(ناناجی)
زندگی! دیکھ بجھتے ہوئے لوگ ہم
بزمِ جاں میں چمکتے رہے رات بھر
ناناجی بنیادی طورپرایک محنتی، جفاکش اور سیلف میڈ انسان تھے۔ اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ عالم شباب میں ہی ناناجی نے اپنا مسلک تبدیل کرلیاتو ان کے دو بڑے بھائیوں نے ان پر شدید تشدد کیا۔ کئی دن تک بھوکاپیاسارکھا۔ تشدد کے نتیجہ میں جب ناناجی بے ہوش ہوجاتے تو ان کے منہ میں گندہ پانی ڈالاجاتا۔ بڑے بھائیوں کے اس ظلم اور تشدد کے ردِّ عمل کے طورپر ناناجی کا مزاج بھی متشددانہ ہوگیا۔ بعد میں انہو ں نے اپنی اولاد پرسختی کی۔ یوں تو ان کی ہر بیٹی، بیٹے نے حسبِ توفیق مارکھائی تاہم بیٹوں میں ماموں کوثر اور ماموں صادق اس مار کے زیادہ شکارہوئے۔ جبکہ بیٹیوں میں خالہ حبیبہ کو یہ سعادت نصیب ہوئی۔ خالہ حبیبہ کو اس لحاظ سے اپنے سارے بہن بھائیوں پر فوقیت حاصل ہے کہ باقی سب کی مار پٹائی ایک طرف اور اکیلی خالہ حبیبہ کی پٹائی ایک طرف۔۔۔ ایک دفعہ کسی معمولی سی بات پر ناناجی کو اتنا طیش آیاکہ خالہ حبیبہ کو باقاعدہ طورپر الٹالٹکادیااور دیر تک لٹکائے رکھا۔ خالہ حبیبہ پر جو تشدد ہوااس کا نفسیاتی اثر ان کے مزاج پرپڑا۔لہجے میں چڑچڑاہٹ، انتقام اور اذیت پسندی کے تمام اوصاف ان کی ذات میں جمع ہوگئے۔ چنانچہ اپنے پہلے بیٹے کو خالہ نے بچپن میں ہی مارمارکرنیم پاگل بنادیا۔ جب خالہ کو اس زیادتی کا احساس دلایاگیاتو پھر دوسرا انتہاپسندانہ ردِّ عمل سامنے آیا۔ باقی اولاد کو خالہ نے بے مہار چھوڑدیااور خود بعض رشتہ داروں پر اپنے مزاج کی کڑواہٹ نچھاورکرنے لگےں۔ان رشتہ داروں نے شکایت کی تو میں نے انہیں کہاکہ ان ساری زیادتیوں کو ناناجی کی ”عطا“ سمجھ کر برداشت کرلیں۔
۔۔۔۔نانی جی اور ناناجی کی عمروں میں خاصافرق تھا۔ نانی جی ساری زندگی ناناجی کے شدید دباؤ میں رہیں اور ناناجی کی سخت گیری نے انہیں مزید نرم بنادیا۔وہ اپنا غصہ کسی پر بھی نہ اتارسکیں، خود میں گھلتی رہیں اور ۵۳ سال کی عمر میں ہی وفات پاگئیں۔ زندگی بھرتوناناجی کا تختہ مشق بنی رہیں۔ بیماری کے آخری ایام میں بھی ناناجی نے ا ن کا علاج کہیں اور کرانے سے روک دیااور اپنی حکمت کے مختلف نسخے اس وقت تک اُن پر آزماتے رہے جب تک وہ فوت نہ ہوگئیں۔ وفات سے چند گھنٹے پہلے نانی جی نے ناناجی سے فرمائش کی کہ ریوڑیاں کھانے کو جی کرتاہے۔ ناناجی خود عمدہ قسم کی ریوڑیاں لے کر آئے اور اپنے ہاتھوں سے نانی جی کو کھلاتے رہے۔ ناناجی جیسے سخت گیر شوہر کے ہاتھ سے اتنی محبت کے ساتھ ریوڑیاں کھانا نانی جی کے لئے ناقابل یقین خوشی تھی۔ اس واقعہ کے چند گھنٹے بعد نانی جی کو نیند آگئی۔ ممانی مجیدہ نے دیکھا کہ نانی جی بڑے سکون کی نیند سورہی ہیں۔ ان کا ماتھا ٹھنکا۔ آج کے دور کے انسان کو خواب میں بھی ایسا سکون کہاں نصیب ہوتاہے۔ ممانی مجیدہ نے امی جی کو بلایا اور پھر سارا گھر جمع ہوگیا۔ نانی جی فوت ہوچکی تھیں۔۔ میرا خیال ہے وہ ناناجی جیسے سخت گیر شوہر کی محبت سے حیرت زدہ ہوئیں اور پھر اسی حیرت اور بے انتہا خوشی کے نتیجہ میں فوت ہوگئیں۔
ناناجی کی سخت گیری کا ایک تاریخی واقعہ میرے ساتھ بھی رونما ہوا۔ میں دس گیارہ سال کاتھا۔ مجھے پندرہ سیر گندم آٹے کی چکی سے پسوانے کے لئے دی گئی۔ چکی والے نے گندم رکھ لی اور کہا کل آکر لے جانا۔ مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ گھر والوں کو بتائے بغیر ساتھ کی گراؤنڈ میں کھیلنے چلاگیا۔ گھر میں غالباًآٹاختم تھا اس لئے میرا انتظارہورہاتھا۔گھر آیاتو ڈانٹ پڑی لیکن میری وضاحت سے سب کی تسلّی ہوگئی۔ بدقسمتی سے اس وقت ناناجی موجود نہیں تھے رات کو جب ناناجی گھرآئے میں سوچکاتھا۔ صبح سویرے مجھے ناناجی نے جگایااور پوچھارات آٹاکیوں نہیں لائے؟ میں نے تسلّی بخش جواب دے دیا۔ اب انہوں نے پوچھا پسوائی کی چوّنی کہاںہے؟۔ ایک تو نیندکا خمار، پھر صبح کا ملگجاسماں۔۔ جیب میں دیکھاتو چوّنی نہیں تھی۔ ناناجی کے ہاتھ میں بڑے سائز کا ایک درویشی عصارہتاتھا۔ بس اسی سے میری مرمت شروع کردی۔ اس دن ناناجی کے سونٹے سے مجھے اندازہ ہواکہ ”موسوی عصا“میں کتنی طاقت ہوتی ہوگی۔ امی جی میں تو ہمت نہیں تھی کہ مجھے چھڑاتیں۔ اتفاق سے ممانی مجیدہ نے میرے بستر کو چیک کیاتو وہاں سے چونی مل گئی۔ ممانی مجیدہ جیسی مظلوم عورت میں اس دن نجانے کہاں سے اتنی ہمت آگئی۔ میرے اور ناناجی کے بےچ آکر ان کاعصاپکڑلیا۔ یہ بہت بڑی جسارت تھی۔ چڑیا کا شہباز پر جھپٹناتھا۔ ”یہ لیں اپنی چونی۔۔ اس کے بستر پر گری پڑی تھی۔۔ناحق بچے کی اتنی دھنائی کردی“۔ اس دن ممانی مجیدہ کی ایسی محبت مجھ پر منکشف ہوئی جس کاعشر عشیر بھی پھر کسی ممانی کہ ہاں نظر نہیں آیا۔اس دن چڑیا، شہباز سے جیت گئی تھی۔ ناناجی ڈھیلے پڑگئے۔
ان واقعات سے یہ بھی نہ سمجھ لیں کہ ناناجی کوئی ”ہلاکوخاں“قسم کی چیز تھے۔ ان میں بلا کی ذہانت اورحسّ مزاح تھی۔ میرے باباجی اور اباجی کی ساری خوبیوں اور خامیوں کو اگر جمع کردیاجائے تو ناناجی بن جائیں گے۔ تنگ دستی کی حالت میں بھی بچوں کی بنیادی ضروریات کا پوراخیال رکھتے۔ گرمیوں میں شربت کی بوتلیں اور سردیوں میں وسیع پیمانے پر پنجیری تیارکراتے۔ دونوں موسموں میں یہ چیزیں بچوں کو باقاعدگی سے فراہم کی جاتیں۔ ناناجی کی اپنی خوراک بہت کم تھی لیکن شرط لگائی تو ایک دفعہ دس کلو گوشت کھاگئے اور ایک دفعہ گنے کے رس کی پوری بالٹی پی گئے۔ شادی بیاہ کی تقریبات پر ناناجی کے اندرکا ”میاں سراجدین“ باہر آجاتا۔ اپنی اولاد، دامادوں، پوتوں، پوتیوں، نواسوں نواسیوں، سب کے ساتھ مل کر بیٹھتے۔ سب سے گانے سنتے۔ خود بھی پنجابی کے لوک گیت بڑے اچھے ترنم کے ساتھ سناتے۔ جوں جوں بڑھاپا بڑھتاگیاناناجی کی کرختگی ختم ہوتی گئی اور حسِّ مزاح نمایاں ہوتی گئی۔ نانی جی کی وفات کے بعد ناناجی نے لگ بھگ ۲۰سال زندگی گزاری۔ دوسری شادی کا نام لیاجاتا تو پہلے ایک گالی دیتے پھر ہنس پڑتے۔ کہتے اگر میں اس عمر میں بھی شادی کرلوں تو تمہارا ایک اور ماموں پیداہوسکتاہے۔ اس پر میں شرارت سے کہتاکہ ناناجی یہ خطرہ مول لینے والی بات ہوگی۔ اگر نیاماموں،ماموں کوثر جیسا پیداہوگیا تو پھر کیا بنے گا؟اس پر مزید موج میں آجاتے۔۔ ناناجی نہانے سے سخت پرہیز کرتے تھے۔ صرف عید کے عید نہاتے۔ ایک دفعہ مجھے کہنے لگے نکلاچلاؤمیں نے وضو کرناہے۔ ناناجی نے صرف چادر اور واسکٹ نما پھتوئی پہنی ہوئی تھی۔ میںنے نلکاچلاناروک کرکہاناناجی !نہا کیوں نہیں لیتے؟۔۔ سراٹھاکر میری طرف مسکراکر دیکھا اور کہنے لگے:
”بیٹے! جب سے تمہاری نانی مری ہے مجھے نہانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ چلو تم نلکا چلاؤ اور وضو کراؤ“
ناناجی کی ذہانت نے انہیں اپنے زمانے کا جیمزبانڈ بنادیاتھا۔ اہلِ حدیث تھے تو اہلِ تشیع کی جاسوسی کے لئے کچھ عرصہ ذاکربنے رہے۔اہلِ حدیث مسلک ترک کیا تو پھر کچھ عرصہ کے لئے بنّوں میں ”الّوؤں والاپِیر“بنے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد ناناجی اور نانی جی ہندوستان میں ہی رہے۔ وہاں ان پر پاکستان کا جاسوس ہونے کاشبہ کیاجاتارہا۔ رہی سہی کسر میں نے پوری کردی۔ میں غالباً پانچ سال کاتھا جب امی جی ہمیں لے کر ناناجی سے ملنے ہندوستان گئیں۔ وہاں میں نے پاکستانی طریق کارکے مطابق بہت سارے بچوں کو جمع کیا۔ انہیں ایک قطار میں کھڑاکیااور ہدایت کی کہ سب بچے اپنے سے اگلے بچے کی قمیص کا پیچھے کا حصہ اپنے ہاتھوں میں پکڑلیں۔ میں خود سب سے آگے تھا۔ یہ ایک طرح کی گاڑی بن گئی تھی جس کا انجن، ڈرائیور اور گارڈ بھی میں ہی تھا۔ میں نے بچوں کو چند ہدایات دیں اور پھر ہماری گاڑی چلنے لگی۔ یہ گاڑی چھک چھک کے نعرے لگانے کے بجائے ”پاکستان زندہ باد۔۔ ہندوستان مردہ باد“ کے نعرے لگارہی تھی۔ حالانکہ مجھے اس وقت ان لفظوں کے مفہوم کا بھی پتہ نہیں تھا۔ میری دانست میں یہ صرف ایک کھیل تھا۔ ناناجی کو علم ہواتو نہایت بدحواسی کے عالم میں مجھے گود میں اٹھاکر گھر لے گئے۔ امی جی کی گود میں پٹخ کر پتہ نہیں کیا کچھ کہا۔ البتہ اتنایادہے کہ ناناجی کو سچ مچ دو دن بخار چڑھارہا۔ یہ غالباً ۷۵۹۱ءکی بات ہے۔ اس کے بعد ناناجی بھی جلد پاکستان آگئے۔
ناناجی نے عملی زندگی میں ہر طرح کی محنت کی۔ مسجد کے موذن رہے۔ چارپائیاں بُننے کاکام بھی کیا۔ منیاری کا کام بھی کیا(منیاری سے مراد صرف گوٹہ کناری کی فروخت سمجھیں) حکمت کا کام بھی کرتے رہے۔ یہ کام عمر کے آخری حصے تک کرتے رہے اور اس سے انہیں اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ گویا کسی کے محتاج نہیں تھے۔ ناناجی کے بعض نسخے میں نے ان سے ان کی زندگی میںہی لئے تھے۔ بعض حسّاس قسم کے نسخے ان کی وفات کے بعد ان کی کاپی سے نوٹ کئے ۔ انہوں نے اپنی دوائیوں کے نام بھی خود ہی بنارکھے تھے مثلاً قبض کشاگولیوں کا نام تھا ”پیٹ کا جھاڑو“۔ اسی طرح مردانہ کمزوری کے ایک نسخے کا نام ”اےٹم بم“تھااور دوسرے نسخے کا نام تھا”ہائیڈروجن بم۔۔ عرف مردہ کوزندہ کرنا“۔۔ امرت دھارا ایک ایسی دواہے جو نزلہ، زکام، ہیضہ، قے، سردرد، دانت کے درد، کان کے درد، غرض بیسیوں بیماریوں کا فوری علاج ہے۔ کسی ہنگامی صورتحال میں پریشانی سے بچنے کے لئے یہ دواہرگھر میں ہونی چاہےے۔ آجکلVicksاوربام کی صورت میں بھی امرت دھارا کو محدود استعمال کی چیز بنایاجارہاہے۔ اصل امرت دھارا گھر پر ہی پچیس تیس روپے میں تیارکیاجاسکتاہے۔ افادۂعام کے لئے یہ نسخہ پوری گارنٹی کے ساتھ پیش ہے۔ست اجوائن، ست سنڈھ، ست دارچینی، ست الائچی، ست پودینہ۔۔ یہ پانچوں ست ایک ایک تولہ لے کر بوتل میں ڈالتے جائیں۔ ان کے ساتھ پانچ تولہ مشک کافور ملادیں۔ ساری اشیاباہم ملنے پر خود بخود سیّال صورت اختیارکرلیں گی۔ یہ نسخہ میراآزمودہ ہے۔۔۔۔۔ایٹم بم کا نسخہ بغیر گارنٹی کے پیش ہے۔مستگی رومی ایک تولہ، دودھ بڑایک تولہ، شنگرف رومی ایک ماشہ، انڈے کی زردی ایک عدد، افیون تین ماشے، سم الفار ایک ماشہ،تمام چیزوں کو کونڈی میں ڈال کر خوب رگڑیں۔ چنے کے برابر گولی بنائیں۔ ایک گولی کے ساتھ ایک چھٹانک دیسی گھی یا آدھ کلو دودھ لیں۔ فراغت کے لئے نمک چاٹناضروری ہے۔ اس نسخے کو آزمانے والے اپنی ذمہ داری پر آزمائیں البتہ گولیاں مفید ثابت ہوں تو مجھے بھی پندرہ بیس گولیاں ضرور بھیج دیں۔
ناناجی سے میں نے ایک دفعہ کہاتھاکہ دیسی طریق علاج کوہمارے پرانے حکماءنے سب سے زیادہ نقصان پہنچایاہے کیونکہ انہوں نے بیشتر نسخے اپنے سینوں میں بندرکھے اور اپنے ساتھ ہی قبروں میں لے گئے۔ ناناجی نے شکستہ دلی سے میرے موقف کو مان لیاتھا۔
ناناجی پران کے جو بھائی اورعزیز تشدد کرتے تھے، ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ اس بدبخت کو مارکر اس کا بیج ہی ختم کردو۔قدرت خداکی ان لوگوں کی اپنی نسلیں ختم ہوگئیں۔ ناناجی نے اپنے پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں ہی نہیں ان کی اولادیں بھی دیکھیں۔ رضوانہ کو شروع میں ہم روزی کہتے تھے ناناجی نے ایک سال کی اپنی پڑنواسی کو گود میں لیا۔ اتفاق سے بچی کو فراک بھی گلابی پہنارکھی تھی۔ ناناجی نے بچی کا نام پوچھا۔ روزی کا لفظ سن کر مسکرائے اور کہنے لگے یہ تو ”مس گلابو“ ہے۔ گویا روزی کا پنجابی میں عمدہ ترجمہ کردیا۔ ناناجی سے کبھی ہم پوچھتے کہ ناناجی آپ کہاں تک پڑھے ہیں؟ پنجابی لہجے میں اس طرح کہتے ”اینویں پاس ہوں“جیسے کہہ رہے ہوں ”ایم۔اے پاس ہوں“۔
نانی جی کی وفات کے بعد تقریباً بیس سال ناناجی نے اکلاپے کی زندگی بسر کی۔ بیٹے، بیٹیاں اور ان کی اولادیں ہونے کے باوجود شریک زندگی کے بغیر بڑھاپابسر کرنا خاصا کٹھن کام ہے۔ آخر آخر تک توناناجی اتنے نرم مزاج اور گداز طبیعت کے مالک ہوگئے کہ ان کے روےے پر حیرت ہوتی تھی اپنی زندگی کے ۶۸سال پورے کرچکے تھے۔ بڑھاپے کی کمزوری آڑے آرہی تھی۔ ایک دن ناناجی نے بڑی بہوسے کہا: مجھے ریوڑیاں منگادو، سارے عزیز چونک اٹھے۔ نانی جی نے بھی وفات سے پہلے ریوڑیاں کھانے کی خواہش کی تھی۔ تو کیا ناناجی بھی۔۔؟ ۔۔۔سب کے دل میں خدشات گھر کررہے تھے۔
ریوڑیاں منگائی گئیں۔ ناناجی کمزوری کے باوجودمزے لے لے کر ریوڑیاں کھاتے رہے اور پھر سوگئے۔
مارے اکثر خدشات ہمارے وہم کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ناناجی کے بارے میں ہمارے خدشات بھی دراصل ہمارے وہم کا نتیجہ تھے۔
اس کے باوجود خدشات درست نکلے،وہم سچ ثابت ہوا۔
ناناجی فوت ہوچکے تھے۔
کبھی کبھی ہمارے وہم کتنے سچ ثابت ہوتے ہیں!
٭٭٭