(امی جی)
ماں! ترے بعد سے سورج ہے سوانیزے پر
بس تری ممتا کا اک سایہ بچاتا ہے مجھے
”راج دلارے!
او میری اکھیوں کے تارے
میں توواری واری جاؤں۔۔راج دلارے“
یہ مشہور لوری میں نے کوثرپروین کی آواز سے پہلے اپنی امی جی کی آواز میں سنی۔ امی جی نے یہ لوری اپنے سارے بیٹوں میں سے صرف میرے لئے گائی۔ ماں کی محبت اور دعاؤں سے بھری اس لوری نے مجھے پروان چڑھایا۔ امی جی کی وفات سے کوئی سال بھر پہلے مجھے چند ماہ گوجرانوالہ میں گزارنے پڑے۔ وہیں ایک روزشام کا کھاناایک ہوٹل میں کھارہاتھا۔ اچانک یہ لوری کیسٹ پلیئر سے نشر ہونے لگی۔ لوری شروع ہوتے ہی میں جیسے بچہ بن گیا اور میں نے دیکھا کہ امی جی نے مجھے۔۔ چھ ماہ کے بچے کو۔۔گود میں اٹھایاہوا ہے اور لوری سنارہی ہیں لوری ختم ہوگئی۔۔ میں بچپن عبور کرکے اپنی اصل عمر تک پہنچاتو دیکھاکہ، میں جو ابھی ماں کی گود میں کھلکھلارہاتھا، میری آنکھیں بھیگی ہوئیں تھیں۔ عجیب سا تجربہ تھا۔ کئی بار سوچا امی جی کو اس تجربے سے آگاہ کروں گا مگر پہلی محبت کے اظہار کی طرح اس تجربہ سے امی جی کو آگاہ نہ کرسکایہاں تک کہ وہ وفات پاگئیں۔
پہلی محبت سے یاد آیاکہ میری پہلی محبت بھی میری امی جی ہیں اور آخری محبت بھی امی جی ہیں۔ اس اوّل اور آخر کے بیچ میں بہت سی محبتیں آئیں مگر درحقیقت وہ سب میری پہلی اور آخری محبت کا عکس تھیں۔ امی جی کاچہرہ کتابی اور گول چہرے کے بین بین تھا۔چنانچہ بیچ میں آنے والی میری ساری محبتیں بھی کتابی چہرے والی تھیں۔ اپنی بیوی سے میری گہری دوستی کی وجہ شاید یہی ہے کہ امی جی کی بھتیجی ہونے کے ساتھ امی جی سے کافی مشابہت بھی رکھتی ہے۔ ماہرین نفسیات اس کی جو چاہیں توجیہہ کرلیں، مجھے اعتراف ِجرم سے عارنہیں۔
امی جی کی شادی کم عمری میں ہوئی۔ چودہ پندرہ برس کی عمر میں، تب اباجی کی عمر تقریباً ستائیس برس تھی۔ اباجی سرائیکی تھے، امی جی پنجابی۔ عمروں اورکلچر کے واضح فرق کے باوجودمیاں بیوی کی محبت کا کمال یوں ظاہرہواکہ اباجی دیکھنے میں پنجابی لگتے تھے اور امی جی سرائیکی لگتی تھیں۔ دونوں نے خود کو ایک دوسرے کے رنگ میں رنگ لیاتھا۔ من توشدم تو من شدی والا حال تھا۔
ہمارے معاشرے میں لگائی بجھائی کرنے والے ”پھاپھے کٹنی“ قسم کے کردار جابجا نظر آتے ہیں۔ ہمارے عزیزوں میں بھی بعض ایسی خواتین موجود ہیں۔ امی جی کی حالت یہ تھی کہ فساد کراناتو ایک طرف، کوئی فساد کرناچاہتاتو اس سے بھی کوسوں دور بھاگتیں۔ کوئی آکرفساد کی تیلی لگاجاتاتو خودہی رودھوکر چپ ہوجاتیں۔ بعد میں آپی اور بے بی بھی امی کی طرح نکلیں۔ زبیدہ تو صبر جمیل میں امی جی سے بھی دو قدم آگے نکل گئی(اللہ اسے اپنی حفظ و امان میں رکھے) البتہ شاہدہ نے ہمت سے کام لیا۔ اس معاملہ میں امی جی کی پیروی نہیں کی۔ نہ صرف خود بولنے میں مہارت حاصل کی بلکہ بے بی جیسی بے زبان کو بھی زبان عطا کردی۔ اللہ کرے زور زباں اور زیادہ!
امی جی محبت،وفا اور ایثار کی روشن مشرقی مثال تھیں۔ شادی کے ابتدائی چند برسوں کے بعداباجی کا کاروبار زوال کا شکار ہوتاگیا۔ انتہائی تنگ دستی تک نوبت پہنچی۔ امی جی نے خدا سے تو شکوہ کرلیا مگر مجازی خدا سے کبھی شکایت نہیں کی بلکہ ہر رنگ میں ہمت بندھاتی رہیں۔ خدا سے شکوہ بھی اپنی جگہ ایک اہم واقعہ ہے۔ امی جی نے بے حد تنگ دستی کے باعث ایک بار انتہائی دکھ کے ساتھ کہا: خدایا!تو کہیں ہے بھی سہی یا نہیں؟۔۔ اسی رات امی جی نے خواب دیکھا: نہایت تیز روشنی ہے۔ جب اس کا منبع ڈھونڈنا چاہتی ہیں تو بڑی پُر ہیبت آواز آتی ہے۔۔”حمیدہ!ادھر دیکھو میں تمہارا خدا ہوں“۔ خوف اور رعبِ خداوندی سے امی جی کی آنکھ کھل گئی۔ سخت سردی کے موسم میں پسینے سے شرابور ہوگئیں۔ اُس دن سے لے کر موت کے دن تک پھر امی جی کو خدا کے وجود کے بارے میں کبھی شک نہیں ہوا ۔
اباجی کی ”وِل پاور“کے کئی کرشمے دیکھنے کے باوجود امی جی نے انہیں بزرگ تسلیم کرنے سے ہمیشہ انکارکیا۔ اس معاملہ میں ہمیشہ ہی اباجی کو چھیڑتی رہیںاور ہارکربھی ہار نہیں مانتی رہیں۔۔ ایک دفعہ کسی اَ ٹکے ہوئے کام کی وجہ سے امی جی فکرمند تھیں۔ میں نے ازراہ مذاق کہا چلیںاگر آپ کا یہ کام ہوجائے تو پھر مجھے بزرگ مانیں گی؟۔۔ فوراً بولیں : میں نے تمہارے باپ کو ساری زندگی بزرگ نہیں مانا تمہیں کیسے مان لوں گی۔ چل بھاگ جا۔ انگریز کی ولایت کا ویزا لگوا نہیں سکتا اور چلاہے خدائی ولایت کی طرف۔
میرے چھوٹے بیٹے ٹیپو کی عمر پانچ سال تھی۔ جب اس نے مجھ سے سوال کیاکہ اللہ مےاں کہاں ہے؟ میں نے اسے سمجھایاکہ بیٹا! ہم اللہ میاں کو دیکھ نہیں سکتے۔ اس نے فوراً اعتراض کیاکیوں نہیں دیکھ سکتے؟۔۔ میں نے سوچا چھوٹا بچہ ہے اسے اس کے ذہن کے مطابق سمجھاتاہوں۔ چنانچہ میں اسے سورج کے سامنے لے گیا اور کہا سورج کی طرف دیکھو۔۔۔
اس نے دیکھنے کی کوشش کی اور پھر بے بسی سے کہا میں نہیں دیکھ سکتا۔ تب میں نے اسے سمجھایا کہ اللہ میاں کا نور اس سے بھی زیادہ تیز ہے اس لئے ہم اسے نہیں دیکھ سکتے۔ میں نے یہ قصہ امی جی کوبتایا وہ ہنس کر چپ ہوگئیں۔ اگلے دن ٹیپو نے اپنے چھوٹے چچا اعجاز کی گہری سیاہ عینک پہنی، سورج کی طرف دیکھنے کی پریکٹس کی اور پھر میرے پاس آیا۔ ”میں اب سورج کی طرف دیکھ سکتاہوں“۔ یہ کہہ کر اس نے عینک پہنی اور سورج کو دیکھنے کا مظاہرہ دکھایا اور پھر مطالبہ کیاکہ اب اللہ میاں بھی دکھائےے۔ میں ٹیپو کے مطالبے پر چکراگیا مگر امی جی نے ٹیپو کو پیارسے گود میں اٹھالیا اور کہنے لگیں بیٹے اگر تم اس مقام تک آگئے ہو تو ایک نہ ایک دن اللہ میاں کو بھی دیکھ لوگے۔ پھر مجھے کہنے لگیں پہلے انوکھے لاڈلے چاند مانگتے تھے مگر یہ تو اللہ میاں سے کم پر راضی ہی نہیں ہوتا۔
امی جی میں جمالیاتی ذوق کی فراوانی تھی۔ ستم ہائے زمانہ نے اسے کجلاتودیا مگر ختم نہ کرسکا۔ امی جی نے ایک زمانے میں پنجابی میںایک طویل دعائیہ نظم کہی تھی اس کی ردیف ”مولا“ اور قافیہ دعا، صداوغیرہ تھا۔ اتناہی مجھے یادہے۔ افسانے اور ناول پڑھنے کا شوق بھی انہیں ایک عرصہ تک رہا۔ میری ادبی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتیں۔ کسی اہم پیشرفت کی خبر سن کر خوش ہوتیں۔ میرے متعدد افسانوں میں امی جی کا کردار اپنی توانائیوں کے ساتھ براہ راست موجود ہے۔ ”دھند کا سفر“۔ ”آپ بیتی“ اور’ ’روشنی کی بشارت“یہ تینوں افسانے ان کی زندگی میںہی ”نگار پاکستان“ اوراق“ اور ”جدید ادب“ میں چھپ گئے تھے۔”روشنی کی بشارت“ پڑھ کرکہنے لگیں کبھی میں تمہیں کہانیاں سنایاکرتی تھی اور اب تم میری کہانیاں بنانے لگ گئے ہو۔ چہرے پر مسّرت تھی۔ امی جی کے تبصرے نے بچپن کے کتنے ہی حسین مناظر کی فلم آن کردی:
نصف شب
جیسے خوشبو بھری گود
رِستے ہوئے زخم پر جیسے پھاہابدن کو تھپکتی ہوئی چاندنی
سر کے ژولیدہ بالوں میں پھرتی ہوئیریشمی انگلیاں
ماں کے ہونٹوں کی لَوپر
سلگتی ہوئی اک کہانی کے پر
سات رنگوں کے پر
قاف کی اُس پری کے
جسے ڈھونڈنے کے لئے شاہ زادہ
پہاڑوں کی جانب روانہ ہوا!
وفات کے بعد امی جی میری شاعری میں بھی آنے لگیں:
یہ ساری روشنی حیدر ہے ماں کے چہرے کی کہاں ہے شمس و قمر میں جو نور خاک میں ہے
روایت ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ وفات پاگئیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام حسبِ عادت دربار خداوندی میں بے تکلفی سے جانے لگے تو آواز آئی: موسیٰ! احترام کو ملحوظ رکھو۔وہ فوت ہوگئی جو ہر وقت تمہارے لئے دعائیں کرتی رہتی تھی اور جس کی دعاؤں کے طفیل تمہاری بے تکلفی برداشت کرلی جاتی تھی۔ وہ دعائیں کرنے والی نہیں رہی تو اب پورے احترام کے ساتھ آؤ۔ خداجانے یہ روایت کس حد تک درست ہے تاہم اس سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر، عالی مقام اور کلیم اللہ کے لقب کے حامل پیغمبر کے گرد بھی ماں کی دعاؤں کا بہت بڑا حفاظتی حصارتھا۔۔ میں نہایت کمزور، عاجز اور گنہگار انسان ہوں۔ مجھے بھی امی جی کی زندگی تک ان کی دعاؤں کا بڑا سہارارہا۔ زندگی میں جب بھی کچھ ٹھان لیا ،کرگزرا۔ اس میں کامیاب نہیں ہواتو نقصان سے بھی بچتارہا۔ امی جی کی وفات کے بعد میں نے محسوس کیاکہ اب قدرت کی طرف سے پہلے جیسی رعائت نہیں مل رہی۔ اس حقیقت کو محسوس کرکے میں نے کہا تھا:
حیدر اب اپنی عادتیں، اطوارٹھیک کر
ابا بھی چل بسے تری ماں بھی نہیں رہی
بچپن میں۔۔امی جی نے ایک دفعہ میری شرارتوں سے تنگ آکر مجھے اباجی کے ساتھ دوکان پر بھجوادیا۔ اباجی نے وہاں سزاکے طورپر میری ٹنڈ کرادی۔ میں خوشی سے چھلانگیں مارتاہوا گھر آیا اور امی جی سے کہا: امی جی، امی جی۔۔ میں بھی ابو کی طرح ہوگیاہوں اب میں بھی ابو بن جاؤں گا اور پھر اپنے بچوں کو ڈانٹا کروں گا۔
رحیم ےارخاں میں ہماری ایک ہمسائی بوازیبوہوتی تھیں۔ ان کے بیٹے ظفر سے ہم عمری کے باعث دوستی تھی۔ اس سے میں نے سرائیکی زبان میں ایک سلیس قسم کی گالی سنی جو اس نے اپنے گدھے کو دی تھی۔ مجھے وہ گالی بہت اچھی لگی۔ ایک اور موقعہ پر میں نے بھی ان کے گدھے کی شان میں وہی گالی’ ارشاد‘ کردی۔ امی جی کو پتہ چلاتو میری خوب مرمت ہوئی۔ وہ دن اور آج کا دن، پھر وہ گالی میرے منہ پر چڑھ ہی نہیں سکی۔
ہم خانپور میں تھے۔ میں غالباً ساتویں جماعت میں پڑھتاتھا۔ امی جی کو کسی کام کے سلسلے میں کراچی میں مقیم خالہ سعیدہ اور ماموں کوثر کے ہاں جانا پڑگیا۔ امی جی کو گئے ابھی تیسرا یا چوتھادن تھاکہ میں نے دوپہر کے وقت بآواز بلند رونا شروع کردیا۔ ابوجی پریشان۔۔ کہ معاملہ کیاہے۔ مجھ سے باربار پوچھیں کیا ہواہے؟ مگر شدّت غم سے منہ سے الفاظ ہی نہیں نکلتے تھے۔ بڑی مشکل سے ہچکیوں کے دوران ایک دو دفعہ امی۔امی کہہ سکا۔ اباجی بھی شاید اداس بیٹھے تھے۔ میرے رونے کا بہانہ ان کے ہاتھ لگ گیا، جھٹ امی جی کو تار بھیج دیا اور امی جی واپس آگئیں۔
امی جی فوت ہوئیں تو میں ساکت ہوگیا۔ آنکھیں ڈبڈباگئیں مگر ساون بھادوں کی وہ برسات نہ ہوئی جو دو سال پہلے اباجی کی وفات پر ہوئی تھی۔ اس بارے میں مجھے ابھی تک ایک مجرمانہ سا احساس ہے۔ کبھی سوچتاہوں اباجی کو امی جی کی ہم سے زیادہ ضرورت تھی۔ شاید اسی لئے موسلادھاربارش نہیں ہوئی۔ کبھی خیال آتاہے کہ میں تو امی جی کے حصے کا بھی اباجی کی وفات پرہی رو چکاہوں کیونکہ امی جی تو اباجی کی وفات کے ساتھ ہی فوت ہوگئیں تھیں۔ وہ تو صرف دعاؤں کا ایک مجسمہ تھاجو ہمارے ساتھ تھا، اب وہ بھی نہیں رہا۔۔ لیکن کبھی کبھی جب ماں کے سمندروجود اور اپنے جزیرے پن کا احساس جاگتاہے تو مجرمانہ احساس جیسے زائل ہونے لگتاہے:
کبھی جب رات ڈھلتی ہے
فلک سے قطرہ قطرہ اوس کی برکھااترتی ہے
کبھی جب پیاس کی شدت میں زخمی ہونٹ
بہتی تیز ندی کے سجل سینے پہ جھکتے ہیں
کبھی جب آنکھ رِستی ہے۔
تویوں لگتاہے جیسے ہم کبھی بچھڑے نہیں اس سے
کہ جیسے ہم جزیرے ہیں
تھپکتے، لوریاں دیتے سمندرکے
بلکتے زرد رُوبیمار بچوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں
ہماری ہجر توں کی داستاں جھوٹافسانہ ہے!
امی جی بیک وقت باحوصلہ بھی تھیں اور کمزور دل بھی۔۔ باحوصلہ اس طرح کہ نہایت کٹھن اور دکھ بھری زندگی کو ہمت اور صبر کے ساتھ بسرکیا۔ کمزور دل اس طرح کہ بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک سے بھی سہم جاتیں۔ رحیم ےارخاں قیام کے زمانے میں ایک بار اباجی دوکان سے جلد واپس نہ آسکے۔ امی جی نے سرشام ایک ہمسائی نانی اللہ وسائی کو گھر پر بلالیا۔نانی اللہ وسائی امی جی سے بھی زیادہ کمزور دل تھیں۔ اچانک بادل زور سے گرجے اور بجلی کڑکتی چلی گئی۔ نانی اللہ وسائی اور امی جی نے بیک وقت زور سے چیخ ماری اور ایک دوسری سے چمٹ گئیں۔ اباجی جب بھیگتے بھاگتے گھر پہنچے، امی جی نے روروکر بُراحال کرلیا۔ پھر اباجی سرشام ہی گھر آجایاکرتے تھے، لیٹ نہ ہوتے تھے۔
امی جی کو جب شوگر کی شکایت ہوگئی تو میں نے احتیاطی تدابیر کی طرف توجہ دلائی مگر ان کا ایک ہی جواب تھا، اگر میٹھی چیزیں کھانے سے موت آتی ہے تو آنے دو۔ میں نے بہت زیادہ اصرار کیا تو امی جی نے دودھ بغیر چینی کے پینا شروع کردیامگر مٹھائی کو پرہیزی لسٹ میں شامل کرنے کے لئے وہ آخردم تک تیار نہ ہوئیں۔بالآخر میٹھی چیزیں کھاکر ہی جان، جانِ آفریں کے سپرد کردی۔۔ اباجی کی وفات کے بعد دراصل امی جی میں زندہ رہنے کی خواہش ختم ہوگئی تھی۔ یوں لگتاہے جیسے وہ مٹھائی کو جان بوجھ کر بطور زہر کھارہی تھیں۔ اسی لئے اباجی کی وفات کے بعد دوسال کے عرصے کے اندر ہی امی جی فوت ہوگئیں۔
امی جی مجھے ڈاکٹر بنانے کی خواہش مند تھیں۔ میراذہن شروع سے ہی ”نان میڈیکل“ بلکہ ”نان سائینس“ تھا۔ ایک مرحلہ پر سوچا کہ اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لوں۔ نام کے ساتھ ڈاکٹر تو لکھاجاسکے گا۔ پھر دیکھا کہ ایسے ایسے لوگ بھی ڈاکٹریٹ کرگئے ہیں کہ پی ایچ ڈی کہلاناباعث افتخار نہیں، باعث ندامت محسوس ہونے لگاہے۔ ا س سے بہتر ہے آدمی ”گھر بیٹھے ہومیوپیتھک ڈاکٹر بنئے“ کورس کرلے۔ اس سے خلقِ خدا کو فائدہ بھی نہیں ہوگاتو نقصان بھی نہیں ہوگا۔ آخریہ طے ہواکہ جہاں میں امی جی کی اور بہت سی خواہشیں اور خوشیاں پوری نہیں کرسکاوہیں اس خواہش کی عدم تکمیل پربھی ہلکے سے دکھ اور افسوس کے ساتھ ماندہ زندگی گزارلوں گا۔
امی جی کی گائی ہوئی لوری کاایک ایک لفظ الٹ ہوگیاہے۔ ان کی اکھیوں کے تارے کی اپنی قسمت کا ستارہ ہی کہیں گم ہوگیاہے۔ امی کے باغ کا البیلا پھول وقت کے صحرا میں خوددھول ہورہاہے۔ جس کے مکھڑے کے آگے چاندنی میلی لگتی تھی اس کا رنگ روپ بگڑچکاہے۔ حالات کا تپتا،دہکتاسورج سوانیزے کے فاصلے پر آن کھڑاہے۔ اب تو صرف اُس جنت کی امید ہے جوماں کے قدموں تلے ہوتی ہے:
ماں!ترے قدموں تلے جب راکھ اُڑتی ہے
تو سینے میں خلاجیسی کوئی شے گونجتی ہے
وہ گیت اب کھوگیاہے
تو بھی اب چپ ہوگئی ہے اور خلاویسے کاویسا ہے
مرے سینے میں تےری مامتاکانور اُترتاہے
مگر کچھ بولتابھی تو نہیں
اقرارکی ساعت ہمیشہ سے ادھوری ہے
نہ جانے کونسا کوہِ گراں ہے تیرے ہاتھوں پر
یہ تو ہے یا کوئی خیمہ طنابوں کی شکست آثار مٹی سے نکل کر
زرد موسم کی ہوا میں لڑکھڑاتاہے۔
یہ میں ہوں یا کوئی سا یہ تری ممتا کی ٹھنڈی روشنی سے ٹوٹ کر
پاتال اندر ڈوبتاجاتاہے
ہم دونوں
محبت کی گواہی کی طلب میں
اپنے اپنے دل کی جانب رُخ کئے اپنے خدا سے پوچھتے ہیں
حشرکب تک آئے گا۔۔!
٭٭٭