خود اپنا معاملہ سمجھ لیاہے اور یوں مذہب کو دوکانداری بناکررکھ دیاہے۔
۔۔۔۔جس طرح شعیب کے فوراً بعد عثمان کی پیدائش سے شعیب کی جسمانی صحت پر اثر پڑا اسی طرح ٹیپوکے فوراً بعد مانوکی پیدائش سے ٹیپوکی صحت پر اثر پڑا۔ مانو، ٹیپو سے سواسال چھوٹی ہے لیکن ٹیپو سے پہلے اس نے چلنا سیکھ لیا۔ پھر مانو کی دیکھادیکھی ٹیپونے چھوٹے چھوٹے پاؤں اٹھاناشروع کردیئے۔ اور اب تو اس نے شعیب کی طرح اپنی جسمانی کمزوری کو بھی کورکرلیاہے۔ ٹیپوکوبولنا سکھانے اور نام یاد کرانے میں بڑی دلچسپ صورت بنتی تھی۔ میں اپنے بچپن میں اپنے ابوکو”ابوا“ کہتاتھا۔ ٹےپومجھے ”ابوبا“ کہتاتھا شعیب اسے ہجے سکھارہاتھا:”کہو۔۔اب“ ٹیپونے کہا”اب“
پھر شعیب نے کہا ’ ’بو“ ۔۔ ٹیپونے کہا”بو“
لیکن جیسے ہی جوڑکرانے کے بعد شعیب کہتا”ابو“۔ ٹیپو بولتا”ابوبا“۔ اپنانک نیم اس نے ریورس گیئرمیں لیا:
”کہو۔۔ٹی“ ”ٹی“
”پو“ ”پو“
”ٹیپو“ ”پوٹی“
اب بھی کبھی کبھارمیں اسے پیارسے ٹیپوکی بجائے پوٹی کہہ کر مخاطب کرلیتاہوں۔ ٹیپو اپنے لسانی اصول کے مطابق مانو کونوماکہتا۔ ٹیپوکی اس ذاتی گرائمرسے ہمارے ادب میں نئی لسانی تشکیلات والے پرانے ادباءشاید اپنے بعض بنیادی اصول وضع کرسکیں۔ ایک بار میں چارپائی پرلیٹاہواتھااوردوسال کے چھوٹے سے ٹیپو کو اپنے سینے پربٹھایاہواتھا۔ میں نے اس سے پوچھاآپ کو باتیں کرنا آتی ہیں؟ ٹیپو نے اثبات میں سرہلادیا۔ میں نے کہا پھر ابوسے باتیں کرو۔ ٹیپونے بڑی معصومیت کے ساتھ وقفے وقفے سے بولنا شروع کیا:
”باتیں ۔۔باتیں۔۔ باتیں۔۔ باتیں۔۔“
ایبٹ آبادمیں قیام کے دوران سعید شباب بچوں سمیت خانپور سے آیاہواتھا۔ آپی کے بچے عرفان اور عمران بھی کراچی سے آئے ہوئے تھے۔ ہم سب ایبٹ آباد کے قریب واقع ایک مقام ٹھنڈ ےانی کی سیرکے لئے گئے۔ یہ مقام نتھیا گلی سے بھی زیادہ بلندی پر واقع ہے۔ یہاں بچوں نے گھڑسواری بھی کی ۔ پہلا راؤنڈ مکمل کرکے شعیب، عثمان، عرفان، عمران واپس آئے تو شعیب کے چہرے پر غصے اور کرب کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے سوچا پتہ نہیں بھائی سے یا کسی کزن سے کوئی جھگڑاکربیٹھاہے۔ لیکن جیسے ہی پکنک پوائنٹ پر پہنچا، گھوڑے کی باگ کھینچ کر بڑے ایکشن کے ساتھ کہا”گھبرسنگھ!باہر نکل۔۔“ تب اندازہ ہواکہ چہرے پر غصے اور کرب کے آثار اپنی اداکاری میں حقیقت کارنگ بھرنے کے لئے طاری کئے تھے۔ ڈائیلاگ ایسے بے ساختہ اندازمیں بولاگیاتھاکہ ہم دیر تک ہنستے رہے۔
۔۔۔۔شعیب بچپن میں مبارکہ کی ایک سہیلی سعیدہ کوبہت پیارالگتاتھا۔ امی جی کو عثمان سے نسبتاً زیادہ پیارتھا۔جبکہ خانپور کی ایک شاعرہ غزالہ طلعت ٹیپو سے بہت پیار کرتی تھی۔ میرے پانچوں بچوں کو اپنے دادا،دادی کی گود میں کھیلنے کااعزاز حاصل ہے اور کسی بھائی کی ساری اولادیہ سعادت حاصل نہیں کرسکی۔ رضوانہ کابیاہ ایک پاکستانی نوجوان حفیظ کوثرسے ہوگیاہے۔ منگنی سے پہلے میں نے رضوانہ سے باربارکہا کہ لڑکے کو ایک نظر دیکھ لو۔ مگر اس کاایک ہی جواب تھا آپ کو پسند ہے تو مجھے بھی پسند ہے۔ شعیب نے جرمنی پہنچتے ہی ایک عشق فرمالیااور عشق کی ایک ہی جست میںسارے مرحلے طے کرکے فارغ ہوگیا۔ یہ عشق کیاتھا۔ ہیر،رانجھا۔۔ سوہنی، مہینوال۔۔ شیریں،فرہاد۔۔ ان سب کی داستانیں یک جاہوگئی تھیں۔ میں نے شعیب کو مشورہ دیاہے کہ آئندہ پرانی داستانوں کودہرانے کی بجائے اپنی اوریجنل داستان بنائے۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔
عثمان نے پہلے سے ہی واضح کردیاہے کہ میں تما م کزنز کو اپنی بہنیں سمجھتاہوں۔ شادی خاندان سے باہر کروں گا۔ ٹیپوابھی بارہ سال کاہے لیکن اس نے سات برس پہلے یہ طے کرلیاتھاکہ بڑاہوکرابوبنوں گا۔ بیٹے کا نام رکھوں گا چوزہ اور بیٹی کا نام رکھوں گا نورخاتوں۔۔ مانو کے بارے میں کچھ لکھ دیا تو وہ پھر زاروقطار رونا شروع کردے گی کہ میں نے امی ابوکو نہیں چھوڑنا اور پھر اسے چپ کرانا مسئلہ بن جائے گا۔
۔۔۔۔مشرقی تہذیب کی دولت کے ساتھ میرے بچے اس وقت مغرب کے کشادہ نظر ماحول میں اپنی عملی زندگی کی بنیادیں استوار کررہے ہیں۔ اباجی کی شدید خواہش تھی کہ ان کے پانچوں بیٹے اور ہوسکے تو چاروں بیٹیاں بھی، مل جل کررہیں۔ میں اباجی کایہ خواب پورا کرناچاہتاتھامگر ایک بھائی اور ایک بہن کی بے صبری اور ایک سوتیلی رشتہ دار کی مہربانی نے میرے باپ کے خاندان کاشیرازہ بکھیر کررکھ دیا۔ اب میری خواہش ہے کہ جب میرے پانچوں بچے اپنے اپنے آبادگھروں والے ہوجائیں تب حالات کی مناسبت سے کوئی مدت مقرر کرکے ہفتے، مہینے یاسہ ماہی میں سارے بہن بھائی مل کر سچی محبت اور خوشی سے گیٹ ٹوگیدرکرلیاکریں تو میں سمجھوں گااباجی کا خواب بھی پوراہوگیااور میری خواہش بھی۔ اپنے پانچوں بچوں کے لئے خوشحالی اور خیروبرکت کی دعاکے ساتھ مستقبل میں پانچوں کی خوشگوار اور کامیاب ازدواجی زندگیوں کی دعا میری طرف سے میرے بچوں کے لئے تحفہ ہے۔ اپنے بچوں کو دوعذابوں سے ہمیشہ بچنے کی تلقین کرتاہوں۔ ان سے بچنے کی کوشش بھی کرتے رہیں اور دعابھی کرتے رہیں۔ ایک عذاب غربت کی وہ سطح ہے جو انسان کو دنیاکے جھوٹے خداؤں کے سامنے محتاجی کی ذلت کی حد تک گرادے۔ دوسرا عذاب تکبرکی لعنت ہے۔ ایسا تکبر جو ناحق دوسروں کو ذلیل کرائے۔ اگر بچے ان دونوں عذابوں سے بچ گئے تو بے شک ان کی زندگیاں کامیاب ہوں گی۔ انسان کا مقام خلیفة اللہ فی الارض کامقام ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی مقام نہیں انسانیت ہی خدا کی اصل نیابت ہے۔
۔۔۔۔آدم اور حوا کی کہانی میں شجر ممنوعہ کے تعلق سے مختلف روایات میں گندم اور سیب کاذکرملتاہے۔اسی طرح ایک روایت میں شیطان کا سانپ بن کر گناہ پراکسانا بھی مذکور ہے۔ گندم، سیب اور سانپ درحقیقت تینوں جنسی علامتیں ہیں۔ ابلیس کا تکبّر بے شک غلط تھامگر اس کی یہ بات درست تھی کہ شجر ممنوعہ کھاکر آدم اور حوا ہمےشہ کی زندگی حاصل کرلےں گے اور واقعی آدم اور حوّا نے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرلی۔ موت سے پہلے اپنی زندگی اپنی اگلی نسل کو سونپ دینا اور پھر اپنی موت کے بعد اپنی اگلی نسلوں میں جیتے چلے جانا، یہی تو ہمیشہ کی زندگی ہے ۔ ابنِ آدم ہونے کے ناطے میں بھی اس زندگی کے تسلسل کا حصہ ہوں جومرکربھی نہیں مرتی۔لاہورمیں ایک بارایک امریکی خاتون سے ملاقات ہوئی تھی۔ (احتیاطاً واضح کردوں کہ یہ خاتون نیگریس تھیں)دورانِ گفتگو محترمہ نے میرے بچوں کی تعداد پوچھی تو میں نے کہا:
Two daughters and three sons.Toatal five sins”
“but Holy sins” اس خاتون نے میری بات کا لطف لیتے ہوئے جملہ مکمل کردیا۔مجھے خوشی ہے کہ پاپولیشن پلاننگ کے اس دور میں بھی مےں اپنے جدِّ اعلیٰ کے گناہ کو پانچ بار دہرانے میں کامیاب رہاہوں۔ وماتوفیقی الّا باللہ
٭٭٭
٭ایک قاری نے توجہ دلائی ہے کہ ہاشم کے بھائی کا نام عبد الشمس تھا۔امیہ ان کے بیٹے تھے اور ہاشم کے بھتیجے تھے۔ہاشم اور عبدالشمس جڑواں بھائی تھے۔گھر میں گفتگو ویسے ہی ناموں سے ہوئی تھی تاہم تاریخی طور پر درستی ذہن میں رہے۔