راستے تو کھوچکے تھے اپنی ہر پہچان تک
ہم جنازے منزلوں کے خود اُٹھا کر آئے ہیں
میں ایک فنکارہوں۔
ایک مصور ہوں۔
اپنی ذات کی دریافت کے لامتناہی عمل سے گزرتے ہوئے جب میںاپنی تجرید کے کیف آور لمس سے آگاہ ہواتواپنے اس کشف پر میں خود بھی حیرت زدہ رہ گیا۔
میں نے اس لمس کو اپنی روح میں اتارلینا چاہا۔ مگر عجیب بات تھی کہ میں اس کے سرور میں بھیگاہواتھاپر اسے چھونے کی صلاحیت سے محروم تھا۔
”یہ کیسا کشف ہےیہ کیسا گیان ہے؟“میں نے خود سے پوچھا۔
”خارجی دنیاکو بھی تمہارے اس کشف کا ادراک ہونا چاہئے“
ایک مقدس آواز ابھری اور پھر ڈوب گئی۔
میں ایک مصور ہوں۔
رنگوں کی دنیاکا بادشاہ۔
رنگ جو روشنی کا اظہارکرتے ہیں۔
لفظوں میں ڈھل جائیں تو عظمتوں کے مینار بنتے ہیں۔
تاروں پر گریں تو زندگی کے سارے راز آشکارہوتے ہیں۔
رنگ۔۔جن سے آرٹ کے سوتے پھوٹتے ہیں۔
تب میں نے اپنے فن پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی سوچ کے کینوس پر ایک شاہکار بنانے کا فیصلہ کیا۔پہلے مرحلے میں ،میں نے لفظوں کے سرخ رنگ سے اپنی تجرید کوپینٹ کرناشروع کیا۔
گہراسرخ،ہلکاسرخ، گلابی،عنابی۔۔۔
۔۔۔۔میں تصویربنانے میں مگن تھالیکن جب تصویر بنانے کا پہلا مرحلہ مکمل ہواتو میری آنکھیں حیرت سے پھٹنے لگیں۔ ساری سرخی آہستہ آہستہ سفیدی میں ڈھل رہی تھی۔ خون سفید ہونے کامحاورہ تو سننے میں آیاتھا مگریہ رنگ؟۔۔ لیکن خون بھی سفیدکب ہوتاہے۔ خون تو سرخ ہی ہوتاہے اور جو سفید ہوتاہے اسے خون نہیں کہتے۔
رنگوں کی ساری سرخی سفیدی میں ڈھل چکی ہے اور مجھے یقین ہوجاتاہے کہ محاورتاً سہی (اور یہ محاورہ بھی غلط سہی) میرا خون سفیدہوچکاہے۔ میں اپنے جسم سے نکل بھاگناچاہتاہوں۔ مگر اس کی دیواروں سے سرٹکراکر رہ جاتاہوںدہشت زدہ ہوکر خود کو دیکھنے لگتاہوں۔
تب میری تجرید کے انکشاف کا وہی لمحہ دوبارہ میرے اندر جاگتاہے۔ حالانکہ یہ کشف بھی وہی ہے، لمس بھی وہی۔ مگر اس دفعہ اس میں ایک نئے ذائقے، نئی لذت اور نئے سرور کا احساس ہوتاہے۔ شاید اسی احساس کے باعث میں اپنی تجریدکو پھر کینوس پر منتقل کرنے لگتاہوں۔ پہلی تصویر کے رنگ اگرچہ سفید ہوچکے ہیں تاہم ان رنگوں کی مہک ابھی تک موجود ہے اور کہیں کہیں مدھم مدھم مٹتے ہوئے سے سرخ نشان بھی موجو دہیں۔
اب میں سبز لفظوں کے رنگ سے پینٹ کررہاہوں،
گہرے سبز،آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والے ،ہرے بھرے کھیتوں جیسے رنگ ،مقدس دھرتی پر بکھرے ہوئے بیسیوں مقدس مناظرجیسے مقدس رنگ ۔میں ایک گونہ مسرت اور روحانی انبساط سے سرشار پینٹ کررہاہوں۔
مگریہ کیا؟۔۔میں خوف سے اپنی آنکھیں میچ لیتاہوں۔
اور وہ میری اندرکی آنکھوں سے میرے اندراُترآتی ہے۔
میں بے بس ہوکر آنکھیں کھول دیتاہوں اور وہ میرے اندر سے نکل کر پھر سامنے آجاتی ہے۔مجھے یقین نہیں آرہا۔ میں کلرٹیوب کوچیک کرتاہوں۔ اس پر ”سبز“لکھاہواہے۔
”پھر یہ کینوس پر ہریالی کی بجائے پیلاہٹ کہاں سے آگئی؟“ میں جیسے اپنے آپ سے پوچھتاہوں۔ پھر کلرٹیوب کو ایک ہاتھ میں لے کر دباتاہوں۔ ڈھیرسارا رنگ نکل کر فرش پر گرتاہے اور میری خاموش چیخیں اس میں گھل جاتی ہیں۔ ٹیوب کے اندر سارا پیلا رنگ بھراہواہے۔
ہری ٹیوب میں پیلارنگ مگر سرخ ٹیوب سے تو سرخ رنگ ہی نکلاتھا۔ پھر وہ کیسے سفیدہوگیا؟میں اپنے کشف میں اس خارجی دنیا کو بھی شریک کرناچاہتاہوں مگر یہاں رنگ ہی میرا ساتھ نہیں دے پارہے۔ مجھے عجیب سی بے بسی کا احساس ہوتاہے۔ بے چارگی اور مایوسی کے اندھیرے چاروں طرف رقص کررہے ہیں۔ یوں لگتاہے جیسے انہوں نے میرے اندر والے فنکارکو قتل کردیاہے اور میں اپنی لامتناہی تلاش کے سفر میں ایک ایسے ٹیلے پر کھڑاہوں جس کے ایک طرف سربفلک دشوار گزار پہاڑ ہیں اور دوسری طرف گہراناقابل عبورسمندر۔ ایک طرف سینکڑوں اژدہوں اور عفریتوں کی پھنکاریںہیں تودوسری طرف آبی بلاؤں کی چیخیں۔میں اپنے آپ کو پکارناچاہتاہوں مگر میری صدا بھی کہیں کھوگئی ہے۔
میںٹیوبوں کو ایک ہی برتن میں خالی کردیتاہوں۔
سبز،سرخ، پیلا،نیلا،نسواری۔۔۔۔پتہ نہیں کون کون سے رنگ ہیں۔
سارے رنگوں کو گھول کر میںاپنی انگلیوں کو کینوس پر وحشیانہ انداز میں پھیرناشروع کردیتاہوں۔سارے رنگ انتہائی بھونڈے طریقے سے کینوس پر مل دیتاہوں۔
اس کے ساتھ ہی جیسے میری دیوانگی ختم ہوجاتی ہے۔سارا وحشیانہ پن ختم ہوجاتاہے۔
اب میری حیرت کا دوسرا رُخ بیدارہوتاہے
کینوس پر میری وہ تجرید کسی بھرپور شاہکار کی طرح موجود ہے۔
میں اس کا مفہوم ڈھونڈنے کی کوشش کرتاہوں اور معنویت کے سرے بے معنویت سے ملاتاہوں۔ تب میری تجرید کی ساری معنویت مجھ پر آشکار ہوتی ہے۔۔یہ معنویت اتنی گھناؤنی اور مکروہ ہے کہ میں کسی کو بھی اس سے آگاہ کرکے خوفزدہ نہیں کرناچاہتا۔ کیونکہ یہ معنویت صرف میری نہیں۔ ۔۔۔ہم سب کی ہے۔
شاید اسی لئے وہ مقدس آواز بھی اب نہیں آرہی ہے جس نے کہا تھا:
”خارجی دنیاکو بھی تمہارے اس کشف کا ادراک ہونا چاہیے!“
٭٭٭