اس سال کے آغاز پر اپنا پہلا کالم صدام حسین کی پھانسی کے ذکر سے شروع کیا تھا اور اب سال کے اختتام پر اپنا آخری کالم محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی خبرسے شروع کرنا پڑرہا ہے۔۷۲دسمبر کو راولپنڈی میں لیاقت باغ کے گیٹ پر انہیں انتہائی بے رحمانہ طریقے سے شہید کر دیا گیا۔ پاکستان اور جمہوریت کے جسم پر انتہائی مہلک زخم لگایا گیا ہے۔اس کے اثرات بہت دور رس ہوں گے۔فوری طور پر حملہ آوروں کی نشاندہی کے سلسلے میں تین امکانات سامنے آئے ہیں۔
۱۔القاعدہ نے حملہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ لشکرِ جھنگوی کے ذریعے یہ کام اس نے کرایا ہے۔
۲۔عام تاثر یہی ہے کہ گجرات کے چوہدریوں نے یہ حملہ کروایا ہے اور اس میں وہ سارے عناصر ملوث ہیں جن کی نشان دہی بے نظیر بھٹو نے پاکستان آنے سے پہلے کر دی تھی۔
۳۔یہ بھی عوامی رائے ہے کہ پرویز مشرف، خود اس گھناؤنے جرم کی سازش میں ملوث ہیں۔
میری دانست میں القاعدہ کا یہ کام نہیں ہے،اگر القاعدہ نے بے نظیر کو نشانہ بنانا ہوتا تواس کے لیے عرب امارات اور برطانیہ میں بے نظیر کو نشانہ بنانا زیادہ آسان تھا ،ہاں اس میں القاعدہ سے محبت کرنے والے پاکستانی مذہبی انتہا پسندوں کو ضرور استعمال کیا گیا ہے۔اس کے لیے خود کش حملہ آور کی تیاری انہیں ایجنسیوں نے کی ہے جنہوں نے کراچی میں عجلت میں کارسازبم دھماکے کرائے تھے۔اپنی پہلی اسکیم کی ناکامی کے بعد ایجنسیوں نے اس بارزیادہ موثر منصوبہ بندی کی۔ خود کش دھماکے سے پہلے فائرنگ کرکے اصل ٹارگٹ حاصل کیا گیا۔یہ فائرنگ کا اسٹائل لشکرِ جھنگوی کی بجائے لشکرِ گجراتی ہے اور اس میں وہی طریق کار اختیار کیا گیا ہے جو پرویز الٰہی کی وزارت علیا کے دوران پنجاب میں ڈاکو حضرات کرتے رہے ہیں۔اس ساری سازش کے تانے بانے بعض اعلیٰ فوجی افسروں تک پہنچتے ہیں۔اعجاز شاہ کے علاوہ یا تو بعض ایسے فوجی افسر اس سازش میں شامل ہیں جو پرویز مشرف کو صدارت سے بھی چلتا کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن اگر ایسے کوئی افسر نہیں ہیں تو پھر بلا شبہ سابق جنرل ،صدرپرویز مشرف اپنے ہمنوا جرنیلوں کے ساتھ خود اس جرم کے اصل محرک اور سرپرست ہیں۔سو اب صورتحال یوں دکھائی دیتی ہے کہ سابق جنرل،صدر پرویز مشرف نے بے نظیر کے قتل کی خواہش کی،ایجنسیوں نے اپنے حاضر اسٹاک میں سے ایک خود کش حملہ آور فراہم کر دیا۔(میں ہمیشہ لکھتارہا ہوں کہ اسلام آباد میں اسٹیبلشمنٹ کے اندر ساٹھ سے ستر فی صد تک انتہا پسندوں کے سرپرست اور ہمدرد بیٹھے ہوئے ہیں،حسبِ ضرورت انہیں خود کش حملہ آور بھی مل جاتے ہیں) گجرات کے چوہدریوں نے خود کش حملہ آور کو فائرنگ کی اضافی تربیت دلائی ۔اس کا مزید تانا بانا ۲۷دسمبر ہی کو نواز شریف کے استقبالیہ جلوس پر فائرنگ کے واقعہ ہی سے مل جاتا ہے۔یہ فائرنگ اسٹائل خالصتاً لشکرِ گجراتی کا ہے۔یوں بعض اعلیٰ فوجی افسران،خفیہ ایجنسیوں اور گجرات کے چوہدریوں کے دل کا کانٹا نکل گیا،بے نظیر شہید ہو گئیں۔لیکن یہ کانٹا جو مذکورہ قاتلوں کے دل سے نکلا ہے پاکستان کے دل میں پیوست ہو گیا ہے۔میں غم کی موجودہ حالت میں اس موضوع پر اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھوں گا۔اللہ پاکستان کے حال پر رحم کرے۔
میں نے اپنے پہلے کالموں میں بھی کئی بار اس کا ذکر کیا ہے اور اس سال کے شروع میں اپنے دوسرے کالم میں بھی یہ موہوم سی خواہش کی تھی کہ شاید جنرل پرویز مشرف اپنے وعدہ کے مطابق قوم کی لوٹی ہوئی ساری دولت قوم کو واپس دلائیں ۔لیکن اب سال کے آخر میں یہ خبر آئی ہے کہ صرف پانچ بڑے قومی بنکوں کے ذریعے سال ۲۰۰۱ء سے لے کر سال ۲۰۰۶ء تک یعنی چھ سال کے عرصہ میں ایک کھرب اور چھ ارب روپے سے زیادہ کے قرضے معاف کیے جا چکے ہیں۔انا للہ و انا الیہ راجعون
جنرل ( ریٹائرڈ ) پرویز مشرف نے قوم سے جو وعدہ کیا تھا کہ وہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت کا ایک ایک پیسہ واپس لائیں گے،وہ صرف ایک جھوٹ اور فریب ثابت ہوگیا ہے۔انہوں نے پہلے لٹیروں سے رقم کیا واپس لانی تھی خود قوم کا ایک کھرب اور چھ ارب روپیہ اس طرح استحصالی طبقات میں بانٹ دیا ہے جیسے یہ پاکستان کی دولت نہ تھی ان کی ذاتی جاگیر تھی جہاں سے خیرات تقسیم کی گئی ہے۔ اقتدار کی ہوس میں مبتلاجرنیل ہوں،یا سازشی بیور و کریسی،ٹھگ سیاستدان ہوں یا مختلف محکموں کے سفاک اربابِ اختیار ۔ ۔ ۔یہ سب مختلف حیلوں بہانوں سے اس قوم کو لوٹ رہے ہیں۔پاکستان کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں۔جب تک کوئی بے رحمانہ طریق سے قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں دلاتا،تب تک سب کچھ دھوکہ اور فراڈ ہے اور لٹی ہوئی قوم کو مزید لوٹنے کا ڈھونگ اور ڈرامہ ہے۔
اگلے سال کے آغاز میں پاکستان میں انتخابات ہونے جا رہے ہیںبے نظیر کو شہید کرنے کے بعد اب شاید انتخابات کو کچھ موخر بھی کر دیا جائے۔لیکن جب بھی انتخاب ہوئے،اس کے نتیجہ میں کون آتا ہے، میرے لیے یہ اب اتنی اہم بات نہیں رہی۔جو بھی آئے گا موجودہ سسٹم میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکے گا۔ ہر آنے والا اسی طرح اپنے چہیتوں کو اربوں کے قرضے دلائے گا اور پھر انہیں معاف کرائے گا۔خود ہر طرح کی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ میں مشغول رہے گا۔بلکہ اب شوکت عزیز نے جس طرح وائٹ کالر کرائم کے انداز میں کرپشن کے انوکھے طریقے ایجاد کیے ہیں ان سے مزید استفادہ کیا جائے گا۔چینی اسکینڈل سے لے کر آٹا کی نایابی تک ،اسٹیل مل سے لے کر سٹاک ایکسچینج تک۔۔قومی خزانہ بھرنے کے اعلانات سے حکومت کے اختتام پر الٹا ملک کے مزید مقروض ہونے کے انکشاف تک۔ کتنے ہی وائٹ کالرکرائمز ہیں جو شوکت عزیز اور سلمان شاہ نے متعارف کرائے ہیں۔نئے آنے والے بھی ان طریقوں سے استفادہ کریں گے۔اور پاکستانی عوام اسی طرح بھوکے ننگے اور مفلوک الحال رہیں گے۔یہ جو حالیہ دنوں میں ایک تواتر سے ”سول سوسائٹی“ کی ترکیب استعمال کی جا رہی ہے،یہ بھی شاید اسی کھلواڑکے سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس میں عوام کالانعام کا اب نام بھی حقارت کے ساتھ لیا جائے گا۔اسٹیبلشمنٹ کے ہر شعبہ سے وابستہ ریٹائرڈافسران اور ان کی اولادوں کو نوازنے کے لیے ”سول سوسائٹی“کے نام سے” مہذب عوام“اور عوام کالانعام میں ایک تفریق واضح کر دی گئی ہے۔ اس سول سوسائٹی میں امیر سے امیر تر بننے والے اورامیر تربننے کی دوڑ میں شامل خاندانوں کو جمع کیا جا رہا ہے۔اب عوام کا نام لینا بھی ضروری نہیں رہ گیا۔سول سوسائٹی کا لفظ ہی کافی و شافی ہو جائے گا۔سول کا مطلب سویلائزڈ سمجھیں۔سو مہذب افراد کی سوسائٹی ہی اہم ہے۔عوام غیر مہذب ہیں،اس کے لیے علماءسے فتویٰ لینا چاہیں تو کوئی دقت پیش نہ آئے گی۔وہ عوام کالانعام کی نصِ صریح نکال کر بالائی طبقہ کے لیے مزید آسانی فراہم کر دیں گے۔
انتخابی گہما گہمی کے ساتھ مسلم لیگ قاف کے کئی افراد دھڑا دھڑ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ایک سطح پر یہ صورتحال اچھی ہے کہ اس سے قاف لیگ کی اصل اوقات ظاہر ہو رہی ہے۔لیکن دوسری سطح پر اصولی سیاست کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ ویسی ہی لوٹا سیاست ہے جیسی مسلم لیگ قاف والے کرتے رہے ہیں۔قاف لیگ کے وہی لوگ اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے ٹکٹوں کے ذریعے پھر سے اسمبلیوں میں پہنچ گئے تو اس سے سسٹم میں کیا تبدیلی آئے گی؟
لے دے کرسرحد سے اسفندیار ولی خان اورسندھ سے ایم کیو ایم سے کچھ ایسی توقع کی جا سکتی تھی کہ سسٹم میں کوئی تبدیلی لانے کے لیے کوشش کر سکیں گے۔اسفندیار ولی اکیلے کیا کریں گے؟ اور ایم کیو ایم کے ۱۲مئی کے ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے ہولناک کردار کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی اس سے کسی انقلابی تبدیلی کی توقع کرنا مشکل ہے۔بس اس کے اندر سے اتنا ہی انقلاب آنا تھا کہ اس نے عام آدمی اور متوسط طبقہ کے لوگوں کو بھی اسمبلی تک پہنچا دیا ہے۔ یہ بھی ایک حد تک غنیمت ہے۔
عمران خان بے چارے الطاف حسین کو برطانیہ کی جیل میں پہنچانے کے سیاسی بیانات دیتے دیتے خوداسلامی جمعیت طلبہ کے ہاتھوں بے آبرو کرکے پنجاب یونیورسٹی سے نکالے گئے اورثابت قدم اتنے کہ اتنی ذلت اُٹھانے کے بعد بھی قاضی کے پلو سے بندھے بیٹھے ہیں۔قاضی حسین احمد کے چہرے کی کرختگی کے باوجود عمران خان کو ان کی شیریں بیانی نے ایسا متاثر کیا ہے کہ وہ جمعیت سے دھکے اور گالیاں کھا کر بھی بے مزہ نہیں ہوئے۔
جنرل پرویز مشرف نے ۳نومبر کو ایمر جنسی نافذ کی،پی سی او آگیا۔یہ ایمر جنسی اصلاً مارشل لا تھا۔لیکن پاکستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھنی والی قوتوں کی مداخلت سے ایمر جنسی کے دوران جنرل پرویز مشرف آرمی چیف کے عہدہ سے الگ ہو گئے۔یوں خون خرابہ والا اصل مارشل لا آنے سے بچت ہو گئی۔ ۱۵دسمبر کو انہوں نے ایمر جنسی بھی اُٹھا لی۔اس سارے کیے کرائے کا اتنا فائدہ ہوا کہ میڈیا اور عدلیہ کے غیر ضروری دباؤ سے انہیں نجات مل گئی۔جب فوج کی کرپشن کی نمبرنگ 3.2 کے مقابلہ میں میڈیا اور عدلیہ کی اپنی کرپشن کی نمبرنگ3.3 اور 3.5 ہو تو پھر بندہ ان کی حمایت بھی کس حدتک کر سکتا ہے۔بس جتنی ہو چکی اتنی ہی کافی ہے۔جنرل پرویز مشرف کی خرابیاں اپنی جگہ،انہوں نے جو وعدے پورے کیے ہیں ، جنرل ضیاع الحق کے فوجی کردار اور اُس عہد کو سامنے رکھا جائے تو جنرل پرویز مشرف کا کردار بہر حال بہتر ہے۔جو صحافی اُس زمانے میں جنرل ضیاع الحق کی ”دریوزہ گری“کرتے رہے،کم از کم ان لوگوں کو آج جمہوریت کا راگ الاپتے ہوئے شرم آنی چاہئے اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف لکھتے ہوئے اصولوں کی دُہائی دیتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہئے۔جن سابق جرنیلوں اور صحافیوں نے مل کر پاکستان میں جمہوریت کا جنازہ نکالا تھا،اب وہ جمہوریت کے چیمپئن نہ ہی بنیں تو اچھا ہے۔
نجی میڈیا پر حالیہ سرکاری پابندی سے ایک بات ثابت ہو گئی کہ اس آزادی کو مہیا کرنے میں جنرل پرویز مشرف کا بڑا کریڈٹ تھا۔بے شک انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنا یہ کریڈٹ بھی ڈس کریڈٹ میں بدل لیا ہے۔ تاہم وہ لوگ اتنا سچ نہیں لکھ رہے تھے جو یہ کہتے تھے کہ ہم نے جدو جہد کے ساتھ یہ آزادی حاصل کی ہے۔ہاں اگر جنرل (ر) مشرف کے علاوہ کسی کو یہ کریڈٹ دیا جا سکتا ہے تو وہ امریکہ ہے۔
امریکہ نے نائن الیون سے پہلے مشرف حکومت کے ساتھ روابط بحال کرنے کے لیے میڈیا کی آزادی کا مطالبہ کیا تھا ۔ جنرل مشرف بھی بڑی حد تک اس کے حامی تھے۔سو یوں پرائیویٹ چینلز کا سلسلہ چل نکلا۔ موجودہ ایمرجنسی کے بحران سے پہلے کی صورتحال دیکھی جائے تو بے شک حکومت سے بہت سی غلطیاں اور زیادتیاں ہوئی ہیں لیکن میڈیا کے بعض اسٹارز بھی خود کو ”کنگ میکر“ سمجھنے لگ گئے تھے۔نتیجہ ظاہر ہے ۔ اب جو وہی میڈیا اسٹارز دوبارہ اسکرین پر جلوہ گر ہو رہے ہیں تو ان کے موضوعات اور اندازِ گفتگو سے ہی ان کی احتیاط کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔ایک بات جو اس دوران جیو کے کسی میڈیااسٹار کے ذہن میں نہیں آئی،یاد دلانا چاہتا ہوں۔ میاں نواز شریف کے زوال سے پہلے ان کی طرف سے ادارہ جنگ کے خلاف خاصا جارحانہ رویہ اختیار کیا گیا تھا۔سرکاری طور پر کسی مستحکم ادارہ کو غیر مستحکم کرنے کے لیے جو کچھ کیا جا سکتا تھا، میاں نواز شریف کی حکومت وہ سب کچھ کر رہی تھی۔اسی دوران میاں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی۔جنرل پرویز مشرف آئے تو ادارہ جنگ کو سکھ کا سانس ملا۔پھر انہیں جیو کا لائسنس بھی مل گیا۔جیو مقبول ترین چینل بھی بن گیا اور پھر جیو نے جنرل پرویز مشرف کا سانس لینا دو بھر کر دیا۔بہر حال:
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
پرویز مشرف بھی تھوڑا سا سوچیں،ادارہ جنگ کو بے جا تنگ کرنے والے وزیر اعظم کی حکومت چلی گئی تھی تو اب اسی ادارہ کے چینل کو تنگ کرنے والے صدر پر بھی کوئی افتاد نہ پڑ جائے۔ہاتھ ہولا رکھیں تو اچھا ہو گا۔
ادارہ جنگ کی دیکھا دیکھی دوسرے قومی اخبارات نے بھی ٹی وی چینلز کھولنا شروع کر دئیے ہیں ۔گویا ہر اخباری ادارہ ایک چینل کا بھی مالک بن رہا ہے۔ایسی فضا میں ARYٹی وی چینل جو پاکستان کا ایک مقبول ٹی وی چینل ہے،اس کی انتظامیہ نے بھی کچھ غور کیا ہے۔اب خبر یہ ہے کہ نئے سال کی دوسری سہ ماہی میں ادارہ ARYبڑی سطح پر قومی اخبار کا اجراءکرنے جا رہا ہے۔جس طرح جنگ اخبار والوں کا چینل جیو بہت مقبول ہوا تھا،امید ہے کہ اسی طرح ARYچینل والوں کا اخبار بھی قومی سطح پر مقبولیت حاصل کرے گا۔ARYکا ایک بنیادی نوعیت کا کریڈٹ تو بہر حال ہے کہ نائن الیون کے بعد یورپ میں پاکستان اور عالمِ اسلام کی ترجمانی کا اس نے حق ادا کر دیا تھا۔نجی چینلز میں اسے یہاں اولیت کا مقام حاصل ہے۔مجموعی طور پر پاکستانیوںمیںسیاسی و سماجی شعور کو بیدار اور متحرک کرنے میںخصوصی طور پرجیو ،اے آر وائی اور آج چینلز کی خدمات کی اہمیت اپنی جگہ بر حق ہیں۔ ان کے ناظرین کی تعداد ان کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔ لیکن میڈیا میں کرپشن کی نمبرنگ3.3 کی سطح تک پہنچانے والے کون لوگ ہیں؟ان کا سراغ بھی لگایا جانا چاہئے اور اسی میڈیا کو لگانا چاہیے۔
ان کالموں کو لکھنے کا سلسلہ ۲جنوری ۲۰۰۷ءسے شروع کیا گیا تھا اور اب دسمبر۲۰۰۷ءکی آخری تاریخیں ہیں۔آج مجھے اپنے سال بھر کے کالموں کو ایک نظر دیکھنے کا موقعہ ملا ہے۔اس مطالعہ کے دوران مجھے دو تین خبروں نے خاص طور پر روکا۔ایران پر امریکی یا اسرائیلی حملہ کا خطرہ سال کے شروع میں اتنا زیادہ بڑھ گیا تھا کہ ایسا لگتا تھا یہ حملہ اب ہوا کہ اب ہوا۔اس دوران امریکی چالبازیوں کے ساتھ ساتھ عربوں کی ایسی میٹنگز بھی ہوتی رہی جن میں ایران پر امریکی حملہ کے خطرہ پر غور کیا جاتا رہا اور ایسی ہر کانفرنس میں ایران ہی کو مدعو نہیں کیا جاتا رہا۔ایران کی اس بہادری کی تو داد دی جانی چاہئے کہ امریکہ کے ہر دھمکی آمیز بیان کے جواب میں ایران نے فوراً منہ توڑ جواب دیا۔سفارتی سطح پر اپنی جدہ جہد بھی جاری رکھی۔اور اب اس وقت کی تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ امریکی انٹیلی جینس ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں مثبت رپورٹ دے چکی ہے ۔ہر چند امریکہ پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا وہ حالات کو حملہ کے لیے سازگار پا کر پھر جھوٹ کا سہارا لے سکتا ہے اور ایران پر حملہ کرنے کی خواہش پوری کر سکتا ہے۔لیکن پورا سال گزرنے کے بعد اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ ایران نے فوری حملہ ہوجانے کے تمام تجزیاتی اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ہے،سفارتی اور اخلاقی اور عسکری، ہر سطح پر اپنی پوزیشن کو بہتر بنایا ہے۔بلکہ امریکی ڈالر میں کاروبار بند کرکے امریکہ پر اقتصادی ضرب بھی لگا دی ہے۔میرا پنا یہ ڈر دور تو نہیں ہوا کہ امریکہ ایران پر حملہ لازماً کرے گا۔لیکن اتنا ضرور ہے کہ ایران نے جس جرأت، دانشمندی اور سفارتی طور طریقوں کے مطابق امریکہ کا مقابلہ کیا ہے،اس سے وہ قوم سرخرو رہی ہے۔
میں نے سوویت یونین کے خلاف امریکی و اسرائیلی ”جہاد“ کے المیہ کے بارے میں بار بار لکھا ہے اور اس میں ایک خاص مکتب فکر اور ان کے فکری ہمنواؤں کا بار بار ذکر کیا ہے۔صرف ان کالموں ہی میں نہیں بلکہ منظر اور پس منظر کے پہلے کالم ہی سے میں نے اس کا ذکر کرنا شروع کیا ہے ۔امریکہ اور اسرائیل کے یہ پرانے وفادار اور موجودہ باغی جو اَب خود کش حملوں کی راہ پر چل نکلے ہیں،میں نے ان کواپنے کالموں میں بار بار اور پوری طرح نشان زدکیا ہے۔اب میں حرفِ آخر کے طور پر اتنا کہوں گا کہ امریکہ و اسرائیل کا جہاد کرنے والے ان سابق مجاہدین اور موجودہ دہشت گردوں کی کاروائیوں سے عالمِ اسلام کا کوئی بھلا ہو گیا تو اس کا پورا کریڈٹ اسی مسلک اور ان سے فکری قرب رکھنے والوں کو ہی دیاجانا چاہیے۔لیکن ان کی حرکتوں سے عالمِ اسلام مزید ذلت و مسکنت کا شکار ہوتا گیا تو اس کے ذمہ دار بھی اسی مسلک اور ان سے فکری قرب رکھنے والے مسالک کے لوگ ہوں گے۔میرے نزدیک یہ لوگ کل تک پورے ہوش اور جوش کے ساتھ امریکی و اسرائیلی مفادات کا جہاد کر رہے تھے اور اب نا دانستگی میں امریکی مفادات کو فائدہ پہنچائے جا رہے ہیں اور عالمِ اسلام کے جسم پر زخموں کا اضافہ کیے جا رہے ہیں۔(مجھے یقین ہے کہ انہیں مکاتبِ فکر کے لوگوں میں سے کسی اعلیٰ سطح پر ایک محدود تعداد اب بھی امریکی و اسرائیلی اشاروں پر دیدہ دانستہ عامتہ المسلمین میں انتہا پسندی پھیلانے کا فریضہ انجام دے رہی ہے)۔
حال ہی میں لندن انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشیا نے اپنے سہ ماہی جریدہ”لیزا جرنل“میں مشرقِ وسطیٰ سے پاکستان تک اسلامی ملکوں کا ایک نیا نقشہ شائع کیا ہے۔اس نقشہ کے مطابق پاکستان کے صوبہ سر حد کو افغانستان میں شامل کیا جائے گا(افغانستان کے بھی کئی ٹکڑے کیے جائیں گے)،بلوچستان کو خود مختار ملک بنایا جائے گا(اس میں ایران کا بلوچستان بھی شامل ہوگا)،قائدِ اعظم کا پاکستان اب صرف پنجاب اور سندھ کے دو صوبوں تک محدود ہوگا۔پاکستان،افغانستان،عراق،ایران اور سعودی عرب کو بھی کئی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔اس نئے نقشہ کی اشاعت پر پاکستان کے بعض صحافیوں نے غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔غم و غصہ کا اظہار اپنی جگہ بجا، لیکن اپنی غلطیوں کی قیمت قوموں کو خود ہی ادا کرنا پڑتی ہے۔عراق پر امریکی حملہ کے ساتھ ہی عراق کی تقسیم کی باتیں شروع کر دی گئی تھیں۔سعودی عرب کے تین حصوں میں تقسیم کی بات تو ۲۰۰۳ء ہی میں سامنے آگئی تھی۔ہمارے میڈیا اور پریس نے جان بوجھ کر اس خبر سے لا علمی ظاہر کی تو یہ میڈیا اور پریس کا اپنا معاملہ ہے۔میں نے تب ہی اپنے ۱۸نومبر ۲۰۰۳ء کے منظر اور پس منظرکا لم (تصویر کا ایک اور رُخ۔ ۔آئندہ امکانات)میں اس منصوبہ کے دستیاب حقائق تفصیل سے بیان کر دئیے تھے۔اس کے مطابق ارضِ حجاز یعنی مکہ و مدینہ کا سارا علاقہ اہلسنت والجماعت کے حوالے کر دیا جائے،ارضِ نجد سعودی شہزادوں کے پاس اور تیل کے ذخائر والا علاقہ وہاں کی اکثریتی شیعہ آبادی کے سپرد۔
یہ معاملہ نہ آج کا ہے اور نہ سال ۲۰۰۳ء کا۔۔۔اس کے ڈانڈے اس منصوبہ سے ملتے ہیں جسے اب ”گریٹر اسرائیل“ کے نام سے پاکستان کا عام آدمی بھی کسی حد تک جان چکا ہے۔نائن الیون کے بعد گریٹر اسرائیل کے پرانے منصوبہ کو سب سے پہلے میں نے اپنے کالموں میں بیان کیا تھا۔اس کے بعد میڈیا اور پریس میں کافی ہلچل مچی۔میں بار بار ایک پمفلٹ الکفر ملة واحدة کا حوالہ دیتا رہا۔ جس میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی عالمِ اسلام کو مکہ و مدینہ کی عزت اور سلامتی کا واسطہ دے کر اسرائیلی منصوبہ سے آگاہ کیا گیا۔اور امت، مسلمہ کو عالمی اسلامی اتحاد کی دعوت دی گئی۔لیکن جولوگ یہ کارِ
خیرکرنا چاہ رہے تھے،ان کے ساتھ وہی سلوک کر دیا گیا جو مرزا غالب کے محبوب نے ان کے ساتھ کیا تھا:
میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی
سن کر ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھادیا کہ یوں
اتحاد چاہنے والوں کے برعکس امت کو انتشار وافتراق اور فرقہ پرستی کی دلدل میں دھکیلنے کا منصوبہ بھی اوپر ہی سے آیا تھا اور اس میں بھی وہی گروہ اور طبقات سب سے زیادہ استعمال ہوئے جو بعد میں سوویت یونین کے خلاف امریکی جہاد میں مجاہدین بنے تھے۔میں کوئی افسانہ نہیں گھڑ رہا اور کوئی سنسنی خیز کہانی نہیں بنا رہا،اس المیہ کی نشاندہی کر رہا ہوں جس کے نتیجہ میں عالمِ اسلام کو ذلت و مسکنت کے اس حال تک پہنچا دیا گیاہے اور ابھی مزید بہت کچھ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
ہمارے قومی پریس والے اور میڈیا اسٹارز اگر واقعی عالمِ اسلام کے خلاف سازش کے کسی ابتدائی سرے تک پہنچنا چاہتے ہیں تو میں آج کے اس کالم میں ایک حوالہ دے رہا ہوں۔سازش کی ابتدا ۱۹۴۸ء ہی میں کر دی گئی تھی لیکن اس کا انکشاف کرنے والے نے چھ سال کے بعد کسی موقعہ پر اس کا انکشاف کیا۔یہ انکشاف بغداد کے اخبار الانباءکے شمارہ ۱۲ستمبر ۱۹۵۴ء میں محفوظ ہے۔اسے لکھنے والے ہیں اس وقت کے معروف عرب صحافی الاستاذ علی الخیاط آفندی۔
کیا قومی پریس اور میڈیا اسٹارز میں سے کسی میں اتنی ہمت ہے کہ محنت کے ساتھ تحقیق کرکے اس سازش کے ابتدائی سرے تک پہنچے اور پھر اتنی جرأت کرے کہ قوم کو بتا سکے کہ قوم کے خلاف سازش کیا تھی؟ اور اس میں کون کون کتنا قصور وار ہے؟۔۔۔اپنی غلطیوں کا ادراک کر لینے اور ان کی تلافی کا ارادہ کر لینے سے بھی قدرت کی طرف سے ملنے والی سزاؤں میں تخفیف ہوجاتی ہے۔
جب ایک خاص حوالے سے بات چل نکلی ہے تو یہاں اپنا موقف واضح کر دوں۔اس وقت خود کش حملوں کی صورت میں جو مزاحمتی ”جہاد“ چل رہا ہے۔اس کے بارے سعودی حکومت اور سعودی مفتی جو رائے دے چکے ہیں میں ان کے بیانات سے متفق ہوں۔جہاد کے حوالے سے میں یہ بات بھی واضح کر دوں کہ آنحضرت ﷺکی مکی زندگی اور مدنی زندگی کے حالات کا فرق ظاہر کرتا ہے کہ مکی زندگی جیسے حالات ہوں تو جہاد بالنفس کرنا چاہئے اور مدنی زندگی جیسے حالات ہوں تو پھر جہاد بالنفس کے ساتھ حملہ آوروں کے خلاف جہاد بالسیف بھی واجب ہے۔
اس وقت سارا عالمِ اسلام مکی زندگی جیسے ایام سے گزر رہا ہے،اس لیے اس وقت جہاد بالنفس ہی واجب ہے۔جن لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آئے ان کی سہولت کے لیے واضح کر دوں کہ اسلامی حکومت غیر مسلموں سے جزیہ لینے کی پابند ہے۔جہاد کرنے کے ساتھ جزیہ وصول کرنا بھی خدائی حکم ہے۔لیکن آج پچاس سے زائد مسلمانوں کی حکومتوں میںسے ،سعودی عرب اور دوسری عرب ریاستوں،حتی کہ ایران سمیت کوئی ایک بھی حکومت ایسی نہیں ہے جو جزیہ وصول کر رہی ہو۔سو جہاد اور جزیہ دونوں اس وقت واجب ہوں گے جب مسلمان من حیث القوم مدنی زندگی جیسی حالت میں ہوں گے۔اس وقت تو سارا عالمِ اسلام مکی زندگی جیسے حال میں ہے۔اورمکی زندگی میں تو آنحضرت ﷺپر خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے کے دوران،حالتِ سجدہ میں کوئی ابوجہل اونٹ کی اوجڑی ڈال دیتا ہے تواس پر بھی صبر اور دعا ہی مسلمانوں کا ہتھیار تھا۔
سو اب جہاد کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس سے نہ تو عالمِ اسلام کو کوئی فائدہ پہنچے گا اور نہ ہی دشمنوں کو کوئی نقصان پہنچے گا۔بلکہ بیشتر مزاحمتی اقدامات اپنے آپ کو زخمی کرنے کے ساتھ امریکی و اسرائیلی مفادات کو ہی فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ان حملوں کے نتیجہ میں اب توفلسطینیوں کے خود کش حملے بھی اپنی معنویت کھو بیٹھے ہیں ۔ مسلمانوں کا تشخص عالمی سطح پر مجروح ہو رہا ہے۔سو اس وقت عالمِ اسلام کے حکمرانوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اپنے ملکوں کے عوام کے لیے تعلیم،روزگار،صحت،جمہوریت، انصاف،صاف پانی،صاف ماحول ،کی بنیادی سہولیات بہم پہنچائیں۔تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بڑی نوعیت کے انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ فلاحی ریاست کے ایسے قوانین نافذ کیے جائیںجن کے نتیجہ میں ملک میں کوئی بھوکا نہ رہے۔لیکن اگر لوگوں کو مذہبی اشتعال انگیزی میں مبتلا رکھ کر اسی طرح ”جہاد“ ہوتا رہا تو جو کچھ امریکہ و اسرائیل کرنا چاہتے ہیں وہ سب کچھ آسانی سے ہوتا چلا جائے گا۔
ہم اپنا فرض دوستو اب کر چکے ادا
اب بھی اگر نہ سمجھے تو سمجھائے گا خدا