(آپی)
بنی ہوئی ہے ڈھال وہ میری خاطر حیدر
مِرے مخالف کو جو کماں جیسی لگتی ہے
عام طورپرماہرین کا خیال ہے کہ کسی بچے کے بعد جو بچہ پیداہوتاہے ان دونوں میں خوامخواہ کی مخاصمت پیداہوجاتی ہے۔ دراصل پہلا بچہ یہ سمجھتاہے کہ بعد میں آنے والے نے اس سے اس کی ماں کی محبت چھین لی ہے۔۔ اسی طرح ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ پہلوٹھی کی اولاد اور باپ میں بھی ایک اندرونی مخاصمت ہوتی ہے کیونکہ عورت کی توجہ شوہر سے ہٹ کر پہلے بچے پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ یہ دونوں باتیں عمومی طورپر بڑی درست پائی جاتی ہیں لیکن آپی کی حد تک یہ دونوں باتیں غلط ثابت ہوچکی ہیں۔ پہلی اولاد ہونے کے باوجود اباجی کو ہمیشہ آپی سے بے حد محبت رہی۔ میں آپی کے بعد پیداہوا مگر ہم دونوں میں جو محبت ہے وہ شاید کسی اور بہن بھائی کے حصے میں نہیں آسکی۔ ماہرین کی دونوں باتیں غلط ثابت ہوئی ہیں تو یہ سراسر آپی کی اپنی خوبی ہے۔
امی جی بتایاکرتی تھیں کہ پیدائش کے وقت آپی انتہائی کمزور اور لاغر تھی۔ ثبوت کے طورپر امی جی نے آپی کو پہنائی جانے والی پہلی قمیص سنبھال رکھی تھی جو شاید اب آپی کے پاس ہی محفوظ ہے لیکن اس وقت ہم سارے بہن بھائیوں میں جسامت کے لحاظ سے آپی اول نمبر پرہے۔ ایک دفعہ آپی نے مجھے کہاتم اتنے دبلے کیوں ہو۔ مرد کارعب اس میں ہوتاہے کہ اس کا پیٹ تھوڑاسا بڑھاہوا ہو۔ بس پھر ایسا ”فیضانِ نظر“ ہواکہ مِرے پیٹ کا رعب و دبدبہ مسلسل بڑھتاہی جارہاہے۔
آپی کی اور میری عمر میں ایک سال ،ایک مہینہ اور ایک دن کا فرق ہے۔بچپن میں جب کوئی ہم سے عمر کا فرق پوچھتاتو ہم بڑے مزے سے کہتے ایک سال، ایک مہینہ، ایک دن، ایک گھنٹہ، ایک منٹ ایک سیکنڈ۔۔ میری پیدائش پر آپی کمزور ہونے کے باوجود مجھے گود میں لے کر بیٹھتی۔ کاکا۔۔کاکا۔۔ کہہ کر باتیں کرتی۔ بچپن میں اکثر میں آپی کوڈرایاکرتاتھا اور زیادہ تر ڈرانے کی وجہ سے ہی اباجی سے مارکھایاکرتاتھا۔ کبھی آپی کاکوئی قصور ثابت ہوجاتاتو اسے صرف ایک تھپڑپڑتا۔ ایک دفعہ کسی عزیز نے اباجی سے کہاکہ آپ حیدرکو زیادہ مارتے ہیں مگربیٹی کو بس ایک تھپڑمارکر چھوڑ دیتے ہیں۔ اباجی نے کہابیٹی کو مارنے لگتاہوں تووہ مٹی کی دیوار بن جاتی ہے پھر اسے کیاماروں۔ حیدرکو لگتی کم ہیں اچھل کود زیادہ کرتاہے اس لئے اسے مارنے میں بھی مزہ آتاہے۔۔ پڑھائی سے آپی کو شروع سے ہی چڑ رہی ہے۔ ایسے لگتاہے جیسے آپی کو بچپن میں ہی بلہے شاہ کے ”علموں بس کریں اویار“ والے تصورکا ادراک ہوگیاتھا۔ شروع شروع میں آپی کو زبردستی سکول بھیجنا پڑتاتھا۔ کچی جماعت کا امتحان ہوا۔ نتیجہ نکلا۔ آپی فیل ہوگئی۔ گھرآئی تو بڑی خوشی سے کہنے لگی:امی۔ امی۔ گدھے گدھے جتنی لڑکیاں فیل ہوکررورہی تھیں۔ میں فیل ہوکر بھی ہنس رہی ہوں۔۔ گویا یہ بھی ایک بہادری تھی۔ اپنی شکست کو مسکراکر تسلیم کرناتھا۔
بچپن کے واقعات میںسے مجھے یادآرہاہے۔ جب ناناجی ابھی ہندوستان میں ہی تھے، ہم ناناجی سے ملنے گئے۔ وہاں شہر کے چوک سے گلی کے موڑ پر ایک کنواں تھا جہاں سکھ حضرات کھلے عام نہایاکرتے تھے۔ ہم دونوں ایک دیوار کی اوٹ سے انہیں دیکھتے۔ بیک سائڈ سے لمبے بالوں کے باعث ہم انہیں عورتیں سمجھتے اور سوچتے کہ کتنی بے شرم عورتیں ہیں مگر جب ان کے چہرے سامنے آتے تو داڑھیوں کا ماجرا ہماری سمجھ میں نہ آتااور ہم پریشان ہوکرگھر کی طرف دوڑجاتے۔۔ باباجی کی گراموفون مشین کو ہم ہمیشہ حیرت سے دیکھتے۔ ریکارڈ بجتاتو ہم گانے کی طرف توجہ کرنے سے زیادہ گانے والوں کی تلاش شروع کردیتے۔ کبھی بھونپو میں سے جھانکتے، کبھی لکڑی کے بکس کو کھٹکھٹاتے۔ ہم یہی سمجھتے تھے کہ گیت گانے والے یہیں کہیں چھپ کرگارہے ہیں۔۔ میں سادگی اور بھولپن میں آپی کازیادہ دیر تک ساتھ نہ دے سکا۔ خانپور میں ہمارے گھر کے سامنے محکمہ صحت کی طرف سے حفظان صحت کے سلسلے میں فلم دکھائی گئی۔ فلم کے دوران دلچسپی برقرا رکھنے کے لئے وقفے وقفے سے فلمی گیت بھی دکھائے، سنائے گئے۔ ”رم جھم رم جھم پڑے پھوار۔ تیرا میرانت کا پیار“
اس گیت کاسین دیکھا۔ ہیرو ہیروئن دو جھولوں پر بیٹھے جھولاجھول رہے ہیں۔ ہلکی ہلکی برسات ہورہی ہے اور یہ گیت گایاجارہاہے۔۔ آپی بعد میں کہنے لگی: ہائے اللہ وہ بہن بھائی جھولا جھولتے ہوئے کتنے پیارے لگ رہے تھے۔ بس یہاں سے سادگی اور بھولپن کے معاملے میں ہماری راہیں ایک دوسرے سے الگ ہوگئیں۔
۔۔۔۔رحیم یارخاں میں ہمارے ایج گروپ میں بڑے پیارے پیارے بچے شامل تھے۔ آپا حفیظ، رضیہ(لجو) صفیہ(تپو)، سعیدہ، بشیراں، نسیم، ظفر، بشیر حقہ۔۔ بعد میں آپا حفیظ زچگی کے کیس کے دوران فوت ہوگئی۔ رضیہ ایئرہوسٹس بن گئی مگر اچانک(؟) فوت ہوگئی۔ سعیدہ بے چاری ویسے ہی رسموں رواجوں کی بھینٹ چڑھ کر زندہ در گورہوگئی۔ صفیہ اب لاہور میں ایک اچھی جاب پر ہے۔ بشیراں اور نسیم گھریلو زندگی نبھارہی ہیں۔ ظفرڈرائیوربن کر امارات کی طرف نکل گیاہے۔ بشیرحقے کا پتہ نہیں چلاکہ اب کہاں ہے۔ ہم شام کے وقت گھر والی گلی میں سٹریٹ لائٹ کے نیچے مختلف قسم کے کھیل کھیلاکرتے تھے۔ خاص طورپر ایک کھیل۔۔ ”مائی نی مائی تنور تپیاکہ نائیں“۔ ایک اوٹ پٹانگ ساگیت بھی ہم نے بناےاہواتھا:
اللہ ڈوایا۔۔ چکی تلوں آیا(اللہ ڈوایا۔۔چکی کے نیچے آیا)
اُتّوں ماریاکھَلاتلوں نکل آیا(اوپر سے جوتارسید کیاگیاتو نیچے سے نکل آیا)
۔۔۔۔جس دوست کے ساتھ جھگڑاہوجاتا۔اللہ ڈوایاکا نام کاٹ کر اس دوست کے نام کو اللہ ڈوایاکے وزن تک کھینچ کھانچ کے لے آتے اور گیت شروع کردیتے۔ ناراض دوست مارنے کو لپکتااور یوں پھر سے صلح ہوجاتی۔ ان سب بچوں میں آپا حفیظ سے آپی کی دوستی بہت گہری تھی۔ زبیدہ جسے بچپن میں ہم بلوکہتے تھے ایک دفعہ اباجی کی دوکان پر آئی اور کہیں دوکان کے اندر ہی جاکرسوگئی۔ اباجی نے سمجھا بیٹی گھر چلی گئی ہے۔ شام کو دوکان بندکرکے آئے تو امی جی نے پوچھا: بلوکہاں ہے؟۔ اباجی نے سمجھا امی جی نے بلو کو چھپایاہواہے اور جان بوجھ کر مذاق کررہی ہیں لیکن جب پتہ چلاکہ بلوواقعی موجود نہیں توپھر ہمارے گھر میں ہی نہیں سارے محلے میں افراتفری مچ گئی۔ تب آپی، میں اور ہمارے ایج گروپ کے بچے بلو کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ محلہ قاضیاں سے لے کر ریلوے اسٹیشن تک گئے۔ سب باری باری ایک ہی صدا لگاتے ”اے بلو۔اے“ جب ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے تو گھر لوٹ آئے۔ اس دوران اباجی کو اچانک دوکان چیک کرنے کاخیال آگیاتھا اور وہ بلوکو وہاں سے گھرلاچکے تھے۔ اس رات آپی اور میں دیر تک بلوکو پیار کرتے رہے۔
بچپن میں آٹاپسوانے، کنوےں سے پانی بھرکرلانے اور ٹال سے لکڑیاں لانے کے کام ہم دونوں بھائی بہن نے مل کر کئے۔ بعد میں زبیدہ اور شاہدہ نے بھی ان مشقتوںمیں ہمارا ہاتھ بٹاےا۔ جب آپی کو کم عمری میں ہی برقعہ پہنادیاگیاتو آپی نے گھرکا سارا کام سنبھال لیا۔ میرا خیال ہے گھر کے کام کاج میں امی جی کو جتنا آرام ملا،آپی کی وجہ سے ملا،یاپھر مبارکہ کی وجہ سے۔۔ وگرنہ ایک بیٹی نے تو اپنے سسرال سے بھی کپڑے دھلنے کے لئے امی جی کو بھیجنے شروع کردیئے تھے اور ایک بہونے چارپائی پر بیٹھ کر امی جی سے خدمت کرائی ہے۔ ماں، باپ اور باباجی کی جو خدمت آپی نے کی اس کی توفیق اور کسی بہن بھائی کو نہ مل سکی۔ اباجی کی محبت ہم دونوں کے لئے یکساں تھی۔ امی جی کی محبت میں پلڑامیری طرف تھوڑا سازیادہ تھاجبکہ باباجی کی محبت آپی کے لئے زیادہ بلکہ بہت زیادہ تھی۔ گویا ماں، باپ اور باباجی کی محبتوں کو جمع کریں تو ہم دونوں کا دامن برابربھراہواہے اور اس میں کوئی تیسرا بھائی، بہن ہمارا حریف ہی نہیں۔
۔۔۔۔والدین کی خدمت کے بعد آپی کو سسرال جاکر اپنے سسر کی خدمت کاموقعہ ملا۔ یہ بزرگوں کی دعائیں ہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپی کو پانچ بیٹے اور ایک بیٹی کی دولت عطاکی۔ سارے بچے خوبصورت اور صحت مند ہیں۔ عرفان، عمران، کامران،صائمہ یکے بعددیگرے پیداہوئے پھرلقمان اور نعمان (جنہیں ہم پیارسے چوچو اور نوماکہتے ہیں)جڑواں پےداہوئے۔ پی اے ایف کے رہائشی ایریا میں دونوں بچوں کی وجہ سے بڑی شہرت ہوئی۔ آپی جہاں بھی جاتی بچوں کو ایک ٹوکری میں فٹ کرکے بٹھادیتی اور مزے مزے سے ٹوکری اٹھائے شاپنگ سنٹر یاہسپتال سے ہوآتی۔ جڑواں بچوں کی ٹوکری دیکھ کے لوگ لطف اندوز ہوتے اور باری آنے سے پہلے آپی کو باری مل جاتی۔
بھائی عبدالرحیم ہنس مکھ اور خوش مزاج انسان ہیں۔ محنتی اور مشقتی بھی بہت ہیں۔ محنت کے نتیجہ میں ان کا جسم خاصامضبوط ہے۔ یہی مضبوطی ان کی اولاد میں بھی منتقل ہوئی ہے۔ ایک دفعہ ٹرین کے سفر میں آپی کا منجھلا بیٹاکامران میرے ساتھ تھا۔ رات کو میں نے اسے اوپر کی برتھ پر سلادیا۔ رات کے کسی لمحے میں کامران لڑھک کر نیچے آن گرا۔ میں گھبراگیاکہ بچے کاکوئی ہاتھ، پاؤں فریکچر نہ ہوگیاہو۔ کامران نے بولائی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھااور پھر سوگیا۔ منزل مقصود پر پہنچ کرمیں نے کامران سے پوچھا:
”بیٹے!کہیں ٹانگ یا بازو میں تکلیف تو نہیں ہے؟“
”نہیں تو۔۔ ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔ لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟“کامران نے الٹا مجھ سے سوال کیاتومیں نے اسے بتایاکہ رات تم برتھ سے نیچے گرگئے تھے۔ یہ بات سن کر کامران نے لاعلمی اور حیرت کا اظہارکیااور میں اس کی حیرت پر حیرت زدہ رہ گیا۔گھر آکر عزیزوں کو یہ بات بتائی تو ایک عزیز نے کہا:آپی کے سارے بچے ماشاءاللہ پتھر اور لوہے کے بنے ہیں۔ اگر چھوٹے چوچوکومکان کی چھت سے نیچے پھینکیں تو فرش اکھڑجائے گا، چوچو کو کچھ نہیں ہوگا۔ ہرچند یہ بات مذاق میں کہی گئی تھی تاہم یہ حقیقت ہے کہ آپی کے بچے جتنے خوبصورت اور سمارٹ ہیں اتنے ہی مضبوط جسم کے مالک بھی ہیں۔
۔۔۔۔اباجی کی روحانی قوتیں تھوڑی سی آپی میں بھی منتقل ہوئیں۔ خانپور میں ہمارے ایک ہمسائے میاں احمد بخش سیال بڑے اچھے آدمی تھے۔ ہمارے داداجی کے دوست بھی رہے تھے مگر ایک مرحلے پر ہمیں محسوس ہواکہ وہ باباجی اور اباجی کو لڑانے کاچکر چلارہے ہیں۔ آپی نے گھر میں اےک خاص مسنون دعاکا وِرد شروع کردیا اور ان کے گھر پیغام بھجوادیاکہ میں قریشی کی بیٹی ہوں۔ میں نے وِرد شروع کردیاہے جو کوئی بھی ہمارے گھر میں بے سکونی پیداکرناچاہتاہے وہ اب نہیں بچے گا۔۔ اسے دعاکا اثر کہیں یا نفسیاتی اثر لیکن دوسرے ہی دن میاں احمد بخش سیال شدید بیمار پڑگئے۔ علالت کی حالت میں ہی انہوں نے اپنی ایک بہو کے ذریعے آپی کو معذرت کا پیغام بھیجااور اپنی صحت یابی کے لئے دعاکرنے کوبھی کہا۔
آپی کو تنہائی میں خود کلامی کی عادت ہے۔ اگر آپی میں بھولپن زیادہ نہ ہوتاتو قریشیت کے روحانی اثرات اور تنہائی میں خودکلامی کی عادت کے باعث آپی بھی گوتم بدھ کی طرح کسی جنگل کی راہ لیتی اور اسے بھی گوتم جیسے گیان کی روشنی مل جاتی۔ لیکن اس زمانے میں ایسا کیسے ہوسکتا؟۔۔ اچھا ہوا آپی کابھولپن آڑے آگیاوگرنہ خوامخواہ محکمہ جنگلات والوں نے چالان کردیناتھا۔ بلکہ خداکاشکر ہے کہ گوتم بدھ جیسی عظیم ہستی اس زمانے میں نہیں ہے وگرنہ محکمہ جنگلات والوں نے توشاید
آپی فطرتاً نیک دل اور رحم دل ہے۔ دوسروں کا دکھ سن کر رونے بیٹھ جائے گی۔گھرمیں جو کچھ ہوگا(حسب توفیق) سائل کودے دے گی۔ البتہ اپنی معصومیت اور بھولپن کی وجہ سے کسی غلط فہمی میں مبتلاہوجائے تو پھر اسے دور کرنے میں بھی خاصاوقت لگتاہے۔ میرے ایک عزیز کو جو مجھے بے حد عزیز ہے۔ اس کی سوتیلی والدہ نے آدھی رات کے وقت گھرسے نکلوادیا۔ اس عزیزکو سارے شہر میں آپی کے گھر کے سوائے کوئی جائے پناہ نظر نہ آئی۔ آپی اور بھائی عبدالرحیم نے اس عزیز کوٹھکانہ دیا۔ اس سے ہمدردی کی۔ اور جب وہ عزیز کسی باہر کے ملک چلاگیاتو اس سے اپنی نیکی کی پوری پوری سزاپالی۔ اس عزیز کی زیادتی کسی غلط فہمی کا نتیجہ سہی۔ مجھے اس ے محبت سہی لیکن میں اسے آج بھی اس معاملے میں قصوروار سمجھتاہوں۔
۔۔۔۔ایک اور بہت ہی قریبی عزیز کوآپی اپنے ہاں لے گئی۔ وہا ںاسے جو کام بھی سکھانے پر لگاتے اس کی شہزادگی آڑے آجاتی۔ میں نے خود یکھاکہ آپی نے اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر، اپنے شوہر سے چھپاکراس قریبی عزیز شہزادے کی خواہشیں پوری کیں۔ آج آپی کے بارے میں سب سے زیادہ تضحیک آمیز باتیں کرنے کا شرف بھی اسی شہزادے کو حاصل ہے۔ اس شہزادے کے کردارمیں بڑی جان ہے۔ میں اس پر تفصیل سے لکھنے کاآرزومندہوں لیکن شاید ابھی اس کردار پر لکھنے میں کچھ وقت لگے۔
میں اپنے پیچیدہ حالات کے باعث سنگین مسائل میں گھراہواتھا۔ میرے بعض سوتیلے عزیز جنہیں بعض دوسروں پر اپنے سوتیلے پن کازہرنکالناتھامگر وہ ان کی دسترس میں نہیں تھے انہوں نے ان کے متبادل کے طورپر مجھے ہی نشانہ بنالیا، گھات ایسے لگائی کہ میرے ماں جایوں کو آگے کردیا۔ قریبی عزیز دشمن بن گئے۔ خون کے رشتے ”خونی رشتے“ بن گئے۔ سوتیلے عزیز اپنی فتح مندی پر نازاں تھے۔ میری مجبوری کچھ اور تھی
احباب کے تیروں کے تو ہم عادی تھے حیدر
اس با ر مگر بھائی تھے، احباب نہیں تھے
ہرچند اب میں سنبھل گیاہوں اور اس پوزیشن میں ہوں کہ سارے کرم فرماؤں کے قرض سود سمیت انہیں واپس کردوں۔ تاہم اس سارے تماشے میں آپی کا کردار بڑا مضبوط، توانااور مثالی رہا۔ ایک بھائی اور بھابھی۔۔ آپی کو میرے خلاف بھڑکانے گئے۔ آپی کو جتنی باتیں معلوم تھیں انہیں کی حد تک جواب دیتی رہی۔ جب وہ چرب زبانی سے چالاکی دکھانے لگے تو آپی نے انہیں دوٹوک لفظوں میں کہا: میں حیدراور مبارکہ سے تعلق نہیں توڑسکتی۔ تم سمجھتے ہومیں حیدر سے تعلق توڑلوں گی۔اگر حیدر خود بھی مجھے چھوڑدے میں تب بھی اسے نہیں چھوڑوں گی۔
جب مجھے اپنے ذرائع سے اس بات کا علم ہوامجھے یوں لگاجیسے میں چاردن کا بچہ ہوں جسے ایک سال ،ایک مہینہ اور پانچ دن کی کمزور سی آپی نے اپنی گود میں اٹھایاہواہے۔ مجھے اٹھائے اٹھائے وہ تھک گئی ہے مگر پھر بھی پیارسے ”کاکا۔۔۔کاکا“ کہے جارہی ہے۔ پھر کاکا۔۔کاکا۔ کہتے ہی وہ بڑی ہوتی جارہی ہے۔ اتنی بڑی کہ صرف میرے چہرے پر بیٹھنے والی مکھیوں کوہی نہیں اڑاسکتی بلکہ مجھے کووّں، چیلوں اور گِدھوں کے حملوں سے بھی محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اسی لمحے مجھے جیسے محسوس ہوتاہے کہ میری مری ہوئی ماں دوبارہ جی اٹھی ہے۔
یہ محسوس ہوتاہے جیسے
کوئی غم زدہ، بے نشاں چاپ
میرے تعاقب میں
اک نرم جھونکے کی صورت چلی آرہی ہے
کوئی ہے۔۔جو میرے عقب میں
محبت کی نمناک خوشبوبکھیرے
امڈتے ہوئے تیز شعلوں سے مجھ کو بچائے
مرے ہر قدم کی سلامت روی کے لئے
التجاؤں، دعاؤں کی برکھامیں خود کو بھگوئے
مرے سرپہ آنچل کاسایہ کئے/آرہاہے!
٭٭٭