جوگندر پال
اگر کسی شخص کا چہرہ اس کے طبع زاد نقوش میں رچا بسا سا لگے اور اس کی شبیہ اور حرکات و سکنات پر کسی مصنوعی ڈیزائن کا گمان نہ گزرے تو اس سے مانوس ہوتے ہوئے کسی تامل کا احساس نہیں ہوتا۔ حیدر قریشی سے مل کر، اس سے بات چیت کر کے یا اسے پڑھ کر بھی ہم جھٹ ہی اس سے مانوس ہو جاتے ہیں او ر اس سے مل کر واقعی ہمارا اسی سے ملنا ہوتا ہے۔اپنے اس بیان سے مجھے حیدر قریشی کی کوئی خارجی شناخت ٹھہرانا مقصود نہیں۔ وہ تو جیسے بھی ہے ویسے ہی ہمارے سامنے ہے۔ مجھے تو خارج کے شواہد میں مضمر اس کے ان امکانات کی ٹوہ ہے جن کی بدولت اس کی روشنی کی بشارت ناقابل یقین معلوم نہیں ہوتی ۔ حیدر قریشی کے اس افسانوی مجموعے “روشنی کی بشارت” میں تیرہ کہانیاں شامل ہیں۔ یہ تیرہ مختلف وارداتیں اسے ایک ہی راستے پر پیش آئی ہیں۔ ایک جادہ مستقیم، جہاں یکساں موسم ہیں، زمین اور آسمان کے ویسے ہی خطوط، وہی جھاڑ، جانور‘ پنچھی اور انسان، اور ان کی بودو باش کا وہی تلمیحی اور تمثیلی انداز، جس کے باعث زندگی پر داستان کا گمان ہونے لگے۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ حیدر قریشی کے اس مخصوص ماحول میں جسے جہاں جو کچھ بھی پیش آتا ہے اسے وہاں وہی کچھ پیش آنا عین فطری معلوم ہوتا ہے ۔ افسانوں میں واقعیت کا باب دراصل انہی کے سیاق وسباق سے منسوب ہوتا ہے۔ کوئی واقعہ یا کردار از خود جھوٹا یا سچا نہیں ہوتا۔ اس کی سچائیاں—جزئیاتی سچائیاں بھی۔۔۔۔کسی افسانے کی ایک خاص سچویشن سے وابستگی کے پیش نظر بر محل ہوتی ہیں۔ اس اعتبار سے یہ سوال قطعی طور پر غیراہم ہے کہ کیا رامائن کا رام چندر سچ مچ کا کوئی شخص تھا یا محض کوئی افسانوی کردار، یا کیا راون کے واقعی دس سر تھے ۔ اہم صرف یہ ہے کہ رام چندر رامائن کا ایک زندہ کردار ہے اورکہ راون کے دس سر نہ ہوتے تو وہ اپنا آپ لگنے کی بجائے کوئی اور معلوم ہوتا ۔ زندہ کردار کتابوں میں ہو بہو ویسے ہی سانس لیتے ہیں اور واقعتا ہوتے ہیں جیسے زندہ لوگ اپنی بستیوں میں زندگی کرتے ہیں۔
افسانہ نگار کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کے کردار زندگی کر کر کے اپنی کہانیاں بناتے ہوئے محسوس ہوں اور ان کہانیوں کے تناظر میں اگر پانی میں آگ لگنا یا انسانی وجود کا پتھرا جانا ہی تخلیقی طور پر صحیح ہوتو ایسے سانحات کو انہونا قرار دے کر ان سے ہاتھ نہ کھینچ لیا جائے۔ ایسا کرنا افسانوی واقعیت کو مجروح کرنے کے مترادف ہوگا۔حیدر قریشی کے یہاں ایمان کا کراماتی عمل کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ ایمان زندہ رہے تو معجزوں کا رونما ہوتے چلے جانا بعید از قیاس معلوم نہیں ہوتا ۔ حیدر قریشی کے ایمان کی توانائی اسے انہدام کی ہیبت سے محفوظ رکھتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اسے انہدام کے انہدام کا پورا یقین ہے اور اس قیامت کا نظارہ کرنے کے لئے وہ اپنی آنکھیں واکئے ہوئے ہے۔ ہرچہ بادا باد!
موجودہ آدمی بے چارہ اسی لئے اتنا ہراساں ہے کہ اپنی چھوٹی چھوٹی سہولتی اور نجی دلائل کی بھیڑ میں کھو کر وہ خود پارساہو کر رہ گیا ہے اور المناک مضحکہ خیزی سے اس ہمہ گیر زندگی بخش منطق کی بے ضمیر نفی پر تل گیا ہے جس سے بے ریا اجتماعی رفاقتوں کو تقویت پہنچی ہے۔ نمرود کا انکار فی الحقیقت اس کی ہراساں ذہنی کیفیت کا ہی آئینہ دار ہے۔ متوازی خدائیوں کے دعوے دار اپنی بوکھلاہٹوں کے محاصرے میں بالآ خر خود آپ ہی اپنی تباہی کا سامان کر لیتے ہیں اور پھر کہیں روشنی کا ہا لہ نمودار ہوتا ہے اور از سرِ نو منہدم زندگی کے وجود سے گزر کر ایک خوبصورت تر دور کی ابتداءکی بشارت دیتا ہے۔”اب بتاﺅکہ تم دونوں رب کی نعمتوں میں سے کس کس کا انکار کرو گے”۔
گناہ کو جب تک جرم قرار نہ دیا جائے، ہم اس سے باز نہیں آتے، حالانکہ صرف ہمارے گناہوں کی سزا میں قدرت ہمارے وجود کو ہی سمیٹ کر زنداں منتقل کر دیتی ہے جہاں پنجوں پر کھڑے ہو ہو کے بھی ہم ایک اپنی آنکھوں کے روزن تک نہیں پہنچ پاتے کہ باہری وسعتوں کوروح میں اتارلیں نئے آدمی نے بہ فخر انانیت کو اپنی تربیتوںمیں روا رکھا ہے اور اوروں کے دلوں میں بسنے کا خواہشمند ہونے کی بجائے اپنے دل کو بھی خون صاف کرنے کی مشین سے زیادہ ا ہمیت نہیں دی ہے اور سر سے پاﺅں تک لڑھک لڑھک کر ہی ساری عمر بِتا دی ہے۔ ان حالات میں اسے محبت اور سپردگی کے ان کرشموں کا عرفان کیونکر ہو جن کی بدولت وہ کسی حقیر سے حقیر انسان کی بہبود کو اپنی ہی بہبود اور بقا کے اسباب پر محمول کرے۔ “تساں بادشاہ ہو اساں کوں غریبی” کی طاعت جھیل کر ہی ہم بے لاگ محبتوں کے دروازوں پر پہنچ پاتے ہیں اور یہی دروازے وسیع تر زندگی کی جانب کھلتے ہیں۔
حیدر قریشی اسی وسیع تر زندگی کی دریافت کے لئے اپنی کہانیاں تخلیقتا ہے۔ اپنے اس کھلے کھلے راستے کو طے کر کے اسے دوریا نزدیک کسی شیشے کے محل میں اقامت نہیں اختیار کرنا ہے، بلکہ راستوں سے راستوں تک پہنچنا ہے اور ہر راستے پر تباہ حال زندگی کی باز آباد کاری کئے جانے ہے۔ وہ لکھ لکھ کر گویا کچھ بیان نہیں کر رہا ہوتا ، بلکہ اپنے لکھے ہوئے کو کر رہا ہوتا ہے اور اسے ایسا کرتے ہوئے پا کر بے لوث انسانی رشتوں پر باور کر لینا غیر مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔ اس کی تخلیقات میں تاکید اور اصرار کے عناصر کا شاید یہی جوازہے کہ وہ تحریر کو بے ضرر آرائشوں کی حدود سے باہر لا کر اسے کارکردگی کا فعال ذریعہ بنا لینا چاہتا ہے۔ ایسی ہی تخلیقی شرکتیں گنجان ہو کر آخر کسی دیرپا آہنگ کی پیامبری کی اہل ہو جاتی ہیں۔
میں نے مندرجہ بالا سطور میں لکھا ہے کہ حیدر قریشی کو اپنی ساری وارداتیں اپنے جادہ ِ مستقیم پر پیش آئی ہیں۔ ایسا نہیں کہ سیدھے راستوں پر کوئی موڑ واقع نہ ہوں۔ اس مجموعے کی کئی کہانیوں میں راستے کہیں تمثیلی باریکی اختیار کر کے اور کہیں اچانک داستانوی پھیلاﺅمیں بے ساختہ بل کھاتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور انہیں اس طرح مڑتی ہوئی سیدھ میں دیکھ کر دھیان بے اختیار دلوں کی گزرگاہوں کی طرف ہو لیتا ہے۔”روشنی کی بشارت”کے آباد کار کی بے چینیاں گواہ ہیں کہ ابھی اسے کہانیوں کے کئی اور شہروں کو منور کرنا ہے۔ مجھے ابھی سے انتظار ہے کہ میرا ان روشن بستیوں میں بھی خوب گھومنا پھرنا ہو۔
٭٭٭